آہ! شودر کے لیے ہندوستاں غم خانہ ہے

پرگیا ٹھاکر کی ورن آشرمی بھاشا

انتظار نعیم، نئی دلی

 

بھوپال کی ممبر پارلیمنٹ اور زبان دراز سادھوی پرگیا ٹھاکر نے سیہور، مدھیہ پردیش میں ۱۳ دسمبر کو ایک چھتری سبھا میں اظہار خیال کرتے ہوئے حیرت انگیز طریقے پر بلا سبب ملک کی عظیم دلت آبادی پر نشتر زنی کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے دھرم شاستروں میں چار ورن طے کیے گئے ہیں اور شودر کو شودر کہہ دو تو برا لگ جاتا ہے! اس کا سبب نا سمجھی ہے!
بھارتیہ جنتا پارٹی کی سادھوی ممبر پارلیمنٹ کی یہ بات تو درست ہے کہ ورن آشرم یعنی انسانوں اور انسانوں کے درمیان تفریق کرنے والے نظم کا اہتمام ان کے دھرم شاستروں میں ہی کیا گیا ہے، جیسے: ’’پرجا پتی (عوام کے مالک و بادشاہ) نے انسانی معاشرہ کے روپ میں جس پُرُش کی تخلیق کی ہے اس کی توجیہہ کتنی طرح سے ہوتی ہے اور پرش کا منہ کیا ہے؟ اس کے دونوں بازو کون ہیں؟ کون اس کی دونوں جانگھیں ہیں اور ان کے دونوں پاؤں کون ہیں؟ اس پرش کا منہ براہمن ہیں، بازو چھتریہ ہیں، جانگھیں ویشیہ ہیں اور پاوں شودر ہیں‘‘۔(رگ وید منڈل ۱۰ ،سوکت، ۹ منترا۔۱۱،۱۲)۔
اور یہی بات مختلف انداز سے دیگر تمام دھرم شاستروں میں بھی کہی گئی ہے، نیز اسی تعلیم کے مطابق رگ وید کال سے آج تک بھارتیہ سماج میں شودروں کے ساتھ سلوک روا رکھا جارہا ہے جس کو ختم کرنے کے لیے ہی آزاد ہندوستان کے ملکی دستور میں شودروں یعنی پسماندہ و محروم دلت طبقہ کو اس کا انسانی حق بحال کرنے کے لیے (دستور میں) خصوصی مراعات دی گئیں اور ان کو ریزرویشن کی سہولت فراہم کی گئی۔ لیکن سادھوی پرگیا کو دستور ہند میں ملکی عوام کو فراہم کی گئی دولت مساوات کے مقابلے میں اپنے دھرم شاستروں کی تفریق انسانی زیادہ پسند ہے۔ شاعر مشرق علامہ اقبال نے دلتوں کی اسی پانچ ہزار سالہ زبوں حالی کی تصویر کشی کرتے ہوئے کہا تھا:
آہ! شودر کے لیے ہندوستاں غم خانہ ہے
درد انسانی سے اس بستی کا دل بیگانہ ہے
اسی دردناک تاریخی حقیقت کی پردہ پوشی کے لیے بی جے پی کے ایک دوسرے ممبر پارلیمنٹ اور پارٹی کے ترجمان ڈاکٹر وجے سونکر شاستری نے مجموعی طور پر ۹۹۲ صفحات کی حامل اپنی تین ہندی کتابوں ’’ہندو چرم کار جاتی‘‘۔ ’’ہندو والمیکی جاتی‘‘ اور ہندو کھٹیک جاتی‘‘ میں سادھوی پرگیا کے برعکس ان تینوں ہندوستانی جاتیوں کو ہندو قوم کا انتہائی فن کاری کے ساتھ حصہ بتانے اور پارٹی کا ووٹنگ پاور بڑھانے کے لیے یہ فرضی کہانی گھڑی ہے کہ یہ تینوں قومیں ملک کی حکمراں قوم رہی ہیں، قوی، مضبوط، جنگ جو اور بہادر رہی ہیں اور غیر معمولی عزت و شرف اور وقار و خوداری کی حامل رہی ہیں۔ ان کو تو غیر ملکی مسلمان حملہ آوروں نے ان کی موجودہ ذلت ناک کیفیت سے دوچار کیا! راجیہ سبھا ممبر نے یہ الزامات بغیر دلیل و بلا ثبوت عاید کیے ہیں۔ بی جے پی کے دونوں ممبران پارلیمنٹ میں سے ملک کی عظیم آبادی کو شودر بنانے کے سلسلے کو کس کی بات حقیقت پر مبنی ہے کہ اس آبادی کی دردناک صورتحال پرگیا کے قول کے مطابق دھرم شاستروں کی تعلیمات کے نتیجے میں پیدا ہوئی یا ڈاکٹر سونکر کے دعوے کے مطابق اس کے ذمے دار مسلم حملہ آور ہیں۔ اس کا فیصلہ یہ دونوں ایک ہی پارٹی کے ممبران پارلیمنٹ باہم ملاقات کر کے طے کرسکتے ہیں لیکن پرگیا کے مطابق شودر دھرم شاستروں کی پیداوار ہیں اور دھرم شاستروں کی تعلیم کے مطابق ہی گزشتہ پانچ ہزار سال کی تاریخ میں کبھی ان کو انسانی درجہ نہیں دیا گیا اور ان پر ہر طرح کی نا انصافی اور ظلم و زیادتی کو روا رکھا گیا۔ سادھوی پرگیا کے سیہور کے بیان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کل کے شودر اور آج کے دلت اپنے خلاف ہو رہے مظالم اور عدم مساوات کے سلوک کو برداشت کریں، چپ رہیں، برا نہ مانیں اور اپنی دشا کے پریورتن کے لیے کچھ نہ سوچیں!؎
’’بھٹکو تمام عمر کبھی راہ پر نہ آؤ‘‘
ورن آشرمی ذہنیت کی حامل پرگیا ٹھاکر نے دلتوں پر قیامت گزر جانے کی صورت میں بھی انہیں برا نہ ماننے کی ایسے موقع پر بھی شکشا دینا ضروری سمجھا جب کہ انہیں کی پارٹی بی جے پی کی شیوراج سنگھ چوہان کی ریاستی سرکار کی سرپرستی میں دلتوں پر مظالم کا سلسلہ جاری ہے۔ ابھی چند مہینے قبل مدھیہ پردیش کے گنا ضلع کے ایک دلت خاندان کو پولیس نے انتہائی بے رحمی و سفاکی کا نشانہ بناتے ہوئے اس پر لاٹھی ڈنڈوں اور لاتوں و گھونسوں کی برسات کر دی۔ دلت خاتون کو گھسیٹ گھسیٹ کر مارا پیٹا گیا، بے عزت کیا گیا اور منوسمریتی کی تعلیمات روبہ عمل لانے میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی گئی۔ بعد میں گنا کے ایس پی اور کلکٹر کو معطل کیا گیا لیکن کیا اس معطلی سے پولیس کے ذریعہ دلت خاندان کے ساتھ کیے گئے وحشیانہ سلوک کی تلافی ہوگئی؟ سوال یہ ہے کہ شیو راج سنگھ کی پولیس کا دلتوں کے ساتھ مسلسل یہ غیر دستوری اور غیر انسانی رویہ کیوں ہے؟
کیا اسی مدھیہ پردیش سے منتخب ممبر پارلیمنٹ پرگیا ٹھاکر کو گنا میں دلت خاندان پر ہوئی پولیس کی سفاکی کا علم نہیں تھا اور اگر تھا تو کیا اس خاندان کو انصاف دلانے کے لیے اس دلت خاتون کو انصاف دلانے کے لیے پرگیا ٹھاکر اس کے گاؤں اور اس کے گھر گئی تھیں؟ شاید نہیں! ایک غریب دلت عورت پر ہوئے پولیس کے مظالم سے بھی سادھوی پرگیا کا دل نہیں پسیجا۔
لیکن اس کی کسی قدر تلافی کا کچھ موقع ۱۳ دسمبر کو سیہور کی چھتریہ کانفرنس میں پرگیا کے پاس اس وقت تھا جب وہ سبھا کو خطاب کررہی تھیں، وہ چھتریہ برادری کی قوت بازو کو للکارتے ہوئے کہہ سکتی تھیں کہ سبھا سے ایک چھتریہ وفد اپنی روایتی بہادر کا اظہار کرتے ہوئے ان کے ساتھ گنا چلے اور دیر سے ہی سہی دلت خاندان سے اظہار ہمدردی کرے اور انہیں انصاف دلانے کی ہرممکن کوشش کرے۔ لیکن شاید سادھوی کے دل میں نرمی و گداز نامی کی کوئی چیز موجود نہیں ہے اور انہوں نے اپنا انسانی اور عوامی نمائندگی کا فرض ادا کرنے کے بجائے دلتوں کو ایک اور زخم لگاتے ہوئے ان کی نا سمجھی کی تحقیق کرلی اور اس کا برسر عام اظہار بھی کردیا؎
دل بہر حال نہ تھا تم سا ستم گر یارو
تم نے کس شہر پر برسا دیے پتھر یارو
***

مدھیہ پردیش کے گنا ضلع کے ایک دلت خاندان کو پولیس نے انتہائی بے رحمی و سفاکی کا نشانہ بناتے ہوئے اس پر لاٹھی ڈنڈوں اور لاتوں و گھونسوں کی برسات کر دی۔ دلت خاتون کو گھسیٹ گھسیٹ کر مارا پیٹا گیا، بے عزت کیا گیا اور منوسمریتی کی تعلیمات روبہ عمل لانے میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی گئی۔ بعد میں گنا کے ایس پی اور کلکٹر کو معطل کیا گیا لیکن کیا اس معطلی سے پولیس کے ذریعہ دلت خاندان کے ساتھ کیے گئے وحشیانہ سلوک کی تلافی ہوگئی؟ سوال یہ ہے کہ شیو راج سنگھ کی پولیس کا دلتوں کے ساتھ مسلسل یہ غیر دستوری اور غیر انسانی رویہ کیوں ہے؟

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 27 دسمبر تا 2 جنوری 2020-21