مولانا ابو سلیم محمد عبدالحئی
دلوں میں نیکی کا بیج بونے اور ان سے برائیوں کی گندگی دور کرنے کے سلسلے کی ایک اہم کڑی یہ بھی ہے کہ آپ کو جو کچھ کہنا ہے اور لوگوں کے دلوں میں جو باتیں بٹھانا ہیں ان کو آپ کس ترتیب سے پیش کریں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اصلاح اور تبلیغ کے جوش میں پہلے ان باتوں پر زور دیا جاتا ہے جن کا نمبر بہت بعد کو آنا چاہیے تھا اور بنیادی باتوں سے توجہ ہٹ جاتی ہے ۔ایک ایسا شخص جس کے دل میں ایک نہایت آرام دہ اور سجا ہوا کمرہ بنانے کا ارادہ ہو اگر وہ دیواروں کی تعمیر اور ان کے پلاسٹر سے پہلے پردے لٹکانے اور فرنیچر ترتیب دینے کی حماقت کرنے لگے تو ظاہر ہے کہ نتیجے میں اسے سوائے افسوس کے اور کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔ اسی طرح جو لوگ ذہنوں میں دین کی بنیادی باتوں کو مضبوطی سے جمانے سے پہلے چھوٹی چھوٹی اور کم اہم باتوں کی طرف توجہ دینا شروع کردیتے ہیں انہیں بار بار یہ محسوس ہوتا ہے کہ کچھ دنوں تک تو ان کی کوششوں کے کچھ اثرات باقی رہتے ہیں مگر تھوڑے ہی دنوں میں پھر میدان صاف نظر انے لگتا ہے اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ بار بار کی کوشش کے بعد مایوس ہوکر بیٹھ رہتے ہیں۔
آپ جب اپنے گھر کی اصلاح کی طرف توجہ دیں تو اس قسم کی غلطی نہ کریں ورنہ ڈر ہے کہ آپ کو بھی مایوسی سے دوچار ہونا پڑے گا۔ اب سے کچھ صدیوں پہلے تک مسلمانوں میں جس قسم کی اصلاحی کوششیں ہوتی رہی ہیں ان کا معاملہ بالکل دوسرا تھا۔ اس وقت عام طور پر لوگوں کے ذہنوں میں اسلام کی بنیادی باتیں بہت مضبوطی سے جمی ہوئی ہوتی تھیں محض غفلت اور کاہلی کی بنا پر ان سے کچھ کوتاہیاں ہوتی رہتی تھیں چنانچہ ان کی اصلاح کا یہ طریقہ بالکل ٹھیک تھا کہ ان برائیوں کی طرف براہ راست توجہ دلائی تھی جائے اور انہیں دور کرنے کی کوشش کی جائے۔ عام طور پر اس زمانے میں اللہ کی نافرمانی اور فسق فجور کا سبب یہ نہیں ہوتا تھا کہ دلوں میں اللہ پر ایمان آخرت کے یقین اور رسول پاکﷺ کی اطاعت و محبت میں کمی آجاتی تھی بلکہ غفلت اور نفس کی خواہش کے غلبے کی وجہ سے لوگوں میں کچھ برائیاں ابھر آتی تھیں اس لیے اس وقت اگر ان برائیوں کی طرف براہ راست توجہ دی جاتی تھی اور یہ سمجھادیا جاتا تھا کہ فلاں بات اللہ کی مرضی کے خلاف ہے، اس کے نتیجے میں آخرت کی زندگی تباہ ہوجائے گی یا اس کا کرنا رسول پاک کے ارشاد کے خلاف ہے تو اکثر لوگوں کو تنبیہ ہوجاتی تھی اور آن کی آن میں اُن کی زندگی کا رخ بدل جاتا تھا۔ عام لوگوں کا تو کیا ذکر، اکثر دولت اور حکومت کے نشے میں ڈوبے ہوئے بادشاہوں اور امیروں کا یہ حال ہوا ہے کہ کسی ایک یاد دہانی کے نتیجے میں ان کی کایا پلٹ گئی اور فسق و فجور کے بدلے ان کی زندگیاں تقویٰ اور پاکیز گی سے پر ہوگئیں۔ لیکن اب حالات بالکل بدل چکے ہیں، ان بدلے ہوئے حالات کا لحاظ کیے بغیر اگر کوششیں کی جائیں گی تو ان کا نتیجہ مایوسی کے سوا کچھ نہ ہوگا۔ آج اکثر لوگوں کے اندر برائیوں کی کثرت کا سبب بالکل دوسرا ہے۔ آج لوگوں کے دلوں کا حال وہ نہیں ہے جو اب سے چار پانچ صدیوں پہلے تھا۔ انتہا تو یہ ہے کہ پچھلے سو سالوں میں جتنی تبدیلی ہوئی ہے اس کا اندازہ کرنا بھی مشکل ہے۔ آج حال یہ ہے کہ پوری سوسائٹی کی بنیاد ایسے اصولوں پر قائم ہے جنہیں خدا، آخرت اور رسالت سے دور کا بھی واسطہ نہیں بلکہ اس کے برعکس وہ ان حقیقتوں کا انکار کرتے ہیں۔ چنانچہ اس سوسائٹی کے موجودہ نظام کے تحت جو کچھ ہورہا ہے وہ انسان کو خدا سے دور ہی لے جارہا ہے۔ اور اس کے ذہن سے یہ سوال مٹتا جارہا ہے کہ وہ اس دنیا کی موجودہ زندگی سے آگے بڑھ کر بھی کچھ سوچے۔ ہمارے اسکولوں کی تعلیم، ہمارے اخبارات، رسالے، ادب، مشاعرے اور فلمیں، آئے دن کے مشاغل، ہمارے لیڈروں کی تقریریں، ملک کے با اثر لوگوں کی زندگیوں کا رخ۔ غرض یہ کہ ہمارے پورے ماحول میں آپ کو کہیں خدا پرستی، آخرت کا یقین اور خدائی ہدایت سے وابستگی کی کوئی ایسی مہک نہیں ملے گی جو آپ کے اندر ایمان کی حرارت کو زندہ کرسکے۔ وہ تو کہیے کہ صدیوں کے ایمان اور اسلام کا یہ اثر ہے کہ کچھ تھوڑے سے سر پھروں کے سوا اب بھی لوگ اللہ، آخرت اور رسالت کے کھلم کھلا انکار کی جرات نہیں کرسکتے لیکن عام طور پر لوگوں کی زندگیوں کا کیا حال ہے؟ کچھ نیک صالح لوگوں کو چھوڑ کر عام مسلمانوں کی زندگی کا حال یہ ہے کہ وہ اگر چہ اسلام کے بنیادی عقائد کا انکار تو نہیں کرتے لیکن ان کے مشاغل، ان کے معاملات، ان کے اخلاق، ان لوگوں سے مختلف نہیں ہیں جو ان اسلامی عقائد کا کھلم کھلا انکار کرتے ہیں۔ پھر سوچنے کی بات یہ ہے کہ جس عقیدے اور جس ایمان کا اثر زندگیوں پر نہ پڑ رہا ہو اس پر کب تک بھروسہ کیا جاسکتا ہے اور اس سے کوئی فائدہ کس طرح حاصل ہوسکتا ہے۔
اس صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے اصلاح اور تبلیغ کی تمام کوششوں کے لیے ضروری ہے کہ ہم انبیا علیہم السلام کے طریقوں کو سامنے رکھیں اور یہ دیکھیں کہ انہوں نے حالات کی اصلاح کے لیے کس تربیت سے کام کو ہاتھ میں لیا۔ اسی تربیت کا لحاظ رکھتے ہوئے ہمیں بھی کام کرنا چاہیے۔ انبیا علیہم السلام کے دعوت کی یہ خصوصیت ہے کہ انہوں نے سب سے پہلے لوگوں کے دلوں میں خدا پر ایمان کو مضبوط کیا، توحیدکا مطلب سمجھایا اور توحید کے تقاضے سامنے رکھے۔ جو لوگ خدا کو نہیں مانتے تھے ان کے سامنے ایسے دلائل پیش کیے جس کے بعد خدا کا انکار مشکل ہوجائے۔ جو لوگ خدا کو مانتے تھے لیکن ان کی زندگیاں اس ماننے کے تقاضوں سے خالی تھیں۔ انہیں ان تقاضوں سے باخبر کیا۔ آخرت کا یقین دلایا، خدائی ہدایت سے بے نیاز رہنے کے نقصانات سمجھائے غرض یہ کہ سب سے پہلے خدا، آخرت اور رسالت پر ایمان کو مضبوط یا اور اس ایمان پر اسلامی زندگی کی تعمیر کی۔ آج بھی جو لوگ اسلامی زندگی کو دوبارہ اپنے اصلی روپ میں لانا چاہتے ہیں، انہیں اسی ترتیب سے کام کرنا پڑے گا۔جو لوگ اس کائنات کا ایک خدا مانتے ہیں ان کے سامنے جب اس بات کی دلیلیں آتی ہیں کہ واقعی اس جہان کا ایک خدا ہے اور اس کی صفات یہ ہے اور ہیں تو ایسے لوگ عام طور ان دلیلوں پر کچھ زیادہ توجہ نہیں دیتے۔ وہ سوچتے ہیں کہ یہ باتیں تو ان کے لیے ہیں جو خدا کو نہیں مانتے ہم تو خدا کو مانتے اور اسے اس کائنات کا خالق جانتے ہی ہیں ہمیں ان دلیلوں پر غور کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن ہمارا احساس یہ ہے کہ اس طرح سوچنا درست نہیں ہے ہمارے نزدیک توحید کی ان دلیلوں پر ہر شخص کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
اس کی دو وجوہات ہیں
۱۔ جو لوگ خدا کو مانتے ہیں ان میں بہت بڑی تعداد تو ایسے لوگوں کی ہے جنہوں نے اس مسئلے پر کبھی واقعتاً غور نہیں کیا اور سوچ سمجھ کر ایک فیصلے پر نہیں پہنچے بلکہ انہوں نے اپنی ماں کی گود میں ہی اس حقیقت کا علم حاصل کرنا شروع کردیا تھا اور پھر رفتہ رفتہ یہ بات کچھ اس طرح ان کے دلوں میں بیٹھ گئی کہ اب ان کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ اس کا انکار کردیں۔ ایسے لوگوں کے لیے انتہائی ضروری ہے کہ وہ توحید باری تعالیٰ کے متعلق اپنے ذہن و قلب کو پوری طرح مطمئن کریں۔ جب تک ان کے فیصلے اور ایمان میں قوت پیدا نہ ہوگی، ان کے لیے زندگی میں توحید کے تقاضوں کو پورا کرنا آسان نہ ہوگا۔
۲۔ جن لوگوں نے سوچ سمجھ کر توحید کا اقرار کیا ہے ان کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے ایمان کو زیادہ سے زیادہ مضبوط بناتے رہیں۔ اس مقصد کے لیے انہیں ان دلائل پر بار بار غور وفکر کرتے رہنا چاہیے۔ اس طرح دلوں میں توحید کا تصور اور خدا پر ایمان بڑھتا ہے۔
جن لوگوں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ خود ایمان کے تقاضے پورے کریں گے اور دوسروں کو بھی ان تقاضوں کے پورا کرنے کی دعوت دیں گے ان کا پہلا قدم یہی ہوگا کہ وہ توحید کے تصور کو زیادہ سے زیادہ واضح کریں اور ایمان باللہ کو مضبوط کریں۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ہم کچھ اہم باتیں آپ کے سامنے رکھتے ہیں:
سب سے پہلی چیز جس پر انسان توجہ کرنے پر مجبور ہے وہ یہ دنیا ہے جو اس کے چاروں طرف پھیلی ہوئی ہے اس کی ہر چیز مطالبہ کرتی ہے کہ انسان یہ سوچے کہ آخر یہ کس طرح وجود میں آگئی۔ وہ سورج کو دیکھتا ہے تو اس کا ذہن یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ یہ کہاں سے آگیا؟ چاند، ستارے، ہوائیں، بادل، بارش، پہاڑ، جنگل اور ریگستان، غرض یہ کہ ہر ذرہ انسان کے سامنے ایک مجسم سوال بن کر آتا ہے اور اسے مجبور کرتا ہے کہ وہ ان میں سے ہر چیز کے وجود میں آنے کا کوئی نہ کوئی سبب متعین کرے۔ اب تک انسان نے جتنا بھی سوچا ہے اس سب کا آخری نتیجہ اس کے سوا کچھ نہیں نکل سکا کہ انسان یہ ماننے کے لیے مجبور ہے کہ کائنات کی ان تمام چیزوں کے وجود میں آنے کا کوئی نہ کوئی سبب ہونا چاہیے انسان کی فطرت اور اس کی عقل اسے مجبور کرتی ہے کہ وہ کسی نہ کسی سبب کو اس پورے نظام کا موجب قرار دے۔ یہی وہ بنیاد ہے جس کی مدد سے انسان خدا کے بارے میں کسی نتیجے پر پہنچتا ہے۔
پھر اتنا ہی نہیں کہ کچھ چیزیں یہاں موجود دکھائی دیتی ہیں اور ان کو دیکھ کر انسان یہ ماننے پر مجبور ہے کہ ان کا بنانے والا اور انہیں وجود میں لانے والا کوئی نہ کوئی ضرور ہونا چاہیے بلکہ ان تمام چیزوں میں کچھ ایسی خصوصیات پائی جاتی ہیں جو ہر آن انسان کی توجہ کو اپنی طرف کھینچتی ہیں اور اسے بار بار مجبور کرتی ہیں کہ وہ اس کائنات کے خالق کے وجود اور اس کی صفات کے بارے میں غور کرے۔ قرآن ایسی تمام چیزوں کو اللہ کی آیات یعنی اس کے پہچاننے کے لیے نشانیاں کہتا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اللہ کی ان نشانیوں کے بارے میں ذرا تفصیل کے ساتھ کچھ باتیں آپ کے سامنے رکھیں۔ ہماری نظر میں اس کے دو فائدے ہیں۔ ایک تو یہ کہ ان کے سامنے آنے کے بعد اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات پر ایمان مضبوط ہوتا ہے اور انسان صحیح معنی میں یہ قوت محسوس کرتا ہے کہ وہ ہر نرم اور گرم حالات میں اللہ کی بندگی کے تقاضوں کو پورا کرسکے اور دوسرے یہ کہ ان تفصیلات میں ان لوگوں کے سوچنے اور سمجھنے کے لیے بھی بہت کچھ سامان موجود ہے جو یا تو خدا کا کھلم کھلا انکار کرتے ہیں یا جن کی زندگی کا رخ وہی ہے جو عام طور پر خدا کے منکروں کا ہوتا ہے۔ یا وہ اس کارخانہ عالم اور اس کے انتظام کو ایک سے زیادہ دیوتاوں یا خداوں کی ’’کرم فرمائی‘‘ کا نتیجہ
جانتے ہیں۔
پہلی چیز جس کی طرف انسان کا ذہن آپ سے آپ متوجہ ہوتا ہے وہ اس کارخانہ عالم کا حسن ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ یہاں کوئی چیز بھی سادہ اور بے رنگ نہیں ہے، آسمان سے لے کر زمین تک کوئی مقام ایسا نہیں ہے کہ انسان اس پر نظر ڈالے اور اس کی نظر ٹھٹک کر نہ رہ جائے۔ ہر جگہ اس کو کھینچنے کا سامان موجود ہے۔ ہر مقام پر اس کی آنکھوں کے سامنے ایسے مناظر آتے ہیں جن میں اس کے لیے کشش ہے۔ پہاڑوں کی سر بلند چوٹیاں، سبزے سے ڈھکے ہوئے نشیب و فراز ، پہاڑوں کے میدانوں کی خوش نمائیاں، غرضیکہ زمین کا چپہ چپہ اپنے اندر ایک حسن اور دل کشی رکھتا ہے پھر زمین کے علاوہ فضا کے مناظر، سورج کے طلوع اور غروب کے اوقات کی رنگینیاں، چاند کی گھٹتی اور بڑھتی ہوئی شکلوں کی دل فریبیاں، تاروں بھرے آسمان کی کشش، کہکشاں کا حسن، بادلوں کا فضا میں تیرنا، اودی نیلی کالی گھٹاوں کا ہجوم، پرُوا ہوا کا لہکنا، غرض یہ کہ کون سی ایسی چیز ہے جو اپنے اندر کشش نہیں رکھتی اور جو انسان کی توجہ کو اپنی طرف کھینچتی نہیں۔
پھر ایک طرف تو یہ مظاہر حسن ہیں، دوسری طرف انسان میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ ان مناظر کو دیکھے اور متاثر ہو۔ یہ بھی تو ہوسکتا تھا کہ دنیا کا سارا انتظام ہوتا لیکن اس میں یہ حُسن نہ ہوتا، یا یہ سب کچھ تو ہوتا لیکن انسان میں اس حسن کی طرف مائل ہونے کی صلاحیت نہ ہوتی۔ آخر کتنے ہی جاندار ایسے بھی تو موجود ہیں جو ان مناظر فطرت میں کوئی دل چسپی نہیں لے سکتے۔ ہو سکتا تھا کہ پرند ہوتے لیکن یہ نغمے اور چہچہے نہ ہوتے، یہ پہاڑ ہوتے لیکن ان میں زعفران اور گل بنفشہ کے گلزار اگانے والی وادیاں نہ ہوتیں، پھول ہوتے لیکن ان میں رنگ و بو نہ ہوتے، سورج نکلتا اور ڈوبتا لیکن ہر صبح اور ہر شام اپنے ساتھ وہ مناظر نہ لاتا جن کو دیکھ کر انسان جھومنے لگتا ہے۔ چاند ہوتا لیکن اس کی شکلوں میں روح کو گرما دینے والی کیفیت نہ ہوتی اور ہلال و بدر میں انسانی جذبات اور احساسات کو بے تاب کردینے کی صلاحیت نہ ہوتی، یا پھر سب کچھ ہوتا لیکن انسان میں احساس حسن نہ ہوتا۔
یقیناً ایسا ہی ہوتا اگر یہ سارا کارخانہ اچانک آپ سے آپ یوں ہی وجود میں آگیا ہوتا۔ لیکن یہ سب کچھ تو ایک غرض اور ایک مقصد کے ماتحت ہے۔ یہ حسن اور یہ احساس حسن تو اسی لیے ہے کہ انسان کی فطرت اس خالق کائنات کی ذات اور صفات کی طرف متوجہ ہو، اس کے اندر یہ احساس بیدار ہوکہ ایسی حسین اور خوب صورت کائنات بغیر کسی انتہائی ہوشیار بنانے والے کے بن نہیں سکتی۔کیا انہوں نے اپنے اوپر آسمان کو نہیں دیکھا ہم نے اس کو کیسا بلند کیا اور سجایا اور کہیں اس میں کوئی دراڑ نہیں ہے اور زمین کو ہم نے بچھایا اور پہاڑوں کو اس میں ایسا قائم کردیا جیسے میخیں اور ہم نے اس میں ہر قسم کی خوشنما چیزیں اگائیں (یہ سب کچھ) بصیرت اور یاد دہانی پیدا کرنے کے لیے ہے ہر متوجہ ہونے والے بندے کے دل میں۔(سورہ ق)
کائنات میں جو بھی حسن اور رنگینی ہے اور انسان میں اس سے اثر قبول کرنے کی جو بھی صلاحیت رکھی گئی ہے وہ اسی لیے ہے کہ انسان دیکھے اور اس سے بصیرت اور یاد دہانی حاصل کرے لیکن اس کے لیے شرط یہ ہے کہ انسان اپنی صلاحیت کو جو اس کے اندر حقیقتوں کی طرف متوجہ ہونے کے لیے رکھی گئی ہے خود اپنی حرکتوں سے برباد نہ کردے۔ یہ صحیح ہے کہ دنیا کی تمام چیزیں انسان کی کسی نہ کسی مادی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ہی پیدا کی گئی ہیں لیکن ان کی پیدائش میں جو حسن اور خوب صورتی شامل کردی گئی ہے وہ اسی لیے ہے کہ انسان کو یاد دہانی ہو اور وہ اس تعلق کو بھلانے نہ پائے جو اسے اپنے خالق سے ہے۔
ہر انسان کو اللہ تعالیٰ نے سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت دی ہے۔ کسی کو کم کسی کو زیادہ۔ ہر انسان کا فرض ہے کہ وہ اس صلاحیت سے کام لے۔ آنکھیں کھول کر اپنے چاروں طرف پھیلی ہوئی چیزوں کو دیکھے، اس کے بارے میں غور و فکر کرنے کی عادت ڈالے۔ بے سوچے سمجھے محض کھانے اور کمانے کے دھندوں میں لگے رہنا انسانیت کی توہین ہے۔ ان صلاحیتوں کی نا قدری ہے جو انسان کو ملی ہوئی ہیں۔ اپنی زندگی کو قائم رکھنے اور اپنی نسل کو بڑھانے کا کام تو ہر جاندار کرتا ہی ہے۔ اگر انسان بھی محض اتنا ہی کرے کہ ان دو حیوانی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے اپنی ساری سوجھ بوجھ لگادے تو کس طرح یہ کہا جاسکے گا کہ اس نے حیوانوں سے بلند ہونے کا کوئی ثبوت دیا ہے۔ غذا حاصل کرنے کے لیے جنگل کی گھاس اور خود رو پھلوں کے بدلے اگر جدید آلات کی مدد سے کھیتی کرلی جائے، بدن کو سردی سے بچانے کے لیے گرم اور خوشنما لباس بنالیے جائیں۔ بلوں اور غاروں کے بدلے عمدہ محل تیار کرلیے جائیں پیدل سفر کرنے کے بدلے ریلیں اور ہوائی جہاز تیار کرلیے جائیں ، سینگوں اور پنجوں سے لڑنے بدلے اٹم بم اور ٹینک استعمال کیے جائیں، کچا کھانے کے بدلے عمدہ اور لذیذ کھانے تیار کیے جائیں یا اسی طرح دوسری حیوانی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ ترقی کرلی جائے تو بس اتنا ہی کہا جاسکے گا کہ انسان ایک متمدن اور ترقی یافتہ حیوان ہے۔ لیکن بنیادی طور پر انسان اور حیوان میں کوئی فرق نہ ہوگا۔ حیوان اور انسان میں جو فرق ہے وہ دراصل اس سوجھ بوجھ کی بنا پر ہے جو انسان کو عطا ہوئی ہے اب اگر وہ سوجھ بوجھ بالکل ان ہی تقاضوں کے پورا کرنے میں مصروف ہوتی رہے جو بنیادی طور پر حیوانی تقاضے ہیں تو پھر انسان کو ایک ترقی یافتہ حیوان کے سوا اور کیا کہا جائے گا۔ انسانی عقل کا صحیح مصرف یہی ہے کہ وہ اس کائنات میں اپنے مقام کو سمجھے، اس کائنات کے خالق کی صفات پر غور کرے۔ اس کے ساتھ اپنےتعلق کی نوعیت معلوم کرے اور پھر زندگی کا وہ رویہ اختیار کرے جو بہ حیثیت انسان ہونے کے مناسب ہو۔ بلاسوچے سمجھے وقت گزارتے رہنا یا اپنی کل سوجھ بوجھ کو محض حیوانی تقاضے پورا کرنے کے لیے لگا دینا دراصل اپنے انسان ہونے کی ناقدری ہے۔
اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کے بارے میں غور و فکر کرتے رہنا اور توحید کے دلائل سے اپنے ذہن اور دماغ کو زیادہ سے زیادہ مطمئن کرنا مومن کی بنیادی صفت ہے۔ اس سے ایمانی کیفیت میں اضافہ ہوتا ہے اور انسان میں وہ قوت پیدا ہوتی ہے جس کی بنیاد پر وہ اللہ تعالیٰ کی بندگی کے تقاضے پورے کرسکے۔ ہر دعوتی اور اصلاحی کام کی ابتدا توحید کے عقیدے کو مضبوط کرنے ہی سے ہونا ضروری ہے۔ اس کے بغیر تبلیغ کا ہر کام ناقص اور بے بنیاد ثابت ہوگا۔
(ماخوذ:دین کی حفاظت،مسلم خواتین کے کرنے کے کام)
***
جو لوگ ذہنوں میں دین کی بنیادی باتوں کو مضبوطی سے جمانے سے پہلے چھوٹی چھوٹی اور کم اہم باتوں کی طرف توجہ دینا شروع کردیتے ہیں انہیں بار بار یہ محسوس ہوتا ہے کہ کچھ دنوں تک تو ان کی کوششوں کے کچھ اثرات باقی رہتے ہیں مگر تھوڑے ہی دنوں میں پھر میدان صاف نظر انے لگتا ہے
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 8 تا 14 نومبر، 2020