وحید داد خان
قرآن اس اہم حقیقت پر روشنی ڈالتا ہے کہ اس دنیا میں انسان کی ساری آزمائشیں صرف اس بات کی ہے کہ وہ حقیقت کو دیکھے بغیر مانتا ہے یا نہیں اور ماننے کے بعد اتنی اخلاقی طاقت رکھتا ہے یا نہیں کہ نافرمانی کا اختیار رکھنے کے باوجود فرماں برداری اختیار کرے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انبیا کی بعثت میں، کتابوں کی تنزیل میں، حتیٰ کہ معجزات تک میں عقل کے امتحان اور اخلاقی قوت کی آزمائش کا ضرور لحاظ رکھا ہے اور کبھی حقیقت کو اس طرح بے پردہ نہیں کر دیا ہے کہ آدمی کے لیے مانے بغیر چارہ نہ رہے کیونکہ اس کے بعد تو آزمائش بالکل ہی بے معنی ہو جاتی ہے اور امتحان میں کامیابی و ناکامی کا کوئی مفہوم ہی باقی نہیں رہتا۔ اسی بنا پر کہا گیا ہے کہ اس وقت کا انتظار نہ کرو جب اللہ اور اس کی سلطنت کے کارکن فرشتے خود سامنے آ جائیں کیونکہ پھر تو فیصلہ ہی کر ڈالا جائے گا۔ ایمان لانے اور اطاعت میں سر جھکا دینے کی ساری قدر و قیمت اسی وقت تک ہے جب تک حقیقت تمہارے حواس سے پوشیدہ ہے اور تم محض دلیل سے اس کو تسلیم کر کے اپنی دانشمندی کا اور محض فہمائش سے اس کی پیروی اور اطاعت اختیار کر کے اپنی اخلاقی طاقت کا ثبوت دیتے ہو۔ ورنہ جب حقیقت بے نقاب ہو کر سامنے آجائے اور تم بچشم سر دیکھ لو کہ یہ خدا اپنے تخت جلال متمکن ہے اور یہ ساری کائنات کی سلطنت اس کے فرمان پر چل رہی ہے اور یہ فرشتے زمین و آسمان کے انتظام میں لگے ہوئے ہیں اور یہ تمہاری ہستی اس کے قبضہ قدرت میں پوری بے بسی کے ساتھ جکڑی ہوئی ہے، اس وقت تم ایمان لائے اور اطاعت پر آمادہ ہوئے تو اس ایمان اور اطاعت کی قیمت ہی کیا ہے؟ اس وقت تو کوئی کٹے سے کٹا کافر اور بدتر سے بدتر مجرم و فاجر بھی انکار و نافرمانی کی جرات نہیں کر سکتا۔ ایمان لانے اور اطاعت قبول کرنے کی مہلت بس اسی وقت تک ہے جب تک کہ پردہ کشائی کی وہ ساعت نہیں آتی۔ جب وہ ساعت آگئی تو پھر نہ مہلت ہے نہ آزمائش بلکہ وہ فیصلے کا وقت ہے۔
جسے اللہ ہی نے فتنہ میں ڈالنے کا ارادہ کر لیا ہو اس کو اللہ کی گرفت سے بچانے کے لیے تم کچھ نہیں کر سکتے‘‘ (المائدہ ۴۱)
اللہ کی طرف سے فتنے میں ڈالے جانے کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص کے اندر اللہ تعالیٰ کسی قسم کے میلانات پرورش پاتے دیکھتا ہے اس کے سامنے پے درپے ایسے مواقع لاتا ہے جن میں اس کی سخت آزمائش ہوتی ہے۔ اگر وہ شخص ابھی برائی کی طرف پوری طرح نہیں جھکا ہے تو ان آزمائشوں میں سنبھل جاتا ہے اور اس کے اندر بدی کا مقابلہ کرنے کے لیے نیکی کی جو قوتیں موجود ہوتی ہیں وہ ابھر آتی ہیں لیکن اگر وہ برائی کی طرف پوری طرح جھک چکا ہوتا اور اس کی نیکی اس کی بدی سے اندر ہی شکست کھا چکی ہوتی ہے تو ہر ایسی آزمائش کے موقع پر وہ اور زیادہ بدی کے پھندے میں پھنستا چلا جاتا ہے۔ یہی وہ فتنہ ہے جس سے کسی بگڑتے ہوئے انسان کو بچا لینا اس کے خیر خواہ کے بس میں نہیں ہوتا اور اس فتنہ میں صرف افراد ہی نہیں ڈالے جاتے ہیں بلکہ قومیں بھی ڈالی جاتی ہیں۔
جو خود پاکیزگی کا خواہشمند ہوتا ہے اور اس کے لیے کوشش کرتا ہے اسے پاکیزگی سے محروم کرنا اللہ کا دستور نہیں ہے اللہ پاک کرنا اسی کو نہیں چاہتا جو خود پاک ہونا نہ چاہے (المائدہ:۹۶)
غریبوں اور مفلسوں اور ایسے لوگوں کو جو سوسائٹی میں ادنی حیثیت رکھتے ہیں سب سے پہلے ایمان کی توفیق دے کر دولت اور عزت کا گھمنڈ رکھنے والے لوگوں کو اللہ نے آزمائش میں ڈال دیا۔
(الانعام، حاشیہ:۷۱)
تمہیں داعی اور مبلغ بنایا گیا ہے کوتوال نہیں بنایا گیا ہے، تمہارا کام صرف یہ ہے کہ لوگوں کے سامنے اس روشنی کو پیش کردو اور اظہار حق کا حق ادا کرنے میں اپی حد تک کوئی کسر اٹھا نہ رکھو۔ اب اگر کوئی اس حق کو قبول نہیں کرتا تو نہ کرے۔ تم کو نہ اس کام پر مامور کیا گیا ہے کہ لوگوں کو حق پرست بناکر ہی رہو اور نہ تمہاری ذمہ داری و جواب دہی میں یہ بات شامل ہے کہ تمہارے حلقہ نبوت میں کوئی شخص باطل پرست نہ رہ جائے۔ لہذا اس فکر میں خواہ مخواہ اپنے ذہن کو پریشان نہ کرو کہ اندھوں کو بینا کس طرح بنایا جائے۔ اگر فی الواقع حکمت الہیٰ کا تقاضا یہی ہوتا کہ دنیا میں کوئی شخص باطل پرست نہ رہنے دیا جاے تو اللہ کو تم سے یہ کام لینے کی ضرورت ہی کیا تھی کیا اس کا ایک ہی تکوینی اشارہ تمام انسانوں کو حق پرست نہ بنا سکتا تھا؟ مقصود تو یہ ہے کہ انسان کے لیے حق و باطل کے انتخاب کی آزادی باقی رہے اور پھر حق کی روشنی اس کے سامنے پیش کر کے اس کی آزمائش کی جائے کہ وہ دونوں چیزوں میں سے کس کا انتخاب کرتا ہے تم حق کے اجالے میں سیدھے راہ پر خود چلتے رہو اور دوسروں کو اس کی دعوت دیتے رہو جو دعوت قبول کر لیں انہیں سینے سے لگاو اور جو قبول نہ کریں ان کے پیچھے نہ پڑو (الانعام:حاشیہ۷۱)
***
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 28 مارچ تا 3 اپریل 2021