اسوۂ رسولؐ ہر زماں و مکاں کے لیے ہے
ڈاکٹر ساجد عباسی
اللہ تعالیٰ نے سید المرسلین و خاتم النبین حضرت محمد ﷺ کو ساری انسانیت کے لیے رحمت بنا کر مبعوث فرمایا ہے۔ وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ اے محمدؐ، ہم نے جو تم کو بھیجا ہے تو یہ دراصل دنیا والوں کے حق میں ہماری رحمت ہے۔ (سورۃ الانبیاء 107)
مزید فرمایا: ’’اے محمدؐ، کہو کہ’اے انسانو، میں تم سب کی طرف اُس خدا کا پیغمبر ہوں۔
ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت محمد ﷺ قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کے لیے رسول اور رحمت بنا کر بھیجے گئے ہیں۔
یہ آیات اس بات کا تقاضا کرتی ہیں کہ ہم غیر مسلم عوام کو اس حقیقت سے واقف کروائیں کہ حضرت محمد ﷺ صرف ہمارے ہی لیے نہیں بلکہ سارے انسانوں کی ہدایت کے لیے رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ آپؐ کا اسوہ سارے انسانوں کے لیے ایسا نمونہ ہے جو انہیں اس دنیا میں بھی اور آخرت میں فلاح و نجات سے ہمکنار کرنے والا ہے۔ آپ کے اسوہ میں ہر ملک و قوم اور ہر زمانے کے مسائل کا حل موجود ہے۔ ہمارے پیارے نبیؐ سے ہمارے تعلق کی ایک بنیاد یہ ہے کہ ہم پر ایک اہم و بھاری ذمداری عائد ہوتی ہے کہ ہم اقوام عالم کے سامنے آپ کا اس طرح تعارف پیش کریں جس طرح اللہ تعالیٰ قرآن میں پیش کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے آپؐکی زندگی کو بالخصوص امت مسلمہ کے لیے اور بالعموم ساری انسانیت کے لیے نمونہ بنا کر پیش کیا ہے۔
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَهَ كَثِيرًا۔درحقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسول میں ایک بہترین نمونہ تھا، ہر اس شخص کے لیے جو اللہ اور یوم آخر کا امیدوار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے۔ (سورۃ احزاب 21)
چونکہ آپ خاتم الانبیاء اور رحمت اللعالمین ہیں اس لیے آپ کی زندگی سارے انسانوں کے لیے قیامت تک نمونہ بنادی گئی ہے۔ رسول اللہ کی زندگی کی خصوصیت وامتیاز دوسرے انبیاء و رسل کی زندگی کے مقابلے میں یہ ہے کہ آپؐکی 23 سالہ مختصر نبوی زندگی اتنی ہمہ گیر ہے کہ ایسا لگتا ہے آپؐکی حیات طیبہ گویا سارے انبیاء و رسل کی سیرتوں کا خلاصہ ہے۔ گویا سارے انبیاء کی سرگزشت کو اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری رسول کی زندگی میں سمو دیا ہے۔
آپ کی قبلِ نبوت زندگی بھی نمونہ ہے ایک صادق و امین کی صورت میں ایماندار و کامیاب تاجر، ایک بہترین شوہر اور ایک شفیق باپ کے طور پر۔ ایک نہایت ذہین، معاملہ فہم و صلح جو کے طور پر۔ آپ نے ایک ایسے آقا کا اسوہ پیش کیا جس کا غلام آپؐ کو اپنے ماں باپ پر ترجیح دیتا ہے اور آپ کو چھوڑ کر جانا نہیں چاہتا۔ آپؐ کمزوروں، یتیموں اور محتاجوں کے غمخوارو مددگار کے طور پر اور ظلم و نا انصافی کے خلاف حساس دل رکھنے والے کو طور پر نظر آتے ہیں۔ یہی حساسیت آپؐکو غارِ حرا تک لے گئی تاکہ آپؐکو بدامنی اور ظلم و ناانصافی کو دور کرنے کی کوئی تدبیر ہاتھ آئے۔ آپؐاپنی خوشحال ازدواجی زندگی سے اوپر اٹھ کر انسانیت کی بھلائی کے لیے فکر مند نظر آتے ہیں۔
نبوت سے سرفراز ہونے کے بعد آپ کو ایسی شاہِ کلید ہاتھ آتی ہے جس میں سارے انسانی مسائل کا حل بھی ہے اور اخروی فلاح کا راز بھی۔ مکی دورِ نبوت میں خاموش و خفیہ دعوت بھی ہے اور علانیہ دعوت بھی، دشمنوں کی طرف سے جھوٹے الزامات، استہزاء و ایذا رسانی پر صبر ہے، ناسازگار حالات کے باوجود پیغام رسانی کی جہد مسلسل ہے، مکہ میں جب اہلِ ایمان کے لیے زمین تنگ کر دی گئی تو ایسے حالات میں حبشہ کی طرف ہجرت بھی ہے۔ دعوت الی اللہ کے راستے میں استقامت اور اس کے مقابلے میں کفار کی ہر پیشکش کو ٹھکرانا اور بے آمیز حق کو پیش کرنا بھی ہے۔ دعوت الی اللہ کے نتیجہ میں مکے کے دو بہادر لوگ حضرت حمزہ و عمر کا ایمان لانا بھی ہے۔ مکی دور میں وہ دور محصوری بھی ہے جس میں بنی ہاشم و بنی عبد المطلب کو شعب ابی طالب میں محصور کر کے معاشی و سماجی بائیکاٹ کیا گیا۔ مکہ میں آپؐاپنی غمگسار اہلیہ وشفیق چچا سے محروم ہوجاتے ہیں اسی سال کو عام الحزن یعنی غموں کا سال کہا گیا۔ دعوت الی اللہ کے لیے نئے میدان تلاش کرنے کے لیے طائف کا سفر ہوتا ہے جس میں آپؐکے ساتھ بہت بےرحمانہ سلوک کیا جاتا ہے۔ پھر اہل مکہ آپؐکو مکہ میں داخل ہونے سے روکتے ہیں گویا کہ آپ کو خود اپنے وطن کی شہریت سے محروم کر دیتے ہیں۔ مطعم بن عدی کی امان میں مکہ میں داخل ہوتے ہیں اور دعوت الی اللہ کی جدوجہد جاری و ساری رہتی ہے۔ حج کے قافلوں میں دعوت الی اللہ کے
کام پر اپنی توجہ مرکوز کرتے ہیں ۔مدینہ کے چند لوگ اسلام قبول کرتے ہیں۔ اس طرح مدینہ سے امید کی کرن نمودار ہوتی ہے۔ بیت المقدس اور عالم بالا کے سفرِ معراج کا واقعہ پیش آتا ہے۔ اہل مدینہ سے معاہدہ بیعت عقبہ اولی و ثانی عمل میں آتا ہے۔ اہل مکہ آپ کے قتل کی سازش پر متفق ہوتے ہیں۔ بالآخر اپنے وطن عزیز کو الوداع کہہ کر ہجرت کو گوارا کرتے ہیں۔ یہ مکی دورِ نبوّت کے اہم مراحل ہیں جس میں وہ احوال ہیں جو اس ملک کے مسلمانوں کے لیے رہنما اصول فراہم کرتے ہیں جہاں وہ اقلیت میں ہیں اور اکثریت کے ظلم کا شکار ہیں۔
مدنی دورِ نبوت میں جو مراحل درپیش ہوئے وہ یہ ہیں:
مدینہ ہجرت کرنے کے فوراً بعد میثاقِ مدینہ بنایا گیا جس میں مدینہ کی سلامتی کے لیے یہود کے ساتھ معاہدات کیے گئے۔ جب دو ہجری میں کفار نے پہلی بار مدینہ پر حملہ کیا تو غزوہ بدر پیش آیا جو فیصلہ کن معرکہ ثابت ہوا۔ جنگی قیدیوں سے بہترین سلوک و رہائی عمل میں آتی ہے۔ اگلے سال غزوۂ احد پیش آیا۔ مسلمانوں کو فتح کے بعد شکست کا سامنا کرنا پڑا جس میں ستر صحابہ شہید ہوئے۔ غزوۂ أحزاب میں جنگ کی نئی حکمت عملی اختیار کی گئی۔ بنو قریظہ کو غداری کی سزا ان ہی کے پسند کیے ہوئے حَکَم کے فیصلے کے مطابق دی جاتی ہے۔ اسلامی اصولوں پر اسلامی معاشرت کی تعمیر کی جاتی ہے۔ صلح حدیبیہ کا مرحلہ پیش آتا ہے جس کو قرآن میں فتح مبین سے تعبیر کیا گیا۔ اس صلح کے بعد اطراف و اکناف کے قبائل یکے بعد دیگرے مشرف بہ ایمان ہوتے ہیں۔ بادشاہوں کے نام خطوط لکھے جاتے ہیں اور اس طرح اسلام کے جزیرہ نمائے عرب کی حدود سے نکل کر ایک بین الاقوامی دین بننے کا آغاز ہوتا ہے۔ یہود کی بدعہدی کی پاداش میں غزوۂ خیبر میں یہود کی حتمی طور پر سرکوبی کی جاتی ہے۔ اس کے معرکہ موتہ پیش آتا ہے۔ صلح حدیبیہ کی بدعہدی کے بعد فتح مکہ کا راستہ ہموار ہوتا ہے جس کے بعد کعبة اللہ کو بتوں سے پاک کیا گیا۔اس کے بعد غزوہ حنین، غزوہ طائف اور غزوہ تبوک پیش آتے ہیں جس سے اسلام جزیرہ نمائے میں واحد قوت کے طور پر ابھر تا ہے۔اس کے بعد باقی قبائل دائرہ اسلام میں تیزی کے ساتھ فوج در فوج داخل ہوتے ہیں۔آخر میں حجتہ الوداع اسلامی طریقے پر آپ کی قیادت میں ادا کیا جاتا ہے جس میں ساری دنیا کے انسانی حقوق کا منشور دیا جاتا ہے اور بالآخر اللہ رفیق اعلیٰ کی طرف آخری سفر یعنی آپؐکی رحلت ہو جاتی ہے۔
ان واقعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ 23 سالہ مختصر حیاتِ طیبہ میں اللہ تعالیٰ نے مختلف ادوار و مراحل اور منظر ناموں scenarios کو جمع فرمایا ہے تاکہ قیامت تک کے لیے تمام ممالک و اقوام کو پیش آنے والے تمام حالات میں اسوہ رسول میں رہنمائی موجود ہو۔ اگر کفار قریش مکہ ہی میں ایمان لالیتے تو آپ کی زندگی میں اتنے متنوع قسم کے واقعات پیش نہیں آتے۔ یہ ختم نبوّت کا بیّن ثبوت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کے ذریعے مکمل دین کا عظیم تحفہ دیا اور اپنے رسول کا ایسا اسوہ دیا جو اپنے اندر ساری انسانیت کے لیے مکمل رہنمائی رکھتا ہے۔
آپ کی حیات مبارکہ میں جزیرہ نما عرب میں جو صالح انقلاب برپا ہوا اس کے ذریعے ایک عالمی انقلاب کی بنیاد رکھ دی گئی اور یہ انقلاب ابھی بھی جاری و ساری ہے۔ یہ ایسا عالمی انقلاب ہے جو ایک فرد کو بھی بدل دیتا ہے اور معاشرہ پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ اس انقلاب کی رفتار اس بات پر منحصر ہے کہ اس کے ماننے والے کتنا اس اسوۂ حسنہ سے قریب ہیں۔ سارے ادیان پر اسلام کے غالب ہونے کا پہلا مرحلہ اسلام کی نظریاتی برتری ہے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب امت مسلمہ کے افراد اسوہ رسول کی اتباع میں دعوت بالقرآن انجام دیں۔
اللہ کا ارشاد ہے:
فَلَا تُطِعِ الْكَافِرِينَ وَجَاهِدْهُم بِهِ جِهَادًا كَبِيرًا۔پس اے نبیؐ، کافروں کی بات ہرگز نہ مانو اور اس قرآن کو لے کر ان کے ساتھ جہاد کبیر کرو۔ (الفرقان 52)
اسوہ رسول میں دعوت، ہجرت، جہاد و قتال اور صلح سب مراحل ملتے ہیں لیکن دعوت الی اللہ کے بعد ہی اور اسی کے نتیجہ کے طور پر دوسرے مراحل آتے ہیں۔رسول اللہ کا مستقل اسوہ دعوت الی اللہ کا اسوہ ہے۔ دعوت الی اللہ کا اسوہ تمام انبیاء و رسل کی زندگی میں مشترک نظر آتا ہے۔اور اس دعوت کے ساتھ مدعو قوم کیا کرتی ہے اس پر دوسرے مراحل منحصر ہوتے ہیں۔اگر دعوت الی اللہ کے مقابلے میں ظلم کی روش اختیار کی گئی اور مسلمان بہت کمزور حالت میں ہوں اور اگر ان حالات میں دعوتی جدوجہد صبر و استقامت کے ساتھ جاری رکھی جائے جیسے مکی دور نبوت میں جاری رکھی گئی تھی۔اللہ کا ارشاد ہے:
’’ اور اے نبیؐ، تم اس ہدایت کی پیروی کیے جاؤ جو تمہاری طرف بذریعہ وحی بھیجی جا رہی ہے اور صبر کرو یہاں تک کہ اللہ فیصلہ کر دے اور وہی بہترین فیصلہ کرنے والا ہے‘‘ (سورۃ یونس109)
اگر مسلمانوں کو ایک مرکز اور ایک طاقت فراہم ہو جائے تو انہیں حکم دیا گیا کہ وہ مزید قوت فراہم کریں تاکہ دشمن مسلمانوں کی طاقت سے خوفزدہ ہوں اور جنگ کی نوبت نہ آئے۔
’’اور تم لوگ، جہاں تک تمہارا بس چلے، زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے اُن کے مقابلہ کے لیے مہیّا رکھو تاکہ اس کے ذریعہ سے اللہ کے اپنے دشمنوں کو اور ان دوسرے اعداء کو خوف زدہ کر دو جنہیں تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے‘‘ (سورۃ انفال 60)
اگر جنگ مسلط کر دی جائے تو پا مردی سے مقابلہ کیا جائے (غزوہ بدر و احد و احزاب)
’’اے ایمان لانے والو، جب تم ایک لشکر کی صورت میں کفار سے دوچار ہو تو ان کے مقابلہ میں پیٹھ نہ پھیرو۔‘‘ (سورۃ انفال 15)
اگر دشمن صلح کرنے پر راضی ہو تو صلح اختیار کی جائے تاکہ امن کے مواقع فراہم ہوں جس میں اسلام کے تیزی سے پھیلنے کا امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
وَإِن جَنَحُواْ لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا وَتَوَكَّلْ عَلَى اللّهِ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ اور اے نبیؐ، اگر دشمن صلح و سلامتی کی طرف مائل ہوں تو تم بھی اس کے لیے آمادہ ہو جاؤ اور اللہ پر بھروسہ کرو، یقیناً وہی سننے اور جاننے والا ہے۔ (سورۃ انفال 61)
رسولوں کی بعثت کا بنیادی مقصد انذار و تبشیر ہے جس کو قرآن میں اس طرح پیش کیا گیا: ’’یہ سارے رسول خوش خبری دینے والے اور ڈرانے والے بنا کر بھیجے گئے تھے تاکہ ان کو مبعوث کر دینے کے بعد لوگوں کے پاس اللہ کے مقابلہ میں کوئی حجّت باقی نہ رہے اور اللہ بہر حال غالب رہنے والا اور حکیم و دانا ہے۔‘‘ (سورۃ النساء 165)
یہ ہے وہ بنیادی مقصد جس کے لیے انبیاء ورسل کو انسانوں کے اندر مبعوث کیا گیا ہے تاکہ لوگوں کو اللہ کے مقصد تخلیق سے آگاہ کیا جائے اور اللہ کے مقابلے میں انسانوں کے پاس حجت باقی نہ رہے۔
انبیاء کے اسی بنیادی مقصدِ بعثت کے تسلسل میں اللہ تعالیٰ نے دنیا میں محمد ﷺ کو بھیجنے کا مقصد سورہ احزاب میں اس طرح ارشاد فرمایا:
’’اے نبیؐ، ہم نے تمہیں بھیجا ہے گواہ بنا کر ،بشارت دینے والااور ڈرانےوالا بناکر ،اللہ کی اجازت سےاس کی طرف دعوت دینے والا بنا کر اور روشن چراغ بنا کر۔” سورۃ الاحزاب 25-26)
آپ کو شاہد یعنی ساری انسانیت کے لیے حق کی گواہی دینے والا بنا کر بھیجا۔ آپ نے حجتہ الوداع کے موقع پر ایک لاکھ چوبیس ہزار صحابہ کے درمیان اللہ کو گواہ بنا کر یہ گواہی لی کہ آپ نے ان تک ہدایت و دین حق کو پہنچا دیا ہے اور آخرت میں بھی آپ گواہی دیں گے کہ آپ نے لوگوں تک حق پہنچا دیا تھا۔ آپؐدنیا کے رخصت ہونے کے بعد بھی امت مسلمہ کی وساطت سے قیامت تک آنے والے سارے انسانوں کے لیے شاہد ہیں۔ اس سے اندازہ ہو سکتا ہے امت ِمسلمہ پر شہادتِ حق کی کتنی نازک ذمداری عائد ہوتی ہے۔ ختم نبوّت کا اتمام ہوا لیکن کارِ نبوت ابھی باقی ہے اور اسی لیے امت مسلمہ نبی کی جانشین ہے۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کو مبشر یعنی بشارت دینے والا بنا کر بھیجا ہے۔ ایمان کے ساتھ عمل صالح کرنے والوں کو جنت کی بشارت دینے والا بنا کر بھیجا ہے۔ جنت کی نعمتوں پر یقین انسان کو ایمان و عمل صالح کی اعلی منزلوں کو طے کرنے کا مشتاق بناتا ہے۔ جنت ایک ایسی جگہ ہے جہاں انسان کی ہر خواہش پوری ہو گی جو دنیا میں کبھی پوری نہیں ہو سکتی۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کو نذیر یعنی ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ حق کا انکار کرنے والوں، اہل حق پر ظلم کرنے والوں اور شرک و کفر اور بدعملی میں سرگرم افراد کو جہنم کے عذاب سے ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ جہنم ایسی بدترین قیام گاہ ہے جہاں انسان موت مانگے گا لیکن موت آکر اس کے عذاب کا خاتمہ نہیں کرے گی۔
رسول اللہ کا اصل مشن یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ اللہ کی طرف بلانے والے ہیں یعنی اللہ کا تعارف کروانے والے اس کی صفات کو پیش کرنے والے اور اس کے منصوبہ تخلیق کو سمجھانے والے ہیں۔ اس دنیا میں انسان کی گمراہی کا بنیادی سبب یہی ہے کہ اس کو یہ نہیں معلوم ہے کہ اس کائنات کو کس نے پیدا فرمایا اور اس کائنات میں انسان کا مقصد زندگی کیا ہے۔پھر اللہ تعالیٰ نے آخر میں فرمایا کہ آپ کو روشن چراغ بنا کر بھیجا ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے سورج کو روشن چراغ بنا کر سارے عالم کو منّور کر دیا ہے اسی طرح رسول اللہ ﷺ کی زندگی کو تمام انسانوں کے لیے اور تمام وقتوں کے لیے بہترین نمونہ بنا دیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے دوسرے رسولوں کے مقابلے میں رسول اللہ کی مختصر نبوی زندگی میں بہت سارے واقعات کو رکھا اور آپ کو مختلف حالات سے گزارا جس میں قیامت تک کے انسانوں کے لیے رہنمائی ہے۔ آپ کی زندگی سورج کی طرح روشن ہے جس سے زندگی کا کوئی گوشہ بھی منور ہونے سے نہیں رہ جاتا۔
آپ یتیم پیدا ہوئے اور ماں کی شفقت سے بھی بہت جلد محروم ہوئے۔ دادا بھی جلد ہی انتقال کر گئے۔ آپ کی زوجہ محترمہ اور شفیق چچا بھی صبر آزما حالات میں آپ کو چھوڑ کر دنیا سے چلے گئے۔ آپ کے تین صاحبزادے اور تین بیٹیاں آپ کی نظروں کے سامنے انتقال کر گئے مگر آپ صبر کے ساتھ اللہ کے فیصلوں پر راضی رہے۔ یہ بھی سیرت کا ایک باب ہے جس میں ایک غمزدہ انسان کے لیے اسوہ ہے۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کو کسی سے نہیں پڑھوایا اور پڑھنے لکھنے والا نہیں بنایا تاکہ آپ اللہ تعالیٰ سے براہ راست تعلیم حاصل کریں اور معلم انسانیت بن جائیں۔ یہ بھی آپ کی رسالت کا ایک بین ثبوت ہے کہ آپ پڑھنا لکھنا نہیں جانتے تھے لیکن آپ کی زبان سے ایسا کلام جاری ہوا جو قیامت تک کے لیے معجزہ ہے اور اس جیسا کلام پیش کرنے سے دنیا عاجز ہے۔
آپ نے ایک عظیم معلم و مزکی اور مربی کی حیثیت سے ایسے افراد کو تیا رکیا جن سے بہتر لوگ دنیا میں کبھی پیدا نہیں ہو سکتے۔ لوگوں کی تربیت کرنے سے قبل خود کو ایک بہترین رہنما بن کر عملا دکھا دیا۔ سب سے زیادہ اللہ کا شکر بجالانے والے، سب سے زیادہ ذکر کرنے والے، سب سے بڑھ کر صبر کرنے والے، سب سے بڑھ کر تہجد کا اہتمام کرنے والے، سب سے زیادہ روزہ رکھنے والے، سب سے بڑھ کر صدقہ و خیرات کرنے والے، سب سے زیادہ جری و بہادر اور سب سے بڑھ کر توکل کرنے والے تھے۔ آپ داعی اعظم تھے۔ جنگی میدان کے سب سے بڑے کامیاب سپہ سالار تھے جس کا دشمن بھی اعتراف کرتے ہیں۔ اور آپؐ منصف و جج بھی تھے۔ آپ حاکم وقت بھی تھے اور سب سے زیادہ پانے کے باوجود آپ نے فقر و فاقہ کو ترجیح دی تاکہ کسی مفلس و نادار شخص کے لیے یہ کہنے کا موقع نہ رہے کہ میں تو غریب ہوں میں کیسے اپنی زندگی میں تو رسول کا اسوہ اختیار کر سکتا ہوں؟ غرض آپ کی زندگی میں بے شمار رول ماڈل اللہ تعالیٰ نے رکھ کر آپ کو سراجِ منیر یعنی روشن چراغ بنایا۔
آج ہمارا کام یہ ہونا چاہیے کہ ہم آپ کے اسوہ پر عمل کریں اور دنیا والوں کو آپ کا صحیح تعارف کروائیں۔ آج کچھ بدقماش لوگ آپ کی شان میں گستاخی کرتے ہیں جن میں سے بہت سے وہ بھی ہیں جو ناواقفیت کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں۔ اس کا حل یہ ہے کہ ہم رسالت مآب حضرت محمد ﷺ کا قولی و عملی تعارف دنیا کو کروائیں اور دل و جان سے آپ سے محبت رکھیں بلکہ اپنی جان سے زیادہ اور اپنے والدین سے بھی زیادہ۔ اس لیے کہ آپ ہم سے زیادہ ہمارے بارے میں حریص تھے کہ ہم جہنم کی آگ سے بچیں اور جنت کے مستحق بنیں۔
***
***
اللہ تعالیٰ نے دوسرے رسولوں کے مقابلے میں رسول اللہؐ کی مختصر نبوی زندگی میں بہت سارے واقعات کو رکھا اور آپ کو مختلف حالات سے گزارا جس میں قیامت تک کے انسانوں کے لیے رہنمائی ہے۔ آپ کی زندگی سورج کی طرح روشن ہے جس سے زندگی کا کوئی گوشہ بھی منور ہونے سے نہیں رہ جاتا۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 9 اکتوبر تا 15 اکتوبر 2022