’’ اسلامی سنسکرتی‘‘ مراٹھی ادیب سانے گروجی کی و سعت نظری کی غماز

مراٹھی طبقے کو سیرت طیبہ سے روشناس کرانے کی قابل قدر کوشش

محمد اسد اللہ، ناگپور

 

مراٹھی کے مشہور ادیب سانے گروجی ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ وہ ایک مجاہدِ آزادی، سوشل ریفارمر، شفیق استاد اور ایک بہترین انسان تھے۔ ان کے حالاتِ زندگی پر نظر ڈالنے سے اس بات کی صداقت کا یقین ہو جاتا ہے کہ ایک بہترین ادیب بہترین انسان بھی ہوتا ہے۔ انسانی ہمدردی اور انسانی زندگی کو سنوارنے کا جذبہ ان کی تحریروں کی امتیازی خصوصیت ہے جو بحیثیت ادیب مقبولیت کا سبب بھی ہے۔ آج بھی ان کی کہانیاں، مضامین اور ناول درسی کتابوں میں شامل ہیں اور طلبا کی ذہنی و اخلاقی تربیت کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ اسلام اور اسلامی تعلیمات کے لیے ان کے دل میں بے پایاں محبت کا جذبہ تھا جس کا ثبوت ان کی مراٹھی کتاب’’ اسلامی سنسکرتی‘‘ ہے۔
سانے گروجی کا پو را نام پانڈورنگ سدا شیو سانے تھا۔ وہ پالگھر ضلع رتنا گیری (مہاراشٹر) میں ایک غریب، مہذب برہمن گھرانے میں پیدا ہوئے۔ غربت کے باوجود انہوں نے مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے بی اے کی ڈگری حاصل کی اور بعد میں فلسفے میں ایم اے کیا۔ ایک دیہات کے اسکول میں بحیثیت مدرس خدمات انجام دینے کے علاوہ وہ طلبا کے ایک ہوسٹل کے وارڈن بھی رہے۔ ان کی بنیادی دلچسپی طلبا کی کر دار سازی میں تھی اسی لیے انہوں نے بچوں کے لیے اخلاقی قدروں پر مبنی کہانیاں لکھیں اور تدریس کے علاوہ اپنی تحریروں کے ذریعے طلبا میں تعمیری ذہنیت پیدا کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے ودیارتھی نامی ایک رسالہ بھی شائع کیا تھا۔ بچوں کے لیے لکھی گئی ان کی کتاب شیام چی آئی (شیام کی ماں) اور دھڑ پڑ ناری مولے ( جدوجہد کر نے والے بچے ) کو مراٹھی کے ادبِ اطفال میں ایک اہم مقام حاصل ہے۔
سانے گروجی نے اپنا قلمی سفر شاعری سے شروع کیا تھا۔ جب وہ اسکول میں تھے ان کی نظموں کا اہم موضوع ان کی والدہ تھیں جن سے وہ والہانہ محبّت کیا کرتے تھے۔ اس کا ثبوت ان کی مشہور تصنیف شیام چی آئی (شیام کی ماں) ہے۔ سانے گروجی کی والدہ نہایت شفیق اور مہربان خاتون تھیں انہوں نے جو اخلاقی قدریں سانے گروجی کو دیں اس کے اثرات ان کی شخصیت پر تاحیات قائم رہے۔ وہ اپنی والدہ سے بہت متاثر تھے۔ شیام چی آئی کو سانے گروجی کا شاہکار تسلیم کیا جا تا ہے جس میں انہوں نے ایک مثالی ماں کا کر دار پیش کیا ہے جو بہترین انداز میں اپنے بچے کی تربیت کرتی ہے اور ہر قدم پر اس کی رہنمائی کرتی ہے۔
اس ناول میں کوکن کے ایک غریب خاندان کی کہانی بیان کی گئی ہے جو قرض کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔اس گھر میں شیام کی ماں اپنے بچوں کو ایمانداری اور نیکی کی تعلیمات سے آراستہ کرتی ہے اور انہیں زندگی کی مشکلات کا سامنا کرنا سکھاتی ہے۔ اس کتاب پر مراٹھی میں فلم بنائی جا چکی ہے اور اس کا اردو میں بھی ترجمہ ہو چکا ہے۔
سانے گروجی نے شیام کی ماں کا کر دار نہایت خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔ شیام کی ماں میں جو خوبیاں اس ناول میں نظر آتی ہیں وہ ہماری دیہی زندگی اور اس سے جڑے لوگوں کی جیتی جاگتی تصویر ہے۔ دیہات میں پائی جانے والی سادگی، ہمدردی، ایثار اور لوگوں کے دکھوں میں شریک ہونے کا جذبہ شیام کی ماں کے کردار کی امتیازی خوبیاں ہیں جنہیں سانے گروجی نے پر اثر انداز میں بیان کیا ہے۔
سانے گروجی نہ صرف زبر دست تخلیقی صلاحیتوں کے مالک تھے بلکہ سماج کے سچے ہمدرد بھی تھے۔ انسانیت کی خدمت کا جذبہ ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا تھا۔ اس زمانے میں پنڈھر پور کے مندر میں ہریجنوں کا داخلہ ممنوع تھا۔سانے گروجی نے اس سماجی ناانصافی کے خلاف احتجاج کیا اور مرن برت رکھا۔ ان کی یہ کو شش کامیاب ہوئی۔ اس وقت مہاتما گاندھی نے اپنی ایک تقریر کے دوران اس کا اعتراف کیا تھا کہ اس مندر میں ہریجنوں کا داخلہ ممنوع تھا، سانے گروجی کی کو شش سے یہ پابندی ہٹائی گئی۔
سانے گروجی کے والد، بھاو راو آزادی کی لڑائی میں شریک تھے۔ سانے گروجی نے بھی اپنی ملازمت چھوڑ کر تحریکِ آزادی میں حصّہ لیا تھا۔ وہ مہاتما گاندھی اور ودیا دھر گوکھلے کی شخصیت سے حد درجہ متاثر تھے۔ ودھیا دھر گوکھلے کی سوانح عمری بھی سانے گروجی نے لکھی تھی۔ گاندھی جی کی تعلیمات کو سانے گروجی نے اپنی تحریروں کے ذریعے عوام تک پہنچانے کی کو شش کی۔
سانے گروجی کو ڈانڈی مارچ کے دوران گرفتار کر کے دھولیہ جیل میں قید کر دیا گیا تھا جہاں انہوں نے پندرہ مہینوں سے زیادہ وقت قید و بند میں گزارا۔ دھولیہ، ناسک اور تِروچی کی جیلوں میں قید و بند کے دوران انہوں نے تامل اور بنگالی زبانیں سیکھیں، ٹیگور اور ٹالسٹائی کی تحریروں کو مراٹھی میں ترجمہ کیا۔ سانے گروجی ایک بہترین مقرر بھی تھے۔ جیل میں وہ ہر صبح بھگوت گیتا پر پروچن بھی دیا کر تے تھے، بعد میں اسی کو انہوں نے کتابی شکل دے کر گیتا پروچنے کے نام سے شائع کیا۔
سانے گروجی بنیادی طور پر صلح کل نظریہ کے حامی تھے اور تمام مذاہب کا احترام کیا کر تے تھے۔ انہوں نے مذہبِ اسلام اور حضرت محمدﷺ کی حیاتِ طیّبہ کو مراٹھی داں طبقہ سے روشناس کروانے کی غرض سے اسلامی سنسکرتی نامی کتاب لکھی جس میں نبیِ کریم ﷺ کی بعثت سے قبل کے حالات بیان کرتے ہوئے اسلامی تعلیمات کو بیان کیا گیا۔ اس کتاب پر مراٹھی ادب کی ایک معروف شخصیت آچاریہ ونوبا بھاوے نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے اس کے پیش لفظ میں لکھا تھا: سانے گروجی نے پیغمبر اسلام کی یہ سوانح عمری اس خلوص اور عقیدت سے قلمبند کی ہے جس کی توقع کسی راسخ العقیدہ مسلمان ہی سے کی جا سکتی ہے۔
سانے گروجی کا یہ کارنامہ یقیناً قابلِ تحسین ہے کہ جن موضوعات پر عوام میں اور خاص طور پر مراٹھی داں طبقہ میں اسلام کے متعلق غلط فہمیاں عام ہیں، انہوں نے ان شکوک و شبہات کو دور کرنے اور لوگوں کے ذہن کو صاف کر نے کی کوشش کی ہے۔ حضور اکرم ﷺ کی ازواجِ مطہرات کے متعلق لکھتے ہیں:
حضرت محمد ﷺ کے ان نکاحوں کا مقصد مصلحتوں پر مبنی تھا۔ کہیں ہمدردی کی وجہ سے، کہیں فرض کے سبب، کچھ ابتدائی دور کے ساتھیوں کے دل نہ دکھیں اس لیے تو کبھی مختلف قبیلوں کی برسوں سے چلی آ رہی لڑائیوں کو ختم کر نے کی غرض سے آپ نے نکاح کیے، جس کی وجہ سے کئی قبیلوں میں اتحاد پیدا ہوا، برسوں کی دشمنیاں محبّت میں بدل گئیں اور ایک متحد عرب ملک وجود میں آیا۔(مسلم سنسکرتی، ص ۱۵۶)
یہ کتاب جسے مراٹھی زبان میں سیرت کی کتابوں میں خصوصی اہمیت حاصل ہے دو جلدوں میں شائع ہوئی تھی۔ سانے گروجی اس سلسلے کو آگے بھی جا ری رکھنا چاہتے تھے لیکن یہ ممکن نہ ہو سکا۔
سانے گروجی نے کتابیں مراٹھی ادب کو دیں جن میں شاعری، کہانیاں، نظمیں، سوانح اور مضامین جیسی متنوع اصناف شامل ہیں۔ اس سے ان کی تخلیقی صلاحیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ان کی نگارشات میں اس دور کی دیہی زندگی اور علاقہ کوکن کے قدرتی مناظر کا دلکش بیان اور جزئیات نگاری ان کی تحریروں کا ایک امتیازی وصف ہے۔ اخلاقی قدروں اور مذہبی تعلیمات کو متوازن اور تعمیری پیرائے میں انہوں نے عوام تک موثّر انداز میں پہنچانے کی کامیاب کوشش کی۔ ان کی کہانیاں دلچسپ اور بچوں کی نفسیاتی ضرورتوں کو پورا کرتی ہیں۔ ان کا اندازِ بیان سادہ اور دلکش ہے ان کے اسلوب کی اسی خوبی نے انھیں بچوں کا مقبول ادیب بنا دیا۔
سانے گروجی ایک حساس طبیعت کے مالک تھے۔ گاندھی جی کی موت نے انہیں زبردست صدمہ پہنچایا۔ اس کے بعد وہ ٹوٹ سے گئے۔ ۱۱جون ۱۹۵۰ء کو مراٹھی کے اس مایہ ناز ادیب کا انتقال ہو گیا۔
***

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 2 مئی تا 8 مئی 2021