آزمائش کی حکمتیں
سیف اللہ،راجستھان
ہر انسان کو زندگی کے کسی نہ کسی مرحلہ میں آزمائشی دور سے گزرنا پڑتا ہے۔ یہ آزمائش و مصیبت کبھی انفرادی ہوتی ہے تو کبھی اجتماعی ہوتی ہے کہ جس میں پوری قوم و ملت کو آزمایا جاتا ہے۔ اس دنیا میں ہر انسان کی آزمائش اس کی حیثیت وسکت کے لحاظ سے ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس دنیا کی دیگر قوموں کے مقابلے میں بلند مقام پر فائز کیا ہے اور یہ مقام بلند دین کے تقاضوں کو پورا کرنے کے ساتھ مشروط ہے۔ دین کا یہ راستہ کوئی آسان راستہ نہیں ہے بلکہ یہ آزمائشوں سے پُر ایک ڈگر ہے جس پر ثابت قدمی کا انعام جنت ہے۔ چھوٹی چھوٹی آزمائشوں میں کھرا اترنا نسبتاً آسان ہوتا ہے لیکن جب کوئی بڑی آزمائش آجاتی ہے تو اصل امتحان اسی وقت ہوتا ہے۔ آزمائش کے معاملہ میں ایک مومن کا معاملہ یہ ہوتا ہے کہ وہ آزمائش کی تمنّا نہیں کرتا کیونکہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ سے عافیت طلبی کی دعا سکھائی ہے لیکن جب بندہ مومن کا سامنا آزمائش سے ہو جاتا ہے تو پھر وہ صبر کے ہتھیار سے اس آزمائش میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو کیوں آزماتا ہے۔ اس کی کچھ حکمتیں ہیں جن کا ادراک ہمیں قرآن وحدیث کے مطالعے سے ہوتا ہے ۔
سچوں اور جھوٹوں کو الگ کرنا:
اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی آزمائش کا ایک سبب تو یہ بتایا ہے کہ سچے اور جھوٹے، مضبوط اور کمزور ایمان والوں میں فرق کیا جائے۔ مصائب و مشکلات میں ثابت قدمی کا مظاہرہ وہی کر سکتے ہیں جو سچے مومن ہوں۔ جب باطل طاقتیں افتراء پر اُتر آئیں، ملک و قوم سے غداری کا الزام لگا کر محاذ آرائی کے لیے صف بندی و ناکہ بندی کرنے لگیں تب مومنین و منافقین میں فرق نظر آتا ہے۔ اس موقع پر وہی لوگ راہ حق پر ڈٹتے اور استقامت دکھاتے ہیں جن کا ایمان پختہ اور مضبوط ہوتا ہے ورنہ کمزور ایمان والے یا منافق تو راہِ فرار اختیار کر لیتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے:
’’کیا ان لوگوں نے یہ گمان رکھا تھا کہ وہ بس اتنا کہہ دینے پر کہ ہم ایمان لائے یونہی چھوڑ دیے جائیں گے اور ان کو آزمایا اور پرکھا نہ جائے گا۔‘‘ (العنکبوت: ۲)
’’اللہ تعالیٰ کو تو ضرور دیکھنا ہے کہ سچے کون ہیں اور جھوٹے کون؟‘‘ (العنکبوت: ۳)
اسی طرح سورہ العنکبوت، آیت ۱۱ میں فرمایا گیا ہے۔
’’اور اللہ کو تو ضرور یہ دیکھنا ہے کہ ایمان والے کون ہیں اور منافق کون؟‘‘
’’کیا تم نے یہ سمجھ رکھا تھا کہ محض ایمان کا دعویٰ کرکے جنت میں داخل ہو جاؤ گے؟ حالانکہ ابھی تو اللہ نے جانا ہی نہیں کہ تم میں کون ہیں جنہوں نے حق کے لیے اپنی پوری جدوجہد کر ڈالی اور کون ہیں جو راہِ حق پر ہر حال میں جمنے والے ہیں۔‘‘ (آل عمران: ۱۴۲)
ہر دور اور ہر زمانے میں ہر نبی اور اہل حق کی تاریخ اس پر گواہ ہے کہ ان کو ابتلاء اور آزمائش کے مراحل سے گزرنا پڑا ہے۔
’’اور ہم نے ان سبھی مدعیان ایمان کو آزمایا جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں۔‘‘ (العنکبوت: ۳)
حقیقی ایمان سے استقامت حاصل ہوتی ہے اور آزمائش میں استقامت کے نتیجے میں ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے:
’’جن سے لوگوں نے کہا کہ تمہارے خلاف بڑی بڑی فوجیں جمع ہوتی ہیں، ان سے ڈرو تو یہ سن کر ان کا ایمان اور بڑھ گیا اور انہوں نے کہا کہ ہمارے لیے اللہ کافی ہے اور وہی بہترین کارساز ہے۔‘‘ (آلِ عمران: ۱۷۳)
شخصیت کا ارتقاء:
ابتلاء اور آزمائش کی حکمت یہ بھی ہے کہ اس سے انسان کی شخصیت کا ارتقا ہو۔ سچے اہل ایمان جب مصائب و مشکلات سے دوچار ہوتے ہیں تو ان کے اندر ایمانی قوت پیدا ہوتی ہے، ان کے لیے بہت سی اخلاقی خرابیاں دور ہونے کا موقع فراہم ہوتا ہے، کیونکہ خوشی و غم ہر مرحلہ کو مومن اللہ کی طرف سے سمجھ کر برداشت کرتا ہے اور یہ چیز اس کے اندر نکھار پیدا کرتی ہے۔ اسے رضا بالقضا کا خوگر بناتی ہے۔ قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے:
’’اور تاکہ اللہ آزمائے اور دیکھے اس کو جو کچھ تمہارے سینوں میں پوشیدہ ہے اور تاکہ معلوم کرے جو کچھ تمہارے دلوں میں کھوٹ ہے، پھر اسے چھانٹ کر اس سے دلوں کو پاک کر دے۔‘‘ (آلِ عمران: ۱۵۴)
نبیؐ نے فرمایا:
’’اللہ جس کے لیے بھلائی چاہتا ہے اس کو مصیبت میں مبتلا کر دیتا ہے۔‘‘
’’اللہ تعالیٰ جب کسی گروہ سے محبت کرتا ہے تو اسے آزمائشوں کے دور سے گزارتا ہے۔‘‘ (ترمذی)
فکرو عمل میں پختگی پیدا کرنا :
مصائب و آلام اور آزمائش کی ایک حکمت فکر و عمل میں پختگی پیدا کرنا بھی ہے۔ ایک شخص اخلاص کے ساتھ اسلام میں داخل ہوتا ہے ایمان کا اقرار کرتا ہے، مگر تربیت کی کمی کی وجہ سے اس کے خیالات، جذبات اور احساسات اسلامی رنگ میں نہیں رنگتے، جب وہ ابتلاء سے اپنے ایمان کو سلامت رکھتے ہوئے گزر لیتا ہے تو اس کے فکر و عمل میں صالحیت پیدا ہو جاتی ہے، ابتلاء کے بغیر مس خام کندن نہیں بنتا۔ غزوۂ احد کا موقع ہے۔ صحابۂ کرام کی مقدس جماعت ہے، میدانِ کارزار گرم ہے، جنگ میں مسلمانوں کا پلڑا کافروں پر بھاری ہے، لیکن ان سے کافروں کی ایک جنگی ترکیب کو سمجھنے میں غلطی ہوجاتی ہے اور نتیجہ انتہائی خطرناک صورت میں سامنے آتا ہے۔ جیتی ہوئی جنگ ہار کی شکل اختیار کر لیتی ہے، مسلمان اچانک کفار کے حملہ سے حیران ہو جاتے ہیں اور مشکل میں پڑ جاتے ہیں، وہ نبیؐ کے شہید ہو جانے کی افواہ سے ہمت ہار بیٹھتے ہیں اور بددلی کے عالم میں تلواریں پھینک دیتے ہیں کہ جب اللہ کے رسولؐ ہی نہ رہے تو ہم لڑکر کیا کریں گے۔ ستّر مسلمان شہید ہو جاتے ہیں، خود نبیؐ کے دندانِ مبارک شہید ہو جاتے ہیں اور سر مبارک خون سے آلودہ ہو جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ واقعہ یوں ہی بغیر مشیت ایزدی کے نہیں پیش آیا، بلکہ اس کے پیچھے اللہ تعالیٰ کی حکمت نظر آتی ہے کہ:
۱۔ حالات کے مقابلے کے لیے اسباب و علل سے آنکھیں نہ چرائی جائیں۔
۲۔ نبی کی ہدایات پر ہر حال میں عمل کیا جائے۔
۳۔ نبی کے حکم کی خلاف ورزی شعوری یا غیر شعوری کسی حالت میں نہ کی جائے۔ یہ ہمیشہ نقصان دہ ثابت ہوگی۔
۴۔ اللہ اور اس کے دین کے لئے جدوجہد کی جائے اور قربانیوں کا نذرانہ پیش کیا جائے۔
اگر بالفرض رسولؐ واقعی کام آجاتے تب بھی اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے کام کرتے رہنا ہے۔
چنانچہ قرآن مجید میں متنبہ کیا گیا ہے:
’’محمدؐ تو صرف ایک رسول ہیں۔ ان سے پہلے اور رسول بھی گزر چکے ہیں، تو کیا اگر وہ وفات پا جائیں یا شہید کر دیئے جائیں تو تم الٹے پاؤں پھر جاؤ گے؟ ‘‘ (آلِ عمران: ۱۴۴)