اسلامو فوبیا :تعلیم گاہوں سے لیکر کھیل کے میدانوںتک
مسلم سماج کی تعلیم یافتہ خواتین اپنی اولاد کے لیے فکر مند۔ نازیہ ارم کی ایک تحقیقی تصنیف
مبصر:شبیع الزماں (پونے)
سنگھ کے پرچارک رہے نریندر مودی جب ۲۰۱۴ میں ملک کے وزیر اعظم بنے تب سے ہندوستان کی فضا میں آئی تبدیلی کے سبب ہندوستانی مسلمانوں میں عدم تحفظ کا احساس پیدا ہوا۔ یہ احساس مسلمانوں کے مختلف طبقات میں مختلف سطحوں پر پیدا ہوا۔ اسی طرز کا احساس پہلی دفعہ دلی کی نازیہ ارم کو بھی بحیثیت ماں ہوا۔ نازیہ ارم ایک تعلیم یافتہ میٹروپالیٹن شہر میں رہنے والی خاتون ہیں۔ انہیں یہ احساس ہوا کہ کیا جو خدشات ایک مسلم ماں کے ہیں وہی خدشات ہندو، سکھ اور عیسائی ماؤں کے بھی ہیں؟ مسلم بچے جو مشترکہ سماج کا حصہ ہیں ان کے والدین کس قسم کے مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔ انہی سوالوں کے جواب میں یہ زیرِ تعارف تحقیقی کتاب وجود میں آئی۔ اپنی ریسرچ کے دوران مصنفہ نازیہ ارم نے سال بھر میں بارہ شہروں میں رہنے والے ۱۴۵ خاندانوں سے ملاقات کی۔ ان میں وہ خاندان شامل تھے جو ٹھیٹ مسلم سماج کے بجائے مشترکہ ہندوستانی سماج میں رہتے ہیں اور اپنی روز مرہ کی زندگی میں آئیڈیا آف انڈیا کو اپنائے ہوئے جی رہے تھے۔ اپنی ریسرچ کے دوران نازیہ ارم نے مسلم سماج کی تعلیم یافتہ خواتین سے ملاقات کی جو سماج میں مختلف حیثیتوں میں اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں، جیسے گوگل اور فیس بک کی سابقہ ملازمہ، ایک عالمہ، بچوں کی نفسیاتی ڈاکٹر، ریاستی سطح کی باسکٹ بال کھلاڑی، ضلعی سطح کی پیراک، وکیل، سافٹ ویر انجینئر، لیکچرر، رائٹر وغیرہ۔ اگرچہ یہ خواتین مختلف میدانوں میں کام کرنے والی تھیں لیکن سب کی کہانی ایک جیسی تھی اور وہ سب اپنے بچوں کے لیے فکر مند تھیں۔ ان میں سے کئی کے بچے اسکولوں اور کھیل کے میدانوں میں اسلاموفوبیا اور نیشنلزم کے شکار تھے۔ ان کی کہانیاں ہلا دینی والی تھی۔ انٹریو کیے گئے ۸۵ فی صد بچوں کو صرف اس لیے ستایا، مارا یا بائیکاٹ کیا جاتا ہے کہ وہ مسلمان ہیں۔
نازیہ ارم لکھتی ہیں ‘اپنی ریسرچ کے دوران میں حیران رہ گئی۔ میں نے یہ نہیں سوچا تھا کہ ان بڑے بڑے اسکولوں میں ایسا ہو رہا ہو گا۔ جب پانچ اور چھ برس کے بچے کہتے ہیں کہ انہیں پاکستانی یا شدت پسند کہا جا رہا ہے تو آپ کیا جواب دیں گے؟ آپ اسکولوں سے کیا شکایت کریں گے۔ نازیہ ارم نے اپنی کتاب کے لیے جن بچوں سے بات کی انہوں نے بتایا کہ ان سے کون کون سے سوالات کیے جاتے ہیں اور کس کس طرح کے طنز کیے جاتے ہیں۔
ایک پانچ سالہ معصوم بچی کو اس کے ساتھی نے اپنے ساتھ فٹ بال کھیلنے سے یہ کہہ کر منع کر دیا کہ ’’پاکی۔ خبردار جو فٹ بال کو ٹچ کیا تو‘‘ وہ بچی جانتی بھی نہیں پاکی کا مطلب کیا ہے۔ گھر آکر یہ بات اس نے ماں سے پوچھی کہ پاکی مطلب کیا تو اس کی ماں حیران رہ گئی۔
نوئیڈیا کی ایک انٹرنیشل اسکول میں پانچویں کلاس کا سعد اس وقت حیران رہ گیا جب کلاس ٹیچر ایک دہشت گرد حملے کا ذکر کرتے ہوئے کہہ رہی تھی کہ دینا کو کیا ہو گیا تو ایک ساتھی کلاس میٹ نے کلاس میں بآواز بلند کہا کہ ’’سعد تم نے یہ کیا کر دیا؟‘‘ ٹیچر نے نہ ہی بات کا کوئی نوٹس لیا اور نہ ہی اس بچے کو ڈانٹا۔
ایک 17 سال کے لڑکے کو اسکول میں دہشت گرد کہا گیا۔ جب اس کی ماں نے ایسا کہنے والے بچے کی ماں سے رابطہ کیا تو اس کی ماں نے جواب میں کہا کہ ’’تمہارے بیٹے نے میرے بیٹے کو موٹا کہا تھا‘‘
اا سالہ معاذ جو دلی پبلک اسکول میں پڑھتا ہے اس کے ساتھ نہ کلاس کا کوئی بچہ کھیلتا ہے اور نہ ٹفن کھاتا ہےاور نہ اس کا کلاس میں کوئی دوست ہے بلکہ اس معصوم بچے کا پوری کلاس نے بائیکاٹ کر رکھا ہے اور اسے دہشت گرد بلاتے ہیں۔
ایک چھ سالہ بچی کو اسکول کے پہلے ہی دن اس کے ساتھ میں بیٹھنے والے بچے نے پوچھا کیا تم مسلم ہو اس کے ہاں کہتے ہی اس نے اس مسلم بچی کو یہ کہہ کر مارنا شروع کیا کہ ’’میں مسلمانوں سے نفرت کرتا ہوں‘‘۔ جب مسلم بچی کے والدین نے کلاس ٹیچر سے شکایت کی تو اس کا سادہ سا جواب تھا ’’یہ تو ہوتا رہتا ہے‘‘۔
ایک سینئر سیکنڈری کی طالبہ سے اس کی ساتھی لڑکیاں پوچھتی رہتی ہیں ’’کیا تمہارے پاپا طالبان ہیں؟ کیا وہ ہم سب کو ختم کر دیں گے؟‘‘۔
ایک لڑکی سے سوال کیا جاتا ہے ’’کیا تم نہاتے وقت بھی اسکارف پہنتی ہو؟‘‘۔
ایک مسلم فوجی جس نے اپنی جان دیش کے لیے بارڈر پر لڑتے ہوئی دی تھی اس کی بیٹی سے سوال کیا جاتا ہے کہ ’’ہندوستان اور پاکستان کے میچ میں تم کس کو سپورٹ کرو گی؟‘‘
جب بھی کبھی کوئی دہشت گرد حملہ ہوتا ہے ایک بچے کو اس کے کلاس میٹ یہی کہتے رہتے ہیں ’’یہ کیا کر وادیا تم نے؟‘‘
مسلم بچوں کے ساتھ دوسرے مذاہب کے بچے کھیلنا پسند نہیں کرتے ہیں اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ تم دہشت گرد ہو۔
اسی طرح تہواروں کے مواقع پر بھی بالخصوص بقر عید کے موقع پر مسلم طلبا کو ہراساں کیا جاتا ہے۔
اسی طرح ایک سوال جو تقریباً ہر مسلم بچے سے پوچھا جاتا ہے کہ کیا تم پاکستانی ہو؟
یہ چند مثالیں جن کے ذریعے صورتحال کی سنگینی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ نازیہ ارم لکھتی ہیں کہ ’’کھیل کے میدان، کلاس اور اسکول بس میں تک مسلمان بچوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ انہیں دوسرے بچوں سے الگ تھلگ کر دیا جاتا ہے۔ انہیں پاکستانی، آئی ایس، بغدادی اور شدت پسند کہہ کر بلایا جاتا ہے۔‘‘
یہ سروے اپر مڈل کلاس مسلمانوں پر کیا گیا ہے جن کی مالی حالت اچھی ہے اور جن کے بچےاچھے اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں اور جو بڑی سوسائٹیز میں رہتے ہیں۔ دوسری بات ان کی اکثریت لبرل اور سیکولر خیالات رکھنے والوں کی ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا کہ تعلیم یافتہ سماج میں نفرت کا یہ حال تو کم پڑھے لکھے اور عام عوام کا کیا عالم ہوگا۔
ہندوستان میں فرقہ پرستی اور نفرت نے اب سیاست سے باہر نکل سماج کو زہر آلود کر دیا ہے۔ اس کے اثرات سے اب اسکول اور کالجز بھی نہیں بچ پائے ہیں۔ تعلیم گاہوں کا مقصد سماج کو اچھے انسان مہیا کرنا ہے لیکن اب یہ تعلیم گاہیں نفرت کی درس گاہیں بن گئی ہیں۔ ہندوستان بھر میں غیر مسلم اکثریت والے اسکولوں میں پڑھ رہے مسلم طلباء نفرت اور تعصب کا شکار ہیں۔ ان اسکولوں میں مسلم بچوں پر اسلام اور مسلمانوں سے متعلق زہر آلود فقرے کسے جاتے ہیں اور انہیں مستقل ٹارگیٹ کیا جاتا ہے۔ شاید اسی لیے مسلم اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والے طلباء کو جس قدر اپنے دین اور تہذیب سے لگاؤ ہوتا ہے اس کی بہ نسبت غیر مسلم اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والے بچے زیادہ تر اپنی تہذیب سے بیزار اور دین سے بیگانے ہوتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ وہ تعلیم گاہیں ہیں جہاں انہیں مستقل دین اور تہذیب کے حوالے سے ذہنی ٹارچر کیا جاتا ہے۔ دوسری اور اہم بات یہ کہ اسکولس کے یہ بچے ہندوستان کی آنے والی نسلیں ہیں اگر ابھی سے ان کے ذہن اتنے زہر آلود ہوں گے تو ہندوستان کا مستقبل کیا ہوگا۔
تلخ لہجوں کا گلہ ہے لب پر
زہر نسلوں کو پلا رکھا ہے
***
ہندوستان میں فرقہ پرستی اور نفرت نے اب سیاست سے باہر نکل سماج کو زہر آلود کر دیا ہے۔ اس کے اثرات سے اب اسکول اور کالیجیز بھی نہیں بچ پائے ہیں۔ تعلیم گاہوں کا مقصد سماج کو اچھے انسان مہیا کرنا ہے لیکن اب یہ تعلیم گاہیں نفرت کی درس گاہیں بن گئی ہیں۔ ہندوستان بھر میں غیر مسلم اکثریت والے اسکولوں میں پڑھ رہے مسلم طلباء نفرت اور تعصب کا شکار ہیں
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 7 مارچ تا 13 مارچ 2021