وبائی صورتحال نے کرہ ارض اور ملک کے کسی شعبہ کو متاثر کیے بغیر نہیں چھوڑا۔ ڈسمبر 2019 میں جب کورونا وائرس نے سر اٹھایا تھا تب کسی نے نہیں سوچا تھا کہ یہ وائرس جنگل کی آگ کی طرح دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ جن ممالک نے بر وقت بیداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے حسب موقع و ضرورت اقدامات کیے تھے انہوں نے خود کو بڑی تباہی سے بچالیا جبکہ سپر پاور امریکہ نے مختلف ریاستوں کو ان کے حال پر چھوڑ رکھا تھا اور خود اس کے سابق صدر ڈونالڈ ٹرمپ کورونا اور ماسک دونوں کا سرِعام مذاق اڑاتے دیکھے گئے تھے نتیجے میں وہ کورونا وائرس سے ہونے والی اموات کے معاملے میں بعض چھوٹے یوروپی ممالک سے بھی آگے نکل گیا۔ چنانچہ ڈسمبر 2021 کے پہلے ہفتے تک کل سات لاکھ 87 ہزار اموات وہاں درج ہوئیں جبکہ قریب پانچ کروڑ لوگ کورونا سے متاثر ہوئے ہیں۔ قریب دو ماہ بعد جس وقت ڈونالڈ ٹرمپ کا گجرات میں بنائے گئے ایک بڑے کرکٹ اسٹیڈیم میں ’نمستے ٹرمپ‘ نامی پروگرام میں سرخ قالین بچھا کر استقبال کیا جا رہا تھا عین اسی وقت یہ وائرس بھارت کی چوکھٹ میں قدم رکھ رہا تھا لیکن اس کے باوجود ہم اس کی آہٹ کو سننے میں ناکام ہوئے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اب تک بھارت میں چار لاکھ 74 ہزار کورونا سے ہونے والی اموات درج ہو چکی ہیں اور قریب ساڑھے تین کروڑ شہری اس سے متاثر ہوئے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ سرکاری اعدادو شمار صورتحال کی مکمل تصویر پیش نہیں کرتے بالخصوص اس وبائی صورتحال میں تجزیہ نگاروں نے اس کو چار گنا سے لے کر دس گنا تک زائد ہونے کا اندیشہ ظاہر کیا ہے۔
حکومت ہند نے ابتدائی دنوں میں اس وائرس سے ہلاک ہونے والوں کے لواحقین کو چار لاکھ روپے راحت دینے کا ایک سانس میں اعلان کر دیا تھا اور دوسری سانس میں اس کو واپس بھی لے لیا۔ لاک ڈاؤن جوں جوں طویل ہوتا چلا گیا عوام انتظامیہ اور حکومت ہر ایک کا صبر جواب دینے لگا۔ محلے اور اپارٹمنٹ میں اکا دکا کورونا مثبت کیس درج ہونے پر ارد گرد کے علاقوں کی ناکہ بندی کر دی جانے لگی تھی۔ کنٹینمنٹ زون، کورونا کرفیو، قرنطینہ اور منفی تاثر کو مستحکم کرنے والا لفظ ’مثبت‘ زبان زد خاص و عام ہو گیا تھا۔
سب سے زیادہ جانی نقصان کورونا کی دوسری لہر 2021 کی دوسری سہ ماہی کے دوران ہوا جب لوگوں نے دیکھا کہ آکیسجن کی کمی کے باعث کیسے مریضوں کی سانسیں اکھڑ رہی تھیں۔ اس وقت نہ عہدہ نہ پیسہ نہ اقتدار نہ مہارت کوئی چیز بھی کسی کے کام نہیں آ رہی تھی۔ حکومت نے عوام کو ’رام بھروسے‘ چھوڑ دیا تھا۔ موسم گرما کی تپتی دھوپ میں لاکھوں مزدوروں کا ہائی وے سے گزرنا ہو یا قانون کی رکھوالی کے نام پر سڑک کے کنارے سبزی والوں کے ٹھیلوں کو پلٹا دینا ہو، عوام کی زندگی کو اجیرن بنا دینے کے لیے یہی کیا کم تھا کہ نفرت، فرقہ واریت اور تعصب کا بیج کچھ اس ہوشیاری سے بو دیا گیا تھا کہ حکمرانوں کی بانچھیں کھل اٹھیں۔ تبلیغی جماعت کے دلی مرکز پر اپنی ناکامیوں کا ٹھیکرا پھوڑ دیا گیا اور پھر جس طرح کا کریک ڈاؤن پورے ملک میں روا رکھا گیا اور جس جلتی میں گھی ڈالنے کام بھارتی ذرائع ابلاغ کے ایک حصہ نے پوری مستعدی سے کیا اس کی پول اب جا کے سال ڈیڑھ سال بعد کھل سکی ہے۔ ملک اور دنیا میں جگ ہنسائی کرالینے کے بعد بادل ناخواستہ ہی سہی وزیر خزانہ کے ذریعہ ایک لولے لنگڑے معاشی پیکیج کا اعلان کروادیا گیا۔ ویکسین کی پیداوار اور بیرون ممالک کو فروخت نیز غربت کے مارے کچھ شہریوں کو مفت راشن دینے کا اعلان ملمع کاری سے زیادہ کچھ نہیں تھا ورنہ معیشت کو کندھا دینے اور سرمایہ کاری کو فروخت دینے کے نام پر جس طرح سے ریاستی اور مرکزی حکومتوں نے مزدور قوانین میں ڈھیلا پن پیدا کیا اس نے ان کے حقوق پر شب خون ہی مار دیا۔ پارلیمانی روایتوں کو روندتے ہوئے متعدد صدارتی حکم نامے (آرڈیننس) لا کر جمہوریت کا گلا گھونٹا گیا اور بالخصوص اقلیتوں اور کسانوں کو احتجاجاً سڑکوں پر اترنے پر مجبور کیا گیا اور دونوں ہی انتہائی متنازعہ قوانین سازی میں حکومت نے اپنے ہاتھ کالے کر لیے۔
اب جبکہ مطلع صاف ہونے لگا ہے تو کورونا کی بد انتظامیوں کی پرتیں کھلتی جا رہی ہیں۔ آر ٹی آئی کے تحت پی ایم کیئر فنڈ اور الیکٹورل بانڈ یہاں تک کہ بڑے بڑے بینکوں کے بڑے، نیز درباری سرمایہ کاروں کو دیے گئے قرضوں کی تفصیلات کو جاری کرنے سے روک دیا گیا لیکن نیتی آیوگ (سابقہ پلاننگ کمیشن) ہی کی رپورٹ نے اجاگر کر دیا کہ بہار، اتر پردیش اور ہندی بیلٹ میں ہی سب سے زیادہ غربت ہے۔
دوسری جانب بی بی سی کی آرٹی آئی نے کچھ یوں پول کھول دی کہ مصیبت کے مارے بھارتی شہریوں نے پہلے تو آکسیجن، آئی سی یو اور اسپتالوں میں بلوں کی ادائیگی کے لیے اور پھر ملازمت کھو دینے کے بعد گھر کے اخراجات چلانے کے لیے یا یوں کہیے کہ مزید زندہ رہنے کے لیے اور چھوٹے بڑے کاروبار چلانے کے لیے اربوں روپے کے قرضے لیے اور اب اونچی شرح سود کی قسطیں لوٹاتے ہوئے ان کی بھی سانسیں بھی اکھڑتی جا رہی ہیں۔ ایک تازہ رپورٹ کے مطابق جاریہ مالی سال کے دوران صرف ریاست تلنگانہ میں زرعی زمینات کے ساٹھ ہزار سودے ہر ماہ کیے گئے ہیں۔ اس طرح اس ایک سال کے دوران تلنگانہ حکومت نے قریب نو سو چالیس کروڑ روپے محض ان زمینات کی رجسٹری فیس کے طور پر وصول کیے ہیں۔
آنے والے دنوں میں صحت، معیشت، روزگار، کاروبار وغیرہ تمام ہی شعبوں میں ہماری ابتری کے مزید ثبوت باہر آسکتے ہیں۔ کیا یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ عوام کے ووٹوں پر سوار ہو کر اقتدار کی کرسی پر براجمان ہونے والے حکمراں ان کو یوں بیچ منجدھار میں چھوڑ تو نہیں دیں گے؟ اگر ایسا ہوتا ہے تو امیر اور غریب کے بیچ کی خلیج مزید گہری ہوتی چلی جائے گی اور تعصب، تفریق اور نفرت کا بہتا دریا رہی سہی کسر پوری کر ڈالے گا۔ ایسے مفلوج جسم کو لے کر ہم ’وشو گرو‘ بننے کا خواب بھلا کیونکر پورا کر سکیں گے۔ آخری امید امن وانصاف کے طرفدار جہد کاروں اور ملک وانسانیت کو بچانے کے لیے سرگرم تنظیموں اور اداروں سے وابستہ ہے کہ وہ درد کا درماں کریں گے اور سب سے زیادہ فرض ملت اسلامیہ کا بنتا ہے جس کے پاس خالق کائنات کا بھیجا ہوا مژدہ جانفزا موجود ہے اور وہ ایک حقیقی فلاحی ریاست کے قیام کے لیے رہنما خطوط اپنے پاس رکھتی ہے۔
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 12 تا 18 دسمبر 2021