مولانا ابوسلیم عبدالحئی
دنیا کی اس زندگی کے بعد ایک اور زندگی ہے ایسی زندگی جو ہمیشہ رہے گی اور جس میں انسان کو جو کچھ آرام ملے گا یا تکلیف پہنچے گی اس کا مدار صرف اس رویے پر ہوگا جو انسان دنیا کی اس زندگی میں اختیار کرے گا۔ یہ ہے وہ حقیقت جو اکثر انسانوں کی نظر سے اوجھل ہے اور جب بھی یہ حقیقت نظروں سے اوجھل ہوجاتی ہے انسان کی زندگی بھلائیوں سے خالی اور برائیوں سے پر ہوجاتی ہے۔ حضرات انبیائے کرام علیہم السلام نے انسانی زندگی کی اصلاح کا کام ہمیشہ اسی طرح شروع کیا کہ ایک طرف ان کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کا سچا یقین پیدا کیا تو دوسری طرف انہوں نے لوگوں میں آخرت کے یقین کو پختہ کیا اور آخرت کے عقیدے کو درست کیا۔ اس کام کے لیے انہوں نے جو طریقہ اختیار کیا وہ بھی انتہائی معقول تھا۔ انہوں نے ہر دعویٰ کا ثبوت اور ہر شبہ کا جواب دیا۔ ہر اعتراض کو دور کیا۔ ہر بات کو مناسب انداز میں سمجھایا اور دل میں بٹھایا، اس کے لیے انہوں نے عقلی دلائل دیے تاریخی واقعات پیش کیے اور کائنات کے بے شمار مشاہدوں کو ثبوت میں پیش کیا اور پھر سب سے بڑھ کر یہ عملی ثبوت پیش کیا کہ ان کی بتائی ہوئی باتوں پر جو لوگ ایمان لائے ان کی ساری زندگی ان ہی اصولوں کے مطابق ڈھل گئی جو وہ پیش کرتے تھے۔ ان کی زندگی میں کوئی قول اور کوئی فعل ایسا باقی نہ رہ گیا جو ان کے قبول کیے ہوئے عقائد کے خلاف ہوتا، بڑے سے بڑے اور چھوٹے سے چھوٹے تمام معاملات میں ان کی زندگی کی روش وہی ہوگئی جو ایک سچے مومن بالآخرۃ اور مومن بالرسول کی ہونا چاہیے تھی۔
انسانوں کی اصلاح کا یہی وہ طریقہ ہے جس پر ہر نبی نے ہر زمانے میں عمل کیا ہے اور انسانی تاریخ گواہ ہے کہ یہی ایک ایسا طریقہ ہے جس سے ہر دور میں انسانی اصلاح کا صحیح کام لیا جاسکتا ہے۔
آپ کے سامنے بھی اپنی اصلاح اور اپنے ماحول کی اصلاح کا سوال ہے۔ اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات پر ایمان کی اہمیت آپ کے سامنے آچکی ہے۔ اصلاح کی دوسری بنیاد ایمان بالآخرۃ ہے۔ ایسے لوگ جو صاف طور پر آخرت کی زندگی کا انکار کریں آپ کو اپنے ماحول میں کم ملیں گے اور جو ملیں گے بھی تو ان کا مرض صرف اتنا ہی نہ ہوگا بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کے بھی منکر ہوں گے۔ ایسے لوگوں کے بارے میں تو آپ کو آخرت کے سوال سے پہلے اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات کے متعلق ایمان کو درست کرنا ہوگا۔
ہو سکتا ہے کہ آپ کو ایسے لوگوں سے بھی واسطہ پڑے جو خدا کے تو قائل ہوں لیکن آخرت کی زندگی اور عذاب و ثواب کا مذاق اڑاتے ہوں۔ جو لوگ خدا کے وجود کو مان لیں اور ان کو آخرت کی زندگی کے بارے میں میں اطمینان دلا دینا کچھ زیادہ مشکل نہیں ہے کیونکہ آخرت کا عقیدہ دراصل ایمان باللہ کے عقیدے کا ایک لازمی نتیجہ ہے۔ پہلے اس بات کو ذرا تفصیل سے سمجھ لیجیے۔
ایمان باللہ کا مفہوم اس کے سوا اور کیا ہے کہ دل میں یہ یقین مضبوطی کے ساتھ جم جائے کہ یہ عالم اور اس کی تمام چیزیں بغیر کسی خالق اور مالک کے نہیں ہیں، ان سب کا پیدا کرنے والا موجود ہے اور یہاں جو کچھ ہو رہا ہے اسی کی حکمت اور تدبیر کے ماتحت ہو رہا ہے۔ خدا کی ذات کے بارے میں یہ یقین اور اس کی صفات کا تصور بس یہی ایمان باللہ کا صحیح مفہوم ہے۔
اب جو شخص خدا کو مانتا ہے اور عدل و صفات کو اس کی لازمی صفت بھی جانتا ہے وہ یہ جاننے کے لیے مجبور ہے کہ جو انسان اللہ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی حدوں کا پاس رکھے اور جو ان کا پاس نہ رکھے اور جو انسان اخلاق اور نیکی کو ختیار کرے اور جو بدی اور سرکشی کو اپنا شیوہ بنائے ان دونوں کو نتیجے کے اعتبار سے برابر نہ ہونا چاہیے۔ لیکن دنیا میں آپ کیا دیکھتے ہیں کہ اکثر نیکو کاروں کو تکلیفیں جھیلنا پڑتی ہیں اور دنیا کی خوش حالیاں اور نعمتیں ان کے حصے میں نہیں آتیں لیکن اس کے برخلاف اکثر بدکار اور خدا کے باغی اپنی بے ایمانی اور بد اخلاقی کے باوجود مزے اڑاتے ہیں اور دولت اور عیش میں مست رہتے ہیں۔ اس صورتحال کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ اس زندگی کے بعد ایک دوسری زندگی ہونا چاہے ایسی زندگی جہاں کا عیش و آرام بھی دائمی ہو اور جہاں کی تکلیف و سزا بھی کبھی نہ ختم ہونے والی ہو اور اس زندگی میں ہر انسان کو وہی نتیجہ ملنا چاہیے جو اس کے اعمال کا لازمی نتیجہ ہو، جو شخص خدا کو مانتا ہے اور اسے عادل اور منصف بھی جانتا ہے وہ کسی طرح بھی ایک ایسے دن کا انکار نہیں کرسکتا جس دن ہر انسان سے اس کی زندگی کا حساب لیا جائے گا اور اس کے لیے اس کے اعمال کے لحاظ سے جزا یا سزا تجویز کی جائے گی۔
اسی طرح خدا کی دوسری صفات کو لیجیے۔ وہ حکیم ہے۔ اس کی حکمت کا تقاضہ یہ ہونا چاہیے کہ اس کا کوئی کام بے مقصد اور عبث نہ ہو۔ دنیا کا یہ کارخانہ ہماری نظروں کے سامنے جس خدا نے اسے بنایا ہے اگر وہ حکیم ہے تو اس کی حکمت کا لازمی تقاضا یہ ہونا چاہیے کہ سب کچھ محض بے کار اور بے مقصد نہ ہو، اس طرح انس
ان کا وجود بھی بے مقصد اور بے کار نہ ہو بلکہ انسان کی پیدائش کا کوئی مقصد پورا ہونا چاہیے۔ اب جو لوگ اس مقصد کو پورا کریں اور جو اس مقصد کو پورا نہ کریں انہیں انجام کے اعتبار سے برابر نہ ہونا چاہیے۔ اس دنیا کی زندگی اس انجام کے حاصل ہونے کے لیے بالکل ناکافی ہے۔ یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ جو لوگ اپنی پیدائش کا مقصد پورا کرتے ہیں اور اپنی ذمہ داریوں کو پہنچاتے ہیں اور جو اس مقصد کو بھول کر انتہائی غیر ذمہ دارانہ زندگی بسر کرتے ہیں۔ یہ دونوں اپنے انجام کے لحاظ سے ویسے نہیں ہوتے جیسا کہ انہیں ہونا چاہیے تھا۔ یہ صورتحال بھی تقاضا کرتی ہے کہ ایک اور ایسی زندگی ہونا چاہیے جہاں پیدائش کے مقصد کو پورا کرنے والے اور اسے پورا نہ کرنے والے اپنے اس انجام کو پہنچیں جس کے وہ مستحق ہوں۔اسی طرح خدا کے رحیم ہونے کا یہ تقاضا ہے کہ وہ اپنے فرماں برداروں کو اپنی رحمتوں سے نوازے اور اپنے نافرمانوں کو سزا دے۔ اس تقاضے کو پورا کرنے کے لیے بھی ایک دوسری زندگی کی ضرورت ہے۔
غرض یہ کہ جو شخص خدا کے وجود کا قائل ہو اور اس کی صفات پر ایمان رکھتا ہو اس کے لیے تو یہ ممکن نہیں کہ وہ ایک ایسے دن کا انکار کرسکے جب ہر انسان کو اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور اسے ایک ایسی زندگی ملے گی جس کا آرام بھی دائمی ہوگا اور جس کی تکالیف بھی کبھی نہ ختم ہونے والی ہوں گی۔ یہی وجہ ہے کہ دراصل اس وقت تک ایمان باللہ کی تکمیل نہیں ہوتی جب تک انسان آخرت کے دن پر بھی ایمان نہ لائے۔ آخرت پر ایمان ، اللہ پر ایمان لانے کا لازمی نتیجہ ہے۔ جو لوگ آخرت پر ایمان کے بغیر ہی خدا پرست بننے کا دعویٰ کرتے ہیں دراصل وہ خود بھی دھوکے میں ہیں اور دوسروں کو بھی دھوکا دیتے ہیں۔ جس انسان کے دل میں کسی پوچھ گچھ کا خوف کسی کی خوشی کی آرزو اور نا خوشی کا اندیشہ اور اچھے انجام کی تمنا، اور برے نتیجے کا ڈر نہ ہوگا اسے محض اللہ کی ذات اور صفات پر ایمان نہ خواہشات سے روک سکتا ہے اور نہ ہی غیر ذمہ داری سے باز رکھ سکتا ہے۔ خواہشات کو لگام لگانے اور ذمے دارانہ زندگی بسر کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان کو اپنے رویے کے انجام کی بھی فکر ہو۔
خدا کی ذات اور اس کی صفات پر ایمان لانے کے بعد آخرت کا انکار ممکن نہیں۔ لیکن عملی دنیا میں جو دشواری ہم سب کے سامنے ہے وہ بھی قابل لحاظ ہے۔ ہمارے چاروں طرف بے شمار افراد ایسے موجود ہیں جو نہ خدا کی ذات و صفات کے منکر ہیں اور نہ آخرت کا انکار کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود ان کی زندگی کا رخ وہ نہیں ہے جو ایک سچے مومن بالآخرۃ کا ہونا چاہیے ۔ یہی وہ صورت حال ہے جس سے ہم سب کو نمٹنا پڑتا ہے۔ خدا کا انکار کرنے والے اور آخرت کو نہ ماننے والے کم ہی لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ زیادہ تر وہی لوگ ہمارے سامنے جو ایمان و اسلام کے مدعی ہی نہیں بلکہ اس پر فخر کرنے والے، لیکن اس ایمان باللہ اور ایمان بالآخرۃ کے باوجود ان کی زندگیاں خیر و صلاح سے خالی ہیں۔
ہمارے نزدیک اس کی سب سے بڑی وجہ آخرت فراموشی ہے اور ایسے لوگوں کے بارے میں اصلاح و تغیر کی کوئی کوشش اس وقت تک کار آمد ہو ہی نہیں سکتی جب تک کہ اس وجہ کو دور نہ کیا جائے۔
آخرت کو بھول جانا یا اعمال کے انجام کی طرف سے بے پروا ہوجانا دراصل ساری خرابیوں کی جڑ ہے۔ اس کی بدولت اللہ تعالیٰ کی نافرمانیاں ہوتی ہیں۔ یہی مرض انسان کو نفس کا غلام بنا دیتا ہے اور یہی سبب ہے انسان کی ہر قسم کی سرکشی اور فساد کا۔ اتنے اہم سبب کے بارے میں واضح طور پر یہ معلوم کرلینا ضروری ہے کہ یہ سبب کس طرح پیدا ہوتا ہے اور آخرت کو بھول جانے کی جڑ کیا ہے؟ جب تک یہ بات ذہنوں میں صفائی کے ساتھ موجود نہ ہوگی آپ کی اپنی اصلاح اور دوسرے انسانوں کی اصلاح کا جو پروگرام سامنے ہے اس میں کامیابی نہ ہوسکے گی۔
انسان توحید و رسالت کا انکار کرتا ہے کیونکہ اسے قیامت کے دن کا ڈر نہیں اور اس نے اسی زندگی کو آخری زندگی سمجھ لیا ہے۔
انسان اپنے خالق اور مالک کے حقوق ادا نہیں کرتا کیونکہ اسے یہ اندیشہ ہی نہیں ہے کہ ان حقوق کو ادا کرے جس کی وجہ سے اسے کچھ نقصان بھی بھگتنا پڑے گا۔
(ماخوذ: دین کی حفاظت، مسلم خواتین کے کرنے کا کام)
***
ہو سکتا ہے کہ آپ کو ایسے لوگوں سے بھی واسطہ پڑے جو خدا کے تو قائل ہوں لیکن آخرت کی زندگی اور عذاب و ثواب کا مذاق اڑاتے ہوں۔ جو لوگ خدا کے وجود کو مان لیں اور ان کو آخرت کی زندگی کے بارے میں اطمینان دلا دینا کچھ زیادہ مشکل نہیں ہے کیونکہ آخرت کا عقیدہ دراصل ایمان باللہ کے عقیدے کا ایک لازمی نتیجہ ہے
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 15 تا 21 نومبر، 2020