امانت اللہ خان اب دہلی وقف بورڈ کے چیئرمین نہیں: دہلی حکومت

نئی دہلی، مارچ 21— دہلی وقف بورڈ کے ذریعہ شمال مشرقی دہلی کے تشدد سے متاثرہ علاقوں میں ہنگامہ خیز امدادی کاموں کے درمیان دہلی حکومت کے محکمۂ محصولات نے کہا ہے کہ عام آدمی پارٹی کے رہنما امانت اللہ خان اس سال 11 فروری کو قانون ساز اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد سے دہلی وقف بورڈ کے چیئرمین نہیں رہے۔ اب وہ دہلی وقف بورڈ کے چیئرمین کی حیثیت سے کوئی فیصلہ لینے یا کسی چیک پر دستخط کرنے کا اختیار نہیں رکھتے ہیں۔

جناب خان اُس دہلی اسمبلی میں اوکھلا حلقہ سے ایم ایل اے تھے، جو 11 فروری کو تحلیل کر دی گئی تھی۔ وہ اسمبلی کے اگلے انتخابات میں اسی حلقے سے دوبارہ منتخب ہوئے ہیں۔

پرنسپل سکریٹری (محصول) کے دفتر نے جمعہ کے روز ایک خط میں کہا ہے کہ مسٹر خان وقف ایکٹ 1995 کی دفعہ 14 (1) کے مطابق 11 فروری کو اسمبلی تحلیل ہونے کے ساتھ ہی بورڈ کے ممبر اور چیئرمین نہیں رہے۔

محکمہ کے 20 مارچ کے خط میں مزید کہا گیا ہے کہ ’’آں جناب کو دلی وقف بورڈ کے رکن اور صدر نشین کی حیثیت سے مؤرخہ 11 فروری 2020 کو عہدے سے سبک دوش ہونا تھا۔ لہذا آں جناب کی جانب سے دہلی وقف بورڈ کے رکن اور صدر نشین کی حیثیت سے کسی بھی دیگر کارروائی کی ضرورت نہیں ہے، بشمول کسی چیک یا دستاویز پر دستخط کرنے کے…یہ حکم 11 فروری 2020 سے نافذ العمل ہے۔‘‘

جناب خان دارالحکومت کے شمال مشرقی ضلع میں دہلی وقف بورڈ کی امداد اور بحالی کی کوششوں کی سربراہی کر رہے ہیں، جہاں گذشتہ ماہ بڑے پیمانے پر تشدد ہوا تھا، جس میں کم از کم 53 افراد کی جانیں ضائع ہوئی تھیں۔ سیکڑوں گھروں اور دکانوں کو لوٹ لیا گیا تھا اور سیکڑوں گاڑیاں فسادیوں کے ذریعہ نذر آتش کر دی گئی تھیں۔

پچھلے تین ہفتوں میں دہلی وقف بورڈ کے چیئرمین کی حیثیت سے جناب امانت اللہ خان نے متاثرین کے لیے مالیاتی امداد کے متعدد اقدامات کیے تھے۔

انھوں نے تمام نقصان دہ مکانات اور دکانوں کا تعمیراتی کام شروع کرنے کے لیے ان کے مالکان کے مذہب سے قطع نظر دہلی وقف بورڈ کی تعمیراتی کمیٹی کو 50 لاکھ روپے جاری کیے۔

اس منگل (17 مارچ) کو انھوں نے متاثرین میں سے تین- رنجو دیوی، رام ورن سنگھ اور مکیش- میں سے ہر ایک کو دو لاکھ روپے کے چیک دیے۔ یہ ان سیکڑوں لوگوں میں شامل ہیں جن کی دکانوں کو یا تو لوٹ لیا گیا یا تشدد کے دوران نذر آتش کیا گیا۔ اس ماہ کے شروع میں جناب خان نے 19 مساجد کی مرمت کا کام شروع کرنے کے لیے بھی 5 لاکھ روپے جاری کیے تھے، جو تشدد کے دوران تباہ اور نذر آتش کی گئی تھیں۔

اوکھلا کے ایم ایل اے نے معطل عآپ کاؤنسلر طاہر حسین کا بھی دفاع کیا ہے، جسے 23-26 فروری کے درمیان جاری تشدد کے دوران آئی بی افسر انکت شرما کے قتل میں مبینہ کردار کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔

محکمۂ محصولات کے فیصلے کا ذکر کیے بغیر مسٹر خان، جو اوکھلا حلقے سے 70،000 سے زیادہ ووٹوں سے دوبارہ منتخب ہوئے ہیں، نے ہفتے کے روز ٹویٹ کیا ’’ستمبر 2018 (جب انھیں چیئرمین بنایا گیا تھا) اور مارچ 2020 کے درمیان سفر اچھا تھا۔ مجھے خوشی ہے کہ میں غریبوں اور مساکین کی مدد کرسکا اور ان کے حقوق ان تک پہنچا سکا۔‘‘