اہانت رسولؐ اور اُمّت

اشہد جمال ندوی، علی گڑھ

 

برادران اسلام! اس وقت پوری دنیا رسول پاک حضرت محمدﷺ کی ولادت کے جشن میں ڈوبی ہوئی ہے۔ پورا عالم اسلام نبی اکرمﷺ سے اظہار عقیدت و محبت کےجوش و ولولہ سے سرشار ہے۔ ربیع الاول کے مہینے میں جشن و مسرت کا یہ ماحول ہمیں ہر سال دیکھنے کو ملتا ہے، لیکن شوم قسمت کہ اسلاموفوبیا کے شکار کچھ لوگوں کی طرف سے ہر سال اس خوش گوار ماحول کو مکدر کرنے کی کوشش بھی ضرور ہوتی ہے۔ گزشتہ سالوں میں ڈنمارک، ناروے، امریکہ اور فرانس جیسے ممالک میں اس طرح کی مذموم حرکتیں ہوتی رہیں ہیں۔ مگر یہ چند افراد یا اداروں کی بدنیتی کا شاخسانہ ہوتی تھیں۔ لیکن توہینِ رسالت کا اس بار کا واقعہ گزشتہ واقعات سے اس لحاظ سے زیادہ سنگین اور تشویشناک ہے کہ اس میں ناموسِ رسالت کے خلاف ایک صدر مملکت نے محاذ کھول دیا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ تاریخ کے ایک ٹیچر نے آزادی اظہار رائے کے نام پر اپنے طلبہ کے سامنے ان بدنما خاکوں کی ایک بار پھر نمائش کردی جو چند برسوں قبل مسلمانوں کو اشتعال دلانے کے لیے استعمال ہوچکے تھے۔ اس پر غیرت ایمانی کا جوش میں آنا ایک فطری بات تھی۔ ایک طالب علم سے رہا نہیں گیا چنانچہ اس نے سر عام ٹیچر کو چاقو سے گود دیا۔ زخموں کی تاب نہ لا کر استاد نے دم توڑ دیا۔ یہ واقعہ بلاشبہ سنگین تھا۔ قانون ہاتھ میں لینے کا طالب علم کو حق نہیں تھا، موقع پر پولیس کے ذریعہ طالب علم کو بھی گولیوں سے بھون کر ختم کر دیا گیا۔ اس واقعے میں ٹیچر کا جرم یہ تھا کہ اس نے نبی کی شان میں گستاخی کی تھی اور طالب علم کی غلطی یہ تھی کہ اس نے قانون کو ہاتھ میں لیا تھا۔ ہونا یہ چاہیے تھا معاملے کو یہیں ختم کر دیا جاتا اور آئندہ اس طرح کے نامناسب واقعات پیش نہ آئیں، اس کے لیے پیش بندی کی جاتی۔ مذاہب کی مقدس شخصیات کی بے حرمتی کے خلاف قانون بنایا جاتا اور ایسی حرکت کرنے والوں کے لیے قرار واقعی سزا طے کی جاتی۔ لیکن واقعے کو دوسرا ہی رخ دے دیا گیا۔ رسولؐ کی شان میں ٹیچر کے گستاخانہ اقدام کو آزادی اظہار رائے کے نام پر قرینِ انصاف ٹھہرایا جانے لگا اور طالب علم کے ردِ عمل پر اسلامی تشدد اور انتہا پسندی کا لیبل لگا دیا گیا۔ یہ آوازہ کسی اور نے نہیں بلکہ سربراہ مملکت نے خود بلند کیا۔ پھر کیا تھا اس کے جواب میں بے شمار ممالک، ادارے، تحریکیں اور جماعتیں میدان میں آگئیں اور محبت و الفت کا سارا ماحول نفرت اور غصے میں تبدیل گیا۔
حضرات! یہ مسلم حقیقت ہے کہ رسول پاک کی ذات گرامی رہتی دنیا تک تمام انسانیت کے لیے اسوہ ہے، رسول سے اظہار عقیدت و محبت ہمارے ایمان کا تقاضا ہے، جو شخص کی بھی نبی کی سیرت کے آئینہ میں اپنی تصویر درست کرنے کی کوشش کرے گا اس کی زندگی سنور جائے گی، اہل ایمان کی نبی سے اس قدر والہانہ شیفتگی کچھ بدنصیبوں کو راس نہیں آتی جس کی وجہ سے آئے دن وہ شانِ رسالت مآب میں گستاخی کرکے اللہ کی لعنت کے مستحق بنتے رہتے ہیں اور اپنے جذبات کی تسکین کے لیے مسلمانوں کو ورغلاتے رہتے ہیں۔ یہ ہماری ذمہ داری ہےکہ ایسے مواقع پر اپنے جذبات پر قابو رکھتے ہوئے ہم اپنے ردعمل کا اظہار صرف اور صرف اسوہ رسول کے مطابق ہی کریں۔
رسول اکرمﷺ کی اہانت، آپ کے خلاف الزام تراشی، ریشہ دوانی اورمکر وفریب کی داستانوں سے تاریخ کے صفحات بھرے پڑے ہیں۔ کیا عہد رسالت مآب اور کیا مابعد کا زمانہ، کوئی دور اہانت وایذارسانی کی کریہہ داستانوں سے خالی نہیں۔ ان عوامل پر عہد رسالت مآب میں جس طرح کا ردعمل ظاہر کیا گیا وہی ہمارے لیے بھی اسوہ ہے۔اس عہد زریں کا باریک بینی سے مطالعہ کیا جائے تو پانچ چھ طرح کے ردِعمل دکھائی دیتے ہیں:
١۔ قرآن مجید میں واضح لفظوں میں اعلان ہوا کہ اللہ اور رسول کو ایذا پہنچانے والوں پر دنیا اور آخرت میں اللہ کی پھٹکار ہے اور ان کے لیے نہایت دردناک عذاب تیار ہے۔
٢۔ نبیﷺ اور آپ کے اصحاب کو بالعموم صبر، تحمل، اعراض اور حکمت کے ساتھ دعوت کی تلقین کی گئی ۔ رسول اکرم اور صحابہ کرام نے ہمت وحوصلہ کے ساتھ اسی کا مظاہرہ کیا۔ آپ نے اپنی ذات کے لیے بدلہ نہیں لیا، برائی کا بدلہ ہمیشہ اچھائی سے دیتے رہے۔ وادی طائف کے اس اندوہناک موقع پر بھی جب اوباشوں نے آپ کو سر سے لے کر پیر تک لہولہان کر دیا تھا فرشتے نازل ہوئے کہ آپ اجازت دیں تو دونوں پہاڑیوں کو ملا دیا جائے اور ظالم اس میں پس کر رہ جائیں۔ لیکن آپ نے انہیں معاف کیا اور اجازت دینے کے بجائے امید ظاہر کہ شاید ان کی نسلیں ایمان کی دولت سے بہرہ ور ہوں۔
٣۔ کفار نے اہانت وایذا رسانی کی یہ تدبیر نکالی کہ اپنے نامور شعراء کو آپ کی ہجو پر مامور کر دیا۔ یہ امر آنحضور کے لیے کافی تکلیف دہ تھا۔ اس کا حل آپ نے یہ نکالا کہ مسلمان شعراء کو جواباً ہجو پر مامور کرنے کے بجائے مثبت انداز میں مدحتِ رسول کا نیا سلسلہ شروع کرادیا اور اس نئی صنف نے ہجویہ شاعری کی کمر توڑدی اور دعوت کے ذریعے دفاع کی ایک نئی راہ پیدا کردی۔ یہیں سے نعتیہ شاعری اور سیرت نگاری کا ایسا مبارک سلسلہ شروع ہوا کہ دنیا کی کوئی ہستی ایسی نہیں جس کی مدح میں اتنے صفحات منور ہوئے ہوں۔ اس میں مسلمان محبان رسول کے ساتھ ہزاروں غیر مسلم بھی شامل ہیں، جو آپ کی مدح سرائی میں رطب اللسان ہیں۔ یہ مبارک سلسلہ اتنا طاقتور اور مؤثر ہے کہ اس کے مقابلے میں دشمنوں کی ساری ریشہ دوانیاں ہیچ ہیں۔ یہ میدان توانائیاں لگانے کا ہے جتنی طاقت لگادی جائے کم ہے۔
آج جب شانِ نبوت میں گستاخی سے ہمارے جذبات مجروح ہوئے ہیں تو یہ موقع ہمیں مشتعل ہونے کے بجائے آپ کی تعریف و توصیف کو بیان کرنے، اپنی زندگی کو آپ کے سیرت و کردار سے منور کرنے اور دوسروں کے سامنے آپ کا مبارک اسوہ پیش کرکے بارگاہ ایزدی میں خوشنودی حاصل کرنے کا ہے۔
4۔ آپ کی زندگی کا ایک بڑا اسوہ یہ ہے کہ آپ نے اپنے گھر خاندان، سماج اور معاشرے میں اپنی ذات کو نمونہ بنا کر پیش کیا، قرآن مجید آپ کی جو تصویر کھینچتا ہے، وہ حلیم، بردبار، رؤوف اور رحیم کی تصویر ہے۔ اس میزان میں ذرا ہم خود کو تول کر دیکھیں کہ ہمارا وزن کتنا ہے "لقد کان لکم فی رسول للہ اسوۃ حسنہ” کی آیت کو صرف نمازوں کی پابندی، ڈاڑھی بڑھانے مونچھیں کتروانے اور پائنچے کو اوپر چڑھانے سے جوڑکر دیکھا جاتا ہے، لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ یہی کل دین نہیں ہے۔ اس آیت کی روشنی میں آپ کی زندگی کا ہر پہلو ہمارے لیے اسوہ ہے۔ آیت پاک سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ سے صرف اظہار محبت کافی نہیں۔ اصل چیز آپ کی تابعداری ہے۔ بسا اوقات اظہارِ محبت میں ہم بہت آگے نکل جاتے ہیں مگر تابع داری کے معاملے میں ہمارے معاملات ہماری، ہمارے دین اور ہمارے رسول سب کی رسوائی کا سبب بن جاتےہیں ۔
5۔ اس موقع پر ہمیں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ دفاعِ رسول صرف جذبات سے نہیں آلات ووسائل سے بھی ہوتا ہے۔ دشمنانِ اسلام کی ساری معاندانہ سرگرمیاں ذرائع ابلاغ میں ہورہی ہیں۔خاکوں کی اشاعت کا مسئلہ ہو یا اسلامی اقدار کے خلاف رجحان سازی کا مسئلہ، ساری مہم سوشل میڈیا پر چل رہی ہے۔ ہماری مجبوری وعاجزی یہ ہےکہ ہم اس سلسلے میں بالکل تہی دامن ہیں۔ حکم قرآنی "واعدو لھم ماستطعتم من قوۃ” سے معلوم ہوتا ہے کہ زمانے میں جن چیزوں کو طاقت و قوت کا منبع سمجھا جاتا ہے، اس قوت کو جمع کرنا ہمارا فرض اولین ہے۔ اس حوالے سے موجودہ زمانے میں ذرائع ابلاغ پر اثر و نفوذ کی بڑی اہمیت ہے۔ سوال یہ کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس دور میں سے ایسے کتنے وسائل ہیں جو ہم نے ایجاد کیے ہیں یا ہماری دسترس میں ہیں۔ اسوہ رسول یہ ہے کہ اس میں کمال پیدا کیا جائے۔ اگر آج ان پلیٹ فارموں کے مالک ہم ہوتے تو مذاہب کی پاک ہستیوں کے بارے میں اہانت آمیز مواد کو آگے بڑھنے اور پھیلنے سے روک سکتے تھے.
6۔ ایذا رسانی اور اہانت کے عہد رسالت مآب میں بے شمار واقعات ہوئے ہیں۔ چند ایک معاملات میں باز پرس اورا نتہائی سزائیں بھی تجویز ہوئی ہیں۔مگر بیشتر واقعات میں عفو و درگزر، تحمل، اعراض اور حکمت و موعظت کے ساتھ تفہیم وترغیب سے کام لیا گیا کہ یہی سب سے زیادہ کارگر ہتھیار ہے اور دور حاضر میں اس کی معنویت مزید بڑھ گئی ہے۔
آج جبکہ اظہارِ محبت کا جشن دفاع ناموسِ رسالت میں تبدیل ہوگیا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اسوہ حسنہ کی طرف پلٹیں۔ جلسوں جلوسوں کی تقریروں اور جمعہ کے خطبوں کو ہی معلومات کا سرچشمہ نہ سمجھیں بلکہ خود نبی اکرمﷺ کی سیرت کو پڑھنے اور سمجھنے کے لیے اپنا وقت فارغ کریں اور خود کو آپ جیسا بنانے کی کوشش کریں۔ نبی اکرم کی سیرت کو دوسروں تک پہنچانے کی جد وجہد کریں کریں۔ ابھی دنیا کی تین چوتھائی آبادی اسلام اور رسول کے شیریں پیغام سے محروم ہے۔ ان تک سیرت کا پیغام پہنچانا بہت ضروری ہے تبھی دشمنان کی تعداد کم ہوسکتی اور ان کی تلواریں کند ہوسکتی ہے
دعا کریں کہ اللہ تعالی ہمیں نبی اکرمﷺ سے محبت کے اظہار کے ساتھ نبی کی اتباع کا حق ادا کرنے کی بھی توفیق عطا فرمائے..آمین وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین!
(مرتب: محمد اشہد فلاحی)
***

رسول سے اظہار عقیدت و محبت ہمارے ایمان کا تقاضا ہے، جو شخص کی بھی نبی کی سیرت کے آئینہ میں اپنی تصویر درست کرنے کی کوشش کرے گا اس کی زندگی سنور جائے گی، اہل ایمان کی نبی سے اس قدر والہانہ شیفتگی کچھ بدنصیبوں کو راس نہیں آتی جس کی وجہ سے آئے دن وہ شانِ رسالت مآب میں گستاخی کرکے اللہ کی لعنت کے مستحق بنتے رہتے ہیں

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 8 تا 14 نومبر، 2020