اداریــــہ

غضب کیا ترے وعدے پہ اعتبار کیا

 

کیا ملک کے شہریوں کو سیاست داں ہمیشہ اپنے لیے ایک محفوظ ووٹ بنک سمجھ سکتے ہیں؟ کیا رائے دہندوں کا کردار انتخابات کے موقع پر ووٹ دینے تک ہی محدود ہے کہ جن کو اگلی میعاد تک حکمرانوں کی بے وفائیوں، وعدہ خلافیوں نیز، ان کے جبر وبد عنوانیوں پر مواخذہ کا کوئی حق ہی نہیں مل سکتا؟
دلی ہائی کورٹ نے بائیس جولائی کو ایک ایسا حکم جاری کیا جس میں عوام کے لیے بڑی راحت کا سامان ہے۔ ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ دلی کے وزیر اعلیٰ نے غریب شہریوں کے مکانوں کے کرایہ جات ادا کرنے کا جو وعدہ کیا تھا اس کی تکمیل چھ ہفتوں میں کی جانی چاہیے۔ مارچ ۲۰۲۰ میں اروند کیجریوال نے ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ جو لوگ کورونا وبا کے لاک ڈاؤن کے دوران غربت کی بنا پر اپنے گھروں کے کرایہ جات ادا کرنے سے قاصر ہوں گے وہ دلی حکومت کی جانب سے ادا کیے جائیں گے۔ جسٹس پرتیبھا سنگھ نے کہا کہ ’’بہتر حکمرانی کا مطلب ہی یہ ہے کہ حکمرانوں کے ذریعے اپنے شہریوں سے کیے گئے وعدوں کو بلا سبب توڑا نہ جائے۔‘‘ عدالت نے اس سلسلے میں ایک شفاف پالیسی اور اسکیم تیار کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔ کرایہ ادا کرنے سے معذور مزدوروں کی جانب سے داخل کردہ ایک عرضی پر شنوائی کے بعد دلی ہائی کورٹ نے یہ تاریخی اور اہم فیصلہ سنایا ہے۔
رائٹ ٹو ری کال
اس تناظر میں یہ بحث بھی نکل آئے گی کہ اگر سیاست داں وعدہ خلافی کرتے ہیں تو جواب میں عوام اور ووٹروں کو کیا کرنا چاہیے؟ برطانیہ میں سنہ ۲۰۱۵ میں ایک تجویز کو منظور کر لیا گیا تھا جس کے تحت اگر کسی انتخابی حلقے کے دس فی صد رائے دہندگان بھی اپنے رکنِ پارلیمان کے خلاف ’’واپس بلانے کی درخواست‘‘ (Recall Petition)
پر دستخط کر دیتے ہیں تو اس عوامی نمائندے کو اپنے عہدے سے برطرف کر دیا جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں اس طرح کی تجویز پارلیمان کی سطح پر لاگو نہیں ہو سکی ہے لیکن میونسپل اور پنچایت سطح پر اس طرح کا قانون بعض ریاستوں میں موجود ہے جس کے تحت سرپنچ، مُکھیا، کارپوریٹر اور میئر کے عہدوں پر فائز عوامی نمائندوں کو ان کی مدت کارکردگی کے ختم ہونے سے قبل واپس بلایا جا سکتا ہے۔ اتر پردیش، اتراکھنڈ، بہار، جھارکھنڈ، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، مہاراشٹر، ہماچل پردیش، راجستھان اور حال ہی میں ہریانہ میں اس قانون کو نافذ کیا گیا ہے۔ اتر پردیش میں تو یہ قانون پنچایت سطح پر ۱۹۴۷ ہی سے لاگو ہے۔ یہ بات دیگر ہے کہ ملک کے شہری اس قانون سے کماحقہ واقف نہیں ہیں جس کی وجہ سے وہ اپنے بہت سے جمہوری حقوق کو حاصل کرنے سے محروم رہ جاتے ہیں۔ در اصل ۱۹۷۴ میں سی کے چندرپّن نے ایک آئینی ترمیمی بل اس ضمن میں پیش کیا تھا جسے سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کی تائید حاصل تھی لیکن تب وہ پاس نہیں ہو سکا تھا۔
انتخابی وعدے غلط ثابت ہونے پر کس عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا جائے جب کہ کسی سامان یا شئے میں نقص پائے جانے پر صارفین کی کنزیومر فورم (صارفین عدالت) میں دادرسی ممکن ہے تو کھلے عام شہریوں کو جھوٹا مینی فیسٹو دینے والے سیاست دانوں کی کہیں جواب دہی کیوں ممکن نہیں؟
بہار کے حالیہ انتخابات میں تیجسوی یادو نے دس لاکھ ملازمتیں فراہم کرنے کا وعدہ کیا۔ آسام میں بی جے پی نے تیئیس مارچ کو جاری کردہ اپنے مینی فیسٹو کو ’’سنکلپ پتر‘‘ نام دیا اور دس وعدے کیے جس میں آسام کو ’’سیلاب سے آزاد‘‘ کرنے اور ’درست این آر سی‘ کو لاگو کرنے کے وعدے شامل ہیں۔ لیکن جس متنازع سی اے اے قانون کی وہاں دسمبر ۲۰۱۹ میں سخت مخالفت ہوئی تھی اس کا ذکر تک نہیں حالانکہ پڑوسی ریاست مغربی بنگال میں اسی پارٹی نے یہ وعدہ کیا ہے کہ وہ اپنے پہلے کابینی اجلاس ہی میں اس کو منظوری دے گی۔ جب کہ آسام کے وزیر اعلیٰ کو وعدوں کی تکمیل کی بجائے مسلمانوں کی آبادی اور مدارس جیسے تمام متنازع ایشوز پر کام کرتے ہوئے دیکھا جا رہا ہے۔ دوسری جانب سی اے اے کو ختم کرنے کے ایشو کو کانگریس نے انتخابی موضوع بنایا ہے حالانکہ وہ ایک مرکز کا قانون ہے، اور شاید کانگریس کو یہ اندازہ نہیں ہے کہ وہ آسام میں حکومت بنا پائے گی یا نہیں؟ دلی کے وزیر اعلیٰ نے دلی کے باشندوں کو مفت وائی فائی دینے کا وعدہ کیا تھا جو اب تک وفا نہیں ہو سکا۔ تلنگانہ میں چندر شیکھر راؤ کی ٹی آر ایس نے چھ سال قبل مسلمانوں کو بارہ فی صد ریزرویشن دینے کا وعدہ کیا تھا، اب ان کی حکومت اس بات کا ذکر تک سننا برداشت نہیں کر رہی ہے۔ مہاراشٹر میں پانچ فی صد تحفظات فراہم کرنے کا کانگریس پارٹی کا وعدہ ہو یا بعض جنوبی ریاستوں میں دس روپے میں کھانے کی تھالی یا ہر گھر کو مفت پانی اور بجلی نیز، ٹی وی سیٹ دینا ہو ہر طرح کے وعدے تو عوام سے کیے جاتے ہیں لیکن پورے نہیں کیے جاتے۔ بیرونی ملکوں میں جمع کالا دھن واپس لانے اور ہر بھارتی شہری کو پندرہ لاکھ روپے فراہم کرنے کے انتخابی وعدے نے تو ایک طرح سے تاریخ ہی رقم کر دی ہے، جب اس کی عدم تکمیل پر وزیرِ اعظم کو ’’پھیکو‘‘ جیسے لقب سے نوازا گیا۔ لطف تو یہ ہے کہ اس طرح کی باتوں کو مینی فیسٹو میں ضبط تحریر میں بھی لایا جاتا ہے لیکن ان پر عمل درآمد ہو یا اس کو یقینی بنایا جا سکے ایسا کوئی میکانزم موجود نہیں پایا جاتا۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ عوام کو بھول بھلیوں میں گھمانا اور جذباتی ایشوز میں پھنسانا سیاستدانوں کے لیے کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ غور کرنے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ کتنے عرصے تک وعدوں کی تکمیل کو معطل رکھا جا سکتا ہے اور کیا ان وعدوں کی ادھوری تکمیل کر دینے سے سیاسی پارٹیوں کو چھوٹ مل سکتی ہے؟ لازمی قرار دیا جائے کہ ہر نئے انتخاب سے قبل تمام سیاسی پارٹیاں اپنے سابقہ تکمیل شدہ اور عدم تکمیل شدہ وعدوں کی ایک فہرست رائے دہندوں کے سامنے پیش کریں۔ تمام ایم پیز اور ایم ایل ایز کی سابقہ کارکردگی پر مبنی ایک قومی چارٹ تیار کیا جائے اور اس کو آن لائن مہیا کرا دیا جائے جیسا کہ انتخابی کمیشن میں داخل کیے گئے امیدواروں کے حلف نامے سب کے لیے کھلے ہوتے ہیں جن میں ان کی جائیدادوں، حتیٰ کہ جرائم کا ریکارڈ بھی درج ہوتا ہے۔ اگر نوٹا یعنی (NOTA- None Of The Above) کا حق انتخابی مشین اور بیلٹ پیپر میں رکھا گیا ہے تاکہ ووٹرز موجود امیدواروں کے خلاف اپنی رائے اور ناراضگی کو درج کرا سکیں تو پھر منتخب لیڈروں کی غلط کاریوں اور بے وفائیوں پر ان کی مدت کار سے قبل ان کو واپس بلانے کا حق کیوں نہیں؟
اب وقت آگیا ہے کہ جواب دہی کے دائرہ میں انفرادی طور پر لیڈروں اور اجتماعی طور پر ان کی پارٹیوں کو بھی وعدہ وفائی کا پابند بنایا جائے۔ عوامی بیداری اور منظم شہری حقوق کی انجمنوں کا جال بچھا کر جمہوری اور آئینی اقدار و اصولوں کو بچانے کا نظم کیا جائے۔ اگر جمہور عوام کی مرضی اور پسند و ناپسند کا خیال نہیں رکھا جاسکتا تو مستقبل میں سیاست دانوں کے لیے ہماری جمہوریتوں کو یرغمال بنانا مزید آسان ہو جائے گا۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ یکم اگست تا 7 اگست 2021