اداریــــہ

کسان ہی جمہور ہیں

 

ملک کے کاشت کار بالآخر اپنے احتجاج کے تیرہویں دن بھارت بند کی کال دینے پر مجبور ہو گئے۔ ۱۲ ریاستوں کی درجنوں کسان تنظیموں اور تقریباً تمام ہی حزبِ اختلاف نے اس بند کی تائید کی ہے۔ حکومت کے ساتھ ابھی تک چھ سات راؤنڈ کی بات چیت نا کام ہو چکی ہے اور مذاکرات کامیاب ہوتے دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔ کیوں کہ کسان متنازعہ زرعی قوانین کی منسوخی سے کم پر راضی نہیں ہیں اور حکومت اسی ’غلط فہمی‘ میں وقت کاٹتی رہی کہ وہ کسانوں کی ’’غلط فہمی‘‘ کو اپنے ہٹ دھرمی والے رویے سے دور کر دے گی۔ ۲۵ نومبر کو کسان جس آہنی عزم، مستقل مزاجی اور ایک طویل المیعاد احتجاج کی پختہ تیاریوں کے ساتھ اپنے گاؤں، دیہاتوں سے نکل کھڑے ہوئے اس نے دکھا دیا کہ کس طرح انہوں نے دارالحکومت دلی کے ارد گرد تقریباً ٧٥ مربع کلو میٹر کے رقبے پر اپنی گاڑیوں اور ساز و سامان کے ساتھ ڈیرہ ڈالا ہوا ہے اور وہ اپنی بات منوائے بغیر واپس ہونے والے نہیں ہیں۔ پنجاب سے نکل کر ملک گیر سطح کی حمایت حاصل کر لینے والے اس احتجاج سے حکومت کی چولیں ہل جانی چاہئیے تھیں لیکن حکومت ٹس مس نہیں ہوئی۔ اور اس کے ذمہ دار کبھی بنارس کے گھاٹوں پر رنگ و بُو اور موسیقی کے درمیان جھومتے ہوئے دیکھے گیے تو کبھی دلی کوچ کرنے والے احتجاجیوں کی توہین کرتے ہوئے، کورونا کے خوف سے بے پروا حیدرآباد کی گلیوں میں ووٹ بٹورنے کے لیے روڈ شو کر رہے تھے اور عوام کو اُس نظام کے خلاف ورغلا رہے تھے جس نے زرعی شعبے کی ترقی کے لیے کئی ڈیمس اور نہریں بنوائیں اور اپنی وسیع و عریض مملکت میں کھیتی باڑی، آب رسانی اور دیگر بڑے ترقیاتی منصوبوں کی بنیاد رکھی جن سے آج تلنگانہ کا ہر شخص فائدہ اٹھا رہا ہے۔
ایم ایس پی کو قانونی حق کے طور پر تسلیم کرنے اور موجودہ تینوں زرعی قوانین کو کالعدم قرار دینے کے مطالبات کیا واقعی اپوزیشن کے ’بہکانے‘ یا ’غلط فہمی‘ کی بنیاد پر کیے جا رہے ہیں؟ خود این ڈی اے کی سب سے قدیم حلیف شرومنی اکالی دَل نے مودی کابینہ اسی ایشو پر چھوڑ دی۔ بی جے پی نے کسانوں کے چھوٹے بڑے احتجاجوں کو مقامی بتا کر ان کی تضحیک کی اور ان کو توہین آمیز القاب سے نواز کر ان کی تذلیل کا پورا سامان کیا۔ ان القاب کو سی اے اے اور این آر سی مخالف احتجاجوں کے دوران ملک کے مسلمان بھی جھیل چکے ہیں۔ دوسری جانب یہ حکومت جس مردِ آہن کی دُہائیاں دیتے نہیں تھکتی اسی نے ۱۹۲۸ میں کسانوں پر انگریزوں نے جب ۲۲ فی صد ٹیکس عائد کیا تھا تو گجرات کے بارڈولی میں سردار پٹیل کی قیادت میں کسان تحریک چلائی گئی تھی جسے کچلنے کے لیے برطانوی سامراج نے طاقت کا بے دریغ استعمال کیا تھا۔ لیکن کاشت کاروں کی تحریک کے آگے سامراجی اقتدار کے دو نمائندوں بوم فیلڈ اور میک ویل کو بھی جھکنا پڑا تھا۔ در اصل اُسی احتجاج کے بعد اس میں شامل خواتین نے پٹیل کو ’سردار‘ کا لقب دیا تھا۔ اور گاندھی جی نے کہا تھا کہ اسی طرح کی عوامی تحریکیں بھارت کو آزادی کی جانب لے جانے کی راہ ہموار کریں گی۔ معاً بعد ٦، اپریل ۱۹۳۰ کو گاندھی جی نے ’نمک مارچ‘ یا ڈانڈی مارچ نکالا اور قریب ایک سال کی طویل تحریک کے بعد ۱۹۳۱ میں اِروین۔گاندھی معاہدے پر کامیاب تحریک انجام کو پہنچ سکی۔ راجیو گاندھی کو ۱۹۸۸ ایک ہفتہ طویل احتجاج کے بعد کسان قائد مہیندر سنگھ ٹکیت کے سامنے اسی طرح جھکنا پڑا تھا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اب ان کے بیٹے راکیش ٹکیت بھارتیہ کسان یونین کے ترجمان کے طور پر بھارت بند کی کال دیتے دکھائی دیے۔ ادھر مودی دَور سے قبل سابق میں راجناتھ سنگھ اور بی جے پی قائدین کی کسان تحریکوں پر کی گئی تقریریں آج بھی سوشل میڈیا پر موجود ہیں۔ بھولنا نہیں چاہیے کہ پچھلے چھ مہینوں میں چار بار کسان تنظیمیں دلی آئی ہیں لیکن ان کو نظرانداز کیا گیا۔ ملک کی سالمیت اور ہندو سماج کے اتحاد کا ٹھیکہ جس آر ایس ایس نے بزعم خود لے رکھا ہے، ان ٹولیوں سے وابستہ کسان تنظیموں کو اس موقع پر بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے تھا۔ ان کی بھارتیہ کسان سنگھ نے صرف ایم ایس پی پر حکومت کو متوجہ کرنے پر اکتفا کر لیا تھا۔ اس کے جنرل سکریٹری موہنی موہن مشرا نے دو قوانین کو پارلیمان میں جلد بازی اور متنازعہ انداز سے پاس کروانے پر کسانوں کی ناراضگی سے حکومت کو واقف کروایا تھا لیکن انہوں نے ٢٥ ستمبر کے احتجاج سے اپنے آپ کو لا تعلق رکھا۔ صرف اشتراکی نظریات کے حامل کارکنان ہی چَکّا جام ‌نہیں کرتے اور نہ صرف اسلام پسندوں نے اس طریق احتجاج پر اپنی مہرِ صداقت ثبت کر رکھی ہے بلکہ حالات پیدا ہونے پر ہر طبقے کے اندر ضمیر کی آواز جاگ اٹھتی ہے کیونکہ حکم راں، عوام کو اس کے لیے مجبور کر دیتے ہیں۔ کیا حکومت جمہور کو ترک کر کے چند کارپوریٹس کے مفادات کے تحفظ کے لیے ملک کو اور اس کی ساکھ کو داؤ پر لگا دینا چاہتی ہے؟
واضح ہو کہ ۸۵ فی صد کسان چھوٹے زمرے میں اور صرف دس فی صد اوسط درجے میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کی آمدنی کا موازنہ معاشرے کے دیگر طبقات کی آمدنی سے کیا جائے تو زمین آسمان کا فرق محسوس ہو گا۔ حکومتیں اپنے ملازمین، وزیروں اور منتخب عوامی نمائندوں کی تنخواہوں اور بھتّوں میں آئے دن اضافہ کرتی رہتی ہیں لیکن کسانوں کی آمدنی میں کوئی اضافہ ہونا تو دور ان کو فصل خراب ہونے پر قرضوں کی ادائیگی کے لیے یا تو مزید قرض لینا پڑتا ہے یا قرض نہ ملنے کی صورت میں کچھ نہ کچھ اثاثہ فروخت کر دینا پڑتا ہے یا کوئی صورت باقی نہ بچے تو خود کشی ہی واحد راستہ بچ جاتا ہے۔ گزشتہ دس برسوں کے دوران تین لاکھ کسانوں کی خود کشیاں کیا ہمارے اجتماعی ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی نہیں ہیں؟ ان کی خاطر ہم نے کِیا ہی کیا ہے؟ الٹا اقل ترین قیمت (ایم ایس پی) کو ہی ختم کرنے کی سازش ہو رہی ہے۔ حکومت کسانوں کو سمجھانے میں کامیاب نہیں ہو پا رہی ہے تو ان کے مطالبات کو تسلیم کرنے کے سوا اور کونسا راستہ بچا ہے؟ کسان فصل بیمہ اسکیم، مفت بجلی اور تمام قرضوں کی معافی جیسے متعدد ایشوز ہیں جن کو آپس میں بات چیت سے حل کرنا ہوگا۔ تمام مطالبات پر فریقین اڑے نہیں رہ سکتے۔ بعض مطالبات حق بجانب نہیں بھی ہوں گے لیکن حکومت کو عوام کے مطالبات کو مثبت انداز میں سننق چاہیے۔ احتجاجی کسانوں پر سختی غیر ضروری اور غیر جمہوری ہے۔ آج کسان گولی کھانے کو بھی تیار ہیں۔ حکومت کے پاس مطالبات تسلیم کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ ہو سکتا ہے تو وہ ہے کسانوں کے احتجاج کو بزور قوت کچل ڈالنا۔ لیکن کیا حکومت اتنا بڑا جوکھم مول لینے کو تیار ہے؟ کسان کسی مشترکہ چارٹر پر متفق ہو جائیں اور سیاسی اتفاق رائے پیدا ہو جائے تو احسن ہو گا۔ ایوان پارلیمنٹ کے خصوصی اجلاس کا مطالبہ ہے کہ اس میں صرف زراعت اور کسانوں سے متعلق امور پر کھل کر مباحثہ کیا جائے، اس مطالبے پر سنجیدگی سے غور کیوں نہیں کیا جاتا؟ جب جی ایس ٹی کے لیے خصوصی اجلاس ہو سکتا ہے اور کئی چھوٹے موٹے قوانین کے لیے خصوصی اجلاس طلب کیے جا سکتے ہیں تو کسانوں سے متعلق ایک طویل المیعاد لائحہ عمل طے کرنے کے لیے پارلیمنٹ کے اجلاس کی اہمیت سے انکار نہیں کرنا چاہیے۔ دنیا بھر کا تجربہ بتاتا ہے کہ یہ قوانین نہ تو کسانوں کے مفاد میں ہیں اور نہ ہی صارفین کے۔
یورپ اور امریکہ کہ کسانوں کو زندہ رکھنے کے لیے ٤٠٠ بلین ڈالر کی سالانہ سبسیڈی حکومتیں خود اپنے کاشت کاروں کو دیتی ہیں۔ یعنی یہ مالی امداد قریبا ٦ ہزار کروڑ روپیے یومیہ تک پہنچتی ہے۔ اس تناظر میں کانگریس کے تب کے وزیر اشوینی کمار کو راجیہ سبھا میں جواب دیتے ہوئے بی جے پی کے سرکردہ لیڈر آنجہانی ارون جیٹلی نے سوالات کیے تھے کہ اگر اَڑَتیا اور دلالوں کو ہٹا کر وال مارٹ اور ریلائنس وغیرہ جیسے کارپوریٹس براہِ راست کسانوں سے ان کی پیداوار خریدنے لگیں گے تو ان کو فائدہ پہنچنے والا ہے تو اب تک مغربی ممالک کے کاشتکار خود کفیل کیوں نہیں ہوئے اور وہ سبسیڈی پر کیوں جی رہے ہیں؟
کانگریس پر جب الزام لگا کہ اس نے بھی ۲۰۱۹ کے انتخابی منشور میں منڈی نظام کو ختم کرنے کی بات کہی تھی تو ۱۸ ستمبر کو سابق وزیر پی چدمبرم کو صفائی دینی پڑی کہ انہوں نے کسانوں کی منڈی ختم کرنے سے قبل کاشت کاروں کے لیے تکنیک، بازار اور زرعی مصنوعات کو کھلے بازار میں بیچنے کے لیے مناسب اقدامات کے ذریعے تحفظ فراہم کرنے کی تجاویز بھی رکھی تھیں۔ دوسری جانب سابق مرکزی وزیر شرد پوار نے بھی ۱۱ اگست ۲۰۱۰ کو وزیرِ زراعت کی حیثیت سے ملک کے وزرائے اعلیٰ کو مکتوب لکھے تھے اور بھارت کے کاشت کاروں کو عالمی منڈی فراہم کرانے کے لیے ریاستوں سے تجاویز طلب کی تھیں۔ اے پی ایم سی ایکٹ میں ترمیم اور زرعی شعبے میں نجی سرمایہ کاری کی ضرورت پر نومبر ۲۰۱۱ میں مزید ایک یاد دہانی والا مکتوب سب کو بھیجا تھا۔ سیاست دانوں کی آراء میں تواتر اور یکسانیت نہ ہونا اور پارٹیوں کے موقف میں اقتدار کے ساتھ ساتھ تبدیلی در آنا بھی ایک اہم وجہ ہے کہ ملک کے نہایت اہم اور حساس معاملوں میں بھی فیصلے کی بنیاد پائیدار نہیں رہ پاتی۔
بعض حلقوں کی جانب سے یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ جس زبان و لہجہ میں زرعی بل کے مسودے تیار کیے گئے ہیں وہ سیاست دانوں یا بیوروکریسی کا کام نہیں لگتا بلکہ کارپوریٹ وکیلوں کے انداز کی جھلک پائی جاتی ہے۔ اگر یہ بات سچ ثابت ہوتی ہے تو بھارت کی سالمیت اور عوامی اعتماد اور آئینی حدود و اختیارات پر یہ براہ راست زد ہوگی۔ یوں بھی نئی تعلیمی پالیسی اور بعض دیگر امور میں حکومت سے باہر (عالمی کارپوریٹ اور آر ایس ایس وغیرہ) عناصر کی مدد لینے کا الزام موجودہ حکومت پر لگتا رہا ہے۔ ایسے میں حکومت پارلیمنٹ کے سامنے جواب دہ ہے کہ آیا اس نے جمہور عوام کے مفادات کا سودا کیا ہے اور وہ کارپوریٹ کے آگے آخر کتنی مجبور ہو گئی ہے؟ جاریہ بحران پر ایوانِ پارلیمان کا خصوصی اجلاس طلب کر کے ’’رائیٹ ٹو ری کال‘‘ جیسے قانون پر بھی کھلی بحث کے بعد اس کا پاس ہونا مزید اہمیت اختیار کر جاتا ہے تاکہ عوا م کی توقعات کے خلاف اور حکومت سے باہری عناصر کے دباؤ میں کام کرنے والی حکومتوں کو اقتدار کے پائیدان سے اتارنے کا کچھ انتظام موجود رہے۔ ساتھ ہی ایک فلاحی جمہوری ریاست کے قیام کے لیے سرگرم عناصر کو اب اور بھی تیز گام ہونے کی ضرورت ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 13 تا 19 دسمبر، 2020