آن لائن نگرانی اور سنسر شپ کا چینی ماڈل!
سوشل میڈیا پلیٹ فارمس کے لیے نئے قواعد کیا ہمارے حقوق کو سلب کرتے ہیں؟
زعیم الدین احمد، حیدرآباد
حال ہی میں مرکزی حکومت نے نئے آئی ٹی قواعد کا اعلان کیا ہے جس کے تحت سوشل میڈیا چینلز اور OTT پلیٹ فارم کے لیے نیا ضابطہ اخلاق وضع کیا گیا ہے۔ اخلاقیات کا یہ نیا ضابطہ ڈیجیٹل میڈیا کمپنیوں، سوشل پلیٹ فارموں اور او ٹی ٹی پلیٹ فارم پر بھی لاگو ہو گا۔ گزشتہ جمعرات کو قانون و انصاف، مواصلات، الیکٹرانکس اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے وزیر روی شنکر پرساد اور وزیر ماحولیات، جنگل و ماحولیاتی تبدیلی پرکاش جاوڈیکر نے جو اطلاعات و نشریات، بھاری صنعتوں اور عوامی کاروباری اداروں کے بھی وزیر ہیں، پریس کانفرنس کے ذریعہ اس نئے ڈیجیٹل میڈیا ضابطہ اخلاق کا اعلان کیا۔
ان نئے قواعد و ضوابط کے ذریعہ حکومت کو یہ اختیار حاصل ہو گا کہ وہ پلیٹ فارموں سے پیغام رساں کی معلومات حاصل کر ے اور یہ پتہ لگائے کہ پیغام اصل میں کہاں سے جاری ہوا ہے۔ ان ضوابط میں صارفین کے لیے ایک نگران افسر کے ساتھ ساتھ شکایات کے لیے بھی ایک افسر کو رضاکارانہ طور پر رکھنے کی تجویز ہے جو چوبیس گھنٹوں کے لیے ہوگا۔ دستاویز میں کہا گیا ہے کہ "قانون نافذ کرنے والے اداروں کا ان افسران کے ساتھ مستقل ربط رہے گا جس کے لیے ایک نوڈل افسر کی تقرری بھی کی جائے گی تاکہ وہ ان قوانین اور ضوابط کی تعمیل کو یقینی بنائے۔”انفارمیشن ٹکنالوجی (انٹرمیڈیٹری اینڈ ڈیجیٹل میڈیا ضابطہ اخلاقیات کے رہنما اصول) 2021 کے نئے ضوابط اس لیے وضع کیے گئے ہیں کہ سوشل میڈیا اور اسٹریمنگ خدمات کو ایک ریگولیٹری فریم ورک کے تحت لایا جا سکے۔ قواعد و ضوابط کے تحت شکایات کے ازالے کا ایک تین سطحی طریقہ کار قائم کیا گیا ہے جس میں خود ضابطہ کی مختلف سطحیں ہیں۔ سطح اول ناشر (پبلیشر) کے ذریعہ ہی خود ضابطہ کاری، سطح دوم ناشر (پبلیشر) کے خود ساختہ اداروں کے ذریعہ ہی ضابطگی اور سطح سوم حکومت کے ذریعہ نگرانی۔ ان قواعد کو انفارمیشن ٹکنالوجی (آئی ٹی) ایکٹ 2000 کی دفعہ 87 (2) کے تحت "اختیارات کا استعمال” کے لیے بنایا گیا ہے جو انفارمیشن ٹکنالوجی (انٹرمیڈیری گائیڈ لائنز) رولز 2011 کو ختم کر دیتا ہے۔ اس کی کچھ جھلکیاں یہ ہیں:
سوشل میڈیا : ایسا مواد جسے حکام "قوم مخالف” سمجھتے ہوں اس کے تخلیق کار کی شناخت کرنا، شکایات کے لیے افسر کی تقرری کرنا، 15 دن کے اندر شکایات حل کرنا، شکایات سے متعلق ماہانہ رپورٹ پیش کرنا اور اس پر ہونے والے رد عمل کی نگرانی کرنا۔
ڈیجیٹل نیوز : پریس کونسل آف انڈیا کیبل ٹی وی نیٹ ورکس ریگولیشن ایکٹ پر عمل کرنا، ضابطہ اخلاق پر عمل درآمد کرنے کے لیے خود سے متعلقہ اداروں کا قیام، وزارت اطلاعات و نشریات ایک پینل بنائے گی اور نگرانی کا طریقہ کار وضع کرے گی۔
او ٹی ٹی پلاٹ فارم : مواد کی تقسیم پانچ مختلف زمروں میں کی گئی جو الگ الگ عمر کے لیے ہو جیسے ۷ سال، ۱۳ سال، ۱۶ سال اور بالغ۔ 13 سال یا اس سے زیادہ کی عمر کے زمرے میں والدین کو مواد کو لاک کرنے کا اختیار، عمر کی توثیق کا طریقہ کار بنانا۔
ان ضوابط کو وضع کے پیچھے سپریم کورٹ کا وہ تبصرہ ہے جس میں سپریم کورٹ نے یہ کہا تھا کہ بچوں کے اندر بڑھتی ہوئی فحش بینی اور فحش نگاری کی وجہ سے جنسی جرائم میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ اسی تناظر میں سپریم کورٹ نے حکومت سے کہا تھا کہ بچوں کے اندر بڑھتی فحش نگاری کو روکنے، فحش تصاویر، فحش ویڈیوز اور ویب سائٹوں پر پوری طرح سے روک لگانے کے لیے ضروری رہنما اصول وضع کرے۔ راجیہ سبھا کی ایک ایڈہاک کمیٹی نے 2000ء میں ایک رپورٹ پیش کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ سوشل میڈیا پر موجود فحش مواد کے معاشرے پر اور بالخصوص بچوں پر شدید منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے سماج میں جنسی جرائم میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ اس کمیٹی نے ایسے اصول و ضوابط مدون کی سفارش کی تھی جن سے اس طرح کس فحش مواد تخلیق کرنے والے کی شناخت کی جا سکے۔ اسی لیے حکومت نے ویڈیو اسٹریمنگ اوور دی ٹاپ (او ٹی ٹی) پلیٹ فارم کو وزارت اطلاعات و نشریات کے دائرہ اختیار میں لانے کا فیصلہ کیا ہے۔
اہم سوشل میڈیا عاملین کو یہ معلومات فراہم کرنی ہوں گی کہ پیغام کا پہلا موجد کون ہے اور اس کی ساری معلومات دینی ہو گی۔ یہ معلومات یا تفتیش بھی اس لیے کہ اگر کوئی صارف ملک کی خود مختاری اور اس کی سالمیت، کسی ریاست کی سلامتی، غیر ملکی ریاستوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات یا عوامی نظم و ضبط سے متعلق جرم کرتا ہے یا عصمت دری، فحش مواد یا بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے معاملے سے متعلق جرم پر اکسانے والا مواد نشر کرتا ہے تو اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جا سکے۔ اس طرح کے جرم کے لیے قانون میں پانچ سال تک کی سزا موجود ہے۔ سوشل میڈیا عامل کو ہر صارف کی عزت کی حفاظت کو یقینی بنانا لازم ہوگا اور ایسے صارف کو 24 گھنٹوں کے اندر معطل یا غیر فعال کر دینا ہوگا جو اپنے آپ کو مکمل یا جزوی طور پر عریاں یا جنسی حرکت کرتا ہوا دکھاتا ہو یا مسخ شدہ عریاں تصاویر یانیم عریاں تصاویر نشر کرتا ہو۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ نئے قواعد سوشل میڈیا عاملین کو احتساب کے دائرے میں لاتے ہیں۔ کئی ماہرین نے ان نئے قواعد کا خیر مقدم کیا ہے تو وہیں دوسروں نے ان قواعد کو غیر قانونی قرار دیا ہے۔ ان ماہرین کا خیال ہے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارموں کے لیے احتساب کے قواعد پہلے سے موجود ہیں۔ لیکن حالیہ مسودہ میں حکومت کی جو تجویزیں ہیں اس سے سنسرشپ میں اضافہ ہوگا اور صارف کی رازداری کو شدید نقصان پہنچے گا۔ گویا یہ قواعد صارف کے حقِ راز داری کو ختم کرنے کے مترادف ہیں۔ انفارمیشن ٹکنالوجی (انٹرمیڈیری گائیڈ لائنز اور ڈیجیٹل میڈیا اخلاقیات کوڈ) قواعد 2021 میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ لاکھوں انٹرنیٹ صارفین تک بہ آسانی رسائی حاصل کر سکے اور حکومت یہ جان سکے گی کہ انٹرنیٹ کس طرح استعمال کیا جا رہا ہے۔ ضوابط میں تجویز کردہ زیادہ تر تبدیلیاں ایسی ہیں جیسے ’’آن لائن نگرانی اور سنسر شپ کا چینی ماڈل‘‘ہے۔ مسودے کے قواعد و ضوابط سے یہ خدشہ ہے کہ اس میں صرف ظاہری تبدیلیاں کی گئی ہیں جب کہ بنیادی خدشات جیسے صارفین پر حکومت کی مکمل نگرانی، حق راز داری وغیرہ جیسے مسائل بدستور باقی ہیں۔
انٹرنیٹ فریڈم فاؤنڈیشن ریگولیشن کا خیال ہے کہ آن لائن نیوز میڈیا اور ویڈیو اسٹریمنگ پلیٹ فارمس کو ایگزیکٹیو پاور کے ذریعہ باقاعدہ بنانے کی تجویز غیر قانونی غیر آئینی ہی نہیں بلکہ کچھ معاملات میں یہ خرابیاں پیدا کرنے والی بھی ہے۔ ضرورت اس بات کہ ہے کہ اس سے متعلق حکومت تازہ مشاورت کا راستہ اختیار کرے اور ساتھ ہی ایک قرطاسِ ابیض (White Paper) بھی جاری کرے۔ ہمارا اس بات پر ایقان ہے کہ اس سے یقیناً بڑی بڑی آئی ٹی کمپنیوں کو احتساب اور نگرانی کے دائرے میں لانے کی بات کہی گئی ہے لیکن ہماری تشویش یہ ہے کہ اس طرح کے قواعد ان کو احتساب کے دائرے میں لانے میں نہ صرف ناکام ثابت ہوں گے بلکہ الٹا عام لوگوں کی آواز کو دبانے، اس کو کچلنے اور حق راز داری سے محروم کرنے کے ہی کام آئیں گے۔
ٹیکنالوجی تھنک ٹینک دی ڈائیلاگ کے بانی کاظم رضوی نے کہا کہ ڈیجیٹل پلیٹ فارمس پر جعلی خبریں، بچوں کا جنسی استحصال کرنے والے مواد اور منشیات کی تجارت جیسے چیلنجوں کے پیش نظر قواعد و ضوابط کافی اہمیت کے حامل ہیں۔ تاہم حکومت کو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ یہ قواعد صارفین کے راز داری اور آزادانہ تقریر کے حق پر مضر اثرات مرتب کرتے ہیں۔ مسٹر رضوی نے کہا کہ جعلی خبروں اور بچوں کے جنسی استحصال کے مواد سے نمٹنے اور اس کا سراغ لگانے کے لیے ضروری ہے کہ (end to end) پیغام رسانی کے نظام کو ختم کیا جائے کیوں کہ اس کے بغیر یہ ممکن نہیں ہے۔ لیکن اگر اس نظام کو ختم کیا جاتا ہے تو پھر شہریوں کی راز داری، حفاظت اور سلامتی بھی شدید متاثر ہو سکتی ہے۔
سافٹ ویئر فریڈم لا سنٹر انڈیا (ایس ایف ایل سی) کے لیگل ڈائریکٹر پرسانت سوگاتھن نے کہا ’’معلومات کے آغاز کنندہ کی شناخت کی فراہمی کو لازمی قرار دینے سے واٹس ایپ، ٹیلیگرام اور سگنل جیسے پیغام رساں پلیٹ فارمس (میسیجنگ) پر اثر پڑے گا۔ ان کے لیے چیف تعمیلی آفیسر، نوڈل آفیسر اور شکایات سننے والے آفیسر کی تقرری کرنا ممکن نہیں ہوگا کیوں کہ یہ ایپس بیرونی ہیں ان کو ملک میں اپنی خدمات کی فراہمی میں مشکل پیش آسکتی ہے اور اگر وہ ان مذکورہ خدمات کی فراہمی میں ناکام ہوتے ہیں تو انہیں اپنے ایپ بند کرنے پڑیں گے۔ یقینی طور پر یہ صارف کے مفاد میں نہیں ہوگا جبکہ اس کے پاس بہت محدود مواقع ہی باقی رہ جائیں گے اور اس کو ان ہی میں سے کسی ایپ انتخاب کرنا ہوگا‘‘۔
ان قواعد میں ایک خوش آئند بات یہ ہے کہ اس میں عمر کی زمرہ بندی کر کے بچوں تک فحش مواد کی رسائی پر روک لگائی گئی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ انٹرنیٹ پر جھوٹی خبروں کا جو سیلاب امڈ آتا ہے اس پر روک لگے گی بشرطے کہ حکومت پورے اخلاص کے ساتھ ان ضوابط پر عمل کرے۔ لیکن عوام کو مودی سرکار کی نیت پر بھروسہ نہیں ہے کیوں کہ اس کی سابقہ کارکردگی گواہ ہے کہ اس حکومت نے محض جھوٹ کا سہارا لیا ہے، جو باتیں اس نے کہی ہیں اس کے برعکس ہی عمل کیا ہے۔ اس موقع پر بھی عوام کیسے یقین کرے کہ وہ عوام کے حق راز داری کو سلب نہیں کرے گی؟ کون یقین دہانی کرائے کہ وہ اس کے ذریعہ معصوم و بے گناہوں کو نہیں پھنسائے گی؟ اگر ایسا ہوا تو یہ یقین کرنے میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ ہمارا ملک آہستہ آہستہ سرویلنس اسٹیٹ (خفیہ نگران کار ریاست ) بنتا جا رہا ہے۔
***
حکومت کو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ یہ قواعد صارفین کی راز داری اور آزادانہ تقریر کے حق پر مضر اثرات مرتب کرتے ہیں
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 7 مارچ تا 13 مارچ 2021