اللہ کی مشیت: ایمان کی زبردست طاقت، عمل کی طاقت ور محرک

محی الدین غازی

(جس کی مشیت اسی کا حکم، تو پھر تردد اور پس وپیش کی کیا گنجائش رہ جاتی ہے)
قرآن مجید کی ہر بات اپنے اندر اصلاح کا سامان رکھتی ہے، اور جو باتیں بار بار آئی ہیں وہ بے شک اصلاح کا بہت زیادہ سامان رکھتی ہیں۔ اللہ کی مشیت کا تذکرہ قرآن مجید میں بہت زیادہ ہوا ہے۔ اس لیے اسے ہماری توجہ اور غور وفکر کا اہم موضوع ہونا چاہیے۔ از حد ضروری ہے کہ قرآن مجید نے اللہ کی مشیت کا جو تصور پیش کیا ہے، اور جس سیاق میں پیش کیا ہے اسے اسی طرح سمجھا جائے۔
مشیت محرک ہے، رکاوٹ نہیں
حکم اور مشیت کا مصدر جب ایک ہی ہستی ہو تو اس کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں ہوتا ہے کہ حکم کی تعمیل میں مشیت رکاوٹ نہیں بنے گی بلکہ محرک ومعاون بنے گی۔ اللہ تعالی کا ہر حکم اس بات کا صاف اعلان ہوتا ہے کہ اللہ کی مشیت کے دروازے اس حکم کی تعمیل کے لیے کھلے ہوئے ہیں۔
’’کوئی انسانی تدبیر مشیت ایزدی کو نہیں بدل سکتی‘‘ بلا شبہ یہ حقیقت ہے، لیکن اس کے ساتھ دوسری حقیقت یہ ہے کہ ’’جس تدبیر کو اختیار کرنے کی اللہ نے ہدایت دی ہے، مشیت ایزدی اس تدبیر کو کامیابی سے سرفراز کرتی ہے ‘‘ اس سے کون مومن انکار کرسکتا ہے کہ ’’اللہ کی مشیت کے سامنے انسان مجبور محض ہوتا ہے‘‘؟ تاہم یہ ماننا ایمان کا تقاضا ہے کہ’’اللہ جس راستے کی طرف بلاتا ہے اس پر چلنے والوں کے لیے اللہ کی مشیت رکاوٹ نہیں بنتی ہے، بلکہ اس کے لیے طاقت ور محرک بنتی ہے، اس پر چلنے کی طاقت دیتی ہے، راستے کی رکاوٹیں دور کرتی ہے، اور اپنی حفاظت میں منزل سے ہم کنار کرتی ہے‘‘۔ ظاہر سی بات ہے کہ اللہ کی ہدایت اور اللہ کی مشیت میں ٹکراؤ نہیں ہوسکتا ہے، بلکہ دونوں میں مکمل ہم آہنگی ہوتی ہے، اور یہ ہم آہنگی ہمیں قرآن مجید میں ہر جگہ نظر آتی ہے۔ اس لیے مشیت ایزدی کا حوالہ دے کر اللہ کے بتائے ہوئے راستے سے فرار درست نہیں ہے۔ مشیت ایزدی کا عرفان تو اللہ کے راستے پر بصیرت اور استقامت کے ساتھ چلنے کی تحریک پیدا کرتا ہے۔
کائنات کے دو بڑے سچ: من یشاء اور ما یشاء
اللہ کی مشیت پر ایمان لانے کے لیے زندگی اور کائنات کا مشاہدہ بہت مددگار ثابت ہوتا ہے، قرآن مجید انسانوں کو بار بار یہ مشاہدہ کراتا ہے۔ من یشاء (وہ جسے چاہے) اور ما یشاء (وہ جو چاہے) کا تذکرہ قرآن میں بہت ہوا ہے، یہ دونوں کلمے اس کائنات کی دو بہت بڑی سچائیاں ہیں۔
جو کچھ ہوتا ہے وہ سب اللہ کی مشیت سے ہوتا ہے، اس کے لیے قرآن مجید میں متعدد تعبیریں آئی ہیں، جو زندگی کے ہر پہلو کا احاطہ کرتی ہیں، یہاں کچھ تعبیروں کو بطور مثال ذکر کرتے ہیں:
اللَّهُ يَفْعَلُ مَا يَشَاءُ (آل عمران: 40) اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔
يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ (المائدة: 17) وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔
وَاللَّهُ يَرْزُقُ مَنْ يَشَاءُ (البقرة: 212) اللہ جسے چاہتا ہے رزق دیتا ہے۔
وَاللَّهُ يُؤْتِي مُلْكَهُ مَنْ يَشَاءُ (البقرة: 247)اللہ اپنی بادشاہت سے جسے چاہتا ہے دیتا ہے۔
وَاللَّهُ يَخْتَصُّ بِرَحْمَتِهِ مَنْ يَشَاءُ (البقرة: 105) اللہ اپنی رحمت جسے چاہتا ہے خاص کرتا ہے
يَغْفِرُ لِمَنْ يَشَاءُ وَيُعَذِّبُ مَنْ يَشَاءُ (آل عمران: 129) وہ جسے چاہتا ہے معاف کرتا ہے جسے چاہتا ہے عذاب دیتا ہے
يُعَذِّبُ مَنْ يَشَاءُ وَيَرْحَمُ مَنْ يَشَاءُ (العنكبوت: 21) وہ جسے چاہتا ہے عذاب دیتا ہے جس پر چاہتا ہے رحم کرتا ہے۔
يَنْصُرُ مَنْ يَشَاءُ (الروم: 5) وہ جس کی چاہتا ہے مدد کرتا ہے۔
يَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ إِنَاثًا وَيَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ الذُّكُورَ (الشورى: 49) وہ جسے چاہتا ہے مادہ اولاد دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے نرینہ اولاد دیتا ہے۔
وَاللَّهُ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ (النور: 46) اللہ جسے چاہتا ہے سیدھے راستے کی ہدایت دیتا ہے۔
يَمْحُو اللَّهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ (الرعد: 39) اللہ جو چاہتا ہے مٹاتا ہے اور باقی رکھتا ہے۔
يُنَزِّلُ بِقَدَرٍ مَا يَشَاءُ (الشورى: 27) اللہ اندازے سے نازل کرتا ہے جو چاہتا ہے۔
بہت سی آیتوں میں سے ان کچھ آیتوں کو دیکھ کر ہی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اللہ کی مشیت اس عالم وجود کا ہر طرح سے احاطہ کیے ہوئے ہے، اور ہر چیز میں کارفرما ہے۔ سامنے نظر آنے والی اس دنیا کی زندگی میں من یشاء اور ما یشاء کے ہر طرف پھیلے ہوئے جلوے ایمان ویقین عطا کرتے ہیں کہ عالم غیب میں بھی من یشاء اور ما یشاء ہی کی جلوہ آفرینی ہے، نیز آخرت میں بھی من یشاء اور ما یشاء کی کارفرمائی ہوگی۔ اس دنیا میں اللہ کی مشیت کے جلوے غور سے دیکھنے اور دل میں محسوس کرنے کا اہتمام کرنا چاہیے۔ اللہ کی نظر آنے والی مشیت پر ایمان لانے کے نتیجے میں غیب کے پردے میں پوشیدہ مشیت پر ایمان پیدا ہوتا ہے، اور یہ ایمان توبہ وانابت، تزکیہ وتربیت اور اللہ کی راہ میں کوشش ومحنت کے لیے ایک طاقت ور محرک بن جاتا ہے۔
ماشاء اللہ اور ان شاء اللہ کی معنویت
اللہ کی مشیت کے تذکرے قرآن مجید میں جگہ جگہ اور بار بار پڑھنے کے بعد یقین ہوجاتا ہے کہ اللہ کی مشیت ایمان باللہ کا رکن رکین اور اس مشیت کا ذکر بندگی کے اہم ترین اذکار میں سے ہے۔ مشیت کا عرفان حاصل ہوجانے کے بعد ماشاء اللہ اور ان شاء اللہ کے کلمات خاص خاص مواقع کے لیے نہیں، بلکہ زندگی کے ہر لمحے کا ذکر بن جاتے ہیں۔ جو کچھ ہوچکا ہے یا ہورہا ہے وہ ماشاء اللہ کے تحت ہے یعنی وہی جو اللہ نے چاہا، اور جو کچھ ہونے والا ہے وہ ان شاء اللہ کے تحت ہے یعنی اگر اللہ چاہے۔ اس طرح انسان کی پوری زندگی ماشاء اللہ اور ان شاء اللہ کے سائے میں گزرتی ہے۔ بلکہ پوری کائنات کا ماضی اور مستقبل ماشاء اللہ اور ان شاء اللہ میں سمٹا ہوا نظر آتا ہے۔ ضروری ہے کہ ان کلموں کی ادائیگی کے ساتھ اس حقیقت کا استحضار ہوتا رہے۔
عام طور سے لوگ ان دونوں کلموں کو اپنے مادی مفادات کی حفاظت کے لیے وظیفے کے طور پر پڑھتے ہیں۔ جب کوئی خوشی حاصل ہوتی ہے تو ماشاء اللہ کہتے ہیں اپنی خوشی کو نگاہ بد سے بچانے کے لیے، اور جب کوئی ارادہ یا وعدہ کرتے ہیں تو ان شاء اللہ کہتے ہیں اس امید کے ساتھ کہ اس طرح ارادے اور وعدے کی تکمیل کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ ان دونوں کلموں کی برکتوں سے کسی کو انکار نہیں ہے، تاہم ان دونوں کلموں کو زبان سے ادا کرتے وقت دل کو اللہ کی مشیت کے احساس سے معمور ہوجانا چاہیے۔
سورہ الکہف میں دونوں کلموں کی تعلیم
دل چسپ بات یہ ہے کہ ان دونوں کلموں کی تعلیم ایک ہی سورت یعنی سورہ الکہف میں دی گئی ہے۔ اور بڑی تاکید کے ساتھ بڑے اہم سیاق میں دی گئی ہے۔
ان شاء اللہ کے سلسلے میں اس طرح تعلیم دی گئی:
’’اور کسی امر کے لیے ہرگز یوں نہ کہا کرو کہ میں کل یہ کردوں گا مگر یہ کہ اللہ چاہے۔ اور اپنے رب کو یاد کرو جب تم بھول جاؤ اور کہو امید ہے کہ میرا رب اس سے بہتر بات کی طرف میری رہنمائی فرمادے۔‘‘(الکہف: 23-24)
ان شاء اللہ کہنے والا شخص اپنی طاقت اور وسائل کے پندار سے باہر آتا ہے، اللہ پر اپنے ایمان کی تجدید کرتا ہے، اس پر توکل کا اظہار کرتا ہے، ساتھ ہی اس سے بہتر سے بہتر کی دعا بھی کرتا ہے۔ کل کی منصوبہ بندی ضرور کی جائے، مگر اس عظیم ہستی کی رضا کا خیال رکھتے ہوئے اور اس پر بھروسا کرتے ہوئے جو آنے والے کل کا مالک ہے، وہی کل کی زندگی بھی دے گا، طاقت اور وسائل بھی دے گا اور وہی چاہے گا تو کوششیں بہتر نتائج سے ہم کنار ہوں گی۔
ماشاء اللہ کی تعلیم دینے کے لیے سورہ الکہف (32-41) میں ایک تمثیل کی صورت میں دو کردار سامنے لائے گئے ہیں، ایک اللہ کی مشیت پر ایمان رکھنے والا اور دوسرا اللہ کی مشیت کا انکار کرنے والا۔ ان آیتوں کا غور سے مطالعہ کریں اور دیکھیں کہ دونوں کی سوچ اور نظر میں کتنا بڑا فرق ہے!
ایک کے اندر غرور ہے، اللہ سے بے نیازی ہے، آخرت پر یقین نہیں ہے، دنیا کے بارے میں بھی اور آخرت کے بارے میں بھی محض خوش فہی اور خام خیالی ہے، دنیا ہی کو سب کچھ سمجھے بیٹھا ہے، دنیا کی بے بضاعتی کا ذرا احساس نہیں ہے، اپنی تخلیق کو بھی فراموش کیے ہوئے ہے، اللہ کی یاد سے غافل ہے۔ دنیا کی دولت رکھتے ہوئے بھی ایمان کی دولت سے بالکل محروم ہے۔
دوسرے کے اندر انکسار ہے، اللہ پر بھروسا ہے، اللہ کی قدرت پر ایمان ہے۔ دنیا کی دولت کم ہوتے ہوئے بھی وہ ایمان کی دولت سے مالا مال ہے۔
اللہ کی مشیت سے غافل انسان کس قدر فکری اور اخلاقی پستی میں گرجاتا ہے، اور اللہ کی مشیت کا عرفان انسان کو کس فکری اور اخلاقی بلندی پر پہونچا دیتا ہے، اسے اس تمثیل کے دونوں کرداروں میں دیکھا جاسکتا۔
اللہ کی مشیت اور اللہ کی سنت
انفرادی پروگرام ہو یا اجتماعی منصوبہ، مستقبل کا لائحہ عمل یہ سوچ کر بنانا چاہیے کہ اس کی کامیابی بالآخر اللہ کی مشیت پر منحصر ہے، اور حالات کا جائزہ یہ سمجھ کر لینا چاہیے کہ حالات اچھے ہوں یا برے بہرحال اللہ کی مشیت کے پابند ہیں۔ جائزے اور منصوبے میں اللہ کی مشیت کا شعور جس قدر گہرا ہوگا صحیح رخ پر سوچنے کی راہیں روشن تر ہوں گی۔ اللہ کی مشیت پر ایمان کے نتیجے میں انسان پست ہمتی اور پست خیالی دونوں سے اوپر اٹھ جائے گا، ذاتی اغراض اور دنیوی مفاد سے اوپر اٹھ کر سوچے گا، اور اللہ کی رضا کو سامنے رکھے گا، اس طرح اس کا جائزہ اور اس کا منصوبہ اللہ کی رضا پر مرکوز ہوجائے گا، اسے اچھی طرح احساس ہوگا کہ وہ پوری طرح اللہ کی مشیت کے احاطے میں ہے، اور اس کی پوری کوشش یہ ہوگی کہ اللہ کی مشیت اس کی معاون ومددگار بن جائے۔
اللہ کی مشیت کا ظہور اللہ کی سنتوں کی صورت میں بھی ہوتا ہے۔ مادی ترقی اور معنوی ارتقا کے سلسلے میں اللہ کی سنت، عروج وزوال کے سلسلے میں اللہ کی سنت، بقا اور فنا کے سلسلے میں اللہ کی سنت، دنیا کی مادی نعمتوں اور ہدایت کے عظیم احسان کے سلسلے میں اللہ کی سنت، آخرت کی کامیابی اور ناکامی کے سلسلے میں اللہ کی سنت۔ یہ سب سنتیں اللہ کی مشیت کا حصہ ہیں، اور ان کا خیال رکھنا دراصل اللہ کی مشیت سے مدد لینا ہے۔
زندگی کی انفرادی اور اجتماعی منصوبہ بندی میں اللہ کی ہدایت، اللہ کی سنت اور اللہ کے وعدوں کو پیش نظر رکھنا ایک مومن کے شایان شان ہے، اور اس سب کے بعد نتائج کو اللہ کی مشیت کے حوالے کردینا ایمان کا تقاضا ہے۔
انسان کی محدود مشیت ایک محسوس حقیقت ہے
مشیت کے ضمن میں اس پر کافی بحثیں کی جاتی ہیں کہ انسان مجبور محض ہے یا بااختیار ہے؟
قرآن میں انسان کی مشیت کو ثابت کرنے کے لیے کوئی بیان نہیں دیا گیا ہے، بلکہ انسان کی مشیت کا حوالہ دے کر اسے مخاطب کیا گیا۔ کیوں کہ انسان کی مشیت تو انسانوں کے نزدیک ایک ثابت شدہ محسوس حقیقت ہے۔ قرآن کے سارے بیانات اللہ کی مشیت کو ثابت کرتے ہیں، کیوں کہ اللہ کی مشیت کے سلسلے میں انسان نادانی اور غفلت کا رویہ اختیار کرتا ہے۔ اللہ کی مشیت پورے وجود پر اس طرح محیط ہے کہ انسان کی مشیت بھی اسی دائرے میں آجاتی ہے، انسان کو مشیت اللہ کی مشیت ہی سے عطا ہوتی ہے۔ اور اسی قدر عطا ہوتی ہے جس قدر اللہ کی مشیت کو منظور ہوتا ہے، اور اسی کے دائرے میں اس کا امتحان ہے۔
قرآن مجید اس امر کو ایک بدیہی حقیقت مانتا ہے کہ انسان کو اللہ کی طرف سے وہ مشیت حاصل ہے جو اللہ کی دی ہوئی ہدایت قبول کرنے کے لیے، اللہ کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے کے لیے، اللہ کے احکام پر عمل کرنے کے لیے، اللہ کی راہ میں مطلوبہ جدوجہد کرنے کے لیے مطلوب ہے۔ اور اسی حقیقت کو بنیاد بناکر وہ انسان کو مخاطب کرتا ہے۔
اگر انسان کو حاصل مشیت اللہ کی دی ہوئی ہے، اور اسی کی مشیت پر منحصر ہے، اور اسی سے قائم اور باقی ہے، تو انسان کو اپنی مشیت کا استعمال اللہ کی مرضی کے مطابق ہی کرنا چاہیے، اسی میں اس کی نجات اور کامیابی مضمر ہے۔
مشیت کے سلسلے میں بے اعتدالی
کبھی انسان اللہ کی طرف سے دی ہوئی مشیت کے غرور میں ایسا اندھا ہوجاتا ہے کہ اللہ کی مشیت سے یکسر غافل ہوجاتا ہے اور بلاخوف احتساب جو جی میں آتا ہے کرتا ہے۔
اور کبھی انسان اللہ کی مشیت کی آڑ لے کر خود کو مجبور بتاتا ہے اور ان ذمہ داریوں سے فرار اختیار کرتا ہے جو اللہ نے اسے مشیت دے کر اس پر عائد کی ہیں۔
صحیح موقف یہ ہے کہ انسان اللہ کی مشیت پر بھروسا کرتے ہوئے، اللہ کی ناراضگی سے بچتے ہوئے اور اس کی رضا حاصل کرنے کے لیے اللہ کی دی ہوئی مشیت کو پورا پورا استعمال کرے۔
مشیت کا تصور ایجابی سوچ عطا کرتا ہے
اللہ کی مشیت کا حوالہ دے کر دو طرح کی باتیں کہی جاسکتی ہیں:
’’میں اپنے آپ کو تبدیل نہیں کروں گا، اچھے کاموں کا بیڑا نہیں اٹھاؤں گا، حالات بدلنے کی تدبیریں نہیں سوچوں گا، کیوں کہ ہونا تو وہی ہے جو اللہ چاہے گا۔‘‘
’’میں وہ سارے اچھے کام کروں گا جن سے اللہ خوش ہوتا ہے، چاہے وہ کتنے ہی مشکل کیوں نہ ہوں، میں ہر ممکن تدبیر اختیار کروں گا، کیوں کہ یہ اللہ کا حکم ہے، میرا بھروسا اللہ کی مشیت پر ہے، اللہ کی مشیت سے سب کچھ ہوسکتا ہے، اللہ چاہے تو کوئی رکاوٹ میرا راستہ روک نہیں سکتی ہے‘‘
پہلی بات سلبی ہے، اسے وہ لوگ کہتے ہیں جو اپنی ذمہ داریوں سے راہ فرار اختیار کرنا چاہتے ہیں، جب کہ دوسری بات ایجابی اور ولولے سے بھرپور ہے، اسے وہ لوگ کہتے ہیں جو اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی دھن رکھتے ہیں۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ قرآن مجید میں اللہ کی مشیت کو اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ اس سے ایمان وعمل کے لیے صرف اور صرف ایجابی اور حرکت افروز سوچ پیدا ہوتی ہے۔ نہ تو بے عملی کے لیے اس کا حوالہ دیا جاسکتا ہے اور نہ گم راہی کے لیے اسے بہانہ بنایا جاسکتا ہے۔
اللہ کی مشیت، پیغام حرکت
وہ عظیم ہستی جو ہر چیز پر قادر ہے، اس کی مشیت اس کائنات پر پوری طرح کارفرما ہے، اس کائنات کی ہر چیز کی ہر حرکت اس کے اشارے سے ہے، وہ ہستی جب آگے بڑھنے کا حکم دے تو یقین ہونا چاہیے کہ اس پیش قدمی کے لیے فضا سازگار ہے، حالات موافق ہیں اور کوئی رکاوٹ حائل نہیں ہے۔ ذیل کی آیت میں دیکھیں مغفرت اور جنت کی طرف تیز دوڑنے کی ترغیب دی گئی اور کہا گیا کہ اللہ جسے چاہے اسی کو یہ فضل عطا ہوگا۔
’’دوڑو اپنے رب کی مغفرت اور اُس کی جنت کی طرف جس کی وسعت آسمان وزمین جیسی ہے، جو تیار کی گئی ہے اُن لوگوں کے لیے جو اللہ اور اُس کے رسولوں پر ایمان رکھتے ہیں یہ اللہ کا فضل ہے، جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے، اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔‘‘ (الحديد:21)
اللہ کی مشیت کا عرفان جسے حاصل ہوگا وہ ضرور دوڑ کر اس زبردست پیش کش سے فائدہ اٹھائے گا، کیوں کہ جس کی مشیت اسی کا حکم، تو پھر تردد اور پس وپیش کی کیا گنجائش رہ جاتی ہے! اور اس سے زیادہ سازگار اور موافق موقع اور کیا ہوسکتا ہے!
اللہ کی مشیت: ترغیب وترہیب کا سرچشمہ
اللہ تعالی قرآن میں جہاں اپنی مشیت کا ذکر کرتا ہے وہاں ترغیب وترہیب کا نہایت طاقت ور پہلو پیدا ہوجاتا ہے۔ يَغْفِرُ لِمَنْ يَشَاءُ وَيُعَذِّبُ مَنْ يَشَاءُ کے اندر اللہ کی طرف رجوع کرنے کی ایسی طاقت ور ترغیب ہے کہ اسے لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے۔
جب ایسا ہے کہ وہ جسے چاہے معاف کرے اور جسے چاہے عذاب دے، تو پھر معافی اس کے سوا اور کس سے مانگی جائے، اور اس سے معافی کیوں نہ مانگی جائے۔
جب ایسا ہے کہ وہ جسے چاہے سیدھی راہ کی ہدایت دے، تو ہدایت حاصل کرنے کے لیے اسی کی طرف رجوع کیا جائے۔
جب ایسا ہے کہ وہ جسے چاہے اپنی رحمت سے نوازے تو اس کی رحمت پانے کے لیے اسی طرف دوڑ لگادی جائے۔
جب ایسا ہے کہ وہ جسے چاہے عزت کا تاج عطا کرے اور جسے چاہے ذلت میں ڈھکیل دے تو عزت کے تاج وخلعت اسی سے طلب کئے جائیں، کسی اور کے در پر کیوں کاسہ لیسی کی جائے۔
جب ایسا ہے کہ وہ جسے چاہتا ہے جتنا چاہتا ہے دیتا ہے تو اسی کے آگے دست سوال پھیلایا جائے، اور بار بار پھیلایا جائے۔
من یشاء کوئی مبہم جملہ نہیں ہے جس کی بنیاد پر جھوٹی آرزوئیں پالی جائیں، یہ تو ایک واضح کھلی ہوئی الہی پکار ہے، جس کا حق ہے کہ اسے سنتے ہی دوڑ پڑیں۔
اللہ کی مشیت، سامان دعوت
اللہ کی مشیت اس کائنات کی سب سے نمایاں حقیقت ہے، اس حقیقت کے ہوتے ہوئے اللہ پر ایمان کی دعوت بہت طاقت ور ہوجاتی ہے۔ قرآن مجید میں دعوتی مکالمات میں اللہ کی مشیت کا حوالہ بہت نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایمان واطاعت کی دعوت دینے اور کفر ومعصیت سے باہر نکالنے کے لیے اللہ تعالی کی مشیت کا تصور بہت طاقت ور اور نہایت موثر دعوتی وسیلہ ہے۔ اس پہلو سے ان تمام آیتوں کا مطالعہ بھی کرنا چاہیے جن میں اللہ تعالی نے انسانوں سے خطاب کرتے ہوئے اپنی مشیت کا تذکرہ کیا ہے۔ یہاں ہم وہ تین مقامات ذکر کریں گے جہاں اللہ کی مشیت کے حوالے سے قرآن مجید پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے:
’’آگاہ ہوجاؤ، یہ ایک نصیحت ہے۔ اب جس کا جی چاہے اس سے سبق حاصل کر لے۔ اور یہ کوئی سبق حاصل نہ کریں گے الا یہ کہ اللہ ہی ایسا چاہے وہ اس کا حق دار ہے کہ اُس سے تقویٰ کیا جائے اور وہ اس کا اہل ہے کہ (تقویٰ کرنے والوں کو) بخش دے۔‘‘(المدثر: 54 -56)
’’یہ ایک نصیحت ہے، اب جس کا جی چاہے اپنے رب کی طرف جانے کا راستہ اختیار کر لے۔ اور تمہارے چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا جب تک اللہ نہ چاہے یقیناً اللہ بڑا علیم و حکیم ہے۔ اپنی رحمت میں جس کو چاہتا ہے داخل کرتا ہے، اور ظالموں کے لیے اس نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔‘‘(الإنسان: 29 -31)
’’یہ تو سارے جہان والوں کے لیے ایک نصیحت ہے۔تم میں سے ہر اُس شخص کے لیے جو راہ راست پر چلنا چاہتا ہو۔اور تمہارے چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا جب تک اللہ رب العالمین نہ چاہے۔‘‘(التكوير:27 -29)
ان تینوں مقامات پر ٹھہر کر غور کرنے کی ضرورت ہے، الفاظ کے فرق کے ساتھ تینوں مقامات پر ایک ہی بات کہی گئی ہے، سب سے پہلے قرآن کو نصیحت قرار دے کر اس کی طرف دعوت دی گئی، پھر انسان کو اکسایا گیا کہ وہ اپنی مشیت کا درست استعمال کرکے اس دعوت کو قبول کرے، اور پھر تینوں ہی مقامات پر یہ یاد دلایا کہ اللہ کی مشیت کے بغیر انسان اپنی مشیت کا استعمال کرکے اس دعوت کو قبول نہیں کرسکتا۔ سیاقِ کلام دعوت کا ہے اس لیے یہاں اللہ کی مشیت کا ذکر انسانوں کو یہ حقیقت یاد دلا رہا ہے کہ ہدایت کا راستہ اور ہدایت کو قبول کرنے کی توفیق اللہ کی مشیت کے بغیر انسانوں کو نہیں مل سکتی تھی، اور اب جب کہ خود اللہ کی طرف سے یہ ہدایت پیش کی جارہی ہے، اس کی دعوت دی جارہی ہے اور قرآن کی صورت میں ہدایت کا اس نے بھرپور انتظام کردیا ہے تو اس عظیم موقع کو غنیمت جانتے ہوئے، اور اللہ کی اس مشیت سے مدد لیتے ہوئے اپنی مشیت کو ہدایت سے فائدہ اٹھانے کے لیے وقف کردینا چاہیے۔
گویا اللہ کی مشیت کا ذکر یہاں اس لیے نہیں ہے کہ انسان خود کو مجبور بتاکر اپنی مشیت سے ہاتھ اٹھالے، بلکہ یہ بتانے کے لیے ہے کہ اللہ کی عظیم مشیت اس ہدایت کے حق میں سازگار ومددگار ہے اس لیے دانائی یہ ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے دی ہوئی اپنی محدود مشیت کا صحیح استعمال کرلے۔
دوسرے لفظوں میں ہدایت پانے کی پہلی شرط اللہ کی مشیت ہے، جو خود دعوت دے رہی ہے، اور دوسری شرط انسان کی مشیت ہے، اور اسے انسان پورا کرکے کامیاب ہوسکتا ہے۔
اللہ کی مشیت، مومن کی طاقت
ایک مومن کو یہ یقین حاصل ہوتا ہے کہ اس کا سہارا اللہ کی مشیت ہے، وہ اللہ کی مشیت کے جلوے ہر طرف دیکھتا ہے، اور ان کے درمیان رہتے ہوئے خود کو بہت طاقت ور محسوس کرتا ہے۔ یہ احساس بہت قوت بخش ہوتا ہے کہ میرا ولی وہ عظیم رب ہے جس کی مشیت کے آگے سب بے بس ہیں، اور جس کی مشیت ہر جگہ اور ہر لحظہ کارفرما ہے۔ ایک طرف وہ باطل پرستوں کی بے بسی اور لا چاری دیکھتا ہے، دوسری طرف اللہ کی مشیت کے جلوے دیکھتا اور اس کے وعدے تلاوت کرتا ہے۔ اس کے بعد اس کے دل میں کسی خوف یا تردد کی گنجائش ہی نہیں رہ جاتی ہے۔
قرآن مجید میں اللہ نے اپنی مشیت کا تذکرہ حق وباطل کی کشمکش کے سیاق میں بار بار کیا ہے۔ جیسے:
’’اور وہ دن وہ ہو گا جب کہ اللہ کی نصرت پر مسلمان خوشیاں منائیں گے۔ وہ نصرت عطا فرماتا ہے جسے چاہتا ہے، اور وہ زبردست اور رحیم ہے۔‘‘(الروم: 4-5)
اللہ کی مشیت کا شعور انسان کے ایمان کو بے پناہ طاقت عطا کرتا ہے۔ اس کے ارادے مضبوط ہوجاتے ہیں، عزائم بے پناہ ہوجاتے ہیں، وہ خطرات اور مصائب سے بھری اس کائنات میں خود کو تنہا کم زور اور بے آسرا نہیں محسوس کرتا ہے۔ اسے اس ہستی کی پناہ میں رہنے کا احساس ہوتا ہے جس کی مشیت ہر چیز پر محیط ہے، اسے اس ذات سے دوستی کرنے کی لذت حاصل ہوتی ہے جس کی قدرت سب پر حاوی ہے۔
اللہ کی مشیت پر ایمان ایک مومن کے لیے زبردست زاد راہ ہوتا ہے، اس کے ساتھ وہ راہ حق کے مشکل سے مشکل مرحلے سے بے خوف گزر جاتا ہے، بڑی سے بڑی قربانی دے دیتا ہے، اور سخت سے سخت حالات کا سامنا کرلیتا ہے۔
جب دل اللہ کی مشیت کے احساس سے معمور ہوگا تو دعاؤں میں بے پناہ زور ہوگا، کیوں کہ بندہ دعاؤں کی قبولیت کو بہت قریب دیکھے گا۔ اللہ پر اس کا بے حد وحساب توکل ہوگا کیوں کہ اسے ہر طرف صرف اس کا مضبوط سہارا دکھائی دے گا۔ اللہ کی راہ میں کوشش ومحنت کے لیے اس کا جذبہ بے قرار اور شکست سے بے پروا رہے گا، کیوں کہ کامیابی کے سارے امکانات اسے روشن نظر آئیں گے۔ حالات سے نہ وہ دھوکہ کھائے گا نہ مایوس ہوگا، کیوں کہ اس کی نگاہ حالات سے آگے مشیت ایزدی پر ہوگی۔
حق کی راہ میں آخر کون سے خطرات پیش آئیں گے، وہی تو جو اللہ کی مشیت کو منظور ہوں گے، تو پھر اسی راہ پر چلتے ہیں جس پر چلنے سے اللہ راضی ہوجائے، اس راہ کے ان خطروں سے کیا ڈرنا جو اللہ کی مشیت کے پابند ہیں۔
غزوہ احد کے مشکل حالات میں جب اہل اسلام کو بیرونی دشمنوں سے گہرے زخم پہونچے تھے، اور اندرونی دشمن ان زخموں پر نمک چھڑک رہے تھے، آزمائش سخت تھی، خطرات بڑھے ہوئے تھے، اللہ کے رسول ﷺ اور اہل ایمان کو بے پناہ طاقت بخش تعلیم دی گئی:
قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاءُ بِيَدِكَ الْخَيْرُ إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ۔ تُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَتُولِجُ النَّهَارَ فِي اللَّيْلِ وَتُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَتُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ وَتَرْزُقُ مَنْ تَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ۔
’’کہو! خدایا! بادشاہت کے مالک! تو جسے چاہے، بادشاہت دے اور جس سے چاہے چھین لے، جسے چاہے عزت بخشے اور جس کو چاہے ذلیل کر دے، بھلائی تیرے اختیار میں ہے بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔ رات کو دن میں پروتا ہوا لے آتا ہے اور دن کو رات میں جاندار میں سے بے جان کو نکالتا ہے اور بے جان میں سے جاندار کو اور جسے چاہتا ہے، بے حساب رزق دیتا ہے۔‘‘(آل عمران: 26-27)
یہ اللہ کی مشیت کے عرفان کی زبردست تعلیم ہے، جو قیامت تک اللہ کے دین کا علم اٹھانے والوں کے حوصلے بلند اور ہمتیں جوان رکھے گی۔ ■