ایم ایل اے امانت اللہ خان نے دہلی کے لودھی روڈ علاقے میں تاریخی لال مسجد کو مسمار کرنے اور اس پر قبضے کی کوشش کو ناکام بنایا

نئی دہلی، یکم اپریل: عام آدمی پارٹی کے ایم ایل اے اور دہلی وقف بورڈ (ڈی ڈبلیو بی) کے چیئرمین امانت اللہ خان نے بدھ کے روز لودھی روڈ کے علاقے میں واقع لال مسجد پر قبضہ کرنے کی کوشش کو ناکام بنادیا، جہاں سینٹرل ریزرو پولیس فورس (سی آر پی ایف) ایک بہت بڑا آفس کمپلیکس تعمیر کررہی ہے۔

لال مسجد کو لےکر کشیدگی اس وقت پیدا ہوئی جب حضرت نظام الدین پولیس اسٹیشن کے پولیس انسپکٹر نے مسجد کے عملے احاطے کو خالی کرنے کا مطالبہ کیا تاکہ اس کی زمین کو سی آر پی ایف کے حوالے کرنے کے لیے اسے منہدم کیا جائے۔

تقریباً 200 سال قدیم لال مسجد کا ذکر دہلی حکومت کے سرکاری گزٹ میں بھی ملتا ہے، جو حضرت نظام الدین درگاہ کے قریب واقع ہے۔

اگرچہ دہلی وقف بورڈ کے ذریعہ اس مسجد کی قانونی طور پر نگہداشت کی جارہی ہے، لیکن اس مسجد کی دیکھ بھال کے لیے کبھی بھی کسی عملہ یا امام، مؤذن سمیت کسی کو مقرر نہیں کیا گیا۔ بورڈ نے کبھی بھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ مسجد وقف بورڈ کی ملکیت ہے۔

تاہم اس واقعے کے بعد دہلی وقف بورڈ نے مسجد کے لیے ایک مؤذن مقرر کیا ہے اور اب اس مسجد کے امام محمد الیاس کو بھی اپنے سرکاری عملے میں شامل کرنے کی تیاری میں ہے۔ اس مسجد کو اب تک عملی طور پر حضرت نظام الدین علاقے کے ایک شخص حبیب الرحمٰن چلا رہے تھے۔ تاہم چند سال قبل ان کی موت کے بعد سے ان کی بیوہ نفیسہ اس کی دیکھ بھال کر رہی ہیں۔

در حقیقت وقف بورڈ کے ذریعہ مسجد کو نظرانداز کیے جانے کی وجہ سے ہی مرکزی وزارت شہری امور کے لینڈ اینڈ ڈویلپمنٹ آفیسر (ایل ڈی او) نے 25 فروری 2017 کو سی آر پی ایف دفاتر کی تعمیر کے لیے ایک قبرستان اور لال مسجد سمیت وقف کی 2.33 ایکڑ اراضی کو مختص کیا۔ مختص کرنے کا سبب بنی۔

وقف بورڈ کو فوری طور پر حرکت میں آنا چاہیے تھا، لیکن اس نے پولیس میں شکایت درج کرنے میں پانچ ماہ کا وقت لیا۔ 29 جولائی 2017 کو حضرت نظام الدین پولیس اسٹیشن میں شکایت درج کروائی۔

فی الحال قبرستان اور لال مسجد سے متعلق معاملہ دہلی وقف ٹریبونل میں زیر التوا ہے حالاں کہ سی آر پی ایف نے پہلے ہی قبرستان پر تعمیراتی کام شروع کردیا ہے اور ٹوائلٹ بلاک سمیت لال مسجد کے کچھ حصوں پر بھی قبضہ کرلیا ہے۔ سی آر پی ایف نے مسجد کے جنوبی حصے کے مرکزی دروازے سے بھی داخلہ روک دیا ہے۔

امانت اللہ خاں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’لال مسجد 1947 سے بہت پہلے سے موجود ہے اور یہ وقف کی املاک ہے۔ اس کا ذکر حکومت دہلی کے سرکاری گزٹ میں بھی ہے۔ وقف ٹریبونل میں اس کے بارے میں ایک کیس پہلے ہی زیر التوا ہے۔ اور اسی وجہ سے اسے ٹریبونل کے حتمی فیصلے تک نہیں مسمار کیا جاسکتا ہے۔‘‘

انھوں نے یہ بھی کہا کہ وقف بورڈ اس معاملے کو دہلی ہائی کورٹ میں لے جانے پر غور کر رہا ہے۔

لال مسجد پر قبضہ کرنے کے لیے اسی طرح کی کوششیں ماضی میں بھی دو بار 2017 اور 2019 میں کی گئی ہیں۔ تاہم دونوں ہی موقعوں پر امانت اللہ خان اور اس وقت کے دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر ظفر الاسلام خان اس کے دفاع میں آگے آئے تھے۔ ڈی ایم سی نے سی آر پی ایف کو نوٹسز جاری کیے تھے اور وقف کی املاک پر قبضہ نہ کرنے کو کہا تھا۔