اسلامی دہشت گردی کا درج ذیل میں سے کون سا مقصد ’نہیں‘ ہے؟
راجستھان کی اجتماعی قیادت کی سوجھ بوجھ سے شر انگیزی پر لگی لگام
رحیم خان، معین دین خالد
اسلامی دہشت گردی کا درج ذیل میں سے کون سا مقصد ’نہیں‘ ہے؟
متبادل جوابات ہیں: (الف) دنیا میں مسلم مملکت (راشٹر) کا قیام (ب) مغربی غیر مسلم طاقتوں کی پُر تشدد کارروائیوں سے مزاحمت کرنا (ج) دنیا میں امن قائم کرنا (د) دنیا میں اسلامی قوانین اور نظریات کو لاگو کرنا۔
اگر آپ یہ سوال پڑھ کر سمجھ بیٹھے ہیں کہ یہ کسی کی بچکانہ حرکت ہے یا وقت گزاری کے لیے وہاٹس ایپ پر کسی نے پوسٹ کر دیا ہے تو آپ غلط ہیں۔ حقیقت میں راجستھان میں بارہویں جماعت میں طلبہ و طالبات کو اس طرح کے سوالات کا سامنا ہے اور ان کو امتحان پاس کرنے کے لیے ان ہی آپشن میں سے جواب دینا ہوتا ہے۔ راجستھان اسٹیٹ ٹیکسٹ بُک بورڈ، جے پور کے ذریعے بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن راجستھان، اجمیر کے لیے پالیٹیکل سائنس میں ۱۲ ویں کلاس کے لیے نصابی کتاب شائع کی گئی ہے۔ اس کے صفحہ نمبر 156 پر سوال نمبر 4 میں درج بالا باتیں لکھی گئی ہیں۔ اس سے پہلے والا سوال نمبر 3 بھی کم قابلِ اعتراض نہیں۔ پوچھا گیا ہے ’’موجودہ حالات میں امنِ عالم کو سب سے زیادہ خطرہ کس سے ہے؟‘‘ اور صحیح جواب منتخب کرنے کے لیے متبادل جوابات یوں دیے گیے ہیں۔ (الف) گاندھی واد (ب) مارکس واد (ج) فیبِیَن واد (د) آتنک واد۔
اتنا ہی نہیں اسی کتاب کے صفحہ نمبر 157 پر مختصر جوابات کے تحت سوال نمبر 6 میں پوچھا گیا ہے کہ ’’اسلامی دہشت گردی سے آپ کیا سمجھتے ہیں؟‘‘ کل نو سوالات میں سے چھ سوالات صرف ’’دہشت گردی‘‘ کے موضوع پر ہیں جب کہ ایک سوال بدعنوانی اور بقیہ دو سوالات سیاست میں جرم کے موضوع پر ہیں۔ گویا بارہویں جماعت میں سیاسیات کی سرکاری نصاب کے لیے مختص کتاب میں ’’دہشت گردی، سیاست میں جرم اور کرپشن‘‘ نامی ایک سبق کے تحت جو کچھ تعلیمی اداروں میں بچوں کو پڑھایا جا رہا ہے وہ کل ملا کر اسلامی تعلیمات کے بارے میں ذہن خراب کرنے کا مکمل سامان ہے۔
حکومتوں نے جو کچھ کیا وہ کیا کم تھا کہ نصابی کتابوں کی ’’گائیڈ بُک‘‘ جسے مقامی زبان میں ’’پاس بک‘‘ کہا جاتا ہے ان میں بھی اسی سمت میں نئی نسلوں کی ذہن سازی کرنے والا مواد فراہم کیا جا رہا ہے۔ جئے پور کے ایک سنجیو پرکاشن نے مذکورہ چیپٹر کی جوابی گائیڈ بک میں صفحہ نمبر 195 پر سوال نمبر 5 یوں ہے کہ ’’اسلامی دہشتگردی سے آپ کیا سمجھتے ہیں؟‘‘ اور اس کے جواب میں جو لکھا گیا ہے وہ انتہائی واہیات، ناقابلِ قبول اور افترا پردازی ہے۔ سنجیو پاس بک کا جواب ہے کہ ’’اسلامی آتنک واد اسلام کا ہی ایک روپ ہے۔ جو پچھلے 20 تا 30 برسوں میں نہایت طاقتور بن گیا ہے۔ دہشتگردوں میں کسی ایک مخصوص گروپ (گروہ) کے تئیں اطاعت و سرشاری کا جذبہ نہیں ہوتا بلکہ ایک مخصوص اجتماعیت و برادری کے لیے وہ تابعداری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اپنی اجتماعیت کے حق میں عزم اور کمٹمنٹ اسلامی دہشتگردی کا اہم مزاج ہے‘‘ وغیرہ وغیرہ۔۔۔ آخر میں جموں و کشمیر کے ایک سیاسی معاملے کو اس جواب میں مذہبی و علیحدگی پسند‘‘ بتایا گیا ہے اور بالکل الگ رخ میں ڈال رکھا ہے۔
ان باتوں سے نصابی کتاب تیار کر نے والوں کی ذہنیت اور ان کے مذموم ارادوں کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکاتا ہے۔ یہ ماننے میں تردد نہیں ہونا چاہیے کہ اس طرح کی حرکتیں بغیر کسی شہہ اور سر پرستی کے ہوتی ہیں۔ سابقہ وسندھرا راجے کی قیادت والی بی جے پی حکومت (۲۰۱۳ تا ۲۰۱۸) کے دور میں مذکورہ قابل اعتراض کتابیں تیار کی گئیں لیکن موجودہ اشوک گہلوت کی قیادت والی کانگریس حکومت نے بھی نصاب کو درست کرنے کی بات کہی تھی پھر آخر اتنی بڑی خامی کیسے نظروں سے اوجھل رہ گئی۔ مقامی صحافیوں نے ہفت روزہ دعوت کو بتایا کہ 20 مارچ کو سابق مرکزی وزیر سلمان خورشید کے جئے پور دورے کے موقع پر دیگر اقلیتی معاملات کے ساتھ ساتھ نصابی کتابوں میں الٹ پھیر سے بھی ان کو واقف کرایا گیا۔ اب مسلمانوں کی مرکزی قیادتوں کو اس معاملے کا فالو اپ دہلی میں بھی کرنا چاہیے۔
راجستھان میں اسکولوں میں پڑھائی جانے والی نصابی کتابیں اور ان کا نصاب ہمیشہ سے ہی تنازعوں سے گھرا رہا ہے۔ حکومتوں کے ساتھ ہی نصاب میں بھی تبدیلی ہونا ایک عام بات ہے۔ راجستھان میں بی جے پی حکومت بننے کے بعد مغل بادشاہ اکبر کو عظیم بتانے والا چیپٹر بدل دیا گیا اور مہارانا پرتاپ کو عظیم حکمراں لکھ دیا گیا۔ یہی نہیں ہلدی گھاٹی کی جنگ کے نتیجے تک حکومتوں کے بدلنے کے ساتھ موافقت یا مخالفت میں تبدیل ہوتے رہے ہیں۔ اس بار بھی کانگریس کی حکومت بنتے ہی وزیر تعلیم گوند دوتاسرا نے نصابی کتابوں میں تبدیلی کا اعلان کر دیا تھا لیکن شاید وزیر محترم اس بات کا دھیان رکھنا بھول گئے کہ کتابوں میں کیا لکھا اور پڑھایا جا رہا ہے۔ انہیں اس پر بھی دھیان رکھنا ضروری ہے۔ اس بار راجستھان میں ایک سرکاری اور ایک نجی پبلشر نے پولیٹیکل سائنس کی کتاب میں اسلام کو دہشت گردی سے براہ راست جوڑ دینے کا معاملہ سامنے آیا۔ راجستھان کی سوجھ بوجھ رکھنے والی قیادت نے معاملے کا سنجیدگی سے نوٹس لیااور پر امن، آئینی اور مذاکراتی انداز پہ معاملہ کو متعلقہ فریقوں تک لے گئی۔ قابل اعتراض مواد کو کتاب سے ہٹانے اور پبلشر اور رائٹر کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔
یوں ہوا معاملہ اجاگر
راجستھان مسلم فورم سے وابستہ ایک سیاسی رہنما محسن رشید نے ہفت روزہ دعوت کو بتایا کہ انہیں سنجیو پاس بک میں اشتعال انگیز باتیں درج ہونے کی اطلاع 11 مارچ کو ایک طالب علم نے دی۔ انہوں نے جب سنجیو پرکاشن سے بات کی تو اول تو ناشر نے کسی طرح کی غلطی ماننے سے انکار کر دیا اس کے بعد 15 مارچ کو جئے پور مسلم مسافر خانے میں راجستھان مسلم فورم کے بینر تلے نعیم ربانی، شوکت قریشی، محسن رشید وغیرہ نے پریس کانفرنس منعقد کر کے پورے معاملے کو میڈیا اور عوام کے سامنے پیش کیا۔ اسی دن فورم کے وفد نے جئے پور پولیس کمشنر آنند شری واستو سے ملاقات کی اور پبلشر کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا مطالبہ کیا۔
نصاب میں اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کی سازش؟
جماعت اسلامی ہند راجستھان کے سکریٹری نعیم ربانی نے مشترکہ فورم میں شامل ہو کر معاملے کو اٹھایا اور ساتھ ہی راجستھان حکومت کے مہیش جوشی سے بھی معاملہ پر بات چیت کی۔ ربانی کہتے ہیں کہ یہ اس معاملے میں سڑکوں پر اترنا یا پبلشر کے دفتر میں توڑ پھوڑ کرنا بالکل غیر مناسب ہے۔ بہرحال اب پبلشر نے نعیم ربانی صاحب کو باضابطہ خط لکھ کر اپنی فاش غلطی کا اعتراف کر لیا ہے اور تمام کتابوں کو بازار سے واپس منگوالیا ہے۔ اسی دوران فریٹرنیٹی مومنٹ، ایس ائی او اور جماعت اسلامی ہند وغیرہ نے ضلعی سطح پر دونوں پبلشروں کے خلاف ضلع کلکٹروں کو وزیر تعلیم کے نام میمورنڈم سونپنے کا کام بھی جاری رکھا۔
معذرت قبول نہیں ہوئی
راجستھان مسلم فورم کی جانب سے محسن رشید کا کہنا ہے کہ اس طرح کے قابل اعتراض مواد کی اشاعت کا معاملہ سامنے آنے سے پہلے ہی اشاعتی ادارہ نے معافی مانگ لی تھی لیکن ایک بار پھر یہی غلطی دہرائی جا رہی ہے لہٰذا ہم اس معافی کو قبول نہیں کرتے۔ انہوں نے کہا کہ اس بار ہم ناشر کے خلاف قانونی چارہ جوئی کر کے قانونی کارروائی کریں گے تاکہ آئندہ اس طرح کی غلطی دہرائی نہ جائے۔
سالِ گزشتہ ۲۸ جنوری کی خبروں کے مطابق بیدر میں واقع مشہور و معروف شاہین ادارہ جات کے ذریعے چلایے جا رہے ایک اسکول میں انتہائی متنازعہ سی اے اے قانون کے خلاف ننھے بچوں نے ایک نُکّڑ ناٹک (ڈرامہ) کھیلا تھا اور فوری کارروائی کرتے ہوئے نہ صرف اس اسکول کو مہر بند کر دیا گیا بلکہ پولیس نے انتہائی سنگین دفعات کے تحت ایف آئی آر بھی درج کی تھی۔ یہ بات الگ ہے کہ ۳ مارچ کو بیدر کی ضلع جج منگولی پریماوتی نے یہ کہتے ہوئے اسکول انتظامیہ اور پرنسپل کو پیشگی ضمانت دی تھی کہ ’’بچوں نے صرف یہ ظاہر کیا ہے کہ اگر وہ کاغذ نہیں دکھا پاتے ہیں تو ان کو ملک بھارت چھوڑنا ہوگا۔ اس کے علاوہ ڈرامے کے اندر ایسا کچھ نہیں تھا جس سے یہ تاثر ملے کہ انہوں نے بغاوت یا (Sedition) جیسا کوئی جرم کیا ہو۔‘‘ عدالت نے شاہین گروپ آف انسٹی ٹیوشن کے صدر عبدالقادر (۶۱ سال) اسکول کے ہیڈ ماسٹر علاءالدین (۴۱سال) اور اسکول انتظامیہ کمیٹی کے تین ممبروں کو دو-دو لاکھ روپے کے نجی بانڈ کے ساتھ ضمانت دی لیکن اس سے قبل ۱۴ فروری کو شاہین پرائمری اور ہائی اسکول کی ڈائریکٹر فریدہ بیگم (۵۱ سال) اور طالب علم کی والدہ نجیب النسا (۴۸سال) کو ضلع اور سیشن جج کے ذریعے ایک لاکھ روپے کے نجی بانڈ پر ضمانت دی گئی تھی۔ پولیس نے تعزیراتِ ہند کی دفعات کے تحت سیڈیشن یعنی بغاوت، طبقات کے مابین نفرت و دشمنی پھیلانا اور نقض امن کی نیت سے جان بوجھ کر توہین کرنا جیسے سنگین الزامات عائد کر دیے۔ (IPC Sections 124A, 153A, 504)
پولیس شکایت میں نیلیش رَکشیال نامی مقامی بی جے پی کارکن نے کہا تھا کہ ’’سوشل میڈیا پر شیئر کیا گیا ویڈیو سماج میں غلط پیغام دے رہا ہے۔ ویڈیو کے ذریعہ حکومت کی پالیسیوں اور حکومت کے خلاف ماحول بنایا جا رہا ہے۔‘‘ اس کے برعکس جج نے تبصرے کیے کہ ’میرے خیال سے یہ ڈائیلاگ نفرت، بے عزتی اور حکومت کے متعلق کوئی عدم اتفاق ظاہر نہیں کرتا۔‘ انہوں نے آگے کہا کہ ملک بھر میں سی اے اے، این آر سی کی مخالفت اور حمایت میں ریلیاں اور مظاہرے منعقد ہو رہے ہیں اور ہر شہری کو قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے حکومت کے طریقوں پر عدم اتفاق ظاہر کرنے کا حق ہے۔ نیز یہ کہ ’’یہ اسکولی بچوں کے ذریعے کھیلا گیا ڈرامہ سماج میں کسی بھی طرح کا تشدد یا بے یقینی کا ماحول پیدا نہیں کرتا اور بادی النظر میں سیڈیشن کا معاملہ بھی نہیں بنتا۔‘‘ بعد ازاں سوشل میڈیا پر بچوں کے ڈرامے کا ویڈیو شیئر کرنے والے مقامی صحافی محمد یوسف رحیم کو بھی پیشگی ضمانت مل گئی تھی۔
حیدرآباد کی تاریخی عثمانیہ یونیورسٹی کے سابق پروفیسر دھرمیا کی رائے ہے کہ ملک کا تعلیمی معیار اس لیے بھی گرتا جا رہا ہے کہ حکومتیں جان بوجھ کر تعلیم پر خرچ کو کم سے کمتر کرتی جا رہی ہیں۔ ایسی پالیسیاں بنائی جا رہی ہیں جن سے ڈراپ آؤٹ طلبہ کی تعداد میں اضافہ ہو۔
ایس آئی او آف انڈیا تلنگانہ کے صدر ڈاکٹر طلحہ فیاض الدین کہتے ہیں کہ ’’ابتر تعلیمی صورت حال کی تمام رپورٹیں اور اعداد و شمار گواہی دے ہی رہے ہیں لیکن ہم ایک فلاحی مملکت (Welfare State) کے شہری ہیں اور اپنے تمام شہریوں کو مناسب تعلیم کی فراہمی ایسی حکومت کی اولین ذمہ داری ہے۔‘‘ ہمارے طلبہ و اساتذہ ہی نہیں بلکہ ملی ادارے اور گروپ بیدار رہیں، متحرک ہو جائیں ضابطے اور قانون کے مطابق اعتراض اٹھائیں۔ ان کاموں میں برادرانِ وطن کو اعتماد میں لے کر اجتماعی فورموں کی تشکیل کر کے معاملات کو سیاسی، سماجی، قانونی پلیٹ فارموں پر سلیقے کے ساتھ اٹھائیں۔ سڑکوں پر نکل کر اشتعال انگیزی کرنے سے فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوتا ہے اسی لیے جذباتی اور سطحی قسم کی بیان بازی سے بچنا ضروری ہے۔ طلبہ تنظیموں کو الرٹ موڈ میں رہ کر ہر سطح پر اپنے کارکنوں کی صلاحیتوں کو برویے کار لانے کی ضرورت ہے۔
نئی تعلیمی پالیسی (این اے پی ۔ ۲۰۲۰) کے نفاذ سے قبل ہی ایسے خرافاتی اذہان مختلف سطحوں پر جم کر بیٹھ گئے ہیں تو آنے والے دنوں میں جب گیروا ایجنڈوں کے ساتھ وزارتِ تعلیم باقاعدہ اپنے منصوبوں کو روبہ عمل لا رہی ہو گی تب کیا قیامت ڈھائی جائے گی اس کو صرف سوچا ہی
جا سکتا ہے۔ بعض اسلامی تحریکوں نے دہائیوں قبل ان خدشات کو محسوس کر کے دینی و دنیوی تعلیم کے فرق کو ختم کرنے اور روایتی اور عصری تعلیم کے حسین امتزاج والے نصاب تیار کیے تھے۔ جگہ جگہ اس نصاب کے ساتھ اسکول اور مدارس قائم کیے تھے۔ اب تو نامی مدارس بھی اپنے نصاب میں جدید علوم یا بعض میں پیشہ ورانہ اور ہنر پر مبنی کورسوں کی وکالت کرتے دیکھے جا رہے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ملک گیر سطح پر تال میل پیدا کر کے کوئی مشترکہ لائحہ عمل بنے اور ریاستی سطح پر تعلیمی جائزہ کمیٹیاں بنائی جائیں اور ان کے ذریعے ہر طرح کی چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کا نظم بن سکے۔
اب تک اتنی لمبی مدت تک اتنی بڑی خامی نظروں سے اوجھل کیسے رہ گئی؟ اس کا جائزہ لیا جائے۔ یہ بھی دکھائی دے رہا ہے کہ مرکز میں حکمراں جماعت والی ریاستی حکومتیں زیادہ چستی اور پھرتی سے کام کر جاتی ہیں جبکہ حزبِ اختلاف یا علاقائی پارٹیوں والی حکومتوں کے پاس ویسی چابک دستی کا مظاہرہ کم ہی دکھائی دیتا ہے۔
بعض اسلامی تحریکوں نے دہائیوں قبل ان خدشات کو محسوس کر کے دینی و دنیوی تعلیم کے فرق کو ختم کرنے اور روایتی اور عصری تعلیم کے حسین امتزاج والے نصاب تیار کیے تھے۔ جگہ جگہ اس نصاب کے ساتھ اسکول اور مدارس قائم کیے تھے۔ اب تو نامی مدارس بھی اپنے نصاب میں جدید علوم یا بعض میں پیشہ ورانہ اور ہنر پر مبنی کورسوں کی وکالت کرتے دیکھے جا رہے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ملک گیر سطح پر تال میل پیدا کر کے کوئی مشترکہ لائحہ عمل بنے اور ریاستی سطح پر تعلیمی جائزہ کمیٹیاں بنائی جائیں اور ان کے ذریعے ہر طرح کی چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کا نظم بن سکے۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 28 مارچ تا 3 اپریل 2021