آئی یو ایم ایل نے جھارکھنڈ میں اسمبلی انتخابات کے لیے کیا امیدواروں کا اعلان، بے جی پے کو دھچکا، اے جے ایس یو نے چھوڑا ساتھ

نئی دہلی، نومبر 19 — کیرالہ میں مقیم انڈین یونین مسلم لیگ (IUML) نے بی جے پی کے زیر اقتدار جھارکھنڈ میں ایک بار پھر اسمبلی انتخابات لڑنے کا اعلان کیا ہے۔ بی جے پی کی انتخابی اتحادی آل جھارکھنڈ اسٹوڈنٹ یونین (AJSU) نے بھگوا اتحاد چھوڑ دیا ہے اور وہ خود ہی مقابلہ کررہی ہے۔

پہلی مرتبہ 2014 میں جھارکھنڈ اسمبلی انتخابات میں آئی یو ایم ایل نے اپنے امیدوار کھڑے کیے تھے۔ تاہم وہ کسی بھی نشست پر کامیابی حاصل کرنے میں ناکام رہی تھی۔

پارٹی کے کیرالا سے لوک سبھا کے رکن پارلیمنٹ  محمد بشیر نے انڈیا ٹومورو کو بتایا کہ ان کی پارٹی جھارکھنڈ میں ایک بار پھر علاقائی جماعتوں جھارکھنڈ پارٹی، بہوجن مکتی پارٹی اور راشٹریہ سمن دل پارٹی کے ساتھ اتحاد میں اسمبلی انتخابات لڑ رہی ہے۔

آئی ایم یو ایل نے جن امیدواروں کو میدان میں اتارا ہے وہ جمشید پور اسمبلی حلقہ سے منظر خان، منڈو سے عبدالقیوم انصاری، گریڈیہ سے مرشد عالم، گانڈے سے ایم ڈی سید عالم، ہٹیا سے عبدالاظہر قاسمی اور رانچی سے شہزادی خاتون شامل ہیں۔

ریاست میں انتخابات پانچ مرحلوں میں ہو رہے ہیں۔ پہلے مرحلے کے لیے ووٹنگ 30 نومبر، دوسرا مرحلہ 7 دسمبر کو، تیسرا مرحلہ 12 دسمبر کو، چوتھا مرحلہ 16 دسمبر کو اور 20 دسمبر 2019 کو پانچویں مرحلے کے لیے ووٹنگ ہوگی۔ ووٹوں کی گنتی 23 دسمبر کو ہوگی۔

بشیر نے کہا کہ یہ پہلے اسمبلی انتخابات نہیں ہیں جب آئی ایم یو ایل کیرالہ سے باہر لڑ رہی ہے۔ 1960 اور 70 کی دہائی میں پارٹی نے مغربی بنگال میں اسمبلی انتخابات لڑے تھے اور حکومت سازی میں فعال کردار ادا کیا تھا۔ اس کے ایم ایل اے حسن عثمان مغربی بنگال میں وزیر صنعت تھے۔ 1970 کی دہائی میں مہاراشٹر میں آئی ایم یو ایل کے دو ایم ایل اے تھے۔ اس وقت ، کیرالہ کے علاوہ  تمل ناڈو میں IUML کے ایک ایم ایل اے ابوبکر ہیں۔

جھارکھنڈ میں اسمبلی انتخابات لڑنے کی وجوہات کے بارے میں پوچھے جانے پر بشیر نے کہا کہ پارٹی نے ملک کی سیاسی صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے کیرالہ کے علاوہ دیگر ریاستوں میں بھی سیاست میں فعال کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا "سیکولر رائے دہندگان کو تقسیم کرنے کا کوئی معاملہ نہیں ہے۔ ملک میں کثیر الجماعتی نظام موجود ہے۔ متعدد سیاسی جماعتیں انتخابات میں اپنے امیدوار کھڑا کرتی ہیں۔ ان میں سے کچھ جیت اور کچھ ہار جاتی ہے۔”

پارٹی کے قومی سکریٹری خرم عمر نے کہا "جھارکھنڈ میں پارٹی ووٹروں کی ذہنیت کی جانچ کے بعد دوسری بار اسمبلی انتخابات لڑ رہی ہے۔ اس نے 2014 میں پہلی بار جھارکھنڈ میں اسمبلی انتخابات لڑا تھا۔ اس نے پہلے ہی پنچایت اور بلدیاتی انتخابات میں حصہ لیا ہے جہاں اس نے پنچایت وارڈوں کی چھ نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔”

عمر کو امید ہے کہ پارٹی اس بار تین یا چار سیٹیں جیت پائے گی کیونکہ بی جے پی ایک کمزور پوزیشن میں ہے کیونکہ لوک جن شکتی پارٹی (ایل جے پی) اور آل جھارکھنڈ اسٹوڈنٹ یونین (اے جے ایس یو) پارٹی جیسی علاقائی جماعتوں نے بھگوا پارٹی کے ساتھ اپنا انتخابی اتحاد چھوڑ کر آزادانہ طور پرمقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

AJSU کے سودیش کمار مہتو نے انڈیا ٹومورو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کی پارٹی نے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد مشترکہ کم سے کم پروگرام (سی ایم پی) کے ساتھ ساتھ انتخابی اتحاد کے حصے کے طور پر AJSU کے لیے 17 نشستوں پر عمل درآمد کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا ’’لیکن بی جے پی قیادت دونوں مطالبات میں سے کسی پر راضی نہیں ہوئی۔‘‘

مہتو نے کہا کہ سی ایم پی کی ضرورت ہے کیونکہ ان کی پارٹی کو عوام سے کیے گئے کچھ وعدوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے احتجاج شروع کرنا اور سڑکوں پر نکلنا تھا۔ اگر کسی سی ایم پی پر اتفاق ہوا تو پھر کوئی الجھن نہیں ہوگی اور حکومت ان پر عمل درآمد کی پابند ہوگی۔ لیکن جب انتخابات سے پہلے اس طرح کا کوئی مشترکہ ایجنڈا منظور نہیں کیا جاتا ہے، وزیر اعلی کے عہدے پر فائز اتحاد میں غالب جماعت چھوٹی جماعتوں کے مفاد کو نظرانداز کرتی ہے۔ ‘‘

مہتو نے اتحاد ٹوٹنے کے وجوہات بتاتے ہوئے کہا "ہمارا انتخابی اتحاد ٹوٹ گیا جب بی جے پی قائدین نے ہمارے مطالبات کو قبول نہیں کیا۔” انہوں نے مزید کہا کہ اے جے ایس یو نے سال 2000 میں بہار کی تنظیم نو کے بعد ریاست کے وجود میں آنے کے بعد سے بی جے پی کے ساتھ اتحاد میں تمام انتخابات لڑے تھے۔

2014 کے اسمبلی انتخابات میں اے جے ایس یو نے 8 نشستوں پر مقابلہ کیا تھا اور پانچ میں کامیابی حاصل کی تھی جبکہ بی جے پی نے 72 میں سے 37 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ جھارکھنڈ اسمبلی میں کل 81 نشستیں ہیں۔

ایل جے پی، جو مرکز میں این ڈی اے اتحاد کا حصہ ہے اور اس کے سپریمو رام ولاس پاسوان نریندر مودی حکومت میں وزیر ہیں وہ بھی آزادانہ طور پر لڑ رہے ہیں اور انہوں نے کل 50 امیدوار کھڑا کرنے کا اعلان کیا ہے۔ 2014 میں بھی ایل جے پی نے جھارکھنڈ میں اپنے طور پر انتخاب لڑا تھا لیکن وہ ایک سیٹ بھی نہیں جیت سکی۔

دوسری طرف کانگریس، جھارکھنڈ مکتی مورچہ (جے ایم ایم) اور لالو پرساد یادو کی راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) کے ساتھ اتحاد میں انتخابات لڑ رہی ہے۔ جبکہ سابق وزیر اعلی ہیمنت سورین اتحاد کے وزیر اعلی کے چہرے کے طور پر ہیں۔

(بشکریہ انڈیا ٹومورو)