انتخابی فوائد کے لیے این آر سی کے نام پر کیا جا رہا ہے لوگوں کو خوف زدہ

کانسٹی ٹیوشن کلب میں مختلف مذاہب کے سرکردہ قائدین کا اظہار خیال

نئی دہلی، 2نومبر: سماجی رہنماؤں، قانون دانوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں قومی سطح پر نیشنل رجسٓٹریشن آف سٹیزن (این آر سی) کی مجوزہ تازہ کاری پر گہری تشویش اظہار کرتےہوئے کہا ہے کہ معاشرے کے ایک مخصوص طبقے کو خوف میں رکھنا محض ایک انتخابی چال ہے۔  وہ لوگ کانسٹی ٹیوشن کلب میں میں ویلفیئر پارٹی آف انڈیا کے زیر اہتمام منعقد ایک قومی اجتماع میں شامل تھے۔

آسام میں لوگ گہرے خوف کی زد میں ہیں: ڈاکٹر جان دیال

جب حکومت نے این آر سی کی تازہ کاری کا منصوبہ بنانا شروع کیا تو انھیں یقین تھا کہ وہ اس کی مدد سے لاکھوں مسلمانوں کو غیر قانونی بنا کر انھیں ملک سے باہر کر دینے میں کامیاب ہو جائیں گے، لیکن وہ ایسا کرنے میں ناکام رہے۔ ممتاز سماجی کارکن اور عیسائی رہنما ڈاکٹر جان دیال نے کہا کہ بعد میں بی جے پی کے قومی صدر اور وزیر داخلہ امت شاہ نے واضح طور پر کہا کہ مسلمانوں کو چھوڑ کر ہندوؤوں یا کسی بھی مذہبی اقلیت کو این آر سی یا شہریت بل سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

ڈاکٹر دیال جوکئی مرتبہ انسانی حقوق کے امور کو درج کرنے کے لییے آسام جا چکے ہیں، نے مزید کہا کہ ’’آسام میں لوگ ایک بھی دستاویز کی کمی کو لے کر گہرے خوف میں ہیں کیوں کہ وہ اپنے خاندان کے مستقبل کے بارے میں خوف زدہ ہیں‘‘۔ڈاکٹر جان دیال نے غیر ملکی معاملات کی سنوائی کرنے والی عدالتوں کے افسران کے فرقہ وارانہ رویے پر بھی آواز اٹھائی۔ انھوں نے کہا کہ ’’غیر ملکی معاملات کی عدالتوں میں نچلی سطح کے افسران زیادہ پڑھے لکھے نہیں ہیں۔ کسی بھی دستاویز کو منتخب یا رد کرنا ان کی اپنی خواہش پر مبنی ہے۔اعلیٰ حکام کا رویہ بھی فرقہ وارانہ ہے۔ زمینی صورتِ حال دھماکہ خیز ہے اور سیاسی رہنما اس پر تیل چھڑکنے کا کام کر رہے ہیں‘‘۔ انھوں نے مزید کہا کہ ’’ آج ہندوستان میں آسام سے لے کر کشمیر تک اسلاموفوبک صورتِ حال ہے‘‘۔ انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ ’’ان لوگوں کو گلے لگانے کی ضرورت ہے جو ہندوستان میں ہی پیدا ہوئے ، یہیں رہتے ہیں اور یہیں کا نمک کھاتے ہیں‘‘ ۔

این آر سی کو آسام کے باہر نہیں لے جانا چاہیے: وکیل سنجے ہیج

سپریم کورٹ کے وکیل سنجے ہیج نے کہا کہ این آر سی کا آغاز آسام کے ایک مقامی مسئلے کو حل کرنے کے لیے ہوا تھا جسے ریاست سے باہر لے جانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

انھوں نے کہا کہ ‘‘این آر سی کا عمل ایک خراب خیال ہے۔ یہ مقامی مسئلے کو حل کرنے کے لیے شروع کیا گیا تھا لیکن اب اس کے ہاتھ سے باہر جانے کا خطرہ ہے’’ْ۔ انھوں نے مزید کہا کہ ‘‘این آر سی آسام کا ایک مقامی مسئلہ ہے جس سے مقامی طور حل کرنا چاہیے اور اسے آسام سے باہر نہیں جانا چاہیے’’۔ انھوں نے کہا کہ ‘‘تازہ ترین این آرسی میں شامل ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ کے دادا این آر سی 1951 میں تھے لیکن اس سے خارج ہونا اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ آپ ہندوستانی نہیں ہیں’’۔ دوسری ریاستوں میں این آر سی کی تجویز سے متعلق تبصرہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ‘‘ ایک طرح سے این آر سی اچھا ہے کیوں کہ لوگ اپنی دستاویزات کو درست کر رہے ہیں۔ اگر آج آپ کے پاس درست کاغذ نہیں ہیں تو کسی کو بھی نہیں معلوم کہ آئندہ چیف جسٹس یا سپریم کورٹ کیا کرے گی’’۔ واضح رہے کہ آسام میں این آر سی سپریم کورٹ کی نگرانی میں کیا گیا تھا۔

اگر مسلمانوں نے اپنی بیٹیوں کو جائیداد میں واجب الادا حصہ دیا ہوتا تو آسام میں مسئلہ اتنا بڑا نہیں ہوتا: مولانا ارشد مدنی

صدر جمعیت علماے ہند مولانا ارشد مدنی نے ملک بھر کی مسلم برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنی دستاویزات درست کریں اور انھیں محفوظ رکھیں۔ مولانا مدنی نے کہا کہ ‘‘چاہے این آر سی پورے ہندوستان میں ہو یا نہ ہو، ہر ایک کو اپنی شہریت کے دستاویزات درست رکھنے چاہیے۔ آسام میں این آر سی کا مسئلہ طویل عرصے سے رہا ہے اور اس نے ریاست کے مسلمانوں کو اپنی دستاویزات درست رکھنے پر مجبور کیا ہے۔ میں لوگوں سے اپیل کرتا ہوں کہ دستاویزات کو املا کی غلطیوں سے بھی محفوظ رکھیں’’۔ انھوں نے مزید کہا کہ ‘‘ آسام میں مسلم خواتین کو شہریت دینے میں ہمیں بہت ساری پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مسلم خواتین کو والدین کی جائیداد میں حصہ نہیں دیا جاتا تھا۔ اگر والدین نے بیٹیوں کو جائیداد میں حصہ دیا ہوتا توزیادہ مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔’’ واضح رہے کہ ان کی تنظیم میں آسام میں لوگوں کی قانونی مدد کے لیے بڑے پیمانے پر کام کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ‘‘ ہم نے دونوں مسلمان اور ہندو ڈی ووٹروں کے مقدمات لڑے۔ ہزاروں ہندو تھے۔ تقریباً 48 لاکھ خواتین کو دستاویز کے مسئلے کا سامنا کرنا پڑا، ان میں سے 22 لاکھ ہندو تھیں۔ ہم نے سب کے لیے لڑائی کی اور سپریم کورٹ کی وجہ سے ان کی دستاویزات منظور ہو گئیں’’۔

مولانا مدنی نے کہا کہ‘‘ حتی کہ این آر سی کی حتمی فہرست آ چکی ہے جس میں چند لاکھ مسلمانوں کو شامل نہیں کیا گیا ہے اور کچھ افسران کی فرقہ وارانہ ذہنیت کی وجہ سے خطرہ اب بھی موجود ہے۔ غیر ملکی معاملات کی عدالتوں میں جج نہیں ہوتے، بلکہ وہ حکومت کے ملازم ہیں لہذا خوف ابھی بھی بنا ہوا ہے’’۔ اس کی مثال دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ‘‘ ایک مسلم آدمی تمام دستاویزات کے ساتھ قطار میں کھڑا تھا۔ جب جمعہ کی نماز کا وقت ہوا تو اس نے ایک افسر کے درخواست کی کہ وہ اسے نماز پڑھنے کی اجازت دے اور اس کے بعد وہ قطار میں شامل ہو جائے گا۔اس بات پر افسر اتنا مشتعل ہوا کہ اس نے اسے غیر ملکی قرار دیا اور اسے گرفتار کر کے جیل بھیج دیا’’۔ واضح رہے کہ این آر سی کی حتمی فہرست اس سال 31 اگست کو منطر عام پر لائی گئی تھی۔ اس میں 19 لاکھ افراد کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔ جنھیں غیر ملکی معاملات کی عدالت کے سامنے اپنی جائز شہریت ثابت کرنے کے لیے 120 دنوں کی مہلت دی گئی ہے۔

وزیر داخلہ امت شاہ کے شہریت اور این آر سی کے معاملے میں کولکاتا کے بیان کی مذمت کرتے ہوئے  مولانا مدنی نے کہا کہ‘‘ مسلمان باہر سے نہیں آئے ہیں بلکہ وہ ملک کے اصل باشندے ہیں۔ ہم وزیر داخلہ امت شاہ کے این آر سی اور شہریت سے متعلق بیان کی مذمت کرتے ہیں اور ان کا یہ بیان آئین کے خلاف ہے’’۔ معلوم ہو کہ امت شاہ نے گزشتہ ماہ کولکاتا میں ایک پروگرام کے دوران کہا تھا کہ ہندوؤں، سکھوں، عیسائیوں، بودھوں اور پارسیوں کو این آر سی یا شہریت بل سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

مولانا مدنی نے کہا کہ ‘‘ مسلمان یہاں باہر سے نہیں آئے ہیں۔ مسلمان اس ملک کے اصل باشندے ہیں۔ ہندوؤں کی تمام ذاتیں مسلمانوں میں بھی پائی جاتی ہیں۔ اگو وہاں برہمن ہندو ہیں تو کشمیر میں برہمن مسلمان بھی ہیں۔ جاٹ مسلمان بھی ہوتے ہیں۔ لیکن صرف اس وجہ سے کہ وہ مسلمان ہیں، انھیں دھمکی دی جاری ہے کہ ان سے ان کی شہریت چھین لی جائے گی۔ ہم اس فرقہ واریت کی مخالفت کرتے ہیں۔ فرقہ وارانہ طاقتوں نے سوچا تھا کہ آسام میں این آر سی کے بعد 50 سے 60 لاکھ مسلمانوں کو شہریت سے محروم کر دیا جا ئے گا لیکن وہ اپنے کھیل میں ناکام رہے’’۔

فسطائی ذہنیت کے حامل ہمیشہ عوام کو خوف میں رکھنا چاہتے ہیں: محمد سلیم انجینئر

جماعت اسلامی ہند کے نائب صدر محمد سلیم انجینئر نے کہا کہ ‘‘ این آر سی کے تین بنیادی پہلو ہیں، سیاسی، سماجی اور فرقہ وارانہ۔ اور آخری نے ایک خطرناک رنگ لے لیا ہے’’۔  انھوں نے کہا کہ ‘‘ مرکزی حکومت اور کچھ ریاستیں ایک ہی پارٹی کے تحت ایسی چیزوں کو آگے بڑھاتے ہوئے اپنی ناکامی کو چھپا رہی ہیں۔ وہ لوگوں کی توجہ حقیقی مسئلوں سے ہٹا رہے ہیں۔ اگر این آر سی کا معاملہ نہ ہوتا تو ہم غریبی، ناخواندگی، اور معاشی پسماندگی کی بات کرتے’’۔ انھوں نے اپنے خطاب میں فسطائی ذہنیت کے حامل افراد کی خصوصیات کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘‘ ایسے لوگ عوام کو ہمیشہ خوف و دہشت سے دوچار رکھنا چاہتے ہیں۔ اور وہ اس کے لیے مسلسل سرگرداں رہتے ہیں۔ وہ لوگوں کو تقسیم کرتے ہیں۔ مثلا این آر سی کے معاملے میں غیر قانونی تارکین وطن کی شناخت کے مسئلے کو فرقہ وارانہ مسئلے میں تبدیل کر دیا گیا ہے اور اس سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ان کی ایک پہچان یہ بھی ہے کہ وہ اپنے پیروکاروں کے لیے ایک جھوٹا یا فرضی دشمن پیدا کرتے ہیں اور اس سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں’’۔

آسام میں این آر سی کے بارے میں بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ‘‘ این آر سی کی تکمیل سے پہلے ہی یہ کہا گیا تھا کہ 40-50 لاکھ لوگ غیر قانونی ہوں گے۔ این آر سی کی پہلی فہرست میں تقریباً 40 لاکھ لوگوں کو خارج کر دیا گیا تھا لیکن دوسری فہرست میں یہ تعداد کم ہو کر 19 لاکھ تک پہنچ گئی۔ کہا جاتا ہے کہ اس فہرست میں شامل لوگوں کی ایک بڑی تعداد صرف اپنے ناموں میں املا کی غلطیوں کے وجہ سے ہے۔ اور بہت سے لوگ پہلے ہی مر چکے ہیں۔ تب ریاستی حکومت نے این آر سی کی فہرست سے اپنی نا پسندیدگی کا اظہار کیا اور اب این آر سی کوآرڈینیٹر پرتیک ہجیلا کو سزا کے طور پر برخاست کر دیا گیا ہے’’۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ‘‘ لوگوں میں خوف پھیلانے کے لیے حراستی مراکز بنائے جا رہے ہیں اور میڈیا کے ذریعے ان کی تشہیر بھی کی جا رہی ہے۔ یہ ساری چیزیں انتخابی مہموں میں استعامل ہو رہی ہیں۔ این آر سی کا استعمال کیا گیا، دفاعی کارروائیوں کا استعمال کیا گیا۔ ایسا معلوم ہوتا کہ پچھلے 5-6 برسوں سے ملک میں صرف انتخابی مہمیں چل رہی ہیں اور کچھ نہیں’’۔

انھوں نے لوگوں سے حکومت کے این آر سی کو قومی سطح پر نافذ کرنے کے منصوبے کے خلاف مل کر کام کرنے کا مطالبہ کیا۔ ڈبلیو پی آئی کے اس پروگرام کی صدارت اس کے قومی صدر ڈاکٹر ایس کیو آر الیاس نے کی۔ وہاں خطاب کرنے والی دیگر اہم شخصیات میں سپریم کورٹ کے وکیل پرشانت بھوشن، لوک سبھا کے رکن کنور دانش علی اور سماجی کارکن روی نیّر شامل تھے۔