انتخابات سے قبل ملک میں سیاسی ہلچل

مسلمانوں کو متحدہ حکمت عملی اور صالح وبصیرت مند قیادت کی ضرورت

ڈاکٹر ظفر دارک قاسمی

 

آئندہ برس ملک کی پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں جس کے لیے سیاسی جماعتوں نے ابھی سے ہاتھ پیر مارنا شروع کردیے ہیں۔ جن پانچ ریاستوں میں انتخابات کا عمل ہوگا ان میں اتر پردیش سب سے زیادہ اہم ہے۔ اس کی متعدد وجوہات ہیں۔ یو پی یا دیگر چار ریاستوں میں کون سی جماعت یا کس فکر ونظریہ کے افراد اقتدار پر قابض ہوں گے یہ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ لیکن یہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ اتر پردیش میں حکمراں جماعت کے لیے آئندہ کی راہ قطعی آسان نہیں ہے۔ اس بات کا اندازہ خود ارباب اقتدار کو بھی ہے۔ اسی وجہ سے آئے دن نت نئی پالیساں لائی جارہی ہیں تاکہ کسی بھی طرح رائے دہندے خوش ہو جائیں۔ سیاسی پنڈتوں کی پیشین گوئیوں کے پیش نظر دوبارہ اقتدار پر تسلط پانا آسان نہیں ہے۔ بات در اصل یہ ہے کہ یہ دور نہایت نازک ہے چونکہ انتخابات قریب آ رہے ہیں، مسلم کمیونٹی کو سنجیدگی اور اعتدال کا رویہ اپنانا ہوگا۔ نئے سیاسی فتنوں سے آ گاہی حاصل کرنی ہوگی اور اس کے لیے متحد ومتفق ہوکر حکمت عملی اپنانی ہوگی۔ آج امت کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ جب بھی ملک میں انتخابات کا بگل بجتا ہے تو قائدین کی ایک لمبی قطار سامنے آ جاتی ہے۔ ایسے میں یہ طے نہیں ہو پاتا کہ اب کس پارٹی کو ووٹ دینا ہے اور کس کو نہیں۔ مسلم کمیونٹی کے اندر ابھی تک قیادت کا زبردست بحران ہے۔ اسی کے ساتھ سیاسی منصوبہ بندی اور سیاسی بصیرت وتدبر کی بھی حد درجہ کمی ہے۔ ان تمام وجوہات کی وجہ سے آزادی سے لے کر ابھی تک مسلمانوں کو ان کا کھویا ہوا وقار اور ان کی عظمت رفتہ کی بحالی نہیں ہو پائی ہے۔ ہر جماعت اور ہر مسلک کا اپنا الگ قائد اور لیڈر ہے، اس کا اپنا محدود ایجنڈا اور منصوبہ ہے۔ مجال ہے کہ اپنے مسلکی رہنما یا جماعتی لیڈر کے علاوہ کسی دوسرے کی بات مان لی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ ابھی تک ہماری ترجیحات کا اولین ہدف اپنے مسلک اور اپنی برادری یا متعلقین تک محدود رہتا ہے۔ یاد رکھیے کہ مسلک قوم اور برادری کے نام پر جو فکر پروان چڑھتی ہے وہ نہ صرف اس وقت بلکہ ہر دور میں خطرناک رہی ہے۔ نیز مسلک کے نام پر نظریہ قائم کرنا معاشرے میں شدت اور جذباتی بنانے کا کام کرتا ہے۔ تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ مسلم قیادت کا انتشار اور اپنے گروہ اور جتھے سے عقیدت ومحبت یا قیادت کا دائرہ تنگ کرنا یہ ہندوستانی مسلمانوں کی ایسی فاش غلطیاں ہیں کہ اس کے نتائج ہمیشہ مایوس کن ہی رہے ہیں۔ آج جہاں مسلمانوں کو تمام فروعی اختلافات مٹا دینے کی ضرورت ہے وہیں قومی سطح پر مسلم کمیونٹی کی صالح اور پاکیزہ خطوط پر قیادت کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ آج مسلمانوں کو جو چیلنجیز درپیش ہیں ان کا دائرہ صرف ملکی سطح پر ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی پھیلا ہوا ہے۔ مسلم کمیونٹی شدید بحران کی شکار ہے، وہاں بھی ہر روز پروپیگنڈے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کیے جارہے ہیں۔ افسوس یہ ہے کہ ابھی تک تمام فتنوں اور تحدیات کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمارے پاس کوئی منصوبہ اور پروجیکٹ نہیں ہے۔ نہ تو ہم علمی طور پر ان کا دفاع کر پارہے ہیں اور نہ ہی ہماری درسگاہوں میں ایسے مضامین اور فکری چیزیں شامل ہوئی ہیں جو اس طرح کی چیزوں کا قلع قمع کر سکیں۔ اور تو اور ہم ایک تکثیری سماج میں رہتے ہوئے بھی ہم ان مسائل اور حالات و واقعات سے آگاہ نہیں ہیں کہ ایک ملے جلے سماج میں کس طرح سے سماجی اور دیگر رشتوں کو مضبوط کیا جائے۔ وقت کی ضرورت اور حالات کا تقاضا کیا ہے اس پر بھی نظر رکھنی ہوگی۔ جذبات میں جو قومیں اور معاشرے اپنے ترقی کے منصوبے تیار کرتی ہیں وہ کبھی بھی اپنی مطلوبہ منزل کو نہیں پاسکتیں۔ مسلم عوام کے اندر اخلاص اور جذبہ صادق کی کمی ہرگز نہیں ہے بلکہ کمی ان لوگوں میں ہے جو قیادت وسیادت کے نام پر عوام کو فروخت کرتے ہیں۔ اس لیے ایسے قائدین اور ان کے محدود منصوبوں سے بھی بچنے کی ضرورت ہے۔
سیاسی اور سماجی طور پر ہم کہاں کھڑے ہیں یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ سیاسی اور سماجی ہی نہیں معاشی بلکہ علمی اعتبار سے بھی اس وقت ہندوستانی مسلمان بہت پسپا ہیں۔ ان تمام احوال پر قابو پانے کے لیے ہمیں ان خطوط کو اختیار کرنا ہوگا جن سے قوم وملت کا کچھ بھلا ہونے کا امکان ہو۔ جذباتی باتیں کرنے یا جذباتی تحریریں لکھنے سے کام نہیں چلے گا۔ حتیٰ کہ قیادت تک بھی آج کہیں نہ کہیں محدود ومسدود ہونے کے ساتھ ساتھ جذباتیت کا شکار ہو چکی ہے۔ چنانچہ جناب سید سعادت اللہ حسینی نے لکھا ہے:
’’ہمارا المیہ یہ کہ قیادت کا عمل بھی زیادہ تر انہی عوامی جذباتیت کی ترجمانی تک محدود ہوکر رہ گیا ہے الا ماشاءاللہ۔ قیادت نام ہے تبدیلی کے وژن کا، صحیح قیادت وہ ہے جو موجود کو بدلنے کا خواب بھی دکھائے اور حوصلہ بھی پیدا کرے۔ بدقسمتی سے ملت اسلامیہ ہند میں عوامی جذبات آگے ہیں اور قیادت پیچھے۔ بلکہ صحافت ودانشوروں کا کام بھی صرف عوامی جذبات کی ترجمانی تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ ہماری قیادت کی ذمہ داری ہے کہ وہ امت کے اندر سنجیدہ مزاجی پیدا کرے عوام کو جذبات کے ریلے میں بہنے نہ دے خود کو عوام کے بے لگام جذبات کے تابع نہ کرے بلکہ عوام کی تربیت کرے اور ان کے اندر ٹھنڈے دل ودماغ کے ساتھ سوچنے اور کام کرنے کی صلاحیت بیدار کرے‘‘ اس بدلتے منظر نامے میں مسلم کمیونٹی کے صالح کردار کی دنیا کو بہت ضرورت ہے۔ اس لیے اپنے کردار وعمل میں مطابقت پیدا کرنی ہوگی۔ سنجیدگی اور تحمل مزاجی سے کام لینا ہوگا۔ آج جو قومیں مسلم کمیونٹی پر حرف گیری کر رہی ہیں تو کیوں کر رہی ہیں ان اسباب و وجوہ پر گہرائی سے نظر ڈالنی ہوگی۔ قیادت کو درست منہج اور پاکیزہ فکر وروایات سے ہم آہنگ کرنا ہوگا نیز قائدین کو تنگی نظری ختم کر کے وسیع پیمانے پر سب کو متحد ہو کر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت انتخابات کا موسم ہے لہٰذا ہر جماعت اور ہر مسلک کے نمائندے اپنے اپنے لوگوں کو ورغلانے کی کوشش کریں گے اس لیے ایسے لوگوں سے بچنا ہوگا۔ آخر میں یہ عرض کرنا ضروری معلوم ہوتا کہ آج ملت اسلامیہ ہند کو حقیقی قیادت کی ضرورت ہے لیکن وہ قیادت جذبات واشتعال کا شکار نہ ہو بلکہ اس کے اندر بصیرت وفقاہت اور حکمت ودانشمندی کے جوہر پائے جاتے ہوں۔ حالات سے نبرد آزما ہونے کے لیے ہمیں اور بھی کئی متحرک اور فعال شعبوں میں نظر ثانی کرنی ہوگی اور ایسی کھیپ تیار کرنی ہوگی جو ملت اسلامیہ ہند کی صحیح صحیح ترجمانی کرنے کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر ہونے والے مسائل سے بخوبی واقف ہو۔
جب تک ہم ان چیزوں کو نہیں سمجھیں گے جو ہمارے ارد گرد وقوع پذیر ہورہی ہیں اس وقت تک کوئی منصوبہ اور عمل کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکتا۔ کامیابی اسی وقت ممکن ہے جب ملت کے اندر اتحاد واتفاق اور باہمی اعتماد وارتباط پایا جاتا ہو۔ سماجی ہم آہنگی کی افادیت واہمیت کو جرمن ماہر سماجیات جرگن ہابر ماس نے اس طرح بیان کیا ہے۔’’عوامی دائرہ سماجی زندگی کا وہ حصہ ہے جس میں افراد ایک دوسرے کے قریب آتے ہیں، عوامی مسائل پر بات چیت کرتے ہیں، ایک دوسرے کی سوچ پر اثر ڈالتے ہیں اور اس طرح سیاسی عمل کو بھی متاثر کرتے ہیں۔ نیز زندگی کی دنیا وہ تعلقات اور بات چیت ہے جو عام اور روز مرہ کے انسانی روابط کے ذریعہ انجام پاتی ہے‘‘۔
ان تمام احوال کے پیش نظر اس وقت جو بات کی جا سکتی ہے وہ یہ کہ آج ملت اسلامیہ ہند کو ایسے افراد کی ضرورت ہے جو ان کی قیادت کا بیڑا پورے طور پر اٹھا سکیں۔ اس وقت قوم کے سامنے جو حالات ہیں وہ دن بدن ملت اسلامیہ ہند کو کمزور کر رہے ہیں۔ ملت کی کشتی کو پار لگانے اور جدید تقاضوں کے مطابق خود کو تیار کرنے کی سخت ترین ضرورت ہے اور اسی تیاری سے ملت کی قیادت کی ضرورت پوری ہوگی۔ سیاسیات، معاشیات، سماجیات اور مذہبیات جیسے اہم اور کارگر شعبوں سے قوم وملت کو وابستہ کرنا اور پھر ایسے فعال افراد کو تیار کرنا جو مذکورہ شعبوں میں فی الواقع کمی کو پورا کرسکیں، اس وقت کی بنیادی ضرورت ہے۔ معاشرتی عدل اور سماجی رابطوں کی خوشحالی کے لیے بھی ان چیزوں سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔
[email protected]
***

آج ملت اسلامیہ ہند کو ایسے افراد کی ضرورت ہے جو ان کی قیادت کا بیڑا پورے طور پر اٹھا سکیں۔ اس وقت قوم کے سامنے جو حالات ہیں وہ دن بدن ملت اسلامیہ ہند کو کمزور کر رہے ہیں۔ ملت کی کشتی کو پار لگانے اور جدید تقاضوں کے مطابق خود کو تیار کرنے کی سخت ترین ضرورت ہے اور اسی تیاری سے ملت کی قیادت کی ضرورت پوری ہوگی۔ سیاسیات، معاشیات، سماجیات اور مذہبیات جیسے اہم اور کارگر شعبوں سے قوم وملت کو وابستہ کرنا اور پھر ایسے فعال افراد کو تیار کرنا جو مذکورہ شعبوں میں فی الواقع کمی کو پورا کرسکیں، اس وقت کی بنیادی ضرورت ہے۔ معاشرتی عدل اور سماجی رابطوں کی خوشحالی کے لیے بھی ان چیزوں سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 25 تا 31 جولائی 2021