ایس پی ای سی ٹی کی رپورٹ میں مسلمانوں کی پسماندگی اور سرکاری اسکیموں میں بڑے پیمانے پرامتیازی سلوک کاانکشاف

اسٹڈی90 میں سے 10 مسلم اکثریتی اضلاع پر مرکوز ،مسلم اکثریتی علاقوں میں بنیادی سہولیات کا فقدان

نئی دہلی 18 اپریل :۔
ہندوستان کے مسلمان، مرکزی اور ریاستی حکومتوں کے دعووں کے برعکس، ترقی کے ہرمحاذ پر پیچھے ہیں۔ اس حقیقت کو بہار، مغربی بنگال، آسام اور یوپی کے 10 مسلم اکثریتی اضلاع کی ایک جامع آڈٹ رپورٹ سے تقویت ملتی ہے ۔ایس پی ای سی ٹی نے ایسے ہی مسلمانوں کی پسماندگی پر مبنی ایک رپورٹ کاگزشتہ دنوں پریس کلب آف انڈیا میں دانشوروں، کارکنوں اور میڈیا کے نمائندوں کی موجودگی میں اجرا کیا ہے ۔یہ رپورٹ ایس پی ای سی ٹی فاؤنڈیشن کے زیراہتمام ریسرچ اسکالرز ساجد علی اور ڈاکٹر بانو جیوتسنا نے تیار کی ہے۔
اس موقع پر اس طرح کی تحقیقاتی رپورٹ کی اہمیت اور مطابقت کا تعارف کراتے ہوئے سینئر صحافی پرشانت ٹنڈن نے کہا کہ مسلمان ہندوستان کے سب سے زیادہ ستائے جانے والے سماجی گروہوں میں سے ایک ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس طرح کی رپورٹس مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک کا اندازہ لگانے کے لیے اہمیت رکھتی ہیں۔ یہ دستاویز تمام متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کی توجہ حاصل کرے گی اور امید ہے کہ اصلاحی اقدامات کی راہ ہموار کرے گی۔
رپورٹ تیار کرنے والی ڈاکٹر بانو جیوتسنا نے کہا کہ جب سچر کمیٹی کی مشہور رپورٹ نے مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے دور کو بے نقاب کیا تو یہ پسماندہ معاشرے کے مطالعہ میں ایک اہم لمحہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ سچر کمیٹی کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ مسلمانوں کو تعلیم، صحت، کاروبار اور روزگار جیسے تمام اہم شعبوں میں تعصب کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ رپورٹ رنگناتھ مشرا کمیشن اور امیتابھ کنڈو کمیٹی کی سفارشات کے بعد کی گئی تھی جس میں 90 اضلاع میں جہاں مسلمان 30 فیصد یا اس سے زیادہ تھے، پسماندہ مسلمانوں کی ترقی کے لیے اقدامات پر مبنی حل تجویز کیے گئے تھے۔ افسوس کہ وہ محض تجاویز ہی رہے۔انہوں نے بتایا کہ ہم نے سچر کمیٹی کے ذریعہ شناخت کیے گئے 90 میں سے 10 اضلاع کا مطالعہ کیا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ایس پی ای سی ٹی رپورٹ ان رپورٹس کے سلسلے کا پہلا حصہ ہے جو مسلمانوں کی مزید پسماندگی کا انکشاف کرنے والی ہے ۔
رپورٹ تیار کرنے والے ایک دوسرے ریسرچ اسکالرمصنف ساجد علی نے کہا کہ رپورٹ میں جن اضلاع پر توجہ مرکوز کی گئی ان میں ارریہ، پورنیا، کشن گنج، کٹیہار (بہار)، دھوبر، کوکراجھار (آسام)، مالدہ، مرشد آباد (مغربی بنگال) اور شراوستی اور بلرام پور (یوپی) شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان اضلاع میں تقریباً 1.4 کروڑ مسلمان ہیں جو کہ ہندوستان کی کل مسلم آبادی کا 5 فیصد ہیں۔

معروف سماجی کارکن اور دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر اپوروانند نے اس موقع پر کہا کہ حکومت زور شور سے یہ بتانے کو ترجیح دیتی ہے کہ سرکاری اسکیموں کا نفاذ غیر جانب دارانہ طریقے سے ہوتا ہے اور ان اسکیموں سے تمام طبقات مستفید ہوتے ہیں ۔  ’اس کی ایک دلچسپ مثال وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن کا غیر ملکی سرزمین پر حالیہ بیان ہے کہ ہندوستان میں مسلمان خوش ہیں کیونکہ مسلمانوں کی آبادی بڑھ رہی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ہمارا طریقہ کار ان اضلاع میں سرکاری اسکیموں کے مستفیدین کا مجموعی ڈاٹا جمع کرنا تھا۔ ہم نے زمینی صورتحال جاننے کے لیے بلاک اور تحصیل کی سطح پر بھی ڈیٹا اکٹھا کیا۔ ہم نے پایا کہ مسلمانوں کو روزگار، تعلیم اور رہائش سمیت دیگر شعبوں میں امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ سیاسی قوت اور دولت کے حصول میں بہت سی رکاوٹوں کا سامنا ہے، اور صحت کی دیکھ بھال اور بنیادی خدمات تک رسائی کا فقدان ہے۔ اس پر مزید وہ اکثر آئینی تحفظات کے باوجود انصاف کے حصول کے لیے جدوجہد کرتے ہیں اور امتیازی سلوک کا سامنا کرتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ شدید بدحالی میں رہنے کے باوجود مسلمانوں کو ساتھی ہندوؤں اور پولیس جیسے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے فرقہ وارانہ رویوں کا سامنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ رپورٹ اس افسانے کا بھی پردہ فاش کرتی ہے کہ مودی حکومت نے پردھان منتری آواس یوجنا میں مسلمانوں، خاص طور پر پسماندہ مسلمانوں کو متناسب طور پر خیال رکھا ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ صرف ایک ضلع میں مسلمانوں کو 31 فیصد الاٹمنٹ ملے، حالانکہ وہ آبادی کا 48فیصد تھے۔رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ تمام مسلم اکثریتی اضلاع میں سرکاری سہولیات اور انفراسٹرکچر کا فقدان ہے۔
معروف سماجی کارکن اور دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر اپوروانند نے اس موقع پر کہا کہ حکومت زور شور سے یہ بتانے کو ترجیح دیتی ہے کہ سرکاری اسکیموں کا نفاذ غیر جانب دارانہ طریقے سے ہوتا ہے اور ان اسکیموں سے تمام طبقات مستفید ہوتے ہیں ۔ اپوروانند نے کہا، ’’اس کی ایک دلچسپ مثال وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن کا غیر ملکی سرزمین پر حالیہ بیان ہے کہ ہندوستان میں مسلمان خوش ہیں کیونکہ مسلمانوں کی آبادی بڑھ رہی ہے۔

اس موقع پر پروفیسر ایس عرفان حبیب، پروفیسر نندنی سندر اور دلت کارکن انیل چمڑ یا نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا اور انہوں نے اس رپورٹ کی تائید کی اور کہا کہ یہ رپورٹ ان مرکزی اور ریاستی حکومتوں کو آئینہ دکھاتی ہے جو مسلمانوں کو بااختیار بنانے کا دعویٰ کرتے ہیں خاص طورپر پسماندہ مسلمانوں کو۔