اُستادی خردؔ فیض آبادی

ایک گمنام شاعر کی داستان

عالم نقوی

خرد ؔ فیض آبادی غالب نہیں تھے کہ اُنہیں کوئی عبد الرحمن بجنوری مل جاتا نہ وہ اقبال تھے کہ اُنہیں کوئی خلیفہ عبد الحکیم میسر آتا۔ وہ فراق بھی نہیں تھے کہ کوئی اثرؔ لکھنوی اُن کے پیچھے پڑ جاتا اور یگانہ ؔ کی غالب شکنی سے غالبؔ کو اور اثر ؔ کی فراق شکنی سے فراق ؔ کو کسی نقصان کے بجائے جو فیض پہنچا اُس کا کچھ حصہ انہیں بھی مل جاتا! اُستاد خردؔ فیض آبادی والی آسیؔ سے کسی درجہ کم نہ تھے لیکن اُن کے کثیر التعداد شاگردوں میں کوئی ایک بھی منور رانا ؔجیسا رَجُلِ رَشید نہیں تھا کہ جو اپنے استاد کی شناخت بن جاتا۔ انہیں ملا بھی تو یہ نالائق و نااہل جہل مرکب عالم نقوی کہ قریب نصف صدی سے اخبار وجرائد کے صفحات سیاہ کر رہا ہے لیکن ایک بار توفیق نہ ہوئی کہ کبھی کچھ حقِ شاگردی ادا کرنے کی کوشش کرتا۔
انہیں ملے بھی تو ایک ایسے شاگرد ڈاکٹر پیکر جعفری کہ جن کے بارے میں استادِ مرحوم کے فرزند سید فخر الحسن زیدی پرویز نے بتایا کہ ’’پاپا کا ’سارا کلام ‘ وہ ان کے انتقال کے بعد یہ کہہ کر لے گئے تھے کہ شائع کروائیں گے ۔۔‘‘
لیکن کچھ پتہ نہیں چلتا کہ اس کا کیا حشر ہوا!اوپر ہم نے پرویز سلمہ کاقول نقل کیا ہے کہ ’’پاپا کا سارا کلام ‘‘! جب تک ہم آپ کو یہ نہ بتائیں کہ اس فقرہ صفاتیہ کی معنویت کیا ہے آپ اس نقصانِ عظیم کا اندازہ نہیں لگا سکتے۔
اس کا مطلب ہے دو درجن سے زائد ضخیم مجلد ڈائریاں جن میں نہایت نفیس خطِ نستعلیق میں خود استاد محترم مرحوم کے دست ہنر مند سے لکھی ہوئی غزلیں، سلام، نوحے، منقبتیں اور قصائد تھے جن کی مجموعی تعداد چار ہندسوں میں تھی! ان کے اولین مجموعہ غزلیات کا نام تھا ’جنونِ خِرَد‘ جس میں ان کے اوّل دورِ شعری (انیس سو چالیس تا پچپن ) تک کی غزلیں شامل تھیں۔ اس کے علاوہ ’فیضانِ خرد‘ اور ’عرفانِ خرد‘ وغیرہ مختلف ناموں کے مجموعوں میں کئی سو کی تعداد میں غزلوں، نظموں، سلاموں، نوحوں اور قصیدوں کے علاوہ غالب کی فارسی مثنوی ’دستنبو‘ کا مکمل منظوم، فصیح وشستہ اردو ترجمہ اور غالب کے پورے اردو دیوان کی سبھی دو سو بیس غزلوں کی تشطیر تھی۔
تشطیر یعنی کسی غزل کے پہلے مصرع پر دوسرا مصرع اور دوسرے مصرع پر پہلا مصرع۔ یعنی ہر شعر کے دونوں مصرعوں کے درمیان مزید دو مصرعوں کا اضافہ کر کے اسے قطعہ بنا دینا اور وہ بھی اس خوبی و پرکاری اور معنوی صناعی کے ساتھ کہ نہ صرف انہوں نے اپنی تشطیرِ غالب کو کلامِ غالب کی تفسیر بنادیا بلکہ بیشتر اشعار کو نئے معانی اور نئے مفاہیم عطا کردیے۔
یہ انیس سو انہتر کا آغاز تھا جب غالب صدی منائی جا رہی تھی انہوں نے دو سو بیس دنوں میں دیوان غالب کی تشطیر مکمل کرلی۔ پھر دستنبو کے منظوم ترجمے سمیت پوری تشطیر غالب اپنے زریں قلم سے لکھ کر اس وقت کے ہفت زبان صاحب علم گورنر اتر پردیش بی گوپال ریڈی کی خدمت میں (جو اردو، فارسی، تلگو، ہندی اور انگریزی سمیت کم از کم سات زبانوں کے ماہر تھے) اس امید کے ساتھ پیش کیا تھا کہ شاید اس طرح اس کی طباعت واشاعت کا کوئی نظم ہو جائے لیکن ۔۔
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ ۔۔!
ہم سمجھتے ہیں کہ ’’سارا کلام‘‘ کی معنویت اُس کی مبینہ گم شدگی اور اس نقصانِ عظیم کا حقیقی مفہوم اس تحریر کے قارئین اب بخوبی سمجھ گئے ہوں گے۔ عزیزی پرویز ہی نے بتایا کہ ۱۹۸۴ میں استاد کے انتقال سے قبل ڈاکٹر پیکر جعفری نے تشطیرِ غالب کا مسودہ ’انداز بیاں‘ اردو اکادمی لکھنو میں بغرضِ اشاعت پیش کیا تھا لیکن اشاعت کو کون کہے کہ اردو اکادمی کے ارباب حل وعقد کو اس کا مسودہ بھی واپس کرنے کی توفیق نہیں ہوئی۔ اپنی اس کتاب کا نام ’’انداز بیاں‘‘ خود استاد ہی کا رکھا ہوا ہے۔ اس کا مقدمہ جسٹس مرتضیٰ حسین (سابق لوک آیکت حکومت اتر پردیش) نے لکھا تھا جس کی نقل ہمارے پاس موجود ہے۔ وہ اپنے مقدمے میں لکھتے ہیں: ’’غالب کے کلام پر جو بلاشبہ غالب الکلام کہے جانے کا مستحق ہے تضمین کے لیے قلم اٹھانا خردؔ کے شاعرانہ حوصلوں کی بلندی کا ثبوت ہے ۔۔خرد کی تضمین بیک وقت کلام غالب کی تضمین بھی ہے اور تشریح بھی۔ شاید اسی خصوصیت کی بنا پر انہوں نے اس کا نام ’انداز بیاں‘ رکھا ہے مثال کے طور پر غالب کی پہلی غزل کو لیجیے اس کا پہلا شعر:
نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا
دیوان کا ابتدائی شعر ہونے کے باعث یہ حمد باری تعالیٰ ہے۔ غالب نے اس شعر میں خالق کائنات کی اس عجوبہ صناعی کا ذکر کیا ہے جس کے ذریعے اس نے مخلوق کی صورت میں حَسِین سے حَسِین تر نقاشیاں کی ہیں مگر ہر نقش عارضی اور فانی ہونے کے سبب کاغذی پیرہن کے مصداق ہے اور بارگاہ ایزدی میں اپنی عارضی حیات کا فریادی ہے۔ خرد ؔنے اپنی تضمین میں اس مفہوم کو یوں سمویا ہے:
نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا
اصل میں اعلان ہے ناکامی تدبیر کا
صرف مطلب موت ہے اس خواب کی تعبیر کا۔کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا
اس غزل کا دوسرا شعر شبِ فراق کی سختی سے متعلق ہے عاشق مہجور کے لیے رات کاٹنا اتنا سخت اور صبر آزما ہے جتنا فرہاد کے لیے کوہِ بے ستون کاٹ کر جوئے شیر نکالنا تھا۔ خرد نے اسے یوں آسان بنا دیا ہے:
کاوِ کاوِ سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ
یہ بھی اک گوشہ ہے میری شومی تقدیر کا
تجھ کو اس کی کیا خبر ہے اے مرے وعدہ شکن
صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا
تیسرے شعر میں شوق کے اس جذبہ بے اختیار کا ذکر ہے جس کے سبب تلوار کی باڑھ کے تکملہ شوق شہادت کو دمِ شمشیر کے سینہ شمشیر سے باہر نکل آنے سے تعبیر کیا گیا ہے۔
اس شعر کی تضمین دیکھیے:
جذبہ بے اختیار شوق دیکھا چاہیے
فصل گل آئی تو منھ خود کھل گیا زنجیر کا
یہ مری مظلومیت ہی کا اثر ہے دوستو۔
سینہ شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کا
چوتھا شعر بھی شارحین میں معرض بحث رہا ہے۔ شاعر آگہی یا سمجھنے کی قوت کے بارے میں کہتا ہے کہ وہ قوت چاہے جتنی کوشش کیوں نہ کر ڈالے اس کے مدَّعا اور تقریر کے مقصد کو نہ سمجھ پائے گی۔ خرد نے اس شعر کو یوں پیش کیا ہے :
آگہی دامِ شنیدن جس قدر چاہے بچھائے
راز کھل سکتا نہیں لیکن کبھی تقدیر کا
اُن پہ میری گفتگو کا کچھ اثر ہوتا نہیں
مدعا عنقا ہے اپنے عالم تقریر کا
غزل کے مقطع میں غالب نے عاشق کے گرفتار سلاسل ہونے کے بعد کی تلملاہٹ کو آگ پر پاوں رکھے جانے کی اذیت کے مانند بتایا ہے اور زنجیر کے ہر حلقے کو اس بال سے تشبیہ دی ہے جو آگ دکھانے سے اینٹھ جاتا ہے اور اپنی شکل بدل دیتا ہے ۔خرد نے اس کو اپنے عنوان سے اس طرح نظم کیا ہے :
بسکہ ہوں غالب ؔاسیری میں بھی آتش زیر پا ۔۔دوسرا رخ ہے یہ میری آہِ بے تاثیر کا
یہ جلا ڈالے نہ میری طرح اوروں کو خرد ؔ
موئے آتش دیدہ ہے حلقہ مری زنجیر کا
تمام تضمینوں میں خردؔ نے اس بات کا لحاظ رکھا ہے کہ اُن کی جدّتِ طبع کے ساتھ غالب کے خیالات کی وضاحت ہوتی رہے ۔مثلاً :
عرض کیجے جوہر اندیشہ کی گرمی کہاں
سامنے اس کے سمندر بھی جو آیا جل گیا
اللہ اللہ آتش عشق ومحبت کی تپش
کچھ خیال آیا تھا وحشت کا کہ صحرا جل گیا
ادائے خاص سے غالبؔ ہوا ہے نکتہ سرا
ہے اب جو دعوت فکرو نظر جہاں کے لیے
یہ اجتہاد تمہارا خردؔ یقیں جانو
صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لیے
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اپنی تضمین میں تشریحی عنصر شامل کر کے خردؔ نے ایک قابل قدر کام کیا ہے۔ اُن کی یہ اجتہادی سعی غالبیات میں ایک ایسا قابل قدر اضافہ ہے جسے سخنوروں اور سخن فہموں کی بارگاہ میں یقیناً شرف قبولیت حاصل ہوگا ۔‘‘
لیکن افسوس کہ استادی خرد فیض آبادی کے نصیب میں یہ شرف نہیں تھا کہ ’’انداز بیاں‘‘ کی اشاعت عمل میں نہیں آسکی اور یو پی اردو اکادمی کے سرکاری ملازموں کی جہالت اور کرپشن کی نذر ہوگئی کہ اگر وہ کتاب ان کے نام نہاد ’معیار‘ کے مطابق اور اشاعت کے لائق نہیں بھی تھی تو واپس کر دینے کے شریفانہ عمل کے بجائے نذر ۔۔۔۔۔۔ کر دی گئی۔
***

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اپنی تضمین میں تشریحی عنصر شامل کر کے خردؔ نے ایک قابل قدر کام کیا ہے۔ اُن کی یہ اجتہادی سعی غالبیات میں ایک ایسا قابل قدر اضافہ ہے جسے سخنوروں اور سخن فہموں کی بارگاہ میں یقیناً شرف قبولیت حاصل ہوگا ۔‘‘