ڈاکٹر ظفر دارک قاسمی، علی گڑھ
اسلام کے خلاف شگوفے اور ریشہ دوانیاں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ہر دور اور زمانے میں متمرد اور سرکش افراد اپنے ذہنی و فکری دیوالیہ پن کا ثبوت دیتے رہے ہیں چنانچہ اسلامی تعلیمات کو بارہا نشانہ بنایا گیا ہے اور یہی نہیں بلکہ بہت سارے مقامات پر تو باقاعدہ اب ایسی تنظیمیں میں وجود میں آ چکی ہیں جو منظم طریقے سے اسلام پر یلغار کرتی رہتی۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ اس طرح کے افراد کبھی بھی اپنے باطل نظریات کو کامیابی سے ہمکنار نہیں کر پائے ہیں۔ رواں ماہ میں اسی طرح کی ایک آواز اور اٹھی ہے۔ اس نے اپنے آقاوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے نہایت لغو اور مہمل سوال قرآن مجید کے حوالے سے کیا ہے جو نہایت قابل مذمت ہے۔ اس شخص نے قرآن کریم کی 26 آیات کو (نعوذباللہ) قرآن مجید سے نکالنے کا مطالبہ کر ڈالا۔ یقیناً یہ کوئی نیا فتنہ نہیں ہے بلکہ اس طرح کی مکروہ حرکتیں ماضی میں بھی ہو چکی ہیں۔ اگر ہم ہندوستان کی بات کریں تو پتہ چلتا ہے کہ 1985 میں کلکتہ ہائی کورٹ میں اس طرح کی ایک رٹ داخل کی گئی تھی مگر اس رٹ کو خارج کر دیا گیا تھا۔ اسی طرح سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین نے بھی اسلام پر حملے کیے ہیں۔ باضابطہ کتابیں تحریر کیں۔ قرآن مجید کے تقدس کو مخدوش کرنے کی کوشش کی گئی۔ نیز اسی طرح کی ایک کتاب امام جعفر صادق کے دور میں بھی تناقض القرآن کے نام سے لکھی گئی تھی۔ سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج پوری دنیا میں اسلام کے خلاف جو زہر افشانی کی جاتی ہے وہ آخر کیوں ہے؟ اس کے پس پردہ ان عناصر کی ذہنیت وفکر کو سمجھنے کے ساتھ ان کی منصوبہ بندی کو جاننا بھی ضروری ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ وہ در اصل اسلام پر الزام تراشی کر کے مسلمانوں کے جذبات کو مشتعل کرنا چاہتے ہیں اور سماج میں تخریب کاری، تشدد اور بربریت جیسے جرائم کو ہوا دینا چاہتے ہیں۔ نیز مسلمانوں کے مابین رائج فرقوں کے مابین بھی خلفشار پیدا کر کے انہیں باہم دست و گریباں کرنا چاہتے ہیں۔ یہ بات تمام فرقہ پرست عناصر اور باطل طاقتیں جانتی ہیں کہ مسلمانوں کو فکری اور عقلی طور پر مفلوج کرنے کے لیے ایسے مسائل کو بروئے کار لایا جائے جس سے ان کی نہ صرف ایمانی غیرت و حمیت مجروح ہو بلکہ ان پر غصہ اس قدر غالب آ جائے جس کے نتیجہ میں معاشرے کی فضا مکدر و مسموم ہو سکے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی مرکزیت و جامعیت کو برقرار رکھتے ہوئے اس طرح کی قبیح حرکتوں کا جواب علمی انداز میں دیں۔ اسلام نے اختلاف کے جو اسلوب و آداب بتلائے ہیں ان کو ہر وقت پیش نظر رکھیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہمارے سامنے نبی کریم ﷺ کی پوری زندگی ہے۔ سیرت کے مطالعہ سے جن گوشوں کا انکشاف ہوتا ہے ان سے بجا طور معلوم ہوتا ہے کہ دشمنوں اور اعدائے اسلام کے ساتھ کس طرح کا سلوک اختیار کرنا چاہیے۔ اگر ہم نے اپنی تہذیبی روایات کو نظر انداز کیا تو یقیناً اس طرح کے لوگ اس کو اسلام سے جوڑ کر دیکھیں گے اور انہیں یہ کہنے کا موقع مل جائے گا کہ یہ ہیں اسلام کے متبعین جن کے اندر تحمل مزاجی یا برداشت تو دور کی بات شدت پسندی اور سختی ان کی تہذیب کا حصہ بن چکی ہے۔ چنانچہ بڑی ذمہ داری کے ساتھ اور سیدھے سادھے انداز میں اس طرح کی ناپاک کوششوں کی مذمت کرنے کی ضرورت سے کوئی صاحب عقل انکار نہیں کر سکتا۔ گالم گلوج کرنا یا اپنے رویہ میں تلخی لانا با شعور قوموں اور زندہ معاشروں کی علامت نہیں ہے۔ قومیں وہی شعور مند اور دانشمند کہی جاتی ہیں جو ہر آن اپنے رویہ اور سلوک کو توازن و اعتدال سے ہم آہنگ کرتی ہیں۔ اگر ہم جذباتی ہوئے یا غیر سنجیدہ طور پر کوئی اقدام کیا تو یہ مناسب عمل نہیں ہوگا۔ یہ بھی سچ ہے قرآن پر حالیہ حملہ نے عالم اسلام کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ ہماری دینی حمیت کا بھی تقاضا ہے کہ ہم اس ملعون ومردود شخص کا جواب دیں لیکن اس کا انداز اور طریقہ جذباتی ہرگز نہ ہو۔ اسی طرح یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ اس مسئلہ کو مسلکی رنگ ہرگز نہ دیا جائے، سوشل میڈیا پر اس طرح کی کچھ چیزیں نظر سے گزری ہیں۔ دشمن تو یہی چاہتا ہے کہ مسلمانوں میں مسلکی فرقہ واریت کا نزاع شروع ہو جائے اور وہ باہم متصادم ہو جائیں بناء بریں صورت حال کا جو تقاضا ہے وہ یہ کہ ہمیں جذبات سے نہیں بلکہ ہوش مندی سے کام لینا ہے۔ کہیں شعوری یا غیر شعوری طور پر ہم دشمن کا آلہ کار نہ بن جائیں!
اس وقت ملک کی جو صورت حال ہے وہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔ حالات کی نزاکت کو سمجھنا اس کے مطابق اپنی حکمت عملی تیار کرنا دانشمندی کی بات ہے۔ قرآن کریم پر ماضی میں بھی حملے ہوتے رہے ہیں چنانچہ آج بھی ایک شخص نے سوالیہ نشان قائم کر دیا ہے لہٰذا یہ موقع ہے کہ ہم بہتر و مثبت اور علمی انداز میں اسلام کی تعلیمات کو دنیا کے سامنے پیش کریں کبھی کبھی شر میں بھی خیر کا پہلو ہوتا ہے، قرآن پر حالیہ حملہ خیر ہی ثابت ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس بہانے سے جن افراد کو قرآن پر شکوک وشبہات ہیں وہ اس کا مطالعہ کریں گے یقیناً اس طرح کتنے معترضین کے اعتراضات رفع ہو جائیں گے۔ 9/11 کے بعد مغرب میں اسلام کو انتہا پسند اور دہشت گرد کے طور پر پیش کیا گیا اور باقاعدہ منظم طریقے سے اس پر کام ہوا لیکن ماہرین و محققین کا تجزیہ یہ ہے کہ بہت سے افراد نے اسلام کا مطالعہ کیا اس کی روح اور مزاج کو سمجھنے کی کوشش کی بالآخر نہ صرف ان کے شکوک زائل ہوئے بلکہ لوگ اسلام میں بھی داخل ہوئے ہیں۔ یہ ہمارے لیے خوشگوار موقع ہے کہ ہم اس وقت کا درست استعمال کریں اور دنیا کو بتائیں کہ اسلام کی تعلیمات معاشروں کو متمدن و مہذب بنانے کے ساتھ ساتھ، بقائے باہم اور رواداری کی پر زور حمایت کرتی ہیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ہم اپنے اپنے مسلکی خول سے باہر نکلیں اور اسلام کو آفاقی حیثیت سے پیش کریں۔ اس موقع سے ہم اپنی شاندار تہذیبی اور علمی روایت کا بھی مظاہرہ کرسکتے ہیں۔ اکابر و مشائخین کا وطیرہ یہی رہا ہے کہ انہوں نے ہر اعتراض اور اسلام پر کیے جانے والے کسی بھی حملہ کا جواب تحمل مزاجی، برداشت اور سنجیدگی سے دیا ہے۔ نہ ان کے الفاظ میں شدت اور نہ انداز میں کڑواہٹ و سختی پائی جاتی ہے۔
یہاں یہ عرض کرنا بھی ضروری ہے ہے کہ آج سنی مسلمانوں میں یہ بات گردش کر رہی ہے کہ شیعہ اس قرآن کو نہیں مانتے ہیں بلکہ وہ چالیس پاروں کے قائل ہیں۔ اس موقع سے ہم بتائیں کہ شیعوں کے یہاں بھی یہی قرآن ہے یہی نہیں بلکہ خمینی صاحب کا اس پر فتویٰ بھی موجود ہے۔ اس طرح سے اس غلط فہمی کو دور کیا جاسکتا ہے اور شیعہ سنی اتحاد کے لیے یہ حکمت عملی کار گر ثابت ہوگی۔ فرقہ بندی یا فروعی اختلافات کی وجہ سے جو نقصان ملت اسلامیہ کا ہو چکا ہے اسے مزید کسی بھی طرح سے فروغ نہ دے کر ہم ایک صحتمند اور صالح معاشرہ کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کریں۔ جو لوگ اپنے جذبات کی رو میں بہہ کر چیزوں کا صحیح تجزیہ نہیں کرتے ہیں وہ خود اپنے لیے اور نوجوان نسل کے لیے خسارہ کے سوا کچھ نہیں دیتے۔ جبکہ بر عکس اس کے جو لوگ احوال زمانہ اور عصری تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہیں پھر اپنی منصوبہ بندی اور حکمت کے ساتھ آگے بڑھنے کا ہنر و سلیقہ جانتے ہیں وہ ہر دور میں ہر طرح کی باطل اور پر زور مخالفتوں کو بڑی آسانی سے روند ڈالتے ہیں۔ ہمیں اس موقع سے ان چیزوں یا اپنی ان تحریروں پر بھی نظر ثانی کرنی ہوگی جو کسی مسلک کی مخالفت میں تدوین کی گئی ہیں۔ بات صرف یہی نہیں ہیں بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ آج ایک بڑا طبقہ اسلام کی تعلیمات پر یوں بھی معترض ہے کہ ہم نے خود ان کو موقع دیا ہے وہ اس طرح کہ قرآن کی تفاسیر میں جس مسلکی نمائندگی کا رجحان غالب ہے وہ تشویشناک ہے جب کوئی شخص ان چیزوں کو دیکھتا ہے تو پھر اس کے ذہن ودماغ میں اعتراضات جاگزیں ہونے لگتے ہیں۔ اس لیے اب ضرورت ہے کہ ہم اس طرح کی چیزوں سے احتراز کریں تاکہ اسلام کا آفاقی پیغام دنیا تک پہنچ سکے اور اس کی روحانیت و عرفانیت سے معاشرے کا ہر فرد محظوظ ہو سکے۔ علمی بحران اور مادہ پرستی کے اس دور میں جہاں انسانیت کو بہت ساری دشواریوں کا سامنا ہے وہیں آج بھی بہت سے افراد حق کے متلاشی بھی ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ فلاح انسانیت اور تعمیر انسانیت کے لیے مشترکہ طور پر سعی کی جائے۔ انسانیت کو صحیح راہ دکھائی جائے تاکہ سماج ہر طرح سے پر امن و پر سکون رہ سکے۔ وہیں بہت سی ایسی باتیں آج اسلام کی طرف منسوب کی جا رہی ہیں جن کا اسلام سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ اس طرح کی باتیں کوئی اور نہیں بلکہ ہماری صفوں میں موجود لوگ ہی پھیلاتے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا کبھی ہم نے ان کا دفاع کرنے کی کوشش کی؟ سچائی تو یہ ہے کہ ابھی تک ہم ذہنی طور پر اس طرح کی چیزوں کا قلع قمع کرنے کے لیے تیار تک نہیں ہیں کیونکہ وہ چیزیں ذاتی مفاد اور خود غرضی پر منحصر ہیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ہم کہیں نہ کہیں فکری جمود اور مسلکی تمسک کے اسیر ہو چکے ہیں جبکہ اسلام نے تفکر و تدبر اور تعقل پسندی کے جذبہ کو بارہا ابھارا ہے۔
آخر میں یہ عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ فتنے اور اسلام کے خلاف باطل طاقتیں بر سر پیکار رہی ہیں اور آگے بھی رہیں گی۔ البتہ دانشمندی اور حکمت کا تقاضا یہی ہے کہ ہم ایسے حالات میں جذباتی بیان یا اشتعال انگیز کلمات ادا کرنے سے پرہیز کریں۔ نبی کریم ﷺ کی زندگی کے لیے اپنا نمونہ عمل بنائیں نیز، ہم ایسا اسوہ دنیا کے سامنے پیش کریں جو نہ صرف ہندوستانی سماج کے لیے روحانی غذا فراہم کر سکے بلکہ پوری دنیا کے لیے ہم مثال بن جائیں۔ تبھی ہم اپنی عظمت رفتہ کو بحال کرنے میں کامیاب ہو سکیں گے۔
[email protected]
***
علمی بحران اور مادہ پرستی کے اس دور میں جہاں انسانیت کو بہت ساری دشواریوں کا سامنا ہے وہیں آ ج بھی بہت سے افراد حق کے متلاشی بھی ہیں ، وہ چاہتے ہیں فلاح انسانیت اور تعمیر انسانیت کے لیے مشترکہ طور پر سعی کی جائے
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 28 مارچ تا 3 اپریل 2021