اسلامی خاندان – مثالی خاندان

اپنے خاندان کو غیر مسلم سماج کے لیے کیسے مثالی بنائیں!

شمشاد حسین فلاحی

 

ایک مسلم خاندان اسلامی خاندان کے لیے دی گئی قرآنی اور نبوی ہدایات کی بنیاد پر ایک مثالی خاندان بننے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ عہدِ  رسالت اور دورِ صحابہ کے خاندان انہی بنیادوں پر استوار ہوتے تھے اور ان ہدایات نے گھروں کو جنت کا نمونہ اورمعاشرے و سماج کو بے مثال استحکام عطا کیا تھا۔
اسلامی خاندانی نظام کی اہم ترین خوبی اورخصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنے افراد کے اندر تقویٰ اور احسان کا جذبہ پیدا کرکے انہیں اس قابل بناتا ہے کہ وہ ہر عمل اور رویے کو اختیار کرنے سے پہلے یہ دیکھتے اور سوچتے ہیں کہ اس سے اللہ کی خوشنودی حاصل ہوگی یا اس کی ناراضگی اور یہ تصور انہیں ایثار و قربانی سکھاتا ہے جو خاندانی نظام بلند ترین اخلاقی قدر ہے۔ اسی طرح احسان کی صفت ہے کہ جب حقوق و فرائض کی بات ہو تو انسان اپنے حق میں کم سے کم لینے پر راضی ہوجائے اور دوسرے کو اس کے حق سے زیادہ دینے کے بارے میں نہ صرف سوچے بلکہ اس کی کوشش کرے۔ اس ضمن میں تاریخ کا ایک واقعہ اسلامی معاشرے کی اس اہم خوبی کو پیش کرتا ہے۔ اس واقعہ میں ہم اسلامی معاشرے کی ایک تصویر دیکھ سکتے ہیں۔
’’ایک شخص نے دوسرے سے ایک قطعۂ زمین خریدا۔ اس میں جب اس نے تعمیری کام شروع کیا تو اس میں دفن خزانہ اس کے ہاتھ لگا۔ آپ سوچئے کہ موجودہ دور کے انسانوں میں بیچنے اور خریدنے والوں میں سے ہر ایک کا رویہ کیا ہوتا۔ دفینہ ملنے کے بعد خریدار بیچنے والے کے پاس پہنچا اور کہا کہ آپ سے جو زمین میں نے خریدی تھی اس میں دفن سونا چاندی نکلا ہے جس کا میں حق دار نہیں ہوں کیونکہ میں تو نے آپ سے صرف زمین خریدی تھی اس میں دفن مال و زر پر آپ کا حق ہے۔ بیچنے والے نے جواب دیا کہ بھائی میں نے تو زمین تمہیں بیچ دی اور اس کی قیمت بھی حاصل کرلی اب وہ زمین نیچے سے اوپر تک اور دائیں سے بائیں تک پوری طرح آپ کی ملکیت ہے۔ اگر اس میں کوئی دفینہ دولت نکلا ہے تو آپ کا حق ہے، اس پر میرا کوئی حق نہیں۔ دونوں اس دفینۂ دولت پر دوسرے کا حق بتارہے تھے اور دونوں میں سے کوئی بھی لینے کو تیار نہ تھا۔ معاملہ قاضی کی عدالت میں گیا۔ دونوں کے بیانات سن کر قاضی صاحب پریشان ہوگئے کیونکہ دونوں میں سے کوئی بھی اسے قبول کرنے پر تیار نہ تھا۔ قاضی صاحب کو ایک ترکیب سمجھ میں آئی۔ انھوں نے دونوں سے ان کے لڑکے لڑکیوں کی تفصیلات معلوم کیں اور پتہ چلا کہ ایک کے پاس نوجوان لڑکا ہے اور دوسرے کے پاس نوجوان لڑکی۔ قاضی نے فیصلہ سنایا دونوں کے بیٹے اور بیٹی کا نکاح کردیا جائے، اس طرح یہ دفینۂ دولت دونوں خاندانوں کی نسلوں کے کام آسکے گا۔‘‘
اسلامی معاشرہ اس طرح کا معاشرہ ہوتا ہے اور یہ معاشرہ اس وجہ سے تشکیل پاتا اور تعمیر ہوتا ہے کہ اس کے خاندان اور ان کے ممبر افراد کا اخلاقی رویہ اور سوچنے کا انداز بالکل الگ ہوتا ہے، ایسا الگ کہ موجودہ دور کے نظام اخلاق اور اس سے بننے والے معاشروں اور سماجوں کے افراد اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔
ایک صحابی حضرت عائشہؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انھوںنے زوجۂ رسولؐ سے پوچھا کہ وہؐ گھر میں رہتے ہیں تو کیا کرتے ہیں۔ حضرت عائشہؓ نے انہیں بتایا کہ وہ جب گھر میں ہوتے ہیں تو روٹی پکانے کے لیے آٹا گوند دیتے ہیں، اپنے پھٹے پرانے کپڑوں میں اپنے ہاتھ سے پیوند لگالیتے ہیں اور اپنے جوتے خود مرمت کرلیتے ہیں۔ یہ رسولِ پاکؐ کی گھریلو زندگی کی ایک تصویر ہے۔ جو ہمیں گھریلو زندگی کے بہت سے گر سکھاتی ہے۔ یہ ایسے گر ہیں جو خاندانی زندگی کو پرلطف اور اس کی فضا کو خوشبوزار بناتی ہے۔
حضرت عمر خلیفہ ثانی کو یہ بات پسند نہیں تھی کہ ان کی زوجہ مسجدمیں نماز باجماعت کے لیے جایا کریں۔ ایک روز ان کے بیٹے نے اپنی ماں سے کہا کہ جب ابو کو آپ کا نماز باجماعت کے لیے مسجد جانا پسند نہیں تو آپ کیوں جاتی ہیں؟ انھوںنے جواب دیا کہ پھر وہ مجھے روک کیوں نہیں دیتے؟ اس پر ان کے بیٹے نے کہا کہ ان کو رسولؐ کا یہ قول روکتا ہے کہ
لا تمنعوا اماء اللہ من المساجد۔
(اللہ کی بندیوں کو مسجد جانے سے نہ روکو!)
آپ اندازہ کیجیے کہ کس قدر باہمی حقوق کا احترام ہوتا ہے اسلام کی ہدایات پر بننے والے خاندان کے افراد کے درمیان۔ ذرا ذرا سی بات پر بیویوں کے ساتھ تشدد کرنے والے اور غصہ میں بپھر کر طلاق دے دینے والے لوگ اس جذبۂ عفو و درگزر اور ایثار و قربانی کا تصور کیسے کرسکتے ہیں جبکہ یہی ازدواجی اورخاندانی زندگی کی مضبوط بنیادیں ہیں۔
قرآنِ کریم نے جوخاندانی زندگی کے لیے تفصیلی ہدایات دی ہیں حضور پاکؐ اور آپ کے ساتھیوں نے انہیں اپنی عملی زندگی میں نافذ کرکے ایسا مثالی خاندان او رمعاشرہ تشکیل دیا جس کے جیسا خاندان اور سماج آج تک کوئی نظریہ یا کوئی تہذیب پیش نہیں کرسکی لیکن جب مسلمانوں نے ان ہدایات کو اپنی فکر کا محور بنانا چھوڑ دیا اور ان کی عملی زندگی ان اقدار و تعلیمات سے خالی ہوگئی تو نہ صرف یہ کہ ان کا معاشرہ بھی بگاڑ کا شکار ہوگیا اور اس کی مثالی خوبیاں بھی ختم ہوگئیں۔
مسلم خاندان مثال کیوں نہ بن سکا؟
ان بلند اقدار اور اعلیٰ ترین الٰہی ہدایات کے باوجود موجودہ دور کا مسلم خاندان دوسروں کے لیے مثال نہیں بن پایا اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس کی تشکیل کے لیے جو ہدایات اسے ملی ہوئی ہیں وہ عملی طور پر ان سے دور ہی نہیں بلکہ ناواقف بھی ہے۔ وہ یہ نہیں جانتا کہ اس کے پاس ایک مثالی خاندان اور آئیڈیل معاشرے کی تعمیر وتشکیل کا ایک ایسا طاقتور اور کامیاب نسخہ موجود ہے جسے اختیار کرکے نہ صرف وہ اپنے مسائل کو ختم کرسکتا ہے بلکہ پریشان حال اور گوں نا گوں مسائل سے دوچار عالم انسانیت کو بھی خاندانی اور معاشرتی بحران سے نکال سکتا ہے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ جہاں کہیں بھی مسلمان بستے ہیں اور وہ تکثیری معاشرے کا حصہ ہیں، خصوصاً ہندوستان میں وہاں وہاں انھوں نے اپنی ساتھی تہذیب و ثقافت کے اقدار و روایات کو ہو بہ ہو اپنے خاندانی اور معاشرتی نظام کا حصہ بنالیا ہے بغیر یہ دیکھے اور سوچے کہ اس کے اثرات ان کی زندگی پر کیا مرتب ہوں گے اور بغیر یہ دیکھے کہ یہ اسلامی ہدایات اور تعلیمات سے کتنی دور اور کس قدر قریب ہیں اور انہیں اختیار کرنا الٰہی تعلیمات کے مقابلے میں مناسب ہے یا غیر مناسب۔ ہندوستان کے تناظر میں ہم بے شمار ایسی برائیاں اور روایات و رسوم ہم مسلم معاشرے میں دیکھتے ہیں جو نہ صرف اسلامی تعلیمات اور اسلامی نظامِ خاندان کی بلند ترین قدروں سے نہ صرف میل نہیں کھاتیں، بلکہ ان کے برعکس ہیں۔ مثال کے طور پر ہم شادی بیاہ کے رسوم و رواجوں کو دیکھ سکتے ہیں جو بڑے پیمانے پر ہمارے یہاں بھی رواج پاگئے ہیں، اور انھوں نے نوجوانوں اور والدین کو اس سلسلے میں سنگین قسم کے مسائل سے دوچار کررکھا ہے۔ اسی طرح ہم ایک اہم دینی حکم وراثت کی صحیح تقسیم کو لے سکتے ہیں جو ہمیں اس بات کا پابند بناتا ہے کہ ہم والدین کی چھوڑی ہوئی وراثت میں سے، خواہ وہ کم ہو یا زیادہ بہنوں اور بیٹیوں کو بھی حصہ دار بنائیں۔ جہاں اور جو لوگ آج بھی سادگی سے اپنے بچے بچیوں کے نکاح کرتے ہیں غیر مسلم معاشرہ اسے تحسین کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور خواہش کرتا ہے کہ کاش ہمارے یہاں بھی یہ چیز رواج پاجائے۔ غرض جہاں کہیں بھی کوئی مسلم خاندان اسلامی طرزِ معاشرت اور اس کی روایات کو عملی جامہ پہناتا ہے وہاں لوگ اس کی قدر کرتے نظر آتے ہیں۔
مثال بننے کے لیے ضروری اقدامات
مسلم سماج اور مسلم خاندانوں کی اس دور میں بھی ، جبکہ ان کی زندگیاں اور رویے اسلامی تعلیمات سے میل نہیں کھاتے، کئی خوبیاں غیرمسلم سماج کے لیے آج بھی وجہِ کشش ہیں۔ ان میں سب سے نمایاں مقام مسلم معاشرے میں رائج شرم و حیا اور عفت و عصمت کےتحفظ کی خاندانی اور اخلاقی قدریں ہیں۔ بہت سارے لوگوں کو مسلم لڑکیوں کا باحجاب رہنا اور ان کے شائستہ رویے بہت بھاتے ہیں اور وہ انہیں اور مسلم خاندانوں کو الگ نظریے سے دیکھتے ہیں۔ اسی طرح بہت سے لوگوں کو مسلم سماج کی شادی و بیاہ کی سادگی اور آسانی بہت اچھی لگتی ہے۔ کچھ لوگ اسلام میں بیوہ لڑکی اور عورت کی شادی کو دیکھ کر بہت متاثر ہوتے ہیں۔ یہ مضمون نگار اپنے ایک شناسا، جن کی جواں سال بیٹی بیوہ ہوگئی تھی، اور وہ اس کے مستقبل کو لے کر سخت دشواریوں میں گھرے تھے، کہنے لگے کہ تمہارے سماج میں بہت اچھی بات یہ ہے کہ بیوہ کی بھی دوسری شادی آسانی سے ہوجاتی ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ میں بھی اسلام قبول کرلوں۔ یہ سن کر مصمون نگار کانپ گیا کہ اگر ایسا ہوگیاتو کیا ہمارا مسلم سماج ان کی توقع اور امید کو پورا کرپائے گا؟ یہ سوچنے کی بات ہے۔
اتنا تو کہا جاسکتا ہے کہ تمام تر خرابیوں کے باوجود ابھی بھی مسلم خاندانی نظام میں لوگوں کے لیے کچھ تو کشش باقی ہے لیکن یہ کشش اس وقت کس حد کو پہنچ جائے گی جب مسلم خاندان اور معاشرہ ان خطوط پر استوار ہوجائے گا جو اسلام چاہتا ہے۔ آئیے غور کریں کہ ہم مسلمانوں کے خاندانی نظام کو کیسے لوگوں کے لیے مثالی اور باعث کشش بناسکتے ہیں۔
1- اس سمت میں پہلا قدم یہ ہوگا کہ جس نظام کو ہم اپنی عملی زندگیوں میں نافذ و جاری کرکے اپنے معاشرے کے لیے مثال قائم کرنا چاہتے ہیں، اس نظام کا گہرا علم و شعور اپنے اور اپنے اہلِ خاندان کے درمیان پیدا کرکے اپنے عملی رویوں اور افکار و اعمال میں ڈھالا جائے۔ اس کے لیے قرآن کریم، سنتِ رسولؐ اور صحابہ کرامؓ کی زندگیوں اور ان کے اعمال و افکار، خاندانی و معاشرتی رویوں اور معاملات کا مطالعہ کرنا ہوگا۔ اس کے بغیر ہم مثالی خاندان تشکیل نہیں دے سکتے۔ ایسے میں مثال بننے کا سوال کہاں سے پیدا ہوگا!
2- اسلام کے خاندانی نظام سے متعلق علم وآگہی کے بعد اس کی بنیاد پر ہمیں اپنی فکر، اعمال و افکار اور رویوں کی اصلاح اور تزکیہ کرنا ہوگا اور کوشش کرنی ہوگی کہ ہماری خاندانی اور معاشرتی زندگی میں سے برائیوں، غلط رسوم و رواج اور نقصان دہ رویوں کو خارج کردیا جائے۔ اس طرح ایک خالص اسلامی اقدار و روایات پر مبنی خاندانی نظام رائج ہوسکے گا جسے دیکھ کر لوگ خود بہ خود محسوس کرسکیں گے کہ یہ اقدار وروایات ہی ہمارےلیے قابلِ عمل بہتر ہیں۔
3- کیونکہ ہم مثالی خاندان کی تشکیل کے ذریعہ ایک مثالی اور مضبوط و مستحکم معاشرہ تشکیل دینا چاہتے ہیں اس لیے ہمیں نہ صرف مسلم سماج کے خاندانی و معاشرتی مسائل کا حل تلاش کرنا ہے بلکہ پورے سماج کے مسائل و مشکلات کو اپنا تصور کرتے ہوئے انہیں حل کرنے کے بارے میں سوچنا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم یہ تصور اپنے ذہنوں میں پختہ کرلیں کہ سماج کے مسائل بھی ہمارے ہی مسائل ہیں اور پھر ان کے حل کے لیے آگے بڑھیں۔ اس راہ میں کہیں تحریک چلانی ہوگی، کہیں مشترکہ خاندانی و معاشرتی مسائل کو اٹھانا ہوگا، کہیں ان کے لیے بیداری کو لے کر عوامی تحریک چلانی ہوگی اور ایسا بھی ہوگا کہ ہم پورے سماج کو لے کر کچھ اشوز کے ساتھ وقت کی حکومت سے اپنے مطالبات منوائیں تاکہ سماج و معاشرے کو ہونے والے نقصان سے محفوظ رکھا جائے۔
4- اپنی سماجی تقریبات کو سادہ اور آسان بناکر ہم غیر مسلم سماج کے لیے مثال بن سکتے ہیں۔ شادی بیاہ کی تقریبات اس وقت سماج کی ایسی بیڑیاں بن گئی ہیں جن سے پورا ملکی سماج نجات کا خواہش مند ہے۔ ایسے میں ہم نکاح کی سادہ ترین تقریبات منعقد کریں جن میں اخراجات کم سے کم ہوں مگر لوگوں کی شرکت زیادہ سے زیادہ ہو تاکہ لوگ سبق بھی لیں اور حوصلہ بھی حاصل کرسکیں۔ ہمیں یہ تصور اپنے ذہنوں میں پختہ کرنے کی ضرورت ہے کہ آسان نکاح شریعت کی منشا ہے اور ہمارے رسولؐ نے ہمیں تعلیم دی ہے کہ نکاح کو آسان کرو کہ سماج میں زنا مشکل ہوجائے۔ مگر ہم الٹے چل رہے ہیں کہ شادی کو ہم نے اتنا مشکل بنادیا ہے کہ لوگ زنا کاری سے تسکین پانے پر مجبور ہورہے ہیں۔
5- غیر مسلم سماج سے خاندانی اور معاشرتی ربط ضبط یقیناً ہماری مضبوط خاندانی اقدار کی ان کے سامنے ترجمانی کاذریعہ ہوگا۔ اس سے ان کے دل و دماغ ایک طرف تو ہماری اقدار و روایات کو دیکھ کر ان کے لیے کھلیں گے دوسری طرف اجنبیت اور بعض اوقات پائی جانے والی غلط فہمیوں اور نفرت کے جذبات کو رفع کرنے کا ذریعہ ہوگا۔ فرقہ پرست طاقتوں کی یہ بڑی کامیابی ہے کہ انھوں نے مذاہب کے ماننے والے لوگوں کے درمیان ایک محسوس مگر غیر مرئی دیوار کھڑی کردی ہے اور ہر مذہبی اکائی تقریباً اپنے اپنے خول میں بند سی ہوگئی ہے۔ ہمیں اس غیر مرئی دیوار کو گرانا ہے اور افہام و تفہیم اور صالح اور مضبوط اقدار و روایات کی ترجمانی کے لیے استعمال کرنا ہے۔
ہمیں یہ بات ہرگز نہیں بھولنی چاہےے کہ ہم ایک داعی گروہ ہیں اور پوری انسانیت ہماری مخاطب ہے۔ ہم جو دعویٰ لے کر اٹھے ہیں وہ بڑا دعویٰ ہے اور موجودہ حالات کے تناظر میں وقت کی ضرورت بھی ہے۔ اگر ہم برادرانِ وطن اور اپنے معاشرے کے لیے مثال بننے کی عملی جدوجہد کریں تو یہ مثالیں خود ہماری دعوت کے فروغ کا ذریعہ بن جائیں گی اور ان کا جادواثرات کے اعتبار سے سماج میں سرچڑھ کر بولے گا۔ اس کے سامنے تمام مخالف پروپیگنڈہ بے اثر ہوکر رہ جائے گا۔ اس طرح ایک مضبوط خاندان اور مستحکم سماج کی راہ خود بہ خود ہموار ہوجائے گی۔
ll

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 14 فروری تا 20 فروری 2021