اعظم گڑھ سی اے اے مخالف احتجاج: معروف اسلامی اسکالر سمیت 19 افراد پر بغاوت کا مقدمہ درج، جیل بھیجا گیا

اعظم گڑھ، اتر پردیش، فروری 06— معروف اسلامی اسکالر مولانا محمد طاہر مدنی اور 18 دیگر افراد پر بغاوت کے قانون اور تعزیرات ہند کی مختلف شقوں کے تحت مقدمہ درج کیا گیا اور بدھ کے روز اتر پردیش کے ضلع اعظم گڑھ کے بلریا گنج علاقے میں سی اے اے مخالف مظاہرے پر پولیس کارروائی کے فوراً بعد انھیں جیل بھیج دیا گیا۔

ایڈوکیٹ طلحہ عامر، جو مولانا مدنی اور دیگر کے وکیل بھی ہیں، نے کہا کہ پولیس اور ضلعی انتظامیہ نے 65 سالہ مولانا مدنی کو مظاہرین کو احتجاج ختم کرنے پر راضی کرنے کے لیے احتجاجی مقام پر پہنچایا تھا کیونکہ وہ ایک علاقہ کی ایک معزز شخصیت ہیں لیکن بعد میں پولیس نے خود مولانا مدنی پر مقدمہ درج کیا اور انھیں جیل بھیج دیا۔

وکیل طلحہ عامر نے کہا ’’یہ احتجاج منگل کے روز صبح گیارہ بجے کے قریب اس وقت شروع ہوا جب اچانک تمام خواتین نے بلریا گنج کے مولانا جوہر علی پارک میں جمع ہونا شروع کیا۔ پولیس نے مولانا مدنی کو بلایا اور پولیس اور ضلعی افسران کی موجودگی میں انھوں نے مظاہرین کو گھنٹوں احتجاج کو ختم کرنے کے لیے راضی کرنے کی کوشش کی لیکن وہ نہیں مانے۔ تقریبا 3-4 بجے کے قریب پولیس نے بھیڑ کو منتشر کرنے کے لیے لاٹھی چارج اور آنسو گیس کا استعمال کیا اور بعد میں مولانا مدنی سمیت متعدد افراد کو گرفتار کرلیا۔

بدھ کے اواخر میں مقامی پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے مبینہ طور پر لاٹھی چارج اور آنسوؤں کی فائرنگ کا استعمال کیا، جن میں زیادہ تر خواتین مظاہرین تھیں۔ ان میں سے کچھ زخمی ہوئے۔ پولیس نے دعویٰ کیا کہ مظاہرین نے پولیس اہلکاروں پر پتھراؤ کیا۔

احتجاج کے خلاف کریک ڈاؤن کے فورا بعد ہی پولیس نے اسلامک اسکالر اور ایک خاتون سمیت 100 نامعلوم افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کی اور 100 بے نام افراد پر مختلف الزامات کے تحت فسادات اور قتل کی کوشش کے مقدمے درج کیے۔ پولیس نے متعدد کتابوں کے مصنف مولانا مدنی سمیت 18 دیگر افراد کو گرفتار کیا اور بدھ کے روز جیل بھیج دیا۔

ان افراد پر بغاوت سمیت تعزیرات ہند (آئی پی ایس) کی 19 مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

اطلاعات کے مطابق سی اے اے کے خلاف احتجاج منگل کی سہ پہر بلریا گنج کے مولانا جوہر علی پارک میں شروع ہوا۔ شام کے وقت جب بھیڑ میں اضافہ ہوا تو پولیس کی بسیں آ گئیں اور مظاہرین سے جگہ خالی کرنے کو کہا کیونکہ انھوں نے مبینہ طور پر احتجاج کی اجازت نہیں لی تھی۔ مظاہرین نے اپنا احتجاج ختم کرنے سے انکار کردیا۔ پولیس نے پہلے مرد مظاہرین کو پکڑا پھر انھوں نے پارک میں پانی بھر دیا۔ جب خواتین مظاہرین زمین پر بیٹھی رہیں تو پولیس نے بھیڑ کو منتشر کرنے کے لیے مبینہ طور پر لاٹھی چارج کا استعمال کیا اور آنسو گیس کے گولے داغے۔

ایڈووکیٹ طلحہ عامر نے بتایا کہ مقامی افراد نے دسمبر میں اور جنوری کے پہلے ہفتے میں سی اے اے مخالف احتجاج کے لیے انتظامیہ سے اجازت طلب کی تھی لیکن انھیں اجازت دینے سے انکار کردیا گیا۔ وکیل نے بتایا کہ منگل (4 فروری) کو لوگ، زیادہ تر خواتین، بغیر کسی بلاوے کے جوہر پارک میں جمع ہونا شروع ہوگئے اور وہ یہاں شاہین باغ جیسا احتجاج کرنا چاہتے تھے۔

پولیس نے اعتراف کیا ہے کہ اس نے آنسو گیس کے گولے فائر کیے ہیں لیکن انھوں نے لاٹھی چارج کی تردید کی ہے۔

بلریا گنج اسٹیشن آفیسر منوج کمار سنگھ نے کہا ’’بدھ کی صبح چھ سات آنسو گیس کے شیل استعمال کیے گئے تھے۔ کوئی لاٹھی چارج نہیں ہوا… فسادیوں نے پولیس پر پتھراؤ شروع کیا اور پارک کے اندر بیٹھی خواتین نے بھی، تب آنسو گیس کے گولے استعمال کیے گئے تھے۔ خواتین کو چوٹ پارک کے قریب جمع ہوئے لوگوں کی طرف سے پتھراؤ کی وجہ سے لگی ہیں‘‘۔

ادھر سماج وادی پارٹی کے چیف اور اعظم گڑھ سے لوک سبھا کے رکن پارلیمنٹ اکھلیش یادو نے مظاہرین پر پولیس کارروائی کی مذمت کی ہے اور وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کا نام لیے بغیر انھیں نشانہ بنایا۔ انھوں نے کہا ’’ہر منچ سے گولی کی بات کرنے والے آئینی اقدار کی بات کب کریں گے؟ پر امن احتجاج لوگوں کا آئینی حق ہے۔ اعظم گڑھ میں پولیس کی بربریت نے سبھی حدیں پار کر دی ہیں اور میں اس کی سخت مذمت کرتا ہوں۔ پارٹی کے ایم ایل اے اور تنظیمیں بلریا گنج میں لوگوں کی خدمت کر رہی ہیں۔‘‘

جماعت اسلامی ہند کے قومی صدر سید سعادت اللہ حسینی نے بھی اعظم گڑھ مظاہرین پر پولیس کی کارروائی کی مذمت کی ہے اور ان کے خلاف بغاوت کے الزامات واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔

جماعت کے رہنما نے ٹویٹ کیا "اب اعظم گڑھ میں احتجاج کرنے پر مظاہرین اور ایک معزز عالم کے خلاف ملک سے بغاوت کے الزامات! یوپی پولیس! مزاحیہ الزامات کو ختم کرتے ہوئے انہیں رہا کرو! کوئی بھی نہیں مانتا ہے کہ قابل احترام لوگوں کے ساتھ بدسلوکی ک جائے۔جتنا آپ ان کی رہائی میں تاخیر کریں گے اتنا آپ کی بدنامی میں اضافہ ہوگا۔‘‘

واضح رہے کہ 19 اور 20 دسمبر کو بھی یو پی پولیس ریاست کے متعدد اضلاع میں سی اے اے مخالف مظاہروں پر حملہ آور ہوئی تھی جس میں 20 سے زیادہ افراد ہلاک ہوگئے، جن میں زیادہ تر پولیس کی فائرنگ سے ہلاک ہوئے تھے۔ ہزاروں افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا اور سینکڑوں افراد کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا۔