سپریم کورٹ نے بنیادی فرائض کے قانوناً نفاذ سے متعلق مفاد عامہ کی ایک درخواست کی سماعت کے بعد مرکزی حکومت اور ریاستوں سے جواب طلب کیا ہے۔ درگا دتا کی جانب سے دائر کردہ مفادہ عامہ کی اس عرضی میں سپریم کورٹ سے اس بات کی درخواست کی گئی تھی کہ آئین کی دفعہ ۵۱ (اے) میں درج بنیادی فرائض کو قانونی طور پر نافذ کیا جائے۔ مفاد عامہ کی اس عرضی میں مرکزی اور ریاستی حکومتوں سے اپیل کی گئی تھی کہ دستور کی مذکورہ دفعہ ۵۱ (اے) کی پابندی کو یقینی بنانے کے لیے جامع قوانین بنائے جائیں۔ عرضی گزار کا کہنا ہے کہ ملک میں احتجاج کرنے والوں کی جانب سے احتجاج کے دوران اظہار خیال کی آزادی کے نام پر اختیار کیے جانے والے غیر قانونی طریقہ کار کے رجحان کے باعث اس امر کی شدید ضرورت محسوس ہورہی ہے کہ شہریوں کے بنیادی فرائض کو قانوناً نافذ کیا جائے۔ عرضی میں کووڈ وبا کے دوران میڈیا رپورٹوں کی نوعیت پر بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ ٹی وی اور سوشل میڈیا میں کورونا کے خلاف لڑائی کو فرقہ ورانہ رنگ دینے کے لیے غلط انداز سے رپورٹنگ کی گئی تھی۔ ۲۱ فروری کو سپریم کورٹ میں جسٹس سنجے کشن کول اور جسٹس ایم ایم سندریش کی بنچ نے مفاد عامہ کی اس عرضی پر سماعت کی اور مرکز و ریاستوں کو نوٹس بھیج کر اس پر جواب طلب کیا ہے۔ واضح رہے کہ بھارت کے آئین میں بنیادی فرائض کی یہ دفعہ پہلے سے موجود نہیں تھی بلکہ ۱۹۷۶ء میں ایمرجنسی کے دوران اندرا گاندھی حکومت نے ۴۲ویں آئینی ترمیم کے ذریعے بھارت کے آئین میں اس دفعہ کو شامل کیا تھا۔ ۴۲ویں ترمیم کے ذریعے اندرا گاندھی کی حکومت نے آئین میں بے شمار ترمیمات کی تھیں۔ یہ ترمیمات اس قدر زیادہ تھیں کہ بعض لوگوں نے اسے چھوٹا آئین قرار دے دیا تھا۔ لیکن سپریم کورٹ نے ان میں سے اکثر ترمیمات کو منسوخ کر دیا تھا۔ لیکن مذکورہ دفعہ برقرار رہی۔ اس دفعہ کے تحت شہریوں پر دس بنیادی فرائض عائد کیے گئے ہیں جن میں بھارتی آئین کی پابندی اور قومی ترانے و پرچم کے احترام کے علاوہ جدوجہد آزادی کے دوران اختیار کیے گئے عظیم افکار کی پابندی اور ان کی ترویج، ملک کی سالمیت ویکجہتی کا تحفظ، ملک کے تمام لوگوں کے درمیان ہم آہنگی اور بھائی چارے کا فروغ، ملک کی مشترکہ تہذیب وثقافت کی حفاظت، ماحولیات کا تحفظ، سائنسی مزاج اور تحقیق کے جذبے کا فروغ، انفرادی و اجتماعی زندگی کے تمام شعبوں میں عمدگی کے لیے جدوجہد وغیرہ جیسے ‘فرائض’ شامل ہیں۔ "بنیادی فرائض” کی یہ دفعہ یقیناً ہمارے ملک کے بنیادی ڈھانچے کی حفاظت، یہاں پرامن اور ترقی پذیر زندگی کو یقینی بنانے اور عدلیہ کے بشمول ملک کے مختلف اہم اداروں کی سالمیت اور استحکام کو محفوظ رکھنے کا ایک اہم ترین وسیلہ ہے۔
اس وقت ملک کی صورت حال اس قدر ابتر ہو چکی ہے کہ قانونی مناصب پر فائز افراد اور مختلف لوگوں کی جانب سے ان بنیادی فرائض کی عدم تکمیل کے سبب ملک میں ہم آہنگی کے بجائے نفرت اور تعصب کا دور دورہ ہوچکا ہے۔ وہ مشترکہ تہذیب وثقافت جس میں تمام مذاہب کے لوگ پوری آزادی کے ساتھ اپنے اپنے مذاہب و تہذیبوں کے مطابق امن کے ساتھ زندگی کزارتے تھے خطرے کی زد میں آچکی ہے۔ لوگوں کے لیے اپنے مذہب پر عمل کرنا دشوار ہوتا جا رہا ہے۔ جب کہ مختلف مذاہب اور مختلف ثقافتوں کا تحفظ ایک بنیادی فرض قرار دیا گیا ہے۔
آئین میں کہا گیا ہے کہ ملک میں سائنسی مزاج اور تحقیق وجستجو کا جذبہ فروغ دیا جائے لیکن اس وقت برسر اقتدار گروہ کے افراد جو ملک میں ذمہ دارانہ مناصب پر فائز ہیں وہ توہمات کو بھی سائنسی مسلمات کی طرح بیان کر رہے ہیں۔ دیو مالائی قصوں اور اساطیر کو سائنس کا نام دے کر علم وتحقیق کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ اس طرح ملک میں ایک غیر سائنسی مزاج کو پروان چڑھا کر لوگوں سے تحقیق وجستجو کا جذبہ ہی ختم کرنے کے سارے سامان کیے جارہے ہیں۔ حکومت پر فائز افراد کی فرائض سے بے توجہی کے سبب عدلیہ اور میڈیا کے بشمول ملک کے اہم جمہوری ادارے اپنا کام کرنے سے قاصر ہیں اور مسلسل اپنی اہمیت کھوتے جا رہے ہیں۔ جس کے نتیجے میں دوسرے شہریوں کے بنیادی حقوق کا اتلاف ہو رہا ہے۔ کسی بھی معاشرے کو پر امن رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ فرائض اور حقوق کے درمیان توازن واعتدال برقرار رہے۔ شہریوں، بالخصوص ذمہ دارانہ مناصب پر فائز افراد کی جانب سے فرائض کی عدم تکمیل کا مطلب عوام اور دوسرے شہریوں کے حقوق کا اتلاف ہے۔ کیوں کہ ایک کا فرض دوسرے کا حق ہوتا ہے۔
اگرچہ حالات ایسے ہیں کہ مذکورہ دفعہ کے تحت آئین میں جو فرائض طے کیے گئے ہیں انہیں قانونی طور پر نافذ کرنے کا مطالبہ درست محسوس ہوتا ہے لیکن اس کے کچھ منفی پہلو بھی ہیں۔ کلیت پسندانہ نقطہ نظر کی حامل حکومتیں فرائض کے نفاذ کے نام پر عوام بالخصوص اقلیتوں کے حقوق کو دبانے کے بہانے تلاش کریں گی۔ اسی حکمت کے تحت آئین میں اس کو بنیادی حقوق کی طرح قابل قانونی چارہ جوئی نہیں بنایا گیا
ہے۔ یہاں حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ خود ان فرائض کی تکمیل کے لیے سنجیدہ ہو اور لوگوں میں ان کے تئیں شعور بھی پیدا کرے اور اس کے لیے سنجیدہ اقدامات بھی کیے جائیں۔
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 27 فروری تا 05مارچ 2022