امریکا کے متعدد قانون سازوں نے ہندوستان کے نئے زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کر رہے کسانوں کی حمایت میں آواز اٹھائی
واشنگٹن، 8 دسمبر: امریکا کے متعدد قانون سازوں نے ہندوستان کے نئے زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کرنے والے کسانوں کی حمایت میں آواز اٹھائی ہے اور زور دیا ہے کہ انھیں پرامن طور پر احتجاج کرنے کی اجازت دی جائے۔
ہندوستان نے کسانوں کے احتجاج پر غیر ملکی رہنماؤں کے تبصروں کو ’’ناقص معلومات‘‘ کا نتیجہ اور ’’غیرضروری‘‘ قرار دیا ہے۔ ہندوستان کا دعویٰ ہے کہ یہ معاملہ ایک جمہوری ملک کے اندرونی معاملات سے متعلق ہے۔
کانگریس مین ڈگ لمالفا نے پیر کو کہا ’’میں ہندوستان کے پنجابی کسانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتا ہوں جو اپنی روزی روٹی اور گمراہ کن حکومتی ضوابط کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔‘‘
ریپبلکن قانون ساز نے مزید کہا کہ ’’پنجابی کسانوں کو تشدد کے خوف کے بغیر اپنی حکومت کے خلاف پرامن طور پر احتجاج کرنے کی اجازت دی جانی چاہیے۔‘‘
واضح رہے کہ ستمبر میں نافذ ہونے والے تینوں زرعی قوانین کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے 26 نومبر سے پنجاب، ہریانہ اور کئی دیگر ریاستوں کے ہزاروں کسان دہلی کی مختلف سرحدوں پر احتجاج کر رہے ہیں۔
ان قوانین کو ’’کسان مخالف‘‘ قرار دیتے ہوئے کسانوں کا دعویٰ ہے کہ یہ قوانین ایم ایس پی کو ختم کرنے کی راہ ہموار کریں گے اور انھیں کارپوریٹ اداروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں گے۔
تاہم حکومت اپنی بات پر اڑی ہوئی ہے کہ نئے قوانین سے کسانوں کو بہتر مواقع میسر آئیں گے اور زراعت میں نئی ٹیکنالوجیز کا آغاز ہوگا۔
ڈیمو کریٹک کانگریس مین جوش ہارڈر نے کہا ’’ہندوستان دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے۔ انھیں اپنے شہریوں کو پرامن احتجاج کی اجازت دینی چاہیے۔ میں ان لوگوں اور وزیر اعظم (نریندر) مودی کو پرامن اور نتیجہ خیز گفتگو کرنے کی ترغیب دیتا ہوں۔‘‘
وہیں ایک اور ڈیموکریٹک کانگریس مین ٹی جے کاکس نے کہا کہ ہندوستان کو پرامن مظاہرے کے حق کو برقرار رکھنا اور اپنے شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنانا ہوگا۔
کسانوں کے احتجاج نے مرکزی دھارے میں شامل امریکی میڈیا کی بھی توجہ مبذول کرلی ہے۔