امراض اور اسلامی تعلیمات

بیماری اور شفا اللہ کی طرف سے ہے ،اُسی سے رجوع کریں

عتیق احمد شفیق اصلاحی ،بریلی

 

ایک مومن کا یقین ہوتا ہے کہ خوشی و غم، مسرت و رنج، دکھ وسکھ، خوش حالی و تنگی، صحت و بیماری توانائی و ضعف دینے والی اللہ کی ذات ہے۔ دنیا اسباب و علل کی ہے۔ اسباب وعلل کو موثر کرنے والی ذات اللہ کی ہے۔ یہ یقین ایمان کا جز اور تقدیر پر ایمان لانے کا لازمی حصہ ہے۔ اسلام نے انسان کی صحت کو ایک نعمت بتایا ہے۔ اس کی قدر و حفاظت کرنے کا حکم دیا ہے۔ صحت کے بنیادی اصول بتائے مثلا صفائی ستھرائی، کھانے پینے، سونے جاگنے، پانی کا استعمال، ورزش، ملنے جلنے کے آداب و طریقے شرح وبسط سے بیان کیے ہیں۔ جبکہ بیماری سے بچنے کی احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ہدایات دی ہیں۔ اگر کوئی مومن ان کو اختیار کرنے کے باوجود بیمار ہو جائے تو اس کو کیا کرنا چاہیے یا دوسرے مسلمانوں کا اس کے ساتھ کیا رویہ و معاملہ رہنا چاہیے؟ اسلام نے اس کی بھی رہنمائی کی ہے۔
اللہ پر توکل :۔ جب کوئی مسلمان صحت کے اصولوں کو اپنانے کے باوجود بیمار ہو جائے تو اس کو یہ بات سمجھ لینے چاہیے کہ یہ مرض اللہ کی جانب سے ہے اس میں کوئی بہتری و خیر پوشیدہ ہو گا۔ مرض و صحت دینے والا اللہ ہے۔ صحت و مرض دونوں میں بندے کی آزمائش ہے۔ صحت میں یہ کہ وہ اللہ کی فرمانبرداری میں کتنی چستی و سرگرمی دکھاتا ہے اور اللہ کا شکر بجا لاتا ہے جب کہ بیماری میں وہ کتنا صبر کرتا ہے۔ شکر و صبر دونوں پر اجر ہے۔ قرآن کریم میں حضرت ابراہیمؑ کے الفاظ ہیں اذا مرضت فھو یشفین (الشوریٰ: ۸۰)
نبی ﷺ نے فرمایا: ہر بیماری کی دوا ہے جب وہ انسان کے جسم میں پہنچتی ہے تو مریض اللہ کے اذن سے شفا یاب ہو جاتا ہے۔ قرآن کی آیت اور حدیث بالا سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ ظاہری اسباب کو اختیا ر کیا جائے لیکن پھر اللہ کی ذات پر بھروسہ رکھا جائے کہ وہی چیزوں میں تاثیر پیدا کرتا ہے۔ دنیا میں اسباب کو ذرائع کے طور پر رکھا گیا ہے۔ انسانی نسل کے تسلسل کے لیے میاں بیوی کا رشتہ ہونا ضروری ہے لیکن اللہ نے حضرت آدمؑ کو بغیر ماں باپ کے اور حضرت عیسیؑ کو بغیر باپ کے پیدا کیا۔ اسی طر ح بیماری پیدا کی تو اس کا علاج بھی رکھا ہے لیکن دوا میں اچھا کرنے کی خاصیت و تاثیر خود اس کی اپنی نہیں ہے بلکہ اس میں تاثیر اللہ پیدا کرتا ہے۔آگ کا کام جلانا ہے وہ جلاتی ہے لیکن جب اللہ کا حکم ہوا تو حضرت ابراہیم کے لیے آگ آرام دہ ہو گئی۔ یٰنار کونی بردا و سلما علی ابراھیم (انبیاء:۶۹) اے آگ ٹھنڈی ہو جا اور سلامتی بن جا ابراہیم پر ۔ مچھلی جب کسی چیز کو کھاتی ہے تو وہ اس کی غذا بن جاتی ہے لیکن حضرت یونسؑ مچھلی کے پیٹ میں رہ کر اس کی غذا نہ بن سکے اور صحیح سلامت باہر آگئے۔ ایک مومن جب مرض میں مبتلا ہو جائے تو اس کو یقین رہنا چاہیے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے اور اسی کے حکم سے شفا یاب ہو گا۔
صبر کرے:۔ انسان کو جو بھی پریشانی، دکھ، مرض لاحق ہو۔ اس پر صبر کرنا چاہیے۔ صبر کرنے پر انسان اجر کا مستحق ہو جاتا ہے۔ بیماری انسان کے درجات کو بلند کرنے اور گنا ہ کے خاتمہ کا سبب بنتی ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: مومن کو جو تکلیف، بیماری اور رنج ہو یہاں تک کہ وہ فکر بھی جو اس کو لاحق ہوتی ہے لازماً اس کے سبب سے اس کی برائیاں اور گناہ مٹ جاتے ہیں۔(مسلم)
زندگی میں انسان کو آرام و راحت یا مصیبت وپریشانی میں سے کسی ایک سے سابقہ ہوتا ہے۔مومن کا حال یہ ہوتا کہ خوش حالی اور نعمت ملنے پر اللہ کا شکر بجا لاتا ہے اور غم و تکلیف کے وقت صبر کرتا ہے، دونوں صورتوں میں رب کے فیصلے پر رضا کا اظہار کرتا ہے۔ یہ دونوں صفات اس کے درجات کو بلند کر نے کا سبب بنتی ہیں۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: مومن کا معاملہ عجیب ہے اس کا تو ہر معاملہ اس کے حق میں سراپا خیر ہو تا ہے اور یہ بات مومن کے سوا کسی کو بھی حاصل نہیں ہوتی ہے، اگر اسے خوشی ملتی ہے تو شکر ادا کرتا ہے تو یہ اس کے لیے خیر ہے اور اگر اسے کوئی تکلیف پہنچے تو اس پرصبر کر تا ہے تو یہ اس کے لیے خیر ہے۔ (مسلم)
اللہ کی طرف رجوع:۔ جب کسی کو کوئی بیماری لاحق ہو تو اس کو اللہ کی جانب متوجہ ہونا چاہیے۔ اپنے گناہوں پر نادم ہو آئندہ کے لیے گناہ سے بچنے کا عزم کرے اس لیے کہ بعض دفعہ بیماری اللہ کی نافرمانی کی وجہ سے بطور تنبیہ بھی ہوتی ہے۔ معاشرے میں گناہوں کی کثرت اور احکا م الٰہی کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی وجہ سے بیماریاں وبائی شکل لے لیتی ہیں گویا وہ ایک عذاب کی شکل میں نمودار ہوتی ہیں۔ فکاین من قریۃ اھلکنھا وھی ظالمۃ فھی خاویۃ علی عروشھا و بئر معطلۃ و قصر مشید (حج:۴۵) کتنی ہی خطا کار بستیاں ہیں جن کو ہم نے تباہ کیا ہے اور آج وہ اپنی چھتوں پر الٹی پڑی ہیں، کتنے ہی کنوئیں بے کار اور کتنے ہی قصر کھنڈر بنے ہوئے ہیں۔
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جب کسی قوم میں علانیہ فحاشی ہونے لگ جائے تو اس میں طاعون اور ایسی بیماریاں پھوٹ پڑتی ہیں جو ان سے پہلے لوگوں میں نہ تھیں (ابن ماجہ)
ومن یتق اللہ یجعل لہ مخرجا و یرزقہ من حیث لایحتسب ومن یتوکل علی اللہ فھو حسبہ (سورہ طلاق : ٣) جو کوئی اللہ سے ڈرتے ہوئے کام کرے گا اللہ اس کے لیے مشکلات سے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کردے گا اور ایسے راستے سے رزق دے گا جدھر اس کا گمان بھی نہ جاتا ہو جو اللہ پر بھروسا کرے اس کے لیے وہ کافی ہے۔
فقلت استغفروا ربکم انہ غفارا یر سل السماء علیکم مدرار و یمددکم باموال و بنین و یجعل لکم جنت و یجعل لکم انھارا (نوح: ۱۰تا ۱۳) میں نے کہا اپنے رب سے معافی مانگو بے شک وہ بڑا معاف کرنے والا ہے وہ تم پر آسمان سے خوب بارشیں برسائے گا، تمہیں مال اور اولاد سے نواز ے گا، تمہارے لیے باغ پیدا کرے گا اور تمہارے لیے نہریں جاری کردے گا۔
نبی ﷺ نے فرمایا: جو شخص استغفار کو اپنے اوپر لازم کرلے تو اللہ ہر تنگی سے نکلنے کی راہ اس کے لیے پیدا کر دیتا ہے اور ہر رنج اور غم سے نجات عطا کرتا ہے اور اسے ایسی جگہ رزق پہنچاتا ہے جہاں سے اس کو گمان بھی نہیں ہوتا۔ (ابوداؤد) اور فرمایا ہر انسان خطا کار ہے اور بہترین خطار کار توبہ کرنے والے ہیں۔
دعا:۔ اسلام اس بات کی تعلیم دیتا ہے کہ جب انسان کو کوئی ضروت وحاجت پیش آئے تو وہ اللہ سے مانگی چاہیے۔ کوئی مشکل، پریشانی و رنج لاحق ہو تو اللہ ہی سے فریاد کرنی چاہیے ایک مومن اپنے رب کو ہی کو کار ساز اور پریشانیوں کو دور کرنے والا سمجھتا ہے اور یہی ایمان کا تقاضا ہے۔ ایک مومن جہاں کہیں بھی ہوتا ہے اور جس حال میں ہوتا ہے اپنے رب سے استعانت اور امداد چاہتا ہے۔
ادعوا ربکم تضرعا و خفیۃ (اعراف : ۵۵) اپنے رب کو عاجزی کے ساتھ گڑگڑاتے ہوئے پوشیدہ پکارو ادعوہ خوفا و طمعا (اعراف:۵۶) اسے خوف و طمع کے ساتھ پکارو۔ مومنین کی صفت بتائی کہ و یدعوننا رغبا و رھبا و کانوا لنا خاشعین (الابنیاء:۹۰) ہمیں رغبت اور خوف کے ساتھ پکارتے تھے اور ہمارے آگے جھکے ہوئے تھے۔
اللہ کے رسول نے فرمایا: دعا ہر حال میں نفع بخش ہوتی ہے ان بلاؤں میں بھی جو نازل ہو چکی ہیں اور ان کے معاملہ میں بھی جو ابھی نازل نہیں ہوئی ہیں پس اللہ کے بندو! دعا کا اہتمام کرو۔ (ترمذی)
حضرت یونسؑ نے مچھلی کے پیٹ میں اللہ سے دعا مانگی۔ فنادی فی الظلمات ان لا الہ الا انت سبحنک انی کنت من الظالمین فاستجبنا لہ و نجینہ من الغم و کذلک نجی المومنین (الانبیاء :۸۷،۸۸) آخر کو اس نے تاریکیوں میں پکارا نہیں ہے کوئی خدا مگر تو پاک ہے تیری ذات بے شک میں نے قصور کیا تب ہم نے اس کی دعا قبول کی اور غم سے نجات بخشی اور اسی طرح ہم مومنوں کو بچا لیا کرتے ہیں۔
حضرت ایوبؑ نے اپنی سخت بیماری کی حالت میں اللہ سے دعا کی۔ انی مسنی الضر وانت ارحم الرحمین فاستجبنالہ فکشفنا مابہ ضرواتینہ اھلہ و مثلھم معھم رحمۃ من عندنا وذکر للعبدین (الانبیاء:۸۳) مجھے بیماری لگ گئی ہے اور تو ارحم الرحمین ہے ہم نے اس کی دعا قبول کی جو تکلیف اسے تھی اس کو دور کر دیا اور صرف اس کے اہل و عیال ہی اس کو نہیں دیے بلکہ ان کے ساتھ اتنے ہی اور دیے، اپنی خاص رحمت کے طور پر اور اس لیے کہ یہ ایک سبق ہو عبادت گزاروں کے لیے ۔
گھبرانا نہیں چاہیے:۔ ہر انسان کو موت آنی ہے جو وقت مقرر ہے اسی پر وہ آئے گی جو جگہ متعین ہے اسی مقام پر آئے گی نہ اس سے پہلے کسی کے چاہنے سے آئے گی اور کوئی اس کو ٹالنا چاہے تو ٹل نہیں سکتی۔ وما کان لنفس ان تموت الا باذن اللہ کتابا موجلا (آل عمران : ۱۴۵) کوئی ذی روح اللہ کے اذن کے بغیر نہیں مر سکتا موت کا وقت تو لکھا ہوا ہے۔
جب کوئی مصیبت آئے تو یہ کہنا چاہیے انا للہ و انا الیہ راجعون ( بقرۃ: ۱۵۶) ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے۔
اسباب کا اختیار کرنا:۔ کسی چیز یا نفع حاصل کرنے کے لیے اسباب و تدابیر اختیار کرنا یا کسی نقصان و شر سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرنا بھی تو کل کا حصہ ہے۔ یعنی توکل یہ ہے کہ انسان اپنی حتی المقدور کوشش کرے اور اس کے بعد نتیجہ اللہ کے حوالے کر کے مطمئنہو جائے ۔
نبی ﷺ سے پوچھا گیا کہ یہ دوائیاں جو ہم مرض کو دور کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں اور یہ احتیاطی تدابیر جو ہم دکھوں سے بچنے کے لیے کرتے ہیں کیا یہ اللہ کی تقدیر کو ٹال سکتی ہیں آپ ﷺ نے فرمایا ھی من قدر اللہ (ترمذی) یہ سب چیزیں بھی تو اللہ کی تقدیر میں سے ہیں۔
ایک بندہ مومن اللہ کے فیصلہ پر برضا و رغبت راضی رہتا ہے۔ یہ بندے کے لیے سعادت کی بات ہے کہ وہ رب کے فیصلوں پر خوش رہے البتہ ہر لمحہ اس سے خیر و بھلائی کا طالب رہے۔ اگر بندہ یہ رویہ اختیار کرتا ہے تو اس سے اس کا رب سے تعلق مضبوط سے مضبوط تر ہو جاتا ہے۔ عسی ان تکرھوا شیا و ھو خیر لکم و عسی ان تحبوا شیا و شر لکم (سورہ بقرہ: ۲۱۶) ہو سکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں ناگوار ہو اوروہی تمہارے لیے بہتر ہو اور ہو سکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند ہو اور وہی تمہارے لیے بری ہو۔
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ابن آدم کی خوش نصیبی میں سے ہے کہ خدا کی جانب سے اس کے لیے جو بھی فیصلہ ہو وہ اس پر راضی رہے۔ توکل کے لغوی معنی بھروسہ کرنے کے ہیں۔ اصطلاح میں اللہ پر بھروسہ کرنے کو توکل کہتے ہیں۔ آزمائشوں، مصیبتوں، پریشانیوں، آلام، مشکلوں، مخالفتوں، دشمنوں کی سازشوں کے موقع پر ایک مسلمان کو اللہ پر توکل کرنا چاہیے۔ قرآن میں جگہ جگہ اس کی تعلیم دی گئی ہے۔ اپنے مقصد میں کامیابی کے اچھی منصوبہ بندی کر کے مسلسل جد وجہد کرتے رہنا چاہیے مریض کو اپنے مرض کی تشخیص، علاج معالجہ اور پرہیز وغیرہ ممکن تدبیر اختیار کرنی چاہیے کامیابی ملے یا نتیجہ حسب منشاء ہو، مریض شفایاب ہو جائے تو اللہ ہی کی جانب سے سمجھے اور اگر مرضی کے مطابق نہ اور بیماری میں افاقہ نہ ہو یا ختم نہیں ہوتی ہو تو اللہ کی مصلحت سمجھے۔
ان یمسسک اللہ بضر فلا کا شف لہ الا ھو و ان یمسسک بخیر فھو علی کل شی قدیر ( الانعام:۱۷،۱۸) اگر اللہ تمہیں کسی قسم کا نقصان پہنچائے تو اس کے سوا کوئی نہیں جو تمہیں اس نقصان سے بچا سکے اور اگر وہ تمہیں کسی بھلائی سے بہرہ مند کرے تو وہ ہر چیز پرقادر ہے ۔ وہ اپنے بندوں پر کامل اختیارات رکھتا ہے اور دانا اور باخبر ہے۔
انسانوں پر جو بھی مصیبت آتی ہے وہ ان کے اپنے اعمال کی وجہ سے آتی ہے۔ وما اصابک من سیئۃ فمن نفسک (نساء: ۷۹) اے انسان! جو مصیبت تجھ پر آتی ہے وہ تیرے اپنے کسب و عمل کی بدولت ہے۔وبائی بیماریاں اور اسلام:۔ بیماریاں دو قسم کی جانی جاتی ہیں۔ مرض کی ایک قسم وہ ہے جو ایک سے دوسرے شخص کو منتقل ہوتی ہے۔ تیزی سے پھیلنے کے امکانات رہتے ہیں۔ دوسری قسم وہ ہے جو ایک سے دوسرے کو منتقل نہیں ہوتی۔ پھیلنے والی بیماریوں میں کوڑھ، ہیضہ، طاعون، چیچک، کھجلی، نزلہ زکام۔ نہ پھیلنے والیوں میں چوٹ کا لگنا، جسم کے کسی حصہ میں درد کا ہونا وغیرہ ہیں۔
ایسی بیماریاں جن کو چھوت کی بیماریاں سمجھا جاتا ہے ان کے بارے میں اسلام نے رہنمائی کی ہے
کوئی بھی بیماری اللہ کے حکم کے بغیر کسی کو نہیں ہو تی ہے۔ دور جاہلیت میں اور موجودہ دور کے ناداں لوگ بیماری کو ذاتی طور پر یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ یہ بیماری کے اندر از خود تاثیر ہے کہ وہ پھیلتی ہے۔ اسلام نے اس کی نفی کی ہے اور بتایا کہ کوئی بیماری اللہ کے حکم کے بغیر نہ لگتی ہے نہ پھیلتی ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: کوئی بیماری متعدی نہیں ہوتی۔ بیماری کا لگنا کوئی چیز نہیں ہے۔ صفر اور ھامہ کی کوئی اصل نہیں ہے۔
عدوی :۔ عدوی کے معنی ہیں بیماری کا مریض شخص سے صحت مند آدمی کی طرف منتقل ہو جا نا ۔
ہامہ :۔ ہامہ الو کی شکل کا ایک پرندہ ہوتا ہے یا الو ہی کو کہتے ہیں جس کے بارے میں عربوں کا تصور یہ تھا کہ مردے کی روح ہامہ پرند ے کی شکل میں گھر کی چھت پر آتی ہے جب کسی کی چھت پر آکر ہامہ بیٹھتا اور بولتا تو یہ سمجھاجا تاکہ اس گھر والے کی موت آنا ہے۔ اور یہ بھی مفہوم لیتے کہ مقتول کی جان کا بدلہ لینے کے لیے بول رہا ہے اس کے بولنے سے ورثاء دلی تکلیف محسو س کرتے تھے۔
صفر:۔ دور جاہلیت میں عرب ماہ محرم کی حرمت کو صفر تک موخر کرتے تھے یعنی اس ماہ کو آگے پیچھے کرلیتے تھے۔ ماہ صفر کو بدشگونی کے طور پر لیتے تھے۔ ایک سال ماہ محرم کو حلال اور دوسرے سال حرام قرادے دیتے تھے۔اس حدیث میں تین باتوں کی نفی کی ہے کہ ان چیزوں کی کوئی حقیقت و اصل نہیں ہے یہ اوہام پرستی سے تعلق رکھتی ہیں۔ بیماری خود بخود لگ جاتی ہے۔ روح الو کی شکل میں آتی ہے اور کوئی مہینہ خیر یا شر کا ہوتا ہے کی نفی کی گئی ہے۔بیماری کا پھیلنا، اس کے جراثیم کا منتقل ہونا اللہ کے حکم سے ہی ہوتا ہے جب تک اللہ نہ چاہے تب تک نہیں پھیل سکتی ہے۔ سماج میں اس طرح کی بے شمار مثالیں موجود ہیں کہ گھر کا کوئی فرد وبائی بیماری میں مبتلا ہوتا ہے گھر کے لوگ تیمارداری کرتے ہیں۔ گھر میں بچے اور کمزور لوگ بھی رہتے ہیں مگر کوئی بھی اس بیماری میں مبتلا نہیں ہوتا۔ یعنی مرض کا پھیلنا ظاہری سبب کا درجہ رکھتا ہے مگر اللہ کی ذات ہی جو اس میں تاثیر (پھیلنے کا سبب) پیدا کرتی ہے نہ کہ خود مرض ۔
احیتاطی تدابیر :۔ احیتاطی تدابیر میں سے ایک یہ بھی کہ وبائی بیماری میں مبتلا شخص سے احتیاط سے ملا جائے یا اس کی تیمارداری احتیاط کے ساتھ کی جائے۔ جس طر ح اسلام نے بیماری کے اسباب سے احتیاط برتنے کی ہدایات دی ہیں اس میں سے ایک یہ بھی ہے۔
اسامہ بن زیدؓ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا: طاعون ایک عذاب کی نشانی ہے جس سے اللہ تعالی نے اپنے بعض بندوں کی آزمائش کی پھر جب تم سنو کسی ملک میں طاعون نمودار ہوا تو وہاں مت جانا اور جب تم وہیں مقیم ہو تو وہاں سے مت بھاگنا ۔
رہیں وہ حدیثیں جن میں وبائی مریضوں سے بچ کر رہنے کی ہدایت کی گئی ہے مثلاً: صحت مند اونٹوں کے پاس بیمار اونٹ مت لاؤ اور جذامی مریض سے ایسے بھاگو جس طر ح شیر سے بھاگتے ہیں۔ اور فرمایا جذامی سے بات کرو تو تمہارے اور اس کے درمیان ایک نیز کا فاصلہ ہو۔ (مسلم)
ان مندرجہ بالا احادیث میں پرہیز اور احتیاط کے اصول بتائے ہیں۔ اس احتیاطی تدبیر کا حکم اس لیے دیا گیا تاکہ عقیدہ در ست رہے، اصل مشیت اللہ کی سمجھی جائے نہ کہ بیماری کو۔ کمزور یقین والے اور ضعیف الاعتقاد کے لوگ بد عقیدی میں مبتلا نہ ہو جائیں ۔
جہاں طاعون والی حدیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جہاں طاعون پھیلا ہو وہاں سے لوگ نہ بھاگیں اور باہر کے لوگ وہاں کا سفر نہ کریں اس کی مصلحت یہ ہے کہ:
٭ بیماری کے پھیلاو کی احتیاطی تدبیر اختیار کی جائے۔
٭ اگر باہر کا کوئی فرد بیماری والے علاقے میں گیا اور اس کو بیماری لاحق ہو گئی تو وہ یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ وہاں جانے کی وجہ سے بیماری لگ گئی ہے۔
٭ اسی طرح بیماری والے علاقے سے باہر جانے والا یہ گمان نہ کرلے کہ میں وہاں سے چلا آیا اس لیے بیماری سے بچ گیا۔دراصل اس سوچ کی اصلاح کی جا رہی ہے کہ بیماری کا ہونا اور نہ ہونا اللہ کے اختیار میں ہے اسی کے حکم سے ہوتی ہے۔
٭ تیسری بات یہ کہ اگر لوگ آفت زدہ علاقے سے بھا گنے لگیں گے تو تیمار داری کے فرائض کون انجام دے گا جب کہ اسلام میں تیمار داری کی بڑی فضیلت و اہمیت ہے۔
اسی طرح صحت مند اونٹوں میں بیمار اونٹ کے لے جانے کی ممانعت کی مصلحت یہ ہے اگر کسی اور اونٹ کو بھی بیماری ہو گئی تو اونٹ والے کے دل میں یہ وسوسہ آنے کے امکان ہیں کہ اسی بیمار اونٹ کی وجہ سے یہ بیماری ہوئی ہے۔
جذامی کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے ملنے جلنے میں احتیاط رکھنے اور صحت مند اونٹوں کو بیمار اونٹوں سے الگ رکھنے کی مصلحت یہ کہ انسان اس حقیقت کو بھول جاتا ہے کہ اسباب اور ان کے نتائج دونوں اللہ کی مرضی کے پابند ہیں۔ مندرجہ بالا احادیث کی تشریح درج ذیل احادیث سے ہوتی ہے جن سے مندرجہ بالا احادیث کا صحیح مفہوم عیاں و آشکار ہو جائے گا ۔
٭ایک اعرابی نے نبی ﷺ سے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول! ریگستان میں اونٹ ہرنوں کی طرح صحت مند ہوتے ہیں لیکن جب ان کے پاس ایک خارش زدہ اونٹ آتا ہے تو ان سب کو خارش ہو جاتی ہے تو آپ نے سوال فرمایا کہ پہلے اونٹ کو کس نے خارش زردہ کیا؟ (مسلم)
٭ ایک دفعہ آپ نے ایک مجذوم کا ہاتھ پکڑا اور اس کو کھانے میں اپنے پیالے میں شریک کرلیا اور فرمایا اللہ پر بھروسہ کرتے اور اس کا نام لیتے ہوئے کھانا کھاو (ترمذی)
حضرت عائشہؓ کا ایک غلام تھا جو کوڑھ کے مرض میں مبتلا تھا وہ آپ کے برتنوں میں کھاتا اور آپ ہی کے پیالہ سے پانی پیتا۔
کرونا وائرس:۔ آج کل کرونا وائرس کا بڑا شور و غوغا ہے۔ بعض احباب کا کہنا یہ ہے کہ اس میں کچھ ملکوں کے سیاسی مفادات شامل ہیں۔ واللہ اعلم۔ لیکن یہ ایک وبائی بیماری کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ اس سلسلے میں احتیاطی تدا بیر اختیار کرنی چاہئیں لیکن کسی خوف میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے اسلامی تعلیمات پر عمل آوری پرخصوصیت سے توجہ دی جانی چاہیے۔
احتیاطی تدبیر کے طور پر ہاتھوں کو دھونے کی تلقین کی جارہی ہے۔ اسلام نے صفائی کو آدھا ایمان قرار دیا ہے۔ وضو، غسل، طہارت کے سلسلہ میں رہنمائی کی ہے۔ فقہ کی کتابوں کا آغاز طہارت کے باب سے ہی ہو تا ہے۔ عبادات و قرآن مجید کے لیے طہارت و نظافت ضروری ہے اس میں جسم کے ساتھ کپڑوں اور جگہ کی پاکی بھی ضروری ہے۔ ہر وقت باوضو رہنے کو پسند کیا گیا ہے۔
کھانے پینے میں احتیاط کی بات کہی جا رہی ہے۔اسلام نے کھانے پینے کے سلسلے میں حلال اور حرام اور حلال چیزوں کے استعمال کی تفصیل بتائی ہے۔ ہر حال میں حلال غذا لینے کا التزام کیا جائے اور تازہ غذا کھانے کا اہتمام کیا جائے۔ کھانے پینے کی چیزوں کو ڈھک کر رکھا جائے۔
ملنے جلنے میں احتیاط برتنے کی بات کی جارہی ہے۔ اسلام نے ملنے جلنے کے آداب بتائے ہیں۔ چھینک آئے تو منھ کو ہاتھ یا کپڑے سے ڈھانک لینا چاہیے۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ جب چھینکتے تو اپنے چہرے کو اپنے ہاتھ یا اپنے کسی کپڑے سے ڈھانک لیتے تھے اور چھینک کی آواز کو پست کر لیتے تھے۔ آپؐ نے فرمایا جب تم میں سے کسی شخص کو چھینک آئے تو اسے چاہیے کہ الحمد للہ کہے اور اس کے بھائی یا دوست کو اس کے جواب میں یرحمک اللہ اور جب وہ یرحمک اللہ کہے تو چھینکنے والے کو چاہیے کہ کہے کہ یھد یکم اللہ ویصلح بالکم (بخاری)
ضرورت ہے کہ اسلامی تعلیمات کو اختیار کیا جائے اور اللہ کی طرف رجوع کیا جائے۔ اللہ پر بھروسہ رکھا جائے۔ نبی ﷺ کی اس مسنون دعا کا اہتمام کیا جائے۔ اللھم انی اعوذبک من البرص والجنون و الجذام و سیّ الاسقام۔ اے اللہ میں تیری پناہ مانگتا ہوں کوڑھ سے، جنون سے، جذام سے اور تمام بری اور مہلک بیماریوں سے۔

بیماری کا پھیلنا، اس کے جراثیم کا منتقل ہونا اللہ کے حکم سے ہی ہوتا ہے جب تک اللہ نہ چاہے تب تک نہیں پھیل سکتی ہے۔ سماج میں اس طرح کی بے شمار مثالیں موجود ہیں کہ گھر کا کوئی فرد وبائی بیماری میں مبتلا ہوتا ہے گھر کے لوگ تیمارداری کرتے ہیں۔ گھر میں بچے اور کمزور لوگ بھی رہتے ہیں مگر کوئی بھی اس بیماری میں مبتلا نہیں ہوتا۔ یعنی مرض کا پھیلنا ظاہری سبب کا درجہ رکھتا ہے مگر اللہ کی ذات ہی جو اس میں تاثیر (پھیلنے کا سبب) پیدا کرتی ہے نہ کہ خود مرض

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 2 مئی تا 8 مئی 2021