انسانی حقوق کی پامالیوں پر اقوام متحدہ اور عالمی میڈیا کا کردار شرمناک

مظالم کے کچھ مرکزی کردار سلامتی کونسل میں براجمان۔ خواتین کے حقوق کی دہائی دینے والے اس جرم میں کسی سے کم نہیں

دنیا پر جنگی خبط رکھنے والے حکمراں مسلط ۔ماضی اور حال تاریک لیکن مستقبل روشن ہوگا
ایوان ریڈلی ایک برطانوی صحافی، مصنف، سیاسی تجزیہ کار اور انسانی حقوق کی کارکن ہیں۔ وہ افسانوی وغیرافسانوی ادب کے ساتھ ساتھ معروف بین الاقوامی رسالوں میں اپنے اکثر کالموں کے لیے بھی مشہور ہیں۔ وہ فلسطین سے لے کر میانمار تک دہشت گردی کے خلاف جنگ کے متاثرین اور دنیا بھر کے مظلوم لوگوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والی جہدکار ہیں۔ زوم پر ایوان ریڈلی اور عورة ای۔میگزین کی چیف ایڈیٹر رحمت النساء کے درمیان تفصیلی مذاکرہ منعقد ہوا۔ ان کی گفتگو کا موضوع دنیا بھر میں وسیع پیمانے پر انسانی حقوق کی پامالی تھا۔ ہر سال دس دسمبر کو دنیا بھر میں انسانی حقوق کا دن منایا جاتا ہے، لیکن ایسا دن منانے اور اس طرح منانے کا کیا فائدہ ہے جب پوری دنیا میں انسانی حقوق کے تحفظات میں واضح طور پر کمی آئی ہے اور اسے ہر جگہ چیلنج کیا گیا ہے۔ ذیل میں اس گفتگو کا خلاصہ پیش ہے ۔
رحمت النساء :
آج دنیا بھر میں جو کچھ ہو رہا ہے اس پر آپ گہری نظر رکھتی ہیں، ہم دیکھ رہے ہیں کہ من گھڑت کہانیاں گھڑنے میں میڈیا کیا کردار ادا کرتا ہے اور ہم جانتے ہیں کہ اسی میڈیا نے پس پردہ، حملوں کو ممکن بنانے میں کس طرح تباہ کن کردار ادا کیا تھا۔ کیا آپ کو آزاد یا متبادل میڈیا اور صحافیوں کے توسط سے اس صورتحال کا دوسرا رخ بتانے کے لیے کوئی مثبت طریقہ کار یا امید کی کوئی کرن نظر آتی ہے؟ اس پر آپ کا کیا موقف ہے؟
ایوان ریڈلی
جی ہاں… مجھے یاد ہے میں تقریباً بیس سال پہلے میری دوست، مشہور جنگی نامہ نگار میری کیلوین سے اسی موضوع پر بات کر رہی تھی۔ ہم اپنے پیشے کے فرائض سے متعلق گفتگو کررہی تھیں اور اس وقت اس نے کہا تھا کہ ”آپ جانتی ہو ایوان کہ بطور جنگی مبصر میں اپنے فرائض سے کبھی غافل نہیں ہو سکتی“ بلاشبہ اب ہم ایک نئی صدی میں ہیں، لیکن بیس سال بعد بھی صورتحال اتنی ہی تاریک ہے۔
اب بھی جبکہ میں لکھ رہی ہوں خواہ میں متنازعہ جنگی علاقوں کا دورہ کروں یا نہ کروں لیکن ان تنازعات کے متعلق لکھتے ہوئے میں اپنی ذمہ داری سے بری الذمہ نہیں ہو سکتی کیونکہ بد قسمتی سے آج ہماری دنیا پر چند ایسی مطلق العنان حکومتیں قابض ہیں جو جنگی خبط میں مبتلا ہیں۔ عراق کا حال دیکھ لیں جو آج مزید دلدل میں اتر گیا ہے۔ وہاں آج کی صورتحال 2003 کے حملے سے قبل کی صورتحال سے بھی بدترین ہے۔ آپ پورے شمالی افریقہ پر نظر ڈالیں جہاں پہلے آزادی کے لیے بغاوت کا شعلہ روشن تھا۔ آپ مصر کو دیکھیں، وہ اسی کنٹرول میں واپس چلا گیا جس کو میں ظالمانہ آمریت کہتی ہوں ۔لیبیا کو حاشیہ پر کر دیا گیا ہے۔ تیونس میں ایک الگ جدوجہد جاری ہے کیونکہ وہاں چند استعماری طاقتیں تیونس کے عوام کی حاصل کردہ نئی جمہوریت کو کمزور کرنے کے لیے چوبیس گھنٹے کام کر رہی ہیں۔ آپ افغانستان چلے جائیں۔ کرپٹ حکومتوں کی بیس سالہ حکمرانی نے عوام پر اپنی چھاپ چھوڑی ہے۔ اسی لیے جب طالبان دوبارہ برسراقتدار آئے تو ان کا دوبارہ استقبال کیا گیا اور اب جاکے ہمیں بتایا جا رہا ہے کہ افغانستان میں لاکھوں لوگ فاقہ کشی کے دہانے پر ہیں۔ یمن ایک اور وہ علاقہ ہے جہاں روزانہ بچے غذائی قلت کا شکار ہو کر مر رہے ہیں۔
جب آپ یہ غور کرنے لگیں کہ اکیسویں صدی میں بھی ہمارے بچے بھوک اور غذائی قلت کا شکار ہو کر مر رہے ہیں اور آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ ہرگز ناقابل قبول ہے، خاص طور پر جب آپ دولت اور طاقت کے اس بڑے حصے کی طرف دیکھیں جو ان لوگوں کے پاس ہے اور اس کے باوجود بچے آج بھی بھوکے ہیں تو یہ واقعی افسوسناک ہے۔ ہے نا؟ اور آپ پھر فلسطینیوں سے ملیں جو انصاف اور آزادی کے لیے اب بھی اپنی لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
رحمت النساء :
سچ کہیں تو میڈیا کے پاس ہمیشہ صحیح کام کرنے کے اختیارات ہوتے ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ مین اسٹریم میڈیا شاذ ونادر ہی ایسا کرتا ہے۔ عراق میں جنگ اور جارحیت کے مطالبے کو ہوا دینے میں میڈیا کا کردار واقعی شرمناک تھا۔ لیکن میں سمجھتی ہوں کہ اکیسویں صدی کی نئی پود ہماری نسل سے کہیں زیادہ سمجھدار ہے وہ اصل دھارے کے میڈیا کو اتنی اہمیت نہیں دیتی۔ یہ ایک ایسی نسل ہے جو اسمارٹ فونز اور انٹرنیٹ سے حقیقی صورتحال پر گہری نظر رکھتی ہے اور ہم یہاں ہیں، زوم پر بات چیت کے ذریعے جائزہ لیتے ہوئے سرحدوں کو عبور کر رہے ہیں۔ لہٰذا میں کافی پرامید ہوں کہ ہماری نوجوان نسلیں میڈیا کے ذریعے اس طرح دھوکہ نہیں کھائیں گی جس کی زد میں شاید ہماری نسل تھی۔ میرے خیال میں آج کے نوجوان زیادہ متجسس، وسیع النظر اور پر اعتماد ہیں، غلط اطلاعات پر ان کا رویہ فیصلہ کن ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ دنیا عراق یا یمن جیسی جنگوں کے لیے پھر سے جنون میں مبتلا ہو جائے گی۔ اور ہاں، یہ ایک امید کی بہت اچھی کرن ہے۔
اب ہم اپنے موضوع انسانی حقوق کے ایک بہت اہم حصے کی طرف آتے ہیں۔ ہم خواتین کے حقوق کے بارے میں بات کیے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتے۔ خواتین کی تعلیم اور حقوق اس سال خاص طور پر طالبان کی واپسی کے بعد بہت زیادہ بحث کا موضوع رہے ہیں۔ صنفی عدم مساوات کا زیادہ تر الزام مسلم ممالک اور حکومتوں پر ڈالا جاتا ہے، لیکن کیا یہ کہانی بھی اس سے زیادہ گہری نہیں؟
ایوان ریڈلی: ہاں! بالکل یہ کہانی اس سے کہیں زیادہ گہری ہے۔ آپ صحیح کہہ رہی ہیں۔ مسلم دنیا میں خواتین کے حقوق کیوں پامال ہو رہے ہیں؟ اس کے لیے ایک تو راست طور پر ان کی موجودہ قیادتیں ذمہ دار ہیں اور کئی دوسرے پہلوؤں سے خواتین خود اس کی ذمہ دار ہیں، کیونکہ قرآن پاک میں یہ واضح کہا گیا ہے کہ خواتین روحانی، علمی اور عملی طور پر مردوں کے برابر ہیں اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ اس وضاحت پر کون کتنا بدگماں ہے۔ روئے زمین پر کوئی ایک بھی ذی روح ایسی نہیں ہے جو خدا کے کلام کو چیلنج کرے اور کہے کہ وہ غلط ہے۔ لہٰذا قرآن جس پر ہمارا یقین ہے کہ یہ خدا کا کلام ہے، یہی قرآن ہمیں بتا رہا ہے کہ عورتیں روحانی، علمی اور عملی میدان میں مردوں کے برابر ہیں تو اس زمین پر ہمارے ساتھ دنیا بھر میں ایسا سلوک کیوں کیا جا رہا ہے؟ اس کی ایک وجہ تو ہماری خواتین میں علم کی کمی ہے۔ ہمیں اپنے مقام سے نکل کر اپنے حقوق حاصل کرنے ہوں گے، وہ حقوق جو خدیجہؓ اور عائشہؓ کے ساتھ ساتھ اسلام کے ابتدائی دنوں میں تمام عظیم خواتین نے حاصل کیے تھے۔ اور آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ مغربی فوجیں اب بھی فرنٹ لائن پر خواتین کی موجودگی کے تصور سے نبرد آزما ہیں جبکہ ہماری مسلم خواتین میدان جنگ میں تھیں۔ درحقیقت ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ نے ایک جنگجو خاتون کو بھی منتخب کیا تھا جو آپ کی حفاظت پر مامور تھیں۔ آپ جانتے ہیں کہ اسلام کے ابتدائی دنوں میں میدان جنگ میں کچھ واقعی بہادر خواتین تھیں تو کیوں روئے زمین پر ہمیں کچھ ممالک میں انہیں دکانوں پر جانے کی اجازت نہیں ہے۔ ہمیں کچھ ممالک میں تھوڑے فاصلے پر سفر کرنے کی اجازت کیوں نہیں ہے؟ یہ صورت حال بالکل مضحکہ خیز ہے۔
یہ جو کچھ میں کہہ رہی ہوں وہ تو آپ بھی جانتی ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو ہماری غلطی ہے کیونکہ ہم بحیثیت مسلم خواتین اپنے حقوق کا مطالبہ نہیں کر رہی ہیں۔ وہیں اس کی دوسری بڑی وجہ وہ قوام مرد ہیں جو اتنے ہی جاہل ہیں۔ وہ یہ تک نہیں سمجھتے کہ یہ حقوق ہمیں ودیعت کیے گئے ہیں۔ ان کے طور طریق واقعی سمجھ سے باہر اور افسردہ کرنے والے ہیں ۔
رحمت النساء :
جبکہ اس صورتحال کے عین مطابق، ایک ہی وقت میں مسلم دنیا کے مقابلے میں نام نہاد لبرل معاشروں میں کیا ہو رہا ہے؟ کیا یہ تصویر امید افزا ہے؟
ایوان ریڈلی :
جی ہاں، اگر ہم صرف فرانس کو ہی دیکھیں جہاں مختلف فرانسیسی صدور نے برسوں کے دوران صرف فرانسیسی اسکول کی لڑکیوں کے سروں سے حجاب اور ان خواتین کے نقاب اتار دیے ہیں جو مکمل طور سر ڈھانپنے کو ترجیح دیتی ہیں۔ فرانس ایک ایسا ملک ہے جو پوری دنیا کو یہ بتاتے ہوئے فخر کرتا ہے کہ ہم آزادی، بھائی چارے، مساوات پر یقین رکھتے ہیں۔ ٹھیک ہے، لیکن یہی اصول وہ مسلم خواتین کے معاملات میں لاگو نہیں کرتے، یہاں ان کے اصول کچھ اور ہیں۔ میری آواز اور میرے لہجے سے عیاں ہے کہ ان کے دُہرے رویوں پر کس طرح میرا خون کھولتا ہے۔ چلیں عورت ہونے کی حیثیت سے اگر ہم مذہب کو صرف ایک سیکنڈ کے لیے ایک طرف رکھ دیں، ایک عورت ہونے کے ناطے مجھے یہ حق ہونا چاہیے کہ میں جو لباس چاہوں پہنوں، جس انداز میں چاہوں پہنوں، کوئی مجھے یہ نہ بتائے کہ مجھے کیسا لباس پہننا چاہیے۔ کسی مرد کو عورت کی الماری تک پہنچنے کا حق حاصل نہیں ہے۔ بحیثیت مسلمان عورت، قرآن مجھ سے اتنا ہی کہتا ہے کہ حجاب اپناؤ اور سادہ رہو۔ جبکہ مردوں کو کس طرح لباس پہننا چاہیے اس ضمن میں قواعد وضوابط متنوع ہیں، جن پتلون کی اقسام اور ان کے رنگوں کے علاوہ دھاتوں سے متعلق احکامات بھی صراحت کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں لیکن خواتین کے لیے صرف اتنا کرنا ہے کہ ہم پردہ کریں اور معمولی رہیں۔ اس کے باوجود مغرب میں ان کی تمام توجہ اور ہیجان ہم مسلمان خواتین پر ہی مرکوز ہے کہ یہ خواتین کیا پہنتی ہیں، کیسے پہنتی ہیں، وہ کیسا برتاؤ کرتی ہیں، کیسے کام کرتی ہیں وغیرہ۔
اور یہ واقعی مایوس کن امر ہے۔ یہ سب آپ بھی جانتی ہیں کہ یہ سب کچھ ایسے مردوں کے ذریعے چلایا جاتا ہے جنہیں میں گوری چمڑی کے احساس تفاخر میں مبتلا سمجھتی ہوں۔ ہمیں اس دائرے میں جا کر ان خواتین کی مدد کرنا چاہیے۔ یہی وہ الفاظ ہیں جو جارج بش اور ٹونی بلیئر نے افغانستان میں جنگ شروع کرتے وقت استعمال کیے تھے کہ وہ افغان خواتین کی آزادی کے لیے وہاں جا رہے ہیں۔ ٹھیک ہے، انہوں نے وہی کیا ہے جو روسیوں نے کیا ۔اس طرح پچھلی تین برطانوی فوجی مہمات، جن میں سے تین کی تین، میرے خیال میں آپ جانتی ہیں، افغانستان میں ناکامی پر ختم ہوئیں۔ اگر یہ سچ ہے کہ آپ چاہتے ہیں کہ افغان خواتین کا شمار دنیا کی سب سے زیادہ آزاد خواتین میں ہونا چاہیے اور واقعی ان کے کہنے کا یہی مطلب تھا تو انہیں ایسا کرنا چاہیے تھا لیکن وہ ایسا نہیں کرتے اور مسلمان مردوں پر عورتوں پر ظلم اور استحصال کا الزام لگایا جاتا ہے، جبکہ مغرب کے مرد بھی بالکل ایسا ہی کرتے ہیں پھر جنگ کے نام پر عورتوں کا استحصال کیا جاتا ہے۔کیا آپ نے کبھی سنا کہ عورتوں کو بمباری سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے؟ آپ جانتی ہیں یہ سوچنا بھی پاگل پن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں دنیا بھر کی خواتین پر زور دیتی ہوں کہ وہ سیاست میں شامل ہوں، جہاں آپ کے پاس سیاسی منظر نامے پر خواتین ہیں، جہاں آپ کے پاس خواتین قائدانہ کردار ادا کر رہی ہیں، جہاں آپ کے پاس خواتین نمایاں عہدوں پر ہیں، وہاں ان کے جنگ میں شامل ہونے کے امکانات کم ہیں۔ جس کی وجہ سے موت اور تباہی کے کم مواقع پیدا ہوں گے اور نتیجہ خیز مفادات حاصل ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔
آج مسلمانوں کی حالت انتہائی افسوسناک ہے۔ لیکن اگر آپ تاریخ کا مطالعہ کریں تو پائیں گے کہ مسلمان عظیم اختراعی، عظیم معمار، انجینئر، سائنسدان، ریاضی دان، ڈاکٹر تھے۔ ہمارے اسلاف نے کئی طریقوں سے دنیا کی رہنمائی کی۔ کیا اس طریق کے بدولت ماضی میں کبھی خواتین کا کردار پست ہوا ہے؟ مسلم اختراعات کے اس عظیم سنہری دور میں مسلم خواتین مردوں کے شانہ بشانہ تھیں لیکن آج ایسا نہیں ہو رہا۔ ایک بار پھر ہم اسی غلطی کے مرتکب ہو رہے ہیں ۔ہمیں اسلام کے ابتدائی دور میں حاصل شدہ اپنا وہ مقام دوبارہ واپس پانے کی ضرورت ہے جو ہم سے چھین لیا گیا ہے۔ میرے خیال میں دنیا کی پہلی یونیورسٹی ایک مسلم عورت نے بنائی تھی۔ دنیا کا پہلے اسپتال ایک خاتون نے کھولا تھا۔ اسلام کے ابتدائی دنوں میں مالی اعانت ایک خاتون خدیجہؓ نے کی تھی جنہوں نے بین الاقوامی تجارت سے پیسہ کمایا تھا۔ ہم اپنی طاقت کیوں کھو چکے ہیں؟
رحمت النساء:
یہ تجویز ان تمام مسلم خواتین کے لیے بھی ایک چیلنج ہے جو ہماری بات سن رہی ہیں۔ جب دنیا بھر میں انسانی حقوق کی بات کی جاتی ہے تو ہمیں عجیب خاموشی اور پیچیدگیاں نظر آتی ہیں، مثال کے طور پر ایغور مسلمانوں کے مسائل اور کچھ ممالک میں اقلیتوں کے مسائل ہیں جن کا زیادہ تر تعلق عالمی تجارت اور اتحاد سے منسلک ہے۔ آپ انسانی حقوق پر کس نوعیت کی جامع اور منصفانہ گفتگو کا تصور کرتی ہیں؟
ایوان ریڈلی: جی میں سمجھتی ہوں کہ ہمیں صرف متحد ہونے کی ضرورت ہے، انسانی حقوق سب کے لیے یکساں ہیں چاہے ان کی جلد کا رنگ کچھ بھی ہو، ان کے عقیدے ان کی جنس سے قطع نظر کسی بھی چیز سے قطع نظر۔ اگر آپ انسان ہیں تو آپ بالکل انہی حقوق کے مستحق ہیں جو کسی اور کے ہیں۔ بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو رہا ہے، مثال کے طور پر آپ نے ایغوروں کی حالت زار کا ذکر کیا جن پر تمام چینیوں نے ظلم کیا لیکن بدقسمتی سے دنیا بھر میں کچھ ممالک اور کچھ لوگ ایسے ہیں جو ایغوروں کے لیے بات نہیں کریں گے کیونکہ وہ چین کے ساتھ تصادم نہیں چاہتے۔ یقیناً ان کے مطمح نظر کچھ اور ہے یعنی وہ اپنے تحفظات کے لیے سنجیدہ ہیں اور آپ روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار پر نظر ڈالیں۔ مجھے یاد ہے کہ تقریباً پندرہ سال قبل ایک مسلمان کے ساتھ میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار کے بارے میں گفتگو ہوئی تھی جس نے میانمار میں جائیدادوں کی تجارت میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کی تھی اور وہ اپنے ذاتی مفادات کی خاطر میانمار کی فوج کے عہدیداروں کا حامی تھا۔ میں نے اس کے ساتھ اس بارے میں کوئی بات چیت نہیں کی کہ روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار اس مقام تک کیسے پہنچی جس کی وجہ سے سات لاکھ پچاس ہزار افراد اپنا سب کچھ چھوڑ کر سرحد کی طرف بھاگے اور اب بنگلہ دیش کے پناہ گزین کیمپوں میں انتہائی دردناک حالات میں زندگی گزار رہے ہیں پھر بھی ان لوگوں پر واپس جانے کے لیے دباؤ بنایا جا رہا ہے جبکہ وہ واپس جانے سے قاصر ہیں۔ آپ جانتی ہیں کہ کون اپنے گھر واپس جانے کے بجائے بانس کے سہارے والی پلاسٹک کی جھونپڑیوں میں رہنا پسند کرے گا۔اس سرزمین پر ان لوگوں کے ساتھ ایسا کیا ہوا جس نے انہیں یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ ”ہم کبھی واپس نہیں جا سکتے“۔ میں اس صورتحال کے لیے بہت حد تک اقوام متحدہ کو موردِ الزام ٹھہراتی ہوں۔
آپ جانتی ہیں کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد اقوام متحدہ کا قیام عمل میں آیا جہاں پر انسانی حقوق ومساوات کا ایک بہت ہی اعلیٰ معیار طے کیا گیا۔ ان کے اعلانات پر پہلے پہل بڑی ایمانداری اور چابکدستی سے عمل کیا گیا لیکن اس کے بعد آپ اب اقوام متحدہ کی صورتحال کو دیکھیں۔ مظالم کے کچھ مرکزی کردار سلامتی کونسل میں بیٹھے ہیں لیکن وہ تصویر کے دوسرے رخ سے دیکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ جو کچھ ہو رہا ہے وہ اس کے صریح منکر ہیں کیونکہ مغرب میں کچھ ان کے دوست جن پر یہ انحصار کرتے ہیں۔ شاید طاقت کے لیے، توانائی کے حصول کے لیے، معدنیات کے لیے، ان کے بھی اپنے مفادات ہیں۔ ٹھیک ہے، لیکن اس تضاد کو روکنا ہو گا۔ آپ یمن کی جنگ کے دوران پیدا ہونے والے چھوٹے بچوں کو دیکھیں، جو اپنی عمر کے پہلے سال تک بھی زندہ نہیں رہیں گے، وہ جنگ کی وجہ سے غذائی قلت کا شکار ہو کر مر جائیں گے۔ وہ بھی ایک ایسی جنگ جس کا کوئی مقصد نہیں ہے۔ درحقیقت میں سمجھ نہیں سکتی کہ ان بے مقصد جنگوں کا کوئی معنی بھی ہے۔
رحمت النساء:
ہاں آپ نے سچائی کا پردہ چاک کیا ہے۔ فی زمانہ اقوام متحدہ خاموش تماشائی بن کر رہ گئی ہے یا ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ اقوام متحدہ جانتے ہوئے بھی ان رکن ممالک کو کوئی تنبیہ یا مداخلت نہیں کرتی جو اپنے ملک کی اقلیتوں پر زیادتی کررہے ہیں۔ یقیناً ان ملکوں کے اندر ناانصافی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے لڑنے کے لیے قانونی، سیاسی اور سماجی طریقے موجود ہیں۔ اگر ہم چاہیں تو اسی انسانی حقوق کے اعلامیے کو بروئے کار لاتے ہوئے انصاف حاصل کر سکتے ہیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ نوجوان اور انصاف کے متلاشی مرد اور عورتیں جو اس ماحول میں اپنے کام کے دوران بہت زیادہ جبر اور استبداد کا سامنا کر رہے ہیں۔ اس کے خلاف جب وہ آواز اٹھاتے ہیں تو آپ کے پاس ان کے لیے کیا مشورہ اور تجاویز ہیں؟ انہیں اس سر زمین کو ہر ذی نفس کے لیے پرامن اور بہتر جگہ بنانے کے لیے کیسے آگے بڑھنا چاہیے؟
ایوان ریڈلی :
جی ہاں : ہم نے حال ہی میں گلاسگو میں ایک بڑی آب و ہوا کی تبدیلی سے متعلق کانفرنس کی ہے۔ بلا تردد، اس نئی نسل نے تمام عالمی رہنماوں کو شرمندہ کیا ہے جو اب چپ بیٹھنے اور ہمیں سیارے کو تباہ کرنے کی اجازت دینے کے لیے ہرگز تیار نہیں ہیں۔
یہیں سے مجھے امید نظر آتی ہے۔ میں جب پیچھے مڑ کر ماضی کی طرف دیکھتی ہوں تو یقیناً میں تاریک ماضی سے افسردہ ہوں۔ بہت سارے خود غرض حکمران اوران کا مادہ پرست نظام حکومت، جس سے انتشار، موت اور تباہی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا۔ لیکن جب میں آگے دیکھتی ہوں اور اس نوجوان نسل کو بہت زیادہ پرعزم دیکھتی ہوں تو ان کے عزائم سے میں پر امید ہوں۔ کیونکہ جب جب میں انہیں دیکھتی ہوں مجھے لگتا ہے کہ وہ اس قسم کی بکواس کو برداشت نہیں کریں گے جو ہماری زندگی میں تقریباً معمول بن چکا ہے۔ جنگ کے عادی اقوام، اسلحہ ڈیلرز، ہتھیار بنانے والے، یہ تمام منفی صنعتیں جو ہمارے اردگرد پروان چڑھ رہی ہیں۔ امید ہے کہ ایک وقت آئے گا جب ہتھیاروں اور ان کے بنانے والوں کی ضرورت کو زیادہ مثبت، کارآمد اور زیادہ نتیجہ خیز متبادل سے بدل دیا جائے گا۔ یہی آنے والی نسلیں ہیں جنہیں دیکھیں تو لگ رہا ہے کہ وہی ہیں جو ہمیں سبق سکھائیں گی۔ جب میں یونیورسٹیوں میں تقریر کرنے جاتی ہوں تو مجھے بہت سے روشن، مصروف، قابل عمل نوجوان، مرد اور خواتین نظر آتے ہیں جو اس سر زمین کو مستقبل کے لیے پرامن بنانے اور اس کی از سر نو تعمیر کے لیے پرعزم ہیں۔
اس نکتہ سے مستقبل تو اچھا نظر آتا ہے لیکن اس وقت ہمارا ماضی اور حال تاریک نظر آرہا ہے۔ میں مسلم خواتین کو بہت زیادہ پر اثر، اپنے حقوق کے لیے پر زور مطالبہ کرنے والی، اپنے حقوق واپس حاصل کرنے اور سیاسی منظر نامے میں سیاسی طور بہت زیادہ متحرک دیکھنا چاہوں گی۔ آپ دنیا بھر کی خواتین لیڈروں کو دیکھیں۔ آنگ سان سوچی جیسی خواتین اتنی متاثر کن نہیں ہیں۔ وہ پدرانہ نظام میں روایتی بالادستی کی اتنی ہی شکار ہیں جتنا کوئی اور ہے۔ اگر وہ مرد پیدا ہوئی ہوتیں تب بھی وہ آج اسی حالت میں ہوتیں جس میں وہ آج ہیں۔ وہ اپنے والد کی قیادت اور طرز حکمرانی کو برقرار رکھ رہی ہیں۔ اگرچہ اس وقت وہ سابقہ طریقہ کار کے رد عمل سے گزر رہی ہیں لیکن یہ بھی پدرانہ نظام کی علامت ہے۔ بنگلہ دیش کی شیخ حسینہ اور ان جیسی کچھ اور خاتون حکم راں بھی ہیں جو ایک روایتی خاندانی حکم رانی کا حصہ ہے جو کہ پدرانہ نظام کا تسلسل ہے۔ وہ وہاں اسی لیے نہیں ہیں کہ وہ ایک خاتون ہیں بلکہ وہ اسی لیے وہاں ہیں کیونکہ ان سے پہلے اس مقام پر ان کے باپ وہاں تھے۔ یعنی یہ سب اسی خاندانی حکمرانی کی توسیع ہیں۔
لیکن آپ دنیا بھر کی دوسری جگہوں پر نظر ڈالیں، نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم کافی متاثر کن ہیں۔ جنوبی کوریا، سنگاپور کی خاتون قائدین واقعی قابلِ ذکر ہیں۔ ان کے ساتھ ساتھ جرمنی کی انجیلا مرکل بھی ہیں جنہوں نے دس لاکھ سے زیادہ مہاجرین کو جرمنی میں پناہ دی۔ ایسی متاثر کن خواتین ہیں جو بڑی تصویر کا رخ تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔ اس تصویر میں امن کو فروغ دینے، تشدد سے منہ موڑنے والے رنگ اجاگر ہوں گے۔ میں واقعی سوچتی ہوں کہ کچھ ممالک ایسے ہیں جو اس لیے نمایاں ہیں کیونکہ ان کی یہاں صنفی توازن برقرار رکھنے والی حکومتیں برسر اقتدار ہیں۔ میرا مطلب ہے کیا آپ نے کبھی آئس لینڈ یا فن لینڈ کے جنگ میں جانے کے بارے میں سنا ہے۔Scandinavian countries (جس میں ڈنمارک، فن لینڈ، آئس لینڈ، ناروے اور سویڈن کی خود مختار ریاستوں کے ساتھ ساتھ جزائر فیرو اور گرین لینڈ کے خود مختار علاقے اور آئی لینڈ جزائر کے خود مختار علاقے شامل ہیں) کسی دوسرے ممالک پر حملہ کر رہے ہیں؟ ایسا نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں خواتین حکمرانی میں حصہ لے رہی ہیں اور بہت زیادہ کارآمد تجاویز لے کر آرہی ہیں۔ کیونکہ جنگ میں جانا کسی کی کتاب میں آخری حربہ ہونا چاہیے۔
بدقسمتی سے کچھ مردوں کے زیر تسلط حکومتیں جس میں ہم برطانیہ اور امریکا کو دیکھ رہے ہیں۔ ان کا پہلا نقطہ عمل ہی یہی رہا ہے کہ’’ ٹھیک ہے، چلو جنگ کی طرف چلتے ہیں‘‘۔ اس لیے امید ہے کہ جیسے جیسے خواتین سیاست میں زیادہ سے زیادہ شامل ہوتی جائیں گی تباہ کن راستے پر جانے کا یہ رجحان کم ہوتا جائے گا۔
میں ان دنوں اسکاٹ لینڈ میں رہتی ہوں۔ اسکاٹ لینڈ کی اپنی خود مختار حکومت ہے۔ یہاں کی حکومت نے خواتین کے لیے”period poverty” نامی سہولت متعارف کرائی جس میں خواتین کو ضروری سینیٹری اشیاء مفت دستیاب ہیں۔ آپ بیس مرد سیاستدانوں کو دس سال کے لیے ایک کمرے میں بند کر دیں اور انہیں عوام کو سہولت فراہم کرنے والے اختراعی آئیڈیاز لے کر آنے کے لیے کہیں۔ ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں کہے گا کہ خواتین کو مفت سینیٹری آئٹمز جاری کے جائیں۔ اسی لیے میں سمجھتی ہوں چونکہ خواتین ایک مختلف زوایہ نظر رکھتی ہیں اس لیے وہ حکومتوں میں بہت زیادہ فعال اور موثر کردار ادا کر سکتی ہیں۔ لیکن یہ کام آپ کسی اور پر نہ چھوڑیں، جہاں کی خواتین یہ سن رہی ہیں خود اس میں شامل ہو کر پہل کریں۔ آپ جانتی ہیں کہ کچھ خواتین تنظیمیں زبردست اقدامات کر رہی ہیں۔ مثال کے طور پر اگر ہم ہندوستان کی بات کریں تو مجھے خواتین کے اس گروپ نے بہت متاثر کیا جسے گلابی ساڑی گروپ کہتے ہیں۔ آپ جانتے ہیں وہ راست طور پر مردانہ تشدد اور گھریلو تشدد کے خلاف سینہ سپر ہیں۔ انہوں نے کچھ زبردست کام کیے ہیں۔ میں سمجھتی ہوں کہ ہم سب کو یہی کرنا ہے۔ ہمیں آوٹ آف باکس جاکر سوچنا چاہیے اور نسوانی توازن کو زیادہ سے زیادہ فروغ دینے کے لیے سیاسی منظر نامے میں شامل ہونا چاہیے تاکہ خواتین کے لیے زیادہ دوستانہ قسم کی خارجہ پالیسی مدون ہو سکے۔
رحمت النساء:
واقعی قابلِ غور نکات ہیں۔ جی ہاں یہ ایک ثمر آور کارِ خیر ہے جہاں خواتین باحجاب ہوکر اور اپنی نسوانی فطرت کا احترام کرتے ہوئے بھی معاشرے اور سیاسی میدان عمل میں فعال حصہ لے کر حکومتوں سے ان کی اپنی ضروریات کو پورا کراتے ہوئے عوامی سہولیات کو زیادہ سے زیادہ خاتون دوست بنا رہی ہیں۔ ہم امید اور عمل کے ساتھ دنیا میں تبدیلیاں لا سکتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ نوجوان نسل اس کے لیے زیادہ تیار ہے۔ اور آئیے یہ امید کرتے ہیں کہ مستقبل میں شاید اگر ہمارے بچے نہیں تو کم از کم ہمارے پوتے پوتیاں ایک بہتر دنیا دیکھیں گے۔ آپ کے ساتھ بات چیت کرنا، آپ کو سننا واقعی کارآمد تھا۔ سائن آف کرنے سے پہلے کوئی حتمی پیغام؟
ایوان ریڈلی :
میں صرف اتنا کہوں گی کہ اپنی صلاحیتوں کو کم نہ سمجھیں۔ ہر ایک شخص جو وہاں بیٹھا ہے اور آج یہ سن رہا ہے، ہم انفرادی طور پر عظیم کام کر سکتے ہیں لیکن ساتھ مل کر ہم عظیم مقصد حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ سیاستدان نہیں تھے جنہوں نے برلن میں دیوار گرائی۔ یہ عام لوگ تھے۔ یہ سیاستدان یا فوج نہیں تھی جس نے مبارک کی آمریت کو گرایا۔ یہ عام لوگ تھے۔ یہ عام لوگ ہی تھے جنہوں نے پوری عرب دنیا میں انقلاب کا شعلہ روشن کیا۔ جب ہم عزم کے ساتھ اکٹھے ہوتے ہیں تو ہم عظیم کام کر سکتے ہیں۔ لہٰذا آپ جانتے ہیں، منظر نامے تبدیلیاں کرنے کی اپنی صلاحیت کو کبھی کم نہ سمجھیں۔ میرے خیال ہے کہ شاید چینیوں نے کہا تھا کہ ہزار میل کا سفر ایک قدم سے شروع ہوتا ہے۔ ایک بار جب آپ یہ پہلا قدم طے کر لیتے ہیں تو باقی سفر بہت زیادہ آسان ہو جاتا ہے۔ اللہ کی رسی کو ہمیشہ مضبوطی سے پکڑے رہو، کیونکہ جب آپ اسے اپنے ساتھ لے لیں گے، تو آپ پہاڑوں کو سر کر سکتے ہیں اور ہم سب بہنوں کے لیے میں کہوں گی کہ جو ہمارا حق ہے اسے دوبارہ حاصل کریں۔ ہمیں اپنے مردوں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہونے کی ضرورت ہے تاکہ ہم ان کا ساتھ دیں اور وہ ہمارا ساتھ دیں۔
(انٹرویو نگار جماعت اسلامی ہند کی معاون قومی سکریٹری ہیں)
بشکریہ : عورہ ای میگزین
***

 

***

 یہ سیاستدان نہیں تھے جنہوں نے برلن میں دیوار گرائی۔ یہ عام لوگ تھے۔ یہ سیاستدان یا فوج نہیں تھی جس نے مبارک کی آمریت کو گرایا۔ یہ عام لوگ تھے۔ یہ عام لوگ ہی تھے جنہوں نے پوری عرب دنیا میں انقلاب کا شعلہ روشن کیا۔ جب ہم عزم کے ساتھ اکٹھے ہوتے ہیں تو ہم عظیم کام کر سکتے ہیں


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  12 تا 18 دسمبر 2021