ارنب گوسوامی

وہی قاتل وہی منصف عدالت اس کی وہ شاہد

ڈاکٹر سلیم خان

یہ حسنِ اتفاق ہے کہ جمیعت علماء ہند کے بعد اس کے سب سے بڑے مخالف ارنب گوسوامی کو بھی عدالتِ عظمیٰ کے دروازے پر دستک دینے کے لیے مجبور ہونا پڑا ۔ جمیعت سے قاضی اعظم شرد اروند بوبڑے نے صاف کہا کہ ”ہم پریس پر پابندی نہیں لگا سکتے“۔ جسٹس بوبڑے نے پریس کونسل کو فریق بنانے اور مقامی سطح پر پولیس میں شکایت درج کرنے کا مشورہ دیا ۔ عدالت کے اسی حکم پر عمل درآمد کرتے ہوئے کانگریسیوں نے ارنب کے خلاف ملک کے مختلف شہروں میں ایف آئی آر درج کروادی ۔ اس کے خلاف ارنب نے عدالت عظمیٰ سے رجوع کیا تو ان سے بھی یہ کہا جانا چاہیے تھا کہ آپ غلط جگہ آئے ہیں ۔ جس مقامی عدالت سے آپ کو نوٹس ملی ہے وہیں پیروی کریں، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ سپریم کورٹ نے ارنب کو گرفتاری سے تین ہفتوں کی راحت دیتے ہوئے کہا کہ وہ پیشگی ضمانت کی عرضی دائر کرسکتے ہیں (یعنی دائر کرکے تو دیکھیں کہ کس سرعت سے عطا ہوتی ہے) ۔ ارنب نہ تو نولکھا ہے نہ تلتمبڈے بلکہ ان جیسے مبینہ غداروں کا پردہ فاش کرنے والا وفادار صحافی ہے۔ ارنب جیسے لوگوں ہی نے تو بتایا ہے کہ کورے گاوں بھیما میں آنے والے دانشور وزیر اعظم کے قتل کا منصوبہ بنا رہے تھے۔ عدالت نے ان ۶ ریاستوں سے رپورٹ بھی طلب کی جہاں ارنب کے خلاف شکایات درج ہیں۔
سوال یہ ہے کہ ارنب نے حملے کی نو ٹنکی کیوں کی؟ بلکہ اس سے قبل پالگھر کے پروگرام میں سونیا گاندھی پر رکیک حملے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس کا آسان جواب یہ ہے کہ ارنب کا ریپبلک نامی ٹی وی چینل بی جے پی سے تعلق رکھنے والوں کی مالی مدد سے شروع ہوا تھا۔ یعنی یہ چینل بی جے پی کی ناجائز اولاد ہے مگر اس رشتے کو گوناگوں وجوہات کی بناء پر راز میں رکھا جاتا ہے۔ میڈیا کا کام چونکہ دوسروں کے راز افشاء کرنا ہے اس لیے خود اس کے بارے کسی بات کا دیر تک صیغۂ راز میں رہنا ممکن نہیں ہے۔ صحافت کی اصل ذمہ داری حکومت سے سوال کرنا ہے لیکن ارنب ہمیشہ حزب اختلاف سے نہ صرف سوالات کرتا ہے بلکہ ان پر اوٹ پٹانگ الزامات لگاتا ہے ۔ وہ بی جے پی کے مخالفین کی اس درجہ تضحیک و تذلیل کرتاہے کہ اب مزید رسوائی سے بچنے کے لیے کانگریس نے اپنے ترجمان کو ان چینلس پر جانے سے منع کر دیا ہے۔ ارنب کا یہ رویہ اس کے بی جے پی کا بغل بچہ ہونے کی چغلی کھاتا ہے۔ ویسے نمک خواری کوئی بری بات نہیں ہے لیکن اس کی خاطر اپنے مخالفین کو زبان سے زخمی کر کے اس پر نمک پاشی کرنا صحافت نہیں ذلالت ہے۔ ارنب کے بارے میں یہ بھی مشہور ہے کہ اس کے والد منورنجن گوسوامی نے بی جے پی کے ٹکٹ پر 1998میں گوہاٹی حلقے سے انتخاب لڑا تھا اور کانگریس کے مقابلے میں ہار گئے تھے ۔ اس سے مطلب یہ نکالا جاتا ہے کہ اس کی پرورش سنگھی نظریات کے مطابق ہوئی ہے ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ آسام میں سنگھ کبھی مضبوط نہیں تھا۔ وہاں پر بی جے پی نے آسو اور اے جی پی کی مدد سے اپنا رسوخ بڑھایا۔ بی جے پی کی صوبائی حکومت میں شامل کئی رہنماوں بشمول وزیر اعلیٰ کا تعلق آر ایس ایس سے نہیں اے جی پی سے رہا ہے اس لیے منورنجن گوسوامی کا امیدوار ہونے کے سبب سنگھی نظریات کا حامل ہونا ضروری نہیں ہے ۔ یشونت سنہا جیسے سیکڑوں لوگ بی جے پی میں شامل رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گوہاٹی سے دہلی آکر ارنب نے این ڈی ٹی وی میں ملازمت کی جو بڑی حد تک معتدل یا بی جے پی مخالف چینل سمجھا جاتا ہے۔ بیباک رویش کمار وہیں سے حق بات لوگوں تک پہنچاتے ہیں۔ گجرات فساد کے زمانے میں این ڈی ٹی وی نے اس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کو بے نقاب کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا ۔ اس دور میں ارنب اسی چینل میں کام کرتا تھا ۔ اس دوران ایک پروگرام میں ارنب نے یہ انکشاف کیا کہ اس کی گاڑی کو وزیر اعلیٰ کی کوٹھی کے قریب فرقہ پرستوں نے گھیر کر ترشول کے نشانے پر لے لیا ۔ جئے شری رام کا نعرہ لگانے والے بلوائیوں نے ڈرائیور سے اس کے مذہب کے بارے میں پوچھا تو وہ اپنے ہاتھ پر گودا ہوا رام کا نام بتانے کے بعد اپنے آپ کو بچانے میں کا میاب ہوا۔ یہ ویڈیو آج بھی یو ٹیوب پر موجود ہے جس میں مودی اور بی جے پی پر کھلا حملہ کیا گیا تھا۔ آسام میں این آر سی کو لے کر بھی ارنب ایک مرتبہ حکومت اور آر ایس ایس کو نشانہ بنا چکا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ارنب سنگھی نہیں بلکہ موقع پرست ہے۔ اپنے مفاد کی خاطر بی جے پی کے تلوے چاٹنے والا ارنب حسبِ ضرورت اس کی مخالفت بھی کر چکا ہے۔ اس سے زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ اس وقت این ڈی ٹی وی کے لیے میدان کار سے رپورٹنگ کرنے والے راج دیپ سردیسائی نے ارنب کے بیان کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ تو اسٹوڈیو کے اندر بیٹھ کر کام کرتا تھا اس لیے وہ واقعہ اس کے ساتھ پیش ہی نہیں آیا۔ وہ جھوٹ بول رہا ہے ۔
مذکورہ کذب گوئی کی روشنی میں حالیہ حملے کو دیکھیں تو یہ بھی جھوٹ کا پلندہ معلوم ہوتا ہے۔ ارنب کا دفتر اس کے گھر سے پانچ منٹ کے فاصلے پر ہے۔ اس کو 2016 سے وائی سیکیورٹی حاصل ہے ۔ جس کے تحت اس کی حفاظت پر 21 اہلکار تعینات رہتے ہیں ۔ ان سب کے ہوتے دو لوگ اسکوٹر پر آکر ارنب کی گاڑی پر سیاہی ڈال کر چلے جاتے ہیں ۔ اس کے بعد سیکیورٹی والے ان کو پکڑ کر فوراً اس بات کا پتہ لگا لیتے ہیں کہ انہیں یوتھ کانگریس نے بھیجا تھا لیکن پھر پولیس کے حوالے کرنے کے بجائے چھوڑ دیا جاتا ہے ۔ ایسا تو سڑک چھاپ کامیڈی فلم میں بھی نہیں ہوتا ۔ ارنب کے اس جھوٹ پر اندھے بھکت تو ایمان لے آئیں گے ۔ پریس کونسل بھی اس کی مذمت کر دے گی لیکن عقل رکھنے والا عام آدمی کیسے یقین کرے گا؟ حکومت اور ارنب جیسے لوگوں کی بدولت رپورٹرز ودآوٹ بارڈر نامی عالمی تنظیم نے گزشتہ ہفتے جاری 2020 ورلڈ پریس فریڈم انڈکس میں سال 2019 کے لیے ہندوستان کو 180 ملکوں کی فہرست میں مزید دو پوائنٹ گرا کر 142 ویں مقام رکھا ہے۔ پرم بھکت ارنب گوسوامی اور اس کے سوامی اس کے لیے ذمہ دار ہیں ۔
ارنب کو اس طرح کے تماشے کی فی الحال بہت سخت ضرورت ہے۔ اس دور میں ٹی وی چینل چلانا نہایت مشکل کام ہے ۔ کورونا وائرس نے جو معاشی تباہی پھیلائی ہے اس کے سبب اشتہارات تقریباً ختم ہوگئے ہیں ۔ وہی اشتہار آرہا ہے جس کی طویل معاہدے کے تحت ادائیگی ہو چکی ہے ۔ اس لیے ٹی وی چینلس سمیت ذرائع ابلاغ کے اچھے دن تو کورونا وائرس کی نذر ہو چکے ۔ نجی اداروں نے اگر ہاتھ کھینچ لیا تو پھر سرکار اور سیاسی جماعتیں بچ جاتی ہیں ۔ فی الحال سرکار بی جے پی کی ہے اور سب سے زیادہ چندہ بی جے پی کے خزانے میں جمع ہے۔ اسی پر نظر رکھ کر ارنب اور اس جیسے ضمیر فروش صحافی فسطائیت کا یہ ننگا ناچ کر رہے ہیں ۔ ان کو اطمینان ہے کہ زہر افشانی سے اگر ملک میں آگ بھی لگ جائے تو سرکار ان کی حفاظت وائی سے بڑھا کر زیڈپلس کر دے گی۔ عام صحافی کورونا کا شکار ہوتے رہیں گے جیسا کہ ممبئی میں پچاس اس سے متاثر پائے گئے ہیں لیکن ان بدمعاشوں کا بال بیکا نہیں ہوگا ۔ عدالت ان کو پیشگی ضمانت سے نواز دے گی اور حکومت اشتہار کی شکل میں پیشگی دولت نچھاور کرتی رہے گی۔ بات سپریم کورٹ سے شروع ہوئی تھی اس لیے پھر وہیں چلتے ہیں ۔ انصاف کے اس سب سے بڑے مندر میں ارنب گوسوامی اور جمیعت علماء ہند کے ساتھ روا رکھے گئے دہرے رویہ کو ہندوستانی روایت میں موجود خاندانی نظام کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ مودی یگ میں سنگھ پریوار کی پرمپرا کو خاصا فروغ ملا ہے۔ آئین کی رُو سے متحدہ ہندو خاندان میں سارے حقوق بڑے بیٹے کے حق میں محفوظ ہوتے ہیں۔ اس کو من مانی کرنے کی کھلی چھوٹ ہوتی ہے۔ شادی کے بعد وہ نہ صرف اپنے سسرال بلکہ پورے محلے کا داماد کہلاتا ہے ۔ اسی لیے ارنب پر ہونے والے جعلی حملے کی مذمت کرنے میں مرکزی وزیر پرکاش جاوڈیکر نے بالکل تاخیر نہیں کی۔ اس مذمت پر اعتراض کرنے والے یہ بھول گئے کہ پرکاش جاوڈیکر پارٹی کے ترجمان بھی ہیں ۔ ایک کھلے ترجمان کا فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے خفیہ ترجمان کی حمایت کرے اور عدالت عظمیٰ پر بلا واسطہ ظاہر کرے کہ اس داماد کی اپنے سسرال میں کیا قدرو منزلت ہے ۔ حکومت کے ساتھ اپنے خوشگوار تعلقات کا اعتراف چیف جسٹس عہدہ سنبھالنے کے اول روز کر چکے ہیں۔ اس کے برعکس جمیعت کے ساتھ بہو کا سا سلوک کرتے ہوئے عدالت نے دو ہفتہ بعد کی تاریخ تھما کر واضح کر دیا کہ ہم پتی دیو پر کوئی اقدام نہیں کرسکتے ۔ آپ سسر جی یعنی پریس کونسل کو فریق بناکر مقامی پولیس تھانے سے رجوع ہوں ۔
ارنب کا موازنہ گلف نیوز (دبئی) کے فیچر ایڈیٹر مظہر فاروقی سے کرنا دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا۔ پردیس جانے سے قبل وہ لکھنؤ میں ہندوستان ٹائمز جیسے مؤقر اخبارمیں کام کرچکے ہیں۔ ان کی تفتیشی رپورٹس نے انہیں متعدد اعزازات کا حقدار بنایا ہے۔ ابھی حال میں وہ متحدہ عرب امارات اور خلیجی ممالک میں برسرِ ملازمت ہندوستانی تارکین وطن باشندوں کی اسلامو فوبک سوشل میڈیا پیغامات کو بے نقاب کرنے لیے موضوعِ بحث بنے ہوئے ہیں ۔ اس کے سبب پولیس کارروائی ہوئی اور چند لوگوں کو برخاست بھی کیا گیا ہے ۔ اس حق گوئی کے سبب مظہر فاروقی کو ای میل، واٹس ایپ، فیس بک اور ٹویٹر پر گالیاں اور دھمکی آمیز پیغامات موصول ہورہے ہیں۔ ان سے کہا جارہا ہے کہ وہ سیکیورٹی ایجنسیوں کی نظر میں ہیں ہندوستان میں ان کے مستقبل کی آزادی غیر یقینی ہے۔ وطن واپسی پر جیل جانا پڑے گا۔ وہ بیٹیوں سمیت ہٹ لسٹ میں ہیں ۔ دبئی حکام کو ورغلایا جارہا ہے کہ اس شیعہ کے تعلقات ایران سے ہیں۔ یہ بھکت نہیں جانتے کہ امارات کے نظام میں ہر اہم آدمی کی ایک ایک حرکت سے حکومت واقف ہوتی ہے اس لیے اس کو گمراہ کرنا ناممکن ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر کل کو مظہر فاروقی اپنے تحفظ کی خاطر عدالت عظمیٰ سے رجوع کریں تو ان کو کیسا جواب ملے گا۔ ارنب جیسا یا جمیعت جیسا؟ اس سوال کا جواب ملک زادہ منظور کے اس شعر میں پنہاں ہے؎
وہی قاتل وہی منصف عدالت اس کی وہ شاہد
بہت سے فیصلوں میں اب طرف داری بھی ہوتی ہے
***

ان کو اطمینان ہے کہ زہر افشانی سے اگر ملک میں آگ بھی لگ جائے تو حکومت ان کی حفاظت وائی سے بڑھا کر زیڈپلس کردے گی۔ عام صحافی کورونا وائرس کا شکار ہوتے رہیں گے جیسا کہ ممبئی میں پچاس اس سے متاثر پائے گئے ہیں لیکن ان بدمعاشوں کا بال بیکا نہیں ہوگا ۔ عدالت ان کو پیشگی ضمانت سے نواز دے گی اور حکومت اشتہار کی شکل میں پیشگی دولت نچھاور کرتی رہے گی