مسعود ابدالی
پرامن بات چیت کے دوران اشتعال انگیز بیان بازی سے مذاکرات کامستقبل مشکوک
طویل تعطل کے بعد قطر امن مذاکرات دوبارہ شروع ہو گئے ہیں۔ فروری 2000 میں ہونے والے طالبان امریکہ عزمِ امن معاہدے یا Agreement for Bringing Peace in Afghanistan میں یہ طئے کیا گیا تھا کہ افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ مختلف دھڑوں کے درمیان وسیع البنیاد بات چیت سے کیا جائے گا۔ اس سلسلے میں افغان حکومت نے ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کی قیادت میں ایک اعلیٰ اختیاراتی وفد تشکیل دیا۔ دوسری جانب طالبان کے نائب امیر ملا عبدالغنی برادر کی سربراہی میں طالبان کا وفد سامنے آیا۔ وفد میں ملا عبدالسلام ضعیف بھی شامل ہیں جو سقوطِ کابل کے وقت پاکستان میں افغانستان کے سفیر تھے۔ ملا ضعیف اور ملا برادر کو پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں نے مختلف اوقات میں گرفتار کیا تھا۔ بدترین تشدد کے بعد ملا ضعیف پشاور میں امریکہ کے حوالے کیے گئے جس کے بعد انہیں مزید تشدد کے لیے گوانتاناموبے کے عقوبت کدے بھیج دیا گیا جبکہ ملا برادر کو سی آئی اے اور پاکستانی خفیہ ایجنسی کی مشترکہ ٹیم نے کئی سال تک بد ترین تشدد کا نشانہ بنایا۔
قطر مذاکرات کا آغاز گزشتہ سال بارہ ستمبر کو ہوا لیکن چھ ماہ گزرنے کے باوجود اب تک مذاکرات کے ایجنڈے پر بھی اتفاق نہیں ہوسکا ہے۔ بنیادی اختلاف دونوں فریقوں کی حیثیت پر ہے۔
کابل انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ وہ افغان عوام کے منتخب نمائندے ہیں جن کے خلاف طالبان نے ہتھیار اٹھائے ہوئے ہیں۔ حکومتی وفد چاہتا ہے کہ اپنے مطالبات پیش کرنے سے پہلے طالبان ہتھیار رکھ دیں۔ کابل انتطامیہ نے اپنے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ طالبان کا موقف کھلے دل سے سنے گی اور ایک باوقار معاہدے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔دوسری طرف طالبان کا کہنا ہے کہ 2001 میں جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تھا اس وقت امارات اسلامی افغانستان پر طالبان کی حکومت تھی۔ امارات نے غیر ملکی جارحیت کے خلاف اپنے وطن کا کامیابی سے دفاع کیا جبکہ کابل انتظامیہ وہ کٹھ پتلی ہے جسے حملہ آوروں نے غداری کے انعام میں کابل کا تخت عطا کیا تھا۔طالبان اس غداری کو دل سے معاف کرنے کو تیار ہیں اور انہوں نے وعدہ کیا ہے کہ غیر ملکی فوج کی واپسی کے بعد نئی انتطامیہ تشکیل دیتے وقت افغان حکومت سمیت ملک کی تمام سیاسی، لسانی اور مذہبی اکائیوں کو مناسب نمائندگی دی جائے گی۔
ایک اور نکتہ افغانستان کا آئین ہے۔ افغان حکومت کا اصرار ہے کہ بات چیت اسلامی جمہوریہ افغانستان کے آئین کے مطابق ہو گی اور نئے بندوبست میں آئین کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔ طالبان موجودہ دستور منسوخ کرکے قرآن وسنت کی روشنی میں ایک نیا آئین ترتیب دینا چاہتے ہیں۔
مذاکرات کے حوالے سے طالبان کو ایک بڑی شکائت کابل وفد کی ہئیت پر تھی جس کی قیادت اس سے پہلے افغان خفیہ ادارے ’خاد‘ کے سابق سربراہ معصوم تناکزئی کر رہے تھے جو طالبان کے خیال میں بااختیار نہیں۔ اسی بنا پر پے درپے نشستوں کا کوئی فائدہ نہ ہوا، تاہم مثبت بات یہ ہے کہ دونوں فریق گزشتہ آٹھ مہینوں سے بات چیت جاری رکھنے پر متفق ہیں۔ اس دوران اسلام آباد، ماسکو، تہران اور بیجنگ میں بھی بات چیت ہوئی۔
گزشتہ ہفتہ افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی نے طالبان سے مذاکرات کے لیے ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کی قیادت میں ایک اعلیٰ سطحی وفد تشکیل دیا جس میں حزب اسلامی کے امیر گلبدین حکمت یار، حزب کے دوسرے دھڑے کے سربراہ استاد عطا محمد نور، ماہر امور شرعیہ مولوی عنایت اللہ بالغ، شیعہ حزب وحدت کے سربراہ یونس قانونی، شیعہ رہنما استاد محقق، جنرل عبدالرشید دوستم، وزیرمملکت سلام رحیمی، وزیر مملکت سید سعادت منصور نادری، محترمہ فاطمہ گیلانی اور سابق نائب صدر کریم خلیلی شامل تھے۔ جمعہ سولہ جولائی کو حامد کرزئی نے جس وفد کو کابل سے قطر کے لیے رخصت کیا اس میں گلبدین حکمت یار شامل نہیں تھے جبکہ علالت کی وجہ سے رشید دوستم ترکی میں زیر علاج ہیں۔
اعلی سطحی اجلاس سے ایک دن پہلے کابل میں اخباری نمائندوں سے باتیں کرتے ہوئے افغان حکومت کے ترجمان نادر نادری نے کہا کہ طالبان نے عیدالاضحٰی سے تین ماہ کے لیے جنگ بندی کی پیشکش کی ہے۔ تاہم انہوں نے اس کے لیے اپنے سات ہزار قیدیوں کی رہائی اور طالبان قائدین کے نام اقوام متحدہ کی دہشت گرد فہرست سے نکالنے کی شرط عائد کی ہے۔
ہفتے کو قطر میں مذاکرات کا پہلا دور شروع ہوا جس میں کابل سے آنے والے وفد کے علاوہ قطر میں پہلے سے موجود معصوم تناکزئی شریک ہوئے اور عبدالرشید دوستم کی نمائندگی ان کے صاحبزادے باتور دوستم نے کی۔
ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے بات چیت کے آغاز میں کہا کہ ملک کے طول وعرض میں چھڑی جنگ کا ایندھن معصوم افغان عوام بن رہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا کہ جنگ سے آج تک کوئی مسئلہ حل نہیں ہوا اور افغان تنازع کا بھی کوئی عسکری حل نہیں۔ انہوں نے کہا کہ مذاکرات کو کامیاب بنانے کے لیے فوری جنگ بندی اور دونوں جانب سے لچک اور نرمی ضروری ہے۔
جواب میں ملا عبدالغنی برادر نے کہا کہ مذاکرات میں پیشرفت نہ ہونے کے باوجود بات چیت پر دونوں فریق کا غیر متزلزل عزم بے حد خوش آئند ہے، ہمیں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں اور قومی وحدت کے لیے جدوجہد جاری رہنی چاہیے۔ افغانستان کی خوشحالی اور استحکام کے لیے اسلامی نظام ضروری ہے جس کا قیام اسی صورت ممکن ہے جب ہم سب اپنے ذاتی منفعت ومفادات کو پس پشت ڈال دیں۔ ابتدائی گفتگو کے بعد افتتاحی اجلاس ختم ہو گیا۔
اتوار کی شام جب دوبارہ نشست جمی تو طالبان نے ایک دن پہلے کابل سے جاری ہونے والے اشتعال انگیز بیان پر شدید ردعمل کا اظہار کیا۔ اپنے بیان میں افغان صدر کے ترجمان محمد امیری نے کہا تھا’’ ہمیں امید ہے کہ بات چیت کے نتیجے میں طالبان افغان عوام کا قتل عام روک کر امن کی راہ اختیار کریں گے‘‘۔ طالبان کا موقف تھا کہ اس قسم کی زبان اور الزام تراشی سے اعتماد کی بحالی متاثر ہوگی۔ طالبان وفد کے قائد نے یہ کہہ کر بات ختم کردی کہ افغان ملت اپنے لہو سے غسل کر رہی ہے اور یہ وقت باہمی شکوے شکایت کا نہیں۔
دوسرے اجلاس میں ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ اور ملا عبدالغنی برادر کے زیر قیادت دونوں جانب سے سات سات افراد کے ساتھ قطری حکومت کے تین مبصرین وشاہدین بھی نشست میں موجود تھے۔افتتاحی کلمات کے بعد طالبان نے اپنے سات ہزار جنگی قیدیوں کی رہائی اور طالبان قائدین کے نام اقوام متحدہ کی دہشت گرد فہرست سے نکالنے کے نکات رکھے جبکہ کابل سرکار کا اصرار فوری جنگ بندی پر تھا۔ اجلاس کے اختتام پر سرکاری وفد کے ترجمان فریدون خورزمی نے کہا کہ بات چیت خوش گوار ماحول میں ہوئی اور امن کی کوشش تیز کرنے پر دونوں فریق میں مکمل اتفاق پایا گیا۔ اجلاس میں طالبان کے امیر ملا ہبۃ اللہ کے عید پیغام کا خیر مقدم کیا گیا جس میں ملا صاحب نے افغانستان کو بحران سے نکالنے کے لیے سیاسی تصفیہ ضروری قرار دیا ہے۔
اتوار کے اجلاس میں طالبان نے قیدیوں کی رہائی اور دہشت گرد فہرست سے نام نکالنے کی بات اٹھا کر افغان حکومت کے ترجمان نادر نادری کے اس انکشاف کی تصدیق کر دی کہ بات چیت کو معنی خیز بنانے کے لیے طالبان تین ماہ کی عبوری جنگ۔ بندی کے لیے تیار ہیں۔ اس پیشکش سے غنی سرکار دباو میں آگئی ہے۔ افغانستان کے سیاسی رہنما خاص طور سے سابق صدر حامد کرزئی، حزب کے سربراہ حکمت یار اور ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے خیال میں نوے دن کی جنگ بندی اور قیدیوں کی رہائی سے اعتماد کی بحالی میں مدد ملے گی اور قطر مذاکرات کا ماحول خوش گوار ہو جائے گا لیکن صدر اشرف غنی کو خوف ہے کہ رہائی سے طالبان کو مزید سات ہزار تجربہ کار جنگجو مل جائیں گے جس سے میدان میں طاقت کا توازن اور خراب ہو گا۔ دہشت گردوں کی فہرست سے طالبان قیادت کا نام نکالنے کے لیے امریکہ کی حمایت درکار ہے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ برطانیہ ان شرائط کو تسلیم کرنے پر زور دے رہا ہے تاکہ امن مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا جا سکے۔زلمے خلیل زاد بھی جنگ بندی کی پیشکش سے فائدہ اٹھانے کے حق میں ہیں۔
قطر میں اعلیٰ سطحی مذاکرات سے امید کا دیا روشن ہوا ہے لیکن اشتعال انگیز بیانات اور دھمکیوں کی آندھی اسے بجھانے کے لیے پرعزم نظر آرہی ہے۔ افغانستان کے نائب صدر امر اللہ صالح کے ایک ٹویٹ کے مطابق پاکستانی فضائیہ نے دھمکی دی ہے کہ اسپن بولدک (صوبہ قندھار) کو طالبان کے قبضے سے چھڑانے کی کسی بھی کوشش کو پاکستانی طیاروں کی جانب سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان کے کئی علاقوں میں پاک فضائیہ طالبان کو فضائی کمک (air support) فراہم کر رہی ہے۔ اپنے ایک دوسرے ٹویٹ میں صالح صاحب نے کہا کہ افغان وزارت دفاع اس سلسلے میں ثبوت فراہم کرے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ طالبان کے ٹھکانوں کی جانب محو پرواز افغان فضائیہ کے طیاروں کو پیچھے نہ ہٹنے کی صورت میں میزائیلوں سے نشانہ بنانے کی تنبیہ کی جا رہی ہے۔
ادھر چند دنوں سے امریکہ میں طالبان کے خلاف فضائی کاروائی کے حق میں مہم تیز ہو گئی ہے۔پاکستانی نسل پرست، امریکہ کے جنگجو قدامت پسندوں کے ساتھ مل کر تحریک چلا رہے ہیں کہ طالبان کی پیش قدمی روکنے کے لیے فضائی قوت استعمال کی جائے۔ سابق امریکی صدر جارج بش نے جرمن ذرایع ابلاغ سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان سے غیر ملکی فوج کا انخلا غلطی ہے۔جس سے افغان خواتین کو ناقابل بیان نقصان اٹھانا پڑے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ فوج واپس بلا کر افغان عوام کو ان ظالم لوگوں کے ہاتھوں مرنے کے لیے تنہا چھوڑ دیا گیا ہے۔
ڈاکٹر اشرف غنی ہندوستان سے بھی عسکری مداخلت کی درخواست کر رہے ہیں۔ دو روز قبل ہندوستان میں کابل سرکار کے سفیر فرید مومند زئی نے NDTV سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر طالبان سے مذاکرات ناکام ہونے پر صورتحال قابو سے باہر ہوئی تو ہندوستان سے عسکری مدد کی درخواست کی جائے گی۔ ہندوستان کی مالی حالت کا اندازہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اخراجات کی ادائیگی کوئی مسئلہ نہیں کہ امریکہ نے 2030تک کابل سرکار کی مدد کے لیے ساڑھے چار ارب ڈالر سالانہ مختص کر دیے ہیں۔ فاضل سفیر کا کہنا تھا کہ نائن الیون کے بعد ہندوستان نے بہت ہی فراخدلی سے افغانستان کی مدد کی ہے جس کی وجہ سے دہشت گرد ہندوستان کے بھی دشمن ہیں۔ جناب مومندزئی نے پرعزم لہجے میں کہا کہ بہادر افغان افواج اپنے ملک کا کامیابی سے دفاع کر رہی ہیں لیکن اگر ضرورت پڑی تو یقین ہے کہ ہندوستان ہمیں مایوس نہیں کر ے گا۔
جناب مومندزئی کے انٹرویو پر ہندوستانی حکومت کا کوئی سرکاری ردعمل سامنے نہیں آیا لیکن اقوام متحدہ میں ہند کے سابق سفیر سید اکبرالدین نے اخباری نمائندوں سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان کو اپنی سرحدوں پر کشیدگی کا سامنا ہے چنانچہ فوجی دستے افغانستان بھیجنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اسی نشست میں ہندوستان کے ممتاز دفاعی تجزیہ نگار راہول بیدی بھی موجود تھے جنہوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں غیر ملکی فوجوں کی کارکردگی کبھی بھی اچھی نہیں رہی اور بھاری جانی ومالی نقصان اٹھا کر وہاں سے پسپائی اختیار کرنی پڑی ہے اس لیے ’دِلی خواہش‘ کے باوجود وزیر اعظم مودی یہ خطرہ مول لینے کو تیار نہیں۔
تازہ ترین خبر یہ ہے کہ دہلی نے طالبان سے بات چیت میں دلچسپی ظاہر کی ہے اور رابطہ استوار کرنے کی ذمہ داری سید اکبرالدین کو سونپی گئی ہے۔ اکبرالدین صاحب کو اردو اور عربی کے ساتھ فارسی پر مکمل عبور ہے اور وہ اس سے پہلے بھی طالبان سے علیک سلیک کر چکے ہیں۔
امن بات چیت کی متوازی بلکہ مخالف سرگرمیوں کی بنا پر ماہرین قطر مذاکرات کے بارے میں بہت زیادہ پر امید نہیں۔ امن کوششوں کو سبوتاژ کرنے کی کوششیں بھی شروع ہو چکی ہیں۔ اسلام آباد سے افغان سفیر کی صاحبزادی سلسلہ علی خیل کے مبینہ اغوا نے خاصی بدمزگی پیدا کر دی ہے۔ اس واردات سے جہاں کابل انتظامیہ اور پاکستان کے کشیدہ تعلقات مزید تلخ ہو گئے وہیں اسکی بازگشت قطر میں بھی سنائی دے رہی ہے۔ حسب توقع سلسلہ علی خیل کے مبینہ اغوا کے خلاف کابل میں اتوار کو پاکستانی سفارت خانے کے باہر مظاہرہ کیا گیا۔ ابلاغ عامہ کے غیر جانبدار ذرایع کے مطابق مظاہرے میں صرف چند درجن افراد موجود تھے جنکی اکثریت خواتین حقوق کی کارکنوں اور سرکاری اہلکاروں پر مشتمل تھی۔ مظاہرے میں افغان فوج کے ترجمان جنرل عمر شنواری اور رکن پارلیمان شنکو کاروخیل بھی شریک ہوئے۔ مظاہرے کے دوران خواتین حقوق کےساتھ طالبان کے خلاف بھی نعرے لگائے گئے۔
افغان امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ڈاکٹر اشرف غنی کا رویہ ہے۔ طالبان سے امریکہ نے براہ راست مذکرات کیے اور امریکیوں نے معاہدے تک میں ڈاکٹر صاحب کو اعتماد میں نہیں لیا۔ امن مذاکرات کے لیے امریکہ کی نگرانی میں جو اعلیٰ اختیاراتی قومی مفاہمتی کمیشن یاNational Reconciliation High Commission تشکیل پایا، اس کی سربراہی ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کو سونپ دی گئی ہے۔ اس کمیشن کو مالی وسائل فراہم کر کے خود مختار وبااختیار بنا دیا گیا ہے چنانچہ امن مذاکرات میں صدر اشرف غنی کا کردار علامتی رہ گیا ہے۔
اب جو اعلی سطحی وفد طالبان سے مذاکرات میں مصروف ہے اس میں بھی کابل سرکار کا کوئی اہم اہلکار شامل نہیں اور ڈاکٹر غنی سیاسی محاذ پر خود کو تنہا اور دیوار سے لگا محسوس کر رہے ہیں۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ افغان نائب صدر کی جانب سے اشتعال انگیز بیانات اور علاقی ممالک کو اس تنازع میں ملوث کرنے کی مہم امن مشن کو ناکام بنانے کی ایک کوشش ہے۔ افغان وفد کی قطر روانگی کے وقت اشرف غنی نے دھمکی دی تھی کہ طالبان کو تین ماہ کے اندر کچل کر رکھ دیا جائے گا۔
ادھر افغان وزارت اطلاعات کا کہنا ہے کہ طالبان نے اپنے زیر قبضہ علاقوں میں ریڈیو اسٹیشنوں کا انتطام سنبھال لیا ہے اور اب یہ ریڈیو طالبان کے پروپیگنڈے کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔ سرکاری ترجمان کے مطابق ہیرات کا ریڈیو شین ڈنڈ ریڈیو شریعہ بن گیا ہے۔ بغلان کا ریڈیو پیمان، ریڈیو سمنگان، ریڈیو نوبہار بلخ اور ریڈیو قندوز نے اب ریڈیو اماراتِ اسلامی کے نام سے نشریات شروع کردی ہیں۔ افغان حکومت کا کہنا ہے کہ ریڈیو اسٹیشنوں پر قبضے سے آزادی صحافت کو سخت خطرہ لاحق ہو گیا ہے جس کا صحافیوں کی عالمی انجمن کو نوٹس لینا چاہیے جبکہ طالبان کا اصرار ہے شرعی اصولوں کے تحت اماراتِ اسلامی آزادیِ اظہارِ رائے کے تحفظ کی پابند ہے۔ طالبان اور کابل وفد کی جانب سے مکالمہ جاری رکھنے کا عزم حوصلہ افزا تو ہے لیکن دھمکی، الزام تراشی اور اشتعال انگیز بیانات کےتناظر میں امن کوششوں کا مستقبل مشکوک ومخدوش نظر آرہا ہے۔
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
[email protected]
***
مذاکرات میں پیشرفت نہ ہونے کے باوجود بات چیت پر دونوں فریق کا غیر متزلزل عزم بے حد خوش آئند ہے، ہمیں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں اور قومی وحدت کے لیے جدوجہد جاری رہنی چاہیے۔ افغانستان کی خوشحالی اور استحکام کے لیے اسلامی نظام ضروری ہے جس کا قیام اسی صورت ممکن ہے جب ہم سب اپنے ذاتی منفعت ومفادات کو پس پشت ڈال دیں ۔ملا عبدالغنی برادر
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 25 تا 31 جولائی 2021