اداریــــہ

مسلمان ملک و انسانیت کی ضرورت! ’محبت بمقابلہ نفرت‘

 

ملک میں کورونا وبا کی دوسری لہر کی قہر سامانیوں کے دوران جہاں کارپوریٹ دواخانوں کی لوٹ کھسوٹ، ضروری دواوں کی بلیک مارکٹنگ و استحصال کی صورتیں سامنے آرہی ہیں اوران سب سے بڑھ کر سیاست دانوں کی مفاد پرستی، اقتدار کے لیے عوام کے تحفظ تک کو قربان کردینے اور حکمراں اور اپوزیشن دونوں کی جانب سے اس سنگین صورت حال کا سیاسی مقاصد کے لیے استعمال دیکھنے کو مل رہا ہے وہیں اسی سماج میں کچھ ایسے واقعات بھی ظہور پذیر ہورہے ہیں جن سے یہ احساس ہوتا ہے کہ نفرت کے پرچارک کتنی بھی کوشش کرلیں انسان کی امن پسند اور خیر پسند فطرت اپنا اثر ضرور دکھاتی ہے۔ وبا کی تباہی کے اس بیچ ایسے افراد اور تنظیموں کا وجود تپتے صحرا میں ٹھنڈی پھوار کا احساس دلاتا ہے۔ گزشتہ سال اچانک لاک ڈاون غیر منصوبہ بند فیصلے سے عام لوگوں پر جو بھیانک افتاد آپڑی تھی اس موقع پر بھی مختلف افراد، اداروں اور تنظیموں نے بلا لحاظ مذہب و ملت محض جذبہ خدمت انسانی کے تحت غیر معمولی کام انجام دیا تھا۔ ہفت روزہ دعوت نے تسلسل کے ساتھ ان کی داستانوں کو عوام کے سامنے لانے کی کوشش کی تھی۔ اس سال بھی خدمت انسانی کے ایسے ہی کئی خوشگوار واقعات سامنے آرہے ہیں۔
دہلی اور دیگر ریاستوں میں اس وقت اکسیجن کی قلت ایک بڑا مسئلہ ہے اور کئی لوگ اس بیماری میں آکسیجن کی عدم دستیابی کی وجہ سے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔ ایسے میں سکھوں کے ایک گردوارے میں آکسیجن کے ضرورت مندوں کو عارضی طور پر مفت میں آکسیجن فراہم کرکے ان کی جان پچانے کا کام انجام دیا جارہا ہے۔ اسے گردواروں کے روایتی لنگر کے نام پر آکسیجن لنگر کا نام دیا گیا ہے، اورجس طرح بھوکوں کے لیے کھانے کا اہتمام کیا جاتا ہے اسی طرح آکسیجن کے بھوکوں کو آکسیجن دی جارہی ہے۔
ناگپور کے ایک مسلمان شخص نے پچاسی لاکھ روپے کی آکسیجن خرید کر مختلف دواخانوں کو مفت فراہم کی ہے۔ ممبئی کی ایک مسجد میں بلالحاظ مذہب و ملت کووڈ کے متاثرین کے لیے مفت آکسیجن سلنڈر کا انتظام کیا گیا ہے۔ انسانی خدمت میں مصروف افراد اور اداروں کی ایسی ہی کئی مثٓالیں بہار، گجرات، اترپردیش اورملک کے مختلف مقامات سے مل رہی ہیں۔ خدمت انسانی کے یہ جذبات لوگوں میں لوگوں میں پھیلائی ہوئی غلط فہمی اور نفرت کی کائی کو بھی صاف کررہے ہیں اور مختلف لوگ برملا اس کا اعتراف کررہے ہیں کہ سیاست دانوں کی پھیلائی ہوئی نفرت اور اس نفرت کی بنیاد پر تیار ہونے والا سماج ہمارا سماج نہیں ہے، ہمارا سماج تو اصلاً یہی سماج ہے جس میں انسان ایک دوسرے کے کام آتے ہیں ان کی بے غرض مدد کرتے ہیں۔ اسی دوران لوگوں نے مسلمانوں کے جذبہ خدمت کی کافی ستائش کی۔ اور بعض لوگوں نے اسے اسلامی نظریے کا اثر قرار دیا۔
یہ کیفیت ملک کے امن پسند اور سنجیدہ شہریوں کے لیے ایک موقع ہے کہ وہ اپنے پیارے ملک میں نفرت کے سوداگروں کی جانب سے پیدا کردہ متعصب فضا کو پیار اور امن کی فضا میں بدلنے کے لیے کمربستہ ہوجائیں۔ نفرت اور تعصب ہمارے ملک کی اصل پہچان نہیں ہے، ہمارے ملک کی اصل پہچان آپسی محبت اور ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی ہے۔ اگر اس وقت کچھ لوگوں نے، جو شومئی قسمت آج ملک کے سیاہ و سفید کے مالک بن بیٹھے ہیں، ملک کے ماحول کو زہر آلود کیا ہے تو اس زہرسے سماج کو پاک کرنا بھی ان کی ذمہ داری ہے۔
ملک میں بسنے والی ملت اسلامیہ کے لیے بھی اس پوری صورت حال میں یہ عملی سبق موجود ہے کہ وہ اگر اس ملک میں عزت و وقار کی زندگی کے متمنی ہیں تو انہیں اپنے آپ کو اس ملک کی اور اس ملک کے لوگوں کی ضرورت بننا ہوگا۔ انہیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ منفی بنیادوں پر جو بھی پروپگنڈہ کیا جاتا ہے اس کی حیثیت مکڑی کے گھر کی طرح کمزور ہوتی ہے۔ وہ ہوا کے ایک زور دار جھونکے سے ریزہ ریزہ ہوجاتا ہے۔ نفرت کی آگ کیسی گرم کیوں نہ ہو محبت اور خدمت کی ٹھنڈی پھوار کے سامنے وہ ٹک نہیں سکتی۔ چنانچہ مسلمانوں کو کسی مایوسی کے بغیر اپنا کام کرتے جانا چاہیے۔ انہیں نہ صرف یہاں کے انسانوں کو آفت کے موقع پر مادی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے آگے آنا ہوگا بلکہ یہاں کے انسانوں کی جو روحانی پیاس ہے اس کو بجھانے کے لیے بھی انہیں محنت کرنے کی ضرورت ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 2 مئی تا 8 مئی 2021