اداریہ

الٹا چور کوتوال ڈانٹے

ہندوستان کی سب سے بڑی اور منظم سمجھی جانے والی سماجی تنظیم آر ایس ایس کو ملک میں آئین اور مذہبی آزادی کے نام پر بڑھتی ہوئی مذہبی شدت پسندی سے خطرہ محسوس ہونے لگا ہے۔ گجرات کے دارالحکومت احمد آباد میں تنظیم کی سب سے اعلیٰ فیصلہ ساز مجلس اکھل بھارتیہ پرتی ندھی سبھا نے کل ہند مجلس نمائندگان کے اجلاس میں پیش کی گئی سالانہ رپورٹ میں اس بات پر تشویش کا اظہار کیا گیا کہ ملک میں بعض تنظیمیں مذہبی آزادی کے نام پر شدت پسندی کو ہوا دے رہی ہیں۔ کیرالا اور کرناٹک میں ہندو تنظیموں سے وابستہ کارکنوں کا قتل اس مذہبی شدت پسندی کی کچھ مثالیں ہیں۔ آر ایس ایس کو اس بات پر بھی کافی تشویش ہے کہ آئین اور مذہبی آزادی کے نام پر یہاں فرقہ ورانہ جنون، مختلف قسم کے جلسے جلوس اور ریلیوں کا اہتمام ہوتا رہتا ہے جس کے سبب چھوٹی چھوٹی باتوں کو لے کر تشدد برپا کیا جاتا ہے اور غیر قانونی سرگرمیاں انجام دی جاتی ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ایک مخصوص طبقے کے لوگوں نے حکومتی مشنری میں داخل ہونے کی ایک تفصیلی منصوبہ بندی اور سازش کی ہے۔ اس رپورٹ میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ ملک کے مختلف حصوں میں منصوبہ بند طریقے سے ہندووں کا مذہب تبدیل کروانے کی کوشش کی جا رہی ہے جسے منظم انداز سے روکنے کی ضرورت ہے۔ رپورٹ میں اس بات پر بھی تشویش ظاہر کی گئی ہے کہ بعض ہندوؤں کی جانب سے ہندو سماج کو کمزور کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں اور جیسے جیسے مردم شماری کا سال قریب آرہا ہے ان میں کا ایک گروہ اس بات کی تشہیر کر رہا ہے کہ وہ ہندو نہیں ہیں۔
۱۲ مارچ کو جاری کردہ یہ رپورٹ اگرچہ اس کی اپنی تنظیمی ضرورت کے لیے اپنی ایک مجلس کے سامنے پیش کی گئی ہے لیکن چونکہ یہ عوامی سطح پر بھی جاری کی گئی ہے اس لیے اس رپورٹ کا جائزہ لیا جانا چاہیے۔ رپورٹ کا مطالعہ اور جائزہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ آر ایس ایس اس وقت محض کوئی عام سماجی تنظیم نہیں ہے بلکہ یہ موجودہ حکمراں گروہ کی نظریاتی سرپرست تنظیم بھی ہے۔
آر ایس ایس نے اس رپورٹ میں جس طرح ثبوتوں اور دلائل کے بغیر مذکورہ بالا دعوے کیے ہیں ان پر سر پیٹ لینے کو جی چاہتا ہے۔ کیوں کہ ان کے ذریعے اس نے نہایت ہی عیاری کے ساتھ سارا ملبہ کمزوروں ومظلوموں پر ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ یہ بات کس سے پوشیدہ ہے کہ اس وقت ملک میں کس قسم کی مذہبی شدت پسندی میں اضافہ ہو رہا ہے؟ گو رکھشا کے نام پر اور دیگر موضوعات کو بنیاد بنا کر کن لوگوں کی ماب لنچنگ ہو رہی ہے؟ وہ کون سی تنظیم کی ٹولیاں ہیں جو ایک تنہا لڑکی کو بھی اپنے مذہبی شعار کی پابندی سے روکنے کی کوشش کر رہی ہیں اور وہ کونسی پارٹی کے لوگ ہیں جو ملک میں کھلے عام مسلمانوں کی نسل کشی کی بات کر رہے ہیں؟ تعجب تو اس بات پر ہے کہ یہ سب کچھ تو پوری دنیا کو دکھائی دے رہا ہے اور لوگ دنیا کے کونے کونے سے اس پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں بلکہ مذمت کر رہے ہیں لیکن آر ایس ایس کو دکھائی نہیں دے رہا ہے اور وہ اپنے سب سے اعلیٰ اجلاس میں اس کی مذمت تو دور اس پر تشویش کا تک اظہار نہیں کرتی؟ میسوچوسیٹ انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی کے پروفیسر نوم چومسکی نے اپنے ایک ویڈیو بیان میں کہا کہ اسلامو فوبیا کا مرض اب پورے مغرب میں بڑھ رہا ہے لیکن ہندوستان میں اس نے نہایت ہی مہلک رخ اختیار کر لیا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ انسانی سماج کے لیے کسی بھی قسم کی انتہا پسندی نقصان دہ ہے لیکن آر ایس ایس جو خود کو ایک ذمہ دار، ملک کی بہی خواہ اور سب سے بڑی سماجی تنظیم کہلواتی ہے اس کا فرض تھا کہ وہ ان مسائل پر بھی تشویش کا اظہار کرتی اور ان کے تدارک کا حکومت سے مطالبہ کرتی جو ملک میں اس وقت سر اٹھائے ہوئے اور جن کی وجہ سے ہمارا ملک پوری دنیا میں بدنام ہو رہا ہے۔
رپورٹ میں ایک مخصوص طبقے کی جانب سے سرکاری مشنری میں داخل ہونے کی کوشش پر جس طرح تشویش کا اظہار کیا گیا ہے وہ بھی حیرت انگیز ہے۔ آر ایس ایس کو آخر اس بات پر تشویش کیوں ہے کہ ایک خاص طبقے کے لوگ حکومتی مشنری میں داخل ہونے کوشش کر رہے ہیں؟ کیا اس کے خیال میں وہ اس ملک کا حصہ نہیں ہیں؟ سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق حکومتی مشنری میں ان کا تناسب ان کی آبادی کے لحاظ سے انتہائی کم ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ تھا کہ حکومت خود سرکاری اداروں میں ان کے متناسب داخلے کی منصوبہ بندی کرتی لیکن اگر وہ ان کے تئیں اپنی یہ ذمہ داری پوری نہیں کر رہی ہے اور متعلقہ گروہ خود اپنے طور پر اس طرح کی کوششیں کر رہا ہے تو اسے پریشانی کس بات کی ہے؟ کیا اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ خود کچھ طبقات کو جان بوجھ کر سرکاری مشنری سے دور رکھ کر انہیں سماجی طور پر پچھڑے پن کا شکار بنانا چاہتی ہے؟
آر ایس ایس نے اپنی اس رپورٹ میں ایک بار پھر تبدیلی مذہب کا پرانا راگ الاپنے کی کوشش کی ہے۔ یہ بات تو ایک معمولی سا ذہن رکھنے والا بھی سمجھ سکتا ہے کہ کوئی بھی فرد محض لالچ یا جبر سے اپنا مذہب تبدیل نہیں کرتا، وہ بھی اس وقت جب کہ اس مذہب کے ماننے والے خود ملک میں ظلم وجبر کا شکار ہوں۔ آر ایس ان باتوں سے کب تک اکثریت کو بے وقوف بناتی رہے گی۔ مزید یہ کہ آر ایس ایس کو آئین میں دی گئی مختلف آزادیوں سے بھی پریشانی ہے اس لیے اس نے بار بار اس بات کا ذکر کیا ہے کہ کچھ طبقات آئین میں دی گئی آزادیوں کے نام پر اس طرح کے کام کر رہے ہیں۔ کیا آر ایس ایس یہ چاہتی ہے کہ آئین میں دی گئی مختلف قسم کی آزادیاں ختم کر دی جائیں اور ملک میں ایک کلیت پسندانہ نظام قائم ہو جائے؟ در اصل مختلف ریاستوں کے انتخابی نتائج کے بعد اسے یہ خوش فہمی ہو گئی ہے کہ وہ اب یہ کام آسانی کے ساتھ کر سکتی ہے۔ لیکن اسے یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ کسی بھی سماج کے عوام کو اس طرح کی بے بنیاد باتوں کے ذریعے بہت دنوں تک گمراہ نہیں کیا جا سکتا اور جب لوگوں کے سامنے ان باتوں کی حقیقت کھلتی جائے گی تب اس کے پیروں تلے زمین کھسکتی جائے گی۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  20 تا 26 مارچ  2022