آئین مخالف قوانین فوری واپس لیے جائیں: جماعت اسلامی ہند
زرعی قوانین کی واپسی کا استقبال۔اقلیتوں کے خلاف نفرت انتخابات جیتنے کا مؤثر ذریعہ
نئی دلی (دعوت نیوز نیٹ ورک)
ملک کے اہم تعلیمی وملی مسائل پر جماعت اسلامی ہند کی پریس کانفرنس میں مرکزی قائدین کی دو ٹوک گفتگو
یہ ہماری جمہوریت اور ملک کے کسانوں کی بہت بڑی کامیابی ہے کہ متنازعہ زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کے سال بھر کے احتجاج کے بعد حکومت نے قوانین واپس لینے کا فیصلہ کیا۔ جماعت اسلامی ہند اس فیصلہ کا استقبال کرتی ہے۔ مرکز جماعت اسلامی ہند نئی دلی میں پریس کانفرنس کے دوران نائب امیر جماعت پروفیسر سلیم انجینئر نے یہ بات کہی۔ انہوں نے کہا کہ قوانین کی واپسی میں ان لوگوں کی بھی کامیابی ہے جنہوں نے عوام مخالف، غریب مخالف اور کسان مخالف قوانین کے خلاف احتجاج میں کسانوں کا ساتھ دیا۔ نائب امیر جماعت نےکہا کہ ہم حکومت سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ دوسرے عوام مخالف اور آئین مخالف قوانین جیسے سی اے اے، این آر سی وغیرہ کو بھی فوری واپس لے۔ سی اے اے، این آر سی کا یہ بل جمہوری ملک ہندوستان کے اس بنیادی تصور کے مغائر ہے جس کا تصور ہمارے آئین کے بانیوں نے دیا تھا۔ یہ بل فرقہ وارانہ نفرت کو جنم دیتا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ ہندوستان کے عوام اس طرح کی تقسیم کی سیاست کو قبول نہیں کریں گے۔
پریس کانفرنس میں زرعی قوانین کی واپسی کے پس منظر میں اس بات پر افسوس کا اظہار کیا گیا کہ اس غیر منصفانہ قوانین کے خلاف لڑنے والے کسانوں کو بھاری قیمت چکانی پڑی اور سیکڑوں کسانوں کو اپنی جانیں گنوانی پڑی۔ ہم مرنے والوں کو خراج پیش کرتے ہیں اور ان کے لیے مناسب معاوضے کا بھی مطالبہ کرتے ہیں۔ نیز کالعدم قرار دیے جانے والے تین قوانین کے علاوہ کسانوں کا ایک دیرینہ مطالبہ ایم ایس پی (فصلوں کی کم از کم قیمت) کا بھی ہے، اس مطالبے کو بھی حکومت جلد از جلد قبول کرلے۔
پریس کانفرنس میں کہا گیا کہ اگر ان قوانین کو پہلے ہی منسوخ کر دیا جاتا تو نقصانات سے بچا جا سکتا تھا۔ اس احتجاج میں حکومت کی بے حسی بھی ظاہر ہو گئی جس نے تحریک کو کچلنے کے لیے بے جا طاقت اور ہمہ اقسام طریقوں کا استعمال کیا تھا۔
اقلیتوں کی عبادت گاہوں کے سلسلے میں بڑھتا ہوا نفرت کا ماحول
جماعت اسلامی ہند نے ریاست ہریانہ کے گروگرام میں نماز جمعہ کی ادائیگی کی مخالفت کرنے والے کچھ منظم گروہوں کی حالیہ کوششوں پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں کو یہ مسئلہ دراصل اس لیے درپیش ہے کہ 1947ء میں تقسیم ہند کے دوران اس علاقے کی تقریباً انیس چھوٹی وبڑی مساجد پر بعض افراد نے غیر قانونی قبضے کرلیے ہیں جس کے نتیجے میں مسلمان ان قانونی مساجد میں نماز ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ ان مساجد کی باز آبادکاری میں ہریانہ وقف بورڈ ابھی تک ناکام رہا۔ اس کی ایک وجہ حکومت کا عدم تعاون بھی ہے۔ دوم نئی آباد ہونے والی کالونیوں میں حکومت نے مسجدوں کے لیے کوئی خطہ اراضی منظور نہیں کیا جبکہ یہ شہری ترقی کے قوانین میں شامل ہے۔ چنانچہ مسلمان مجبوراً جمعہ کی نماز ٹریفک یا زندگی کے دیگر معمولات میں مداخلت و رخنہ ڈالے بغیر سرکاری کھلے پارکوں میں ادا کر رہے ہیں۔ خیال رہے کہ جماعت اسلامی ہند کے ایک وفد نے حالیہ دنوں گروگرام کا دورہ کیا تھا اور مسئلہ کے پائیدار حل کے لیے ان لوگوں سے ملاقات بھی کی تھی جو پارکوں میں نماز ادا کرنے کی مخالفت کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ وفد نے گردوارے کے ذمہ داروں سے بھی ملاقات کی جنہوں نے گردوارے میں نماز کی ادائیگی کی پیشکش کی تھی۔ اسی طرح ان غیر مسلم بھائیوں سے بھی ملاقات کی جنہوں نے اپنے شیڈس اور پلاٹس کو نماز کی ادائیگی کے لیے پیش کیا تھا۔ صورت حال کا جائزہ لینے کے بعد جماعت اسلامی ہند نے یہ محسوس کیا ہے کہ چند اشرار نماز جمعہ کی مخالفت کے ذریعہ فرقہ وارانہ منافرت کو ہوا دے کر سیاسی مفاد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ جماعت اسلامی ہند نے واضح کیا کہ حالیہ دنوں میں مذہبی نفرت الیکشن جیتنے کا آسان اور مؤثر نسخہ بن گیا ہے۔ جماعت اسلامی ہند نے حکومت ہریانہ سے قانون ہاتھ میں لینے والوں کے خلاف سخت کارروائی کرنے اور مسئلے کا جلد از جلد اور دیرپا حل نکالنے پر زور دیا۔
پریاگ راج میں دلت خاندان کا بے رحمانہ قتل
پریس کانفرنس میں جماعت اسلامی ہند نے پریاگ راج میں ایک دلت خاندان، والدین، ان کے بیٹے اور ایک بیٹی کے حالیہ قتل کی مذمت کی ہے۔ جماعت نے اس بات پر بھی تشویش ظاہر کی کہ بیٹی کو قتل کرنے سے پہلے مبینہ طور پر اس نابالغ لڑکی کی عصمت دری کی گئی تھی۔ ابتدائی ایف آئی آر میں اعلیٰ ذات کی برادری سے تعلق رکھنے والے گیارہ افراد کو آئی پی سی کی مختلف دفعات اور ایس سی / ایس ٹی ایکٹ کے تحت کلیدی ملزم کے طور پر نامزد کیا گیا تھا مگر بعد میں پولیس نے اعلیٰ ذات کے تمام مبینہ ملزمین کو چھوڑ دیا اور ایک دلت نوجوان پر جرم کا الزام عائد کر دیا۔ جماعت اسلامی ہندنے اس پر اپنا رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ یہ قتل ریاست میں پولیس اور حکومت کی غیر فعالی کا غماز ہے اور پریاگ راج کا یہ سانحہ ریاست اتر پردیش میں عصمت دری، قتل، حراست میں قتل، فرضی انکاؤنٹر اور اقلیتوں اور دلتوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم کے متعدد واقعات میں ایک بھیانک اضافہ ہے۔
این سی پی سی آر رپورٹ
گزشتہ دنوں حکومت ہند کی وزارت خواتین وخاندانی بہبود کے تحت قائم این سی پی سی آر (نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس) کی رپورٹ میں مدارس اسلامیہ اور اس کے نصاب پر شدید نکتہ چینی کرنے پر جماعت نے سخت تشویش ظاہر کی۔ رپورٹ میں اقلیتی بچوں میں تعلیم کی کمی کا قصوروار مدارس کو قرار دیا گیا ہے۔ مرکزی تعلیمی بورڈ، جماعت اسلامی ہند یہ محسوس کرتا ہے کہ این سی پی سی آر حکومت کے تعلیمی محکمے کا جائزہ لینے سے قاصر رہا۔ کیا اقلیتی طلباء میں خواندگی کی کم شرح صرف مدارس ہیں جبکہ مدارس شرح خواندگی کو بڑھانے کا ایک ذریعہ ہیں؟ حکومت نے ایک جانب اس کا تو جائزہ لیا ہے لیکن اس نے ان مدارس کا جائزہ لینے سے گریز کیا ہے اور آنکھیں بند کرلیں جہاں بڑی تعداد میں اقلیتی طلباء زیر تعلیم ہیں۔ ایسے سرکاری مدارس میں اساتذہ کی تعداد بھی مطلوب سے کم ہے اور دیگر سہولیات بھی بڑی حد تک ابتر حالت میں ہیں۔ اس کے علاوہ ’سرو شکشا ابھیان‘ کی مہم نے اقلیتی بچوں کی خواندگی بڑھانے میں کیوں موثر رول ادا نہیں کیا؟ جماعت اسلامی ہند نے این سی پی سی آر کی رپورٹ کے بعد حکومت ہند سے اس رپورٹ کا از سر نو جائزہ لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ پریس کانفرنس میں یہ بھی واضح کیا کہ مرکزی تعلیمی بورڈ، رپورٹ کے مزید جائزے کے لیے ذمہ دارانِ مدارس اور اقلیتوں کے ماہرینِ تعلیم سے مشورہ کرے گا۔
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 12 تا 18 دسمبر 2021