آپسی اختلاف ،قرآن سے دوری مسلمانوں کی تباہی کی بنیاد

مالٹا میں قید کے دوران ملت کی زبوں حالی پر مفسر قرآن شیخ الہند مولانا محمودحسن کی فکر کا خلاصہ

ڈاکٹر سید وہاج الدین ہاشمی

 

مفسرین ومترجمین قرآن کا تعارف سیریز-3
انیسویں صدی میں ملک وملت جن ممتاز ترین عظیم شخصیتوں پر فخر کرسکتی ہے ان میں سے ایک مایہ ناز اور عہد آفریں شخصیت شیخ الہند مولانا محمودحسن دیوبندی رحمہ اللہ کی ہے ۔شیخ الہند مولانا محمود حسن ۱۸۵۱ء بمقام بریلی پیدا ہوئے ۔ چھ سال کی عمر میں تعلیم شروع کی قرآن پاک میاں جی منگلو اور میاں جی مولوی عبداللطیف سے پڑھا ۔ فارسی اور عربی کی کتابیں اپنے چچا مولانا مہتاب علی سے پڑھیں ۔شیخ الہند کی عمر پندرہ سال تھی کہ ۳۰مئی ۱۸۶۶ء کو دیوبند کے شہر میں ایک عربی مدرسہ کا قیام عمل میں لا یاگیا بانی دارالعلوم حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کی تجویز پر ملا محمودصاحب کو اس مدرسہ کا پہلا استاد مقرر کیا گیا ۔ دیوبند کی مشہور مسجد چھتہ میں تعلیم کا آغاز ہوا ۔شیخ الہند نے اس جگہ پہلے شاگرد کی حیثیت سے اپنی تاریخی،علمی زندگی کی ابتداکی ۔صحاح ستہ اور بعض دیگر کتب مولانا محمد قاسم نانوتوی سے پڑھیں۔ مولانا نانوتوی میرٹھ اور دہلی تشریف لے جاتے تو شیخ الہند بھی آپ کے ساتھ جاتے اس طرح سفر و حضر میں تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا ۔
۱۸۷۳ء میں آپ کو دارالعلوم دیوبند کا مدرس مقرر کیا گیا ۔۱۸۸۸ء میں شیخ الہند کو دارلعلوم دیوبند کی منصب صدارت تفویض کر دی گئی ۔ آپ نے تقریباً۴۰سال درس وتدریس کی خدمات انجام دیں ،ایسے عظیم لوگوں نے آپ کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا جن میں سے ہر ایک مستقل ادارہ اور انجمن ہے۔ جن میں مولانا سید حسین احمد مدنی،مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا عبیداللہ سندھی،مولانا علامہ محمد انور شاہ کشمیری، مولانا مفتی کفایت اللہ دہلوی مولانا اعزاز علی،مولانا احمد علی لاہوری ،مولانا حبیب مولانا شبیر احمد عثمانی مولانا محمدالیاس کاندھلوی ،وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
شیخ الہند نے درس وتدریس اور سیاسی مشاغل کے باوجود ترجمہ قرآن کے علاوہ کئی ایک کتب تحریر فرمائی ہیں :تراجم ابوب بخاری تقریرترمذی،حاشیہ ابوداود ،حاشیہ مختصر المعانی،ایضاح الادلہ ، جہد المقل ،ادلہ کاملہ وغیرہ۔
مولانا محمود حسن ؒ نے قرآن حکیم کا جو ترجمہ لکھا وہ ’ترجمہ شیخ الہند‘ کے نام سے عرب و عجم میں اس قدر مشہور ہوا کہ کافی عرصہ ’مجمع الملک فہد، مدینہ منورہ ‘ کی طرف سے لاکھوں کی تعداد میں چھپوا کر پورے عالم اسلام میں تقسیم کیا گیا۔ اس ترجمہ کی وجہ تصنیف بھی شیخ الہند نے ترجمہ قرآن کے مقدمہ میں یہ بتائی کہ ’’بعض احباب نے بندہ سے درخواست کی کہ قرآن پاک کا ترجمہ سلیس اور مطلب خیز اردو زبان میں مناسب حال اہل زمانہ کیا جائے جسے دیکھنے والوں کو فائدہ پہنچے‘‘(۱)۔ اسی مقصد کے لیے شیخ الہند نے ترجمہ قرآن کے کام کی ابتدا ۱۹۰۹ء میں کی، سوا تین سال میں دس پاروں کا ترجمہ مکمل کیا، لیکن مختلف مصروفیات کی بنا پر تقریباً پانچ سال (۱۹۱۷ء )تک یہ سلسلہ منقطع رہا۔ ۲۲ فروری ۱۹۱۷ء کو جب آپ کو گرفتار کرکے مالٹا بھیجا گیا تب وہاں پھر شیخ الہند نے اس کام کو دوبارہ شروع کیا ۔اس طرح ایک سال کی قلیل مدت میں بقیہ بیس پاروں کا ترجمہ جولائی ۱۹۱۸ء میں مکمل کرلیا۔
دراصل شاہ عبدالقادر کے ترجمے سے استفادہ عام میں کچھ دشواریاں پیش آرہی تھیں اول تو یہ کہ اس ترجمہ کے بعض الفاظ اور محاورات وقت گزرنے کے ساتھ یا تو متروک ہوگئے تھے یا ان کا استعمال بہت کم ہوگیا تھا۔ لہٰذا اس وقت کے علمائے کرام کو قرآن مجید کے ایک آسان اور سہل ترجمے کی ضرورت محسو س ہوئی انہوں نےشیخ الہند سے ایسا ترجمہ کرنے کی درخواست کی ۔ شیخ الہند نے غور وفکر کے بعد محسوس کیا کہ پہلی ضرورت یعنی زبان و محاورے کی سہولت تو بعض نئے ترجموں سے پوری ہوگئی جو اہل علم وفہم حضرات نے کئےہیں۔ البتہ یہ ترجمے ان خوبیوں سے محروم ہیں جو موضح قرآن میں موجود ہیں۔ اب اگر کوئی نیا ترجمہ کیا جائے گا تو و آسان اور بامحاورہ ہوگا مگر حضرت شا ہ صاحب کے ترجمے کی خوبیاں کہاں سے آئیں گی؟ اب اندیشہ یہ پیدا ہوگیا ہے کہ نئے ترجموں کی موجودگی میں حضرت شاہ صاحب کی یہ بے مثال قرآنی خدمت کی رفتہ رفتہ معدوم ہی نہ ہوجائے۔چنانچہ شیخ الہند نے اس ترجمہ کا تعارف کراتے ہوئے لکھا ہے :
’’ اس ننگ خلائق کو یہ خیال ہوا کہ حضرت (شاہ عبدالقادر دہلوی) کے مبارک مُفید ترجمے میں لوگوں کو جو کل دوخلجان ہیں یعنی ایک بعض الفاظ ومحاورات کا متروک ہوجانا ، دوسرے بعض بعض مواقع میں ترجمہ کا مختصر ہوجانا، جو اصل میں توترجمہ کی خوبی تھی مگر ابنائے زمانے کی سہولت پسندی اور مذاق طبیعت کی بدولت اب یہاں تک نوبت آگئی ، جس سے ایسے مفید وقابل قدر ترجمے کے متروک ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے‘‘(۲) ۔ مذکورہ بالا مقاصد کو سامنے رکھ کر شیخ الہند نے پوری للہیت اور اخلاص کے ساتھ شاہ عبدالقادر کے ترجمے موضح قرآن پر نظر ثانی اور ترمیم کا کام شروع کیا۔ مختصر یہ کہ شیخ الہند نے خود کوئی نیا ترجمہ نہیں کیا بلکہ شاہ عبدالقادر کے ترجمے کو ایک نئی شکل دی۔ اس طرح قدیم ترجمہ کے الفاظ کو جدید لباس عطا کیا۔ شیخ الہند مزید لکھتے ہیں: ’’اس چھان بین اور دیکھ بھال میں تقدیر الٰہی سے یہ بات دل میں جم گئی کہ حضرت شاہ صاحب کا افضل ومقبول ومفید ترجمہ رفتہ رفتہ تقویم پارینہ نہ ہوجائے‘‘ (۳)۔اس کام میں جس احتیاط و ادب کو شیخ الہند نے برتا ہے وہ انہیں کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیے:’’جس موقع پر ہم کو لفظ بدلنے کی نوبت آئی وہاں ہم نے یہ نہیں کیا کہ اپنی طرف سے جو مناسب سمجھا بڑھادیا ۔ نہیں بلکہ حضرات اکابر کے تراجم میں سے لینے کی کوشش کی ہے۔خود موضح قرآن میں کوئی لفظ مل گیا یا حضرت مولانا رفیع الدین کے ترجمے میں یا فتح الرحمٰن میں۔ حتی الوسع ان میں سے لینے کی کوشش کی ہے۔ ایسا تغیر جس کی نظیر مقدس حضرات کے تراجم میں نہ ہو ۔ ہم نے کل ترجمہ میں جائز نہیں رکھا‘‘(۴)۔ اس ترجمے کو موضح قرآن سے ممتاز رکھنے کے لیے آپ نے اس کا نام موضح فرقان رکھا۔ مگر یہ ترجمہ ، ترجمہ شیخ الہند ہی کے نام سے مشہور ہوا۔ شیخ الہند کے اس ترجمہ کی تکمیل کے بعد شاہ عبدالقادر کی مختصر حواشی کو دوبارہ سہل اور آسان زبان میں منتقل کرنے کا کام شروع کردیا تھا ۔ جہاں جہاں ضرورت محسوس کی وہاں اجمال کی تفصیل فرمادی اور مفید تفسیری وضاحتوں کا اضافہ بھی فرمادیا۔ لیکن شیخ الہند کی حیات میں یہ کام صرف سورہ آل عمران تک ہی ہوسکا۔ اس کے بعد کے تفسیری فوائد شیخ الہند کے شاگرد خاص مولانا شبیر احمد عثمانی نے مکمل کیے اور یہ ترجمہ وتفسیر ، تفسیر عثمانی کے نام سے معروف ہے۔
شیخ الہند محمود حسن تحریکی میدان میں شہسوار کی حیثیت رکھتے تھے۔ آپ کی پوری زندگی کا بغور مطالعہ کیا جائے تو وہ مختلف تحریکات کے گرد گھومتی نظر آتی تھی ۔ تحریک آزادی ہند ہو یا تحریک ریشمی رومال ہو یاپھر مالٹا کی جیل، آپ کی ذات مرکزیت کا درجہ رکھتی تھی ۔انہوں نے ۱۸۸۰ء میں جمعیۃ الانصار قائم کی جس کا مقصد قرآنِ مجید اور احادیثِ نبویہ کے اسرار و لطائف سے عام مسلمانوں کو مانوس کرنا ،ان کے عقائد اور اعمال کی اصلاح اور قوم کے مردہ دلوں میں تازہ روح پھونکنے کی کوشش کرنا تھا۔انگریزوں کے خلاف ۱۸۵۷ء میں شروع کی گئی تحریک آزادی کے مشن کو آپ نے کافی آگے بڑھایا۔آپ نے تحریک کا مرکز کابل کو بنایا اور آپ کی تحریک ریشمی رومال کے نام سے مشہور ہے۔آپ عسکری بنیادوں پر مسلمانوں کو منظم کر کے انگریزوں کے خلاف جہاد کرنا چاہتے تھے، لیکن اپنوں کی سازشوں سے انگریزوں کے خلاف یہ تحریک بھی کامیاب نہ ہو سکی۔ لیکن اس نے ہند و پاک کے مسلمانوں میں بیداری کی نئی روح پھونک دی۔بقول مولاناسیدابوالحسن علی ندوی :
’’آپ(شیخ الہند)انگریزی حکومت اور اقتدار کے سخت ترین مخالف تھے ،سلطان ٹیپو کے بعدانگریزوں کاایسادشمن اورمخالف دیکھنے میں نہیں آیا‘‘۔(۵)
۱۹۱۶ء میں آپ کو گرفتار کیا گیا،فروری ۱۹۱۷ء میں آپ کو جزیرہ مالٹا پہنچا دیاگیا۔مالٹا کی اسیری کے دوران آپ نے بڑے مصائب برداشت کیے،تکلیفیں اٹھائیں ،مستقل عوارض میں مبتلاء رہے جو بالآخر مرض الموت کا سبب بنے ،لیکن آپ کے پائے استقلال میں لغزش پیدا نہ ہوئی۔ان کی جدوجہد کے مختلف پہلوؤں پر ہزاروں صفحات لکھے گئے ہیں لیکن آزادی کے بعد ملک کی موجودہ صوتحال اور بڑھتی ہوئی اکثریتی فرقہ پرستی نے ہندو اور مسلمانوں کے درمیان ایک بڑی خلیج پیدا کردی ہے فسطائی نظریات کے حامل بعض ہندو تحریکوں نے آزادی ہند میں مسلمانوں کے کارناموں کو تاریخ کے اوراق سے مٹانے کا منظم کام شروع کیا ہے ؛اس تناظر میں غیر مسلم مورخین کے حوالے نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔ چنانچہ معروف ہندو مؤرخ ماسٹر تارا چند کا کہنا ہے کہ:
’’۱۸۸۸ء میں شیخ الہندؒ کو دارالعلوم دیوبند کے سربراہ ہونے کا ارفع درجہ حاصل ہوا۔ اپنی زندگی کے اوائل سے ہی انہوں نے اپنے مشن کا فیصلہ کر لیا تھا، جس کے لیے وہ اپنی زندگی کے آخری دن تک جدوجہد کرتے رہے۔ ان کا مشن ہندوستان کو آزاد کرانا تھا۔ ۱۹۰۵ء میں انہوں نے اپنے پلان کی نشوونما شروع کر دی اور دو محاذوں پر اپنا کام شروع کیا۔ ایک ملک کے اندر اور دوسرا ملک کے باہر۔ دونوں کو ایک ساتھ اور ایک وقت میں مسلح بغاوت کے لیے کھڑا ہونا اور انگریزوں کو ملک سے باہر کھڈیر دینا تھا۔ ہندوستان میں اس مشن کا ہیڈ کوارٹر دیوبند تھا، اس کی شاخیں دہلی، دیناج پور، امروٹ، کراچی، کھیدار اور چکوال میں تھیں۔‘‘(۶)
قیدو بندکی صعوبتیں آپ کی صحت پر کافی حد تک اثر انداز ہوگئی تھیں۔مختلف امراض کی شکایت تو پہلے سے تھی ،اس پر مالٹا کا سرد موسم ،پھر ترکوں کی شکست اور اپنی جد وجہد کی ناکامی کا صدمہ ان حوادث نے ان بیماریوں کو مرض الموت کی شکل دے دی۔ چنانچہ ۳۰/نومبر۱۹۲۰ء روح مقدس رفیق اعلی سے جاملی۔
اس وقت ملک عزیز میں مسلمانوں پر عرصئہ حیات تنگ کیا جارہا ہے اس کی وجوہات اور حل بھی شیخ الہند نے ایک صدی قبل بتادیا تھا ،آج بھی یہ نسخہ کارگر ثابت ہوسکتا ہے گر ملت کا ہر فرد اس کو اپنی زندگی کا عزم بنالے۔ شیخ الہند نے کہا تھا: ’’میں نے جہاں تک جیل کی تنہائیوں میں اس پر غور کیا کہ پوری دنیا میں مسلمان دینی اور دنیوی ہر حیثیت سے کیوں تباہ ہو رہے ہیں تو اس کے دو سبب معلوم ہوئے. ایک ان کا قرآن کو چھوڑ دینا‘دوسرے ان کے آپس کے اختلافات اور خانہ جنگی۔ اس لیے میں وہیں سے یہ عزم لے کر آیا ہوں کہ اپنی باقی زندگی اس کام میں صرف کروں کہ قرآن کریم کو لفظاً اور معنًاعام کیا جائےاور مسلمانوں کے باہمی جنگ و جدال کو کسی قیمت پر برداشت نہ کیا جائے ‘۔(۷)
حوالے:
۱۔ مقدمہ ترجمہ قرآن شیخ الہند
۲۔ ایضاً
۳۔ ایضاً
۴۔ ایضاً
۵۔ مولانا حسین احمد مدنی شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن کےمختصراور نادر حالات بحوالہ، ،www.algazali.org بزرگانِ دین ، مارچ ۹، ۲۰۱۱
۶ عبد الرشید طلحہ نعمانی، حیات شیخ الہند کے درخشان پہلو: ، بحوالہ ، www.mazameen.com
۷۔ مفتی محمد شفیع:وحدتِ اُمت۔ ‘ص۳۹‏‎.‎‏۴۰‏‎
*** ‎

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 28 فروری تا 6 مارچ 2021