اولاد کے حقوق اور والدین کے فرائض
بچپن سے ہی اسلامی ذہن بنائیں۔اچھی تعلیم وتربیت سے بہتر کوئی تحفہ نہیں
صلاح الدین شبیر، گیا
والدین کے حقوق کے سلسلے میں مسلم سماج میں عام طور پر واقفیت پائی جاتی ہے اور ان کی پامالی کو برا بھی سمجھا جاتا ہے، بھلے ہی بہت سے خاندانوں میں واقفیت کے باوجود عملاً کوتاہی پائی جاتی ہے جو بعض اوقات ظلم و زیادتی کی شکل بھی اختیار کر جاتی ہے لیکن اولاد کے حقوق کے سلسلے میں عموماً سماج میں صحیح فہم و شعور کا فقدان ہے اور غلط تصورات کے ساتھ اولاد کے یک رخے حقوق کی ادائیگی کا چلن ہے۔ ان غلط تصورات کے ساتھ جو فرائض ادا کیے جاتے ہیں وہ یا تو اسلامی تعلیمات سے نا واقفیت کا نتیجہ ہوتے ہیں یا دنیا پرستی کا شاخسانہ ہوتے ہیں۔ اس لیے خاندانی سطح پر اسلام کی فیض رسانی کے لیے ایک طرف تو مسلم معاشرے میں والدین کے حقوق کی ادائیگی کے لیے اولاد میں تفصیلات کی جانکاری کی بجائے عمل آوری کا جذبہ بیدار کرنا اصل کام ہے اور ان کی پامالیوں کے دنیوی و اخروی نتائج کی ہولناکی کا احساس بیدار کرنا ضروری ہے۔ دوسری طرف اولاد کے حقوق کی ادائیگی کے لیے والدین میں عمل آوری کا جذبہ بیدار کرنے سے زیادہ ان کے حقوق کی صحیح جانکاری عام کرنا اصل کام ہے۔
اسلامی نقطۂ نظر سے اولاد کے کیا حقوق ہیں جن کی ادائیگی کے سلسلے میں والدین کو ترجیحی لحاظ سے توجہ دینی چاہیے اور جن کے بارے میں اخروی جواب دہی کا احساس سب سے زیادہ ہونا چاہیے؟ دنیا پرستانہ ذہنیت کی وجہ سے عام طور پر والدین اپنی سکت سے بڑھ کر اپنے بچوں کی مادی ضروریات، جدید تعلیم اور کیریر سازی کے لیے دن رات سرگرداں نظر آتے ہیں۔ ان پہلوؤں سے بچوں کے لیے فکر مندی اور اعتدال کے ساتھ عملی کوششیں اولاد کے حقوق کی ادائیگی کا صرف ایک پہلو ہیں۔ والدین کی دنیا پرستانہ ذہنیت اس اچھے کام کو بھی خاک آلود کر دیتی ہے اور اولاد کے اندر بھی اسی ذہنیت کی نشو و نما کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ اس یک رخی توجہ کے نتیجے میں اولاد کے دیگر اہم ترین حقوق یا تو بالکلیہ نظر انداز ہو جاتے ہیں یا بے شعوری کے ساتھ محض خاندانی روایات کی پیروی بن جاتے ہیں جن میں وہ روح پائی ہی نہیں جاتی جو اسلامی نقطہ نظر سے مطلوب ہے۔ جہاں تک اسلامی نقطۂ نظر سے ان حقوق کی حقیقت اور اہمیت کے کا تعلق ہے تو اکثر والدین کی زندگی بے خبری کی حالت میں ہی گزر جاتی ہے۔ مسلم خاندانوں کو اس بے خبری اور بے توجہی کی جو بھاری قیمت چکانی پڑتی ہے اس کا مشاہدہ اپنے ارد گرد کے بہت سارے مسلم خاندانوں میں آئے روز کیا جا سکتا ہے لیکن والدین اس کی اصل وجہ سے عموماً غافل ہی نظر آتے ہیں اور سمجھ ہی نہیں پاتے کہ آخر خطا ہوئی تو کب اور کیسے؟
اسلامی نقطۂ نظر سے اولاد کے درج ذیل حقوق میں سے کچھ کی واقفیت تو بلاشبہ اکثر مسلم خاندانوں میں پائی جاتی ہے لیکن ان کی حکمت و اہمیت سے غفلت کے ساتھ کچھ حقوق کے سلسلے میں سرے سے واقفیت ہی نہیں پائی جاتی اور کچھ حقوق ایسے ہیں جن پر دنیا پرستانہ مفادات حاوی ہو جاتے ہیں۔
(۱) زندہ رہنے کا حق: اولاد کا سب سے پہلا حق یہی ہے کہ اسے زندہ رہنے کے لیے جن بنیادی چیزوں کی احتیاج ہے اسے حتی الوسع پورا کیا جائے اور اس کے وجود کو تحفظ فراہم کیا جائے۔ نو زائیدہ اولاد سراسر خاندان کے رحم و کرم پر ہوتی ہے۔ خاندان کی ذمہ داری ہے کہ وہ نومولود کو بوجھ نہ سمجھے، اس کی معقول پرورش و پرداخت اور نگرانی و تحفظ کا انتظام کرے خواہ اس کے معاشی حالات اچھے ہوں یا خراب۔ معاشی تنگی کا ڈر یا اپنی راحت و عیش کا خلل بچے کو پیدائش سے پہلے یا بعد ضائع کرنے کی طرف والدین کو مائل نہ کرے۔ چنانچہ اللہ تعالٰی نے ہدایت فرمائی کہ:وَ لَا تقتلوا اَوْلَادَكُمْ خَشْیَةَ اِملاق-نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَ اِیّاکُم-اِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْاً كَبِیْرًا-اِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْاً كَبِیْرًا۔ اور مفلسی کے خوف سے اپنی اولاد کو نہ مار ڈالو، ان کو اور تم کو ہم ہی رزق دیتے ہیں۔ یقیناً ان کا قتل کرنا گناہ کبیرہ ہے۔ اور خاص طور پر بچیوں کے بارے میں سخت وعید کی گئی ہے کہ آخرت میں جب جواب دہی کے لیے لوگ بارگاہ الٰہی میں سر جھکائے کھڑے ہوں گے تو زندہ دفن کر دی جانے والی لڑکیوں کے بارے میں پوچھا جائے گا کہ آخر کس قصور میں انہیں مار ڈالا گیا۔ موجودہ زمانے میں جس طرح لڑکیوں کو بوجھ سمجھنے اور انہیں رحم مادر میں قتل کر دینے اور کبھی کبھی پیدائش کے بعد بھی مار ڈالنے کی وبا بڑھ رہی ہے وہ انتہائی تشویش ناک ہے۔ بچہ ہو یا بچی، زندگی کا حق ان کا اولین حق ہے اور ان کی زندگی کو تحفظ فراہم کرنا والدین کی اولین ذمہ داری ہے۔
(۲) اچھے نام کا حق: بچے بچیوں کے نام ان کی تا عمر پہچان ہیں۔ وہ اپنا نام خود نہیں رکھتے بلکہ والدین رکھتے ہیں۔ ایسے نام جو معنوی اعتبار سے ان کی اسلامی شناخت ہوں، نہ کہ مہمل یا اسلامی پہچان کی ضد ہوں۔ مسلم خاندان کا فرد ہونے کے ناطے ان کا حق ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے امت کو تلقین فرمائی کہ:’’قیامت کے دن تمہیں اپنے اور اپنے آباء کے نام سے پکارا جائے گا، لہٰذا تم اچھے نام رکھا کرو‘‘(مسند احمد)۔ حضور اکرم ﷺ نے اکثر و بیشتر صحابہ کرامؓ کے نام تبدیل فرمائے تاکہ اسلام لانے سے ان کے کردار میں ناموں کے معانی کے لحاظ سے تبدیلی اور برکت شامل ہو جائے اور وہ سر تاپا اسلامی رنگ میں ڈھل جائیں اور نیکی کا مرقع بن جائیں۔ چنانچہ ایک صحابی کا نام الجبار (جبر کرنے والا) سے بدل کر عبد الجبار (جبار کا بندہ) رکھ دیا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کا نام عبد الکعبہ (کعبہ کا بندہ ) سے تبدیل کر کے عبداللہ (اللہ کا بندہ) رکھ دیا۔ مشہور صحابی حضرت ابوہریرہؓ کا نام عبد الشمس (شمس کا بندہ) سے بدل کر عبد الرحمٰن (رحمن کا بندہ) رکھ دیا۔ اچھے نام اگر شعوری طور پر رکھے جائیں تو یہ محض نام نہیں ہیں بلکہ والدین کو حساس بھی بناتے ہیں کہ وہ اپنی اولاد کو اسم با مسمی بنانے کی کوشش کریں گے۔
(۳) عقیقہ کا حق: والدین پر اولاد کا یہ حق بھی ہے کہ ان کی پاکیزگی کے لیے ان کا پیدائشی بال ترشوایا جائے اور اللہ کی بارگاہ میں ان کی طرف سے جانور کی قربانی پیش کی جائے۔ رسول اللہ نے فرمایا: “ہر بچہ/بچی اپنا عقیقہ ہونے تک گروی ہے۔ اس کی جانب سے ساتویں دن جانور ذبح کیا جائے، اس دن اس کا نام رکھا جائے اور سرمنڈوایا جائے۔‘‘ (متفق علیہ)۔
(۴) شفقت و محبت کا حق: والدین کی توجہ اور محبت اولاد کی ناگزیر ضرورت ہے اور اس کے بغیر ان کی صحیح پرورش، تحفظ اور نشو و نما کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ چنانچہ والدین کی شفقت و محبت ان کا بنیادی حق ہے۔ ایک موقع پر آپؐ نے سیدنا حسنؓ کو بوسہ دیا وہاں اقرع بن حابس (ایک بدو سردار) بیٹھا تھا۔ اس نے کہا کہ میرے دو چار نہیں، دس بیٹے ہیں لیکن میں نے آج تک ان میں سے کسی کو نہیں چوما، کسی کو پیار نہیں کیا، بھلا سردار کا کیا کام کہ بچوں سے پیار کرے؟ نبی رحمتؐنے نظر اٹھا کر دیکھا اور ارشاد فرمایا: ’’یا درکھو! اگر تم مہربانی نہیں کرو گے تو تم پر بھی مہربانی نہیں کی جائے گی۔ مہربانی اس پر ہوتی ہے جو خود مہربان ہو‘‘ (بخاری)۔ حضرت انسؓ نے فرمایا: اہل وعیال پر آپؐسے زیادہ مشفق میں نے کسی کو نہیں دیکھا (مسلم)۔
(۵) یکساں سلوک کا حق: اسلامی خاندان میں اولاد کا یہ حق بھی بہت اہمیت رکھتا ہے کہ ان کے ساتھ یکساں سلوک کیا جائے۔ نہ تو لاڈ پیار کی وجہ سے کسی بچے کو دوسرے بچوں پر ترجیح دی جائے اور نہ ہی اپنی ذاتی پسند ناپسند کی بنا پر کسی بچے کو نظر انداز کیا جائے۔ رسول اکرم نے فرمایا: اتقوا الله واعدلوا بين اولادكم (بخاری)۔ "اللہ سے ڈرو ،اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو۔” ایک صحابی نے نبی اکرم سے بیان کیا کہ انہوں نے اپنے ایک بیٹے کو ایک غلام عطا کیا ہے۔ رسول اللہ نے پوچھا کہ کیا دوسرے بیٹوں کو بھی عطا کیا ہے، تو انہوں نے نفی میں جواب دیا۔ تب ایک روایت کے مطابق رسول اکرم نے فرمایا: فلا تشهدنى اذا فانی لا اشھد علی جور (بخاری و مسلم)۔ "تب مجھے گواہ مت بناؤ ،میں ظلم پر گواہ نہیں بن سکتا اسی طرح بیٹے کو بیٹی پر ترجیح دینا یا بیٹی کو بیٹے پر ترجیح دینا بھی امتیازی سلوک کا مظہر ہے اور اولاد کے درمیان یکساں سلوک کی پامالی ہے اور نبی اکرمؐ کی مندرجہ بالا تنبیہ کی روشنی میں مردود ہے۔
(۶) تربیت کا حق: مسلم خاندان میں بچوں کا ایک نمایاں حق ان کی اسلامی اور اخلاقی تربیت ہے۔ اولاد کو اسلامی اخلاق و آداب سے آراستہ کرنے اور ان کے اندر آخرت کی جواب دہی کا احساس پروان چڑھانے کی کوشش کرنا والدین کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ: کسی شخص نے اپنی اولاد کو اچھے اخلاق و آداب سے بہتر عطیہ نہیں دیا (ترمذی) ایک اور موقع پر آپ نے ارشاد فرمایا کہ اپنے بچوں کو تہذیب اور شائستگی سکھاؤ: ’’ أحسنوا أدبھم‘‘ (ابن ماجہ) تربیت سے غفلت کا برا نتیجہ صرف اولاد کو ہی نہیں بھگتنا پڑے گا بلکہ والدین کو بھی اس کا خمیازہ بھگتنا ہو گا۔ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ: يَٰأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ قُوٓا۟ أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًۭا وَقُودُهَا ٱلنَّاسُ وَٱلْحِجَارَةُ۔ “مومنو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل عیال کو آتش (جہنم) سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں (سورۃ التحریم)”۔ اور نبی اکرمؐ نے فرمایا: کلکم راع وکلکم مسوول عن رعیتہ،والرجل راع فی اھلہ ومسوول عن رعیتہ (بخاری و مسلم) “تم میں سے ہر کوئی نگران ہے اور ہر کوئی اپنی رعیت کے متعلق جواب دہ ہے اور آدمی اپنے گھر کا ذمہ دار ہے اس سے اس کی رعیت کے متعلق باز پرس ہو گی”۔ مزید برآں اس حق کو بہتر طور پر ادا کرنے کا نتیجہ بھی دونوں کے حق میں بہتر ہوگا۔ اللہ تعالی نے خوشخبری دی ہے کہ: “اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد نے ایمان میں ان کی پیروی کی ہم ان کے ساتھ ان کی اولاد کو بھی (جنت) میں ملا دیں گے اور ان کے عمل میں سے کچھ بھی کم نہ کریں گے ہر شخص اپنے عمل کے ساتھ وابستہ ہے (الطور:۲۱) نبی اکرم نے آگاہ فرمایا کہ: إذا مات الإنسان انقطع عنه عمله إلا من ثلاثة إلا من صدقة جارية أو علم ينتفع به أو ولد صالح يدعو له(مسلم) "جب بندہ مر جاتا ہے تو اس کا عمل ختم ہو جاتا ہے مگر تین عمل باقی رہتے ہیں۔صدقہ جاریہ، ایسا علم کہ لوگ اس کے بعد اس سے فائدہ اٹھائیں یا صالح اولاد جو اس کے لیے دعا کرتی رہے۔”
(۷) تعلیم کا حق: اولاد کے حقوق میں تعلیم کا حق بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ عام طور پر اس سلسلے میں دو رجحانات مسلم معاشرے میں پائے جاتے ہیں: ایک رجحان تو یہ ہے کہ نظری اعتبار سے صرف مذہبی تعلیم کو فرضیت کا درجہ حاصل ہے جس کی ذمہ داری والدین پر عائد ہوتی ہے اور قرآن و حدیث میں بیان کردہ فضیلت کا تعلق اسی تعلیم سے ہے۔ دوسرا رجحان جو عملی طور پر مسلم معاشرہ میں جاری و ساری ہے وہ اولاد کی دنیاوی تعلیم تک محدود ہے۔ یہ دونوں رجحانات یک رخے پن کے عکاس ہیں جو قرآن و سنت کی ہدایات سے ہم آہنگ نہیں ہیں اور نہ ہی مسلمانوں کی تاریخ اس کی تائید کرتی ہے۔ یہ دونوں رجحانات ہمارے دور زوال کی پیداوار ہیں جس کے دوران ایک طرف تو بیرونی تہذیبی اثرات کے رد عمل میں تعلیم کو روایتی مذہبی تعلیم تک محدود کر دیا گیا۔ دوسری طرف مسلم سماج میں مغربی قوموں کی سائنسی ترقی اور علمی پیشرفت سے مسحور ہو کر جدید سیکولر تعلیم کو عملاً ترجیحی حیثیت حاصل ہو گئی۔ اسلامی نقطۂ نظر سے تعلیم کی مروجہ مذہبی اور سیکولر تقسیم ہمارے چو طرفہ زوال کا نتیجہ ہے۔ اللہ تعالٰی نے قرآن میں نہ صرف درستگی عقائد و اخلاق اور تزکیۂ نفس و احکام شرعی سے متعلق آیات نازل فرمائی ہیں بلکہ اسی کے ساتھ اس نے کائناتی مظاہر اور انسانی تخلیق کے حوالے سے جس طرح کی سائنسی تفصیلات بیان کرنے والی آیات نازل کی ہیں وہ تعلیم میں مذہبی اور سیکولر ثنویت گوارا نہیں کرتی۔ مسلم معاشرہ میں صدیوں تک عملاً مذہبی اور دنیوی تعلیم کی تقسیم کے بجائے علم نافعہ کا جامع تصور کار فرما رہا ہے۔ رجحان اور دلچسپی کے اعتبار سے اس وحدانی تصور تعلیم کے تحت مخصوص دائر علم میں اختصاص حاصل کرنے والے طالب علم پیدا ہوتے رہے ہیں جنہوں نے قرآن و سنت اور فقہ و ادب کی تعلیم بھی حاصل کی اور طب، انجینیرنگ، سائنس، تاریخ، فلسفہ، سماجیات اور دیگر علوم کے حصول میں بھی سرگرداں رہے۔ انہیں میں سے بعض نے کئی علوم میں کمال حاصل کیا اور بعض کسی ایک میں اجتہادی مقام پر فائز ہوئے۔ ان حقائق کے پیش نظر اولاد کو ایسی تعلیم اور ہنر سے بہرہ ور کرنا بھی ضروری ہے جو انہیں اپنے خاندان کی معاشی ذمہ داریاں ادا کرنے کے لائق بنا سکیں اور اسی کے ساتھ انہیں قرآن و سنت کی تعلیم بھی دلانا ضروری ہے تاکہ وہ اپنی عملی زندگی کو رضائے الہی کے مطابق ڈھال سکیں۔ مزید برآں اوائل عمر میں جب تعلیم ان کی ذہنی صلاحیتوں کو ایک رخ دیتی ہے، انہیں دینی اور دنیاوی دونوں طرح کی تعلیم سے بہرہ ور کیا جانا ضروری ہے تاکہ بعد کے ادوار میں ان کے اندر اسلامی نقطہ نظر کے ساتھ نئی علمی پیش رفت میں اپنا کردار ادا کرنے کی استعداد پیدا ہو سکے۔
ان اہم بنیادی حقوق کی ادائیگی کے لیے ضروری ہے کہ والدین کو اولاد کے کثیر الجہت حقوق کا صحیح شعور ہو اور وہ اپنے مزاج و رجحان کے بجائے مسلم خاندان کا ذمہ دار ہونے کی حیثیت سے اولاد کے حقوق کی ادائیگی میں یک رخے پن کا شکار نہ ہوں۔ ظاہر ہے اس سلسلے میں والدین اتنے ہی بوجھ کے مکلف ہیں جسے وہ اٹھا سکتے ہیں۔ ان پر یہ ذمہ داری عائد نہیں ہوتی کہ اپنی سکت سے زیادہ حقوق کی کسی متعین عملی صورت کی ادائیگی کریں۔ لیکن انہیں اولاد کے حقوق اور ان کے کثیر الاطراف تقاضوں کا صحیح شعور ہونا چاہیے۔
اوائل عمر میں جب تعلیم بچوں کی ذہنی صلاحیتوں کو ایک رخ دیتی ہے،اپنی اولاد کو دینی اور دنیاوی دونوں طرح کی تعلیم سے بہرہ ور کیا جانا ضروری ہے تاکہ بعد کے ادوار میں ان کے اندر اسلامی نقطہ نظر کے ساتھ نئی علمی پیش رفت میں اپنا کردار ادا کرنے کی استعداد پیدا ہو سکے۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 7 مارچ تا 13 مارچ 2021