آئین جواں مرداں حق گوئی وبے باکی
پروفیسر محسن عثمانی ندوی
اسلامی تاریخ میں حق گوئی، بے خوفی، جرأت اور بہادری کے بے شمار واقعات ہیں۔ لوگوں نے باجبروت بادشاہوں کے خلاف حق گوئی اور بے باکی کا مظاہرہ کیا ہے۔
عبداللہ سفاح عباسی نے بنو امیہ کی لاشوں پر بنو عباس کی سلطنت قائم کی۔ اس نے 38 ہزار آدمیوں کا قتل کیا۔ اس نے تخت پر بیٹھنے کے بعد سوال کیا کہ کیا پوری سلطنت میں کوئی شخص ایسا ہے جو میرے طرز عمل کا ناقد اور مخالف ہو؟ جواب ملا، ہاں! ایک شخصیت امام اوزاعی کی ہے جو برملا آپ کو بُرا کہتے ہیں، اس نے حکم دیا کہ انہیں حاضر کیا جائے۔ خلیفہ کے حکم پر امام اوزاعی کو دربار میں پیش کیا گیا۔ امام اوزاعی نے دربار میں حاضر ہونے سے پہلے شہادت کی تیاری کی، غسل کیا اور کفن کے کپڑے پہن لیے اور اس کے اوپر اپنا لباس پہن کر دربار میں حاضر ہوئے۔ عبداللہ عباس نے امام اوزاعی کو خوفزدہ کرنے کے لیے دونوں جانب جلادوں کو ننگی تلوار لے کر کھڑے ہو جانے کا حکم دیا۔ امام اوزاعی باوقار طریقے سے دربار میں داخل ہوئے۔ انہوں نے بعد میں یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ دربار میں داخل ہوتے وقت میرے تصور میں اللہ تعالیٰ کا عرش تھا اور اس کی کبریائی تھی۔ مجھے خلیفہ ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی مکھی حقیر وذلیل بیٹھی ہوئی ہو۔ خلیفہ نے پوچھا: تم ہی اوزاعی ہو؟ امام اوزاعی نے جواب دیا لوگ مجھے اوزاعی کہتے ہیں۔ امام اوزاعی کے تیور دیکھ کر خلیفہ کو غصہ آگیا اور پوچھا: میں نے ہزاروں ظالم وجابر بنو امیہ کا خاتمہ کر دیا، تمہارا میرے اس عمل کے بارے میں کیا خیال ہے؟
’’جناب امیر! رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: انما الأعمال بالنیات یعنی تمام اعمال کا دار ومدار نیت پر ہے‘‘
امام اوزاعی کا جواب سن کر خلیفہ غضبناک ہو گیا اور بولا: صاف صاف بتاؤ، میں نے ہزاروں انسانوں کا خون بہایا ہے، تمہاری اس بارے میں کیا رائے ہے؟
امام اوزاعی نے جو جواب دیا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ خلیفہ کا یہ عمل غیر اسلامی ہے۔ امام اوزاعی کی زبان پر مسلسل یہ الفاظ تھے حسبي اللہ لا الہ إلا ہو علیہ توکلت وہو رب العرش العظیم۔ خلیفہ پر عجیب کیفیت طاری ہوئی۔ اس نے درہم ودینار سے بھری ہوئی تھیلی ان کی طرف اچھال دی اور کہا کہ یہ لو اور دفع ہو جاؤ۔ امام اوزاعی نے پوری تھیلی اہل دربار کے سامنے انڈیل دی اور کشیدہ قامت، بلند سر، عزت کے ساتھ دربار سے چلے گئے۔ سبق یہ ہے کہ اہل ایمان کبھی موت سے نہیں ڈرتے اور حاکم کے خلاف آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکتے ہیں اور ان میں اتنی جرأت ہوتی ہے کہ حاکم کے ظلم کو ظلم کہہ سکیں۔
دوسرا واقعہ شیخ سعید حلبی کا ہے۔ ان کا زمانہ بہت پرانا نہیں ہے۔ یہ عرب حاکم ابراہیم پاشا کے زمانے کی بات ہے۔ ابراہیم پاشا ترکی کے خلیفہ سلیمان اعظم کا وزیر تھا اور بڑے جاہ وجلال کا مالک تھا۔ سلیمان اعظم نے ملک شام کی عمل داری ان کے سپرد کی، جب وہ شام آیا تو وہاں کے تمام اہل وجاہت اور علماء ابراہیم پاشا کے دربار میں آئے اور اپنی وفاداری کا اظہار کیا۔ اگر کوئی شخص نہیں آتا اور دست بوسی نہیں کرتا تو اسے مخالف وباغی سمجھا جاتا اور اسے سزا دی جاتی۔ ابراہیم پاشا نے اپنے ماتحتوں سے پوچھا کہ کیا ملک میں کوئی قابل ذکر شخص ایسا ہے جو دربار میں حاضر نہ ہوا ہو؟ لوگوں نے کہا: حلب کے فلاں محلہ میں ایک بزرگ ہیں۔ ابراہیم پاشا نے طے کیا کہ وہ خود ان کے پاس جائے گا، لوگ ڈر رہے تھے کہ آج حلب کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جائے گی، لوگ بہت خوفزدہ تھے۔ ابراہیم پاشا حلب آیا اور سعید حلبی سے ملنے کے لیے ان کی مسجد میں داخل ہوا۔ سعید حلبی لوگوں کے سامنے اللہ تعالیٰ کی کبریائی کے موضوع پر تقریر کر رہے تھے۔ ابراہیم پاشا محفل میں شریک ہوا تو شیخ سعید حلبی نے اپنا پیر حاکم کی طرف پھیلا دیا۔ ابراہیم پاشا پر شیخ کی تقریر کا بہت اثر ہوا اور اس کے بعد وہ واپس ہوا اور گھر جا کر اس نے سونے کی اشرفیوں کی ایک بڑی تھیلی ایک شخص کے ذریعہ شیخ سعید حلبی کے پاس بھیجی۔ شیخ نے یہ کہہ کر دیناروں کی تھیلی واپس کر دی کہ کہہ دو ’’جو شخص پیر پھیلاتا ہے وہ ہاتھ نہیں پھیلایا کرتا۔‘‘
ہمارے اسلاف میں علماء نے حاکموں کو ظلم وناانصافی کی ڈگر پر چلنے سے روکنے کی کوشش کی۔ امام ابو یوسف کے زمانے میں ہارون رشید بڑے جاہ وجلال کا خلیفہ تھا۔ امام ابو یوسف نے اس کو نصیحت کی کہ ’’امیر المؤمنین! آپ ہمیشہ حق کا ساتھ دیں اور صرف اللہ کی خوشنودی کو مطلوب بنائیں، ظلم نہ کریں اور اپنی رعایا سے غافل نہ ہوں۔ اللہ بھی آپ سے غافل نہیں ہوگا۔‘‘ تاریخ میں علمائے سلف نے جس صاف گوئی وبے باکی سے حکمرانوں پر تنقید کی افسوس کہ اب اس کی مثال بہت کم ہوتی جا رہی ہے اور لوگ ظالم حاکم کے خوف سے خاموشی اختیار کرتے ہیں یا حاکم کا ساتھ دیتے ہیں۔
ہشام بن عبدالملک کے زمانے میں ایک بزرگ تابعی تھے، جن کا نام طاؤس یمانی تھا۔ وہ ہشام بن عبدالملک کے دربار میں پہنچ کر خلیفہ کو نصیحتیں کیا کرتے تھے۔ ایک بار انہوں نے خلیفہ سے کہا میں نے امیر المؤمنین حضرت علیؓ سے سنا ہے کہ جہنم میں پہاڑ کی چوٹیوں کی مانند سانپ ہوں گے اور گدھے کے برابر بچھو ہوں گے جو ایسے حکمرانوں کے ڈسنے پر مامور ہوں گے جنہوں نے رعایا کے ساتھ انصاف نہیں کیا ہوگا۔ یہ وہ علماء تھے جو بادشاہوں کو ظلم سے روکا کرتے تھے۔
امام مالک ابن انس کو کون نہیں جانتا ہے؟ انہوں نے حاکم وقت کی جبریہ بیعت کی مخالفت کی اور یہ کہا کہ جبریہ بیعت کو توڑا جا سکتا ہے۔ انہوں نے مثال دے کر کہا کہ کوئی شخص اگر کسی کو اپنی بیوی کو طلاق دینے پر مجبور کر دے تو ایسی طلاق کا شرعاً اعتبار نہیں ہو گا۔ انہوں نے اپنے فتوے کی تشہیر کی جس سے اقتدار وقت کو خوف پیدا ہو گیا۔ اس لیے کہ ایک بہت بڑے گروہ کو مجبوراً بیعت کرنی پڑی تھی۔ حکومت نے اپنے زمانے میں پوری کوشش کی تھی کہ امام مالک یہ فتویٰ نہ دیں لیکن وہ نہ مانے، انہیں دھمکایا گیا اور پھر ان پر کوڑے برسائے گئے، جس وقت ان پر کوڑے برسائے جاتے تھے تو وہ یہ کہتے جاتے تھے کہ میں مالک ابن انس ہوں اور یہ کہتا ہوں کہ زبردستی کی طلاق واقع نہیں ہوتی۔
ہمارے یہ اسلاف تھے جنہوں نے مطلق العنان ملوکیت اور استبدادی نظام کے اندر رہ کر بے باکی وحق گوئی کا نمونہ پیش کیا، ایسے جرأت مند علماء بنو امیہ کی حکومت کے زمانے میں بھی تھے اور بنو عباس کی حکومت کے زمانے میں بھی رہے۔اب وہ زمانہ آگیا ہے کہ علماء جق بات کہنے سے گریز کرتے ہیں۔
عباسی خلیفہ مامون رشید کے زمانے میں مذہب اعتزال کو غلبہ حاصل ہو گیا تھا اور بادشاہ بھی ان کے زیراثر ہو گئے تھے اور یہ کہنے لگے تھے کہ قرآن اللہ کی مخلوق ہے۔ عوام امام احمد ابن حنبل سے بہت محبت کرتے تھے اور ان کی عزت کرتے تھے۔ حکومت کے مقابلہ میں لوگ املم احمد بن حنبل کی بات مانتے تھے۔ یہاں تک کہ عوامی جلسوں میں حکومت کے موقف کا مذاق اڑایا جانے لگا، یعنی عوام یہ کہنے لگے کہ اگر قرآن اللہ کی مخلوق ہے تو ہر مخلوق کی طرح ایک نہ ایک اس کا بھی انتقال بھی ضرور ہو گا پھر آخر ہم تراویح کیسے پڑھیں گے؟ امام احمد ابن حنبل نے خلقِ قرآن کے فتنے کا مقابلہ کیا نتیجہ میں ان کو 28 مہینے جیل میں گزارنے پڑے اور ان کے جسم پر کوڑوں کے نشانات تھے۔
افسوس ہے کہ آج کے دور میں علماء حق بات کہنے کی جرأت نہیں کرتے ہیں اور حکومت کی طرف سے چاہے کتنا ہی بڑا ظلم ہو وہ حکومت کے ظلم کو ظلم کہنے کے لیے اور جرأت مندی کا بیان دینے کے لیے اور انصاف کی بات کہنے کے لیے تیار نہیں ہوتے ہیں۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ خاموشی سے ظالم کی مدد ہوتی ہے، خاموشی اختیار کرنا گویا مظلوم کو بے سہارا چھوڑ دینا ہے۔
***
***
قوموں کی زندگی میں بعض اوقات سخت آزمائشیں آتی ہیں حکومتیں ان کو کچلنے کی کوشش کرتی ہیں۔ اس وقت آزمائش ہوتی ہے علماء کی، ارباب دانش وبینش کی۔ اگر انہوں نے اتحاد ویگانگت کا مظاہرہ کیا تو یہ اتحاد ظلم کے خلاف ڈھال بن جاتا ہے لیکن اگر انہوں نے کوئی مدافعت نہیں کی اور کسی خوف سے خموشی اختیار کی تو رفتہ رفتہ ہر گروہ ظلم کا شکار بنتا ہے اور قومیں صفحہ ہستی سے مٹا دی جاتی ہیں۔قوموں کے لیے ضروری ہے کہ علماء سوء کو پہچھان لیں اور ان کو قیادت کی زرکار کرسی پر جلوس افروز نہ ہونے دیں۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 9 اکتوبر تا 15 اکتوبر 2022