گزشتہ منگل کے روز اشوکا یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر بھانو پرتاب مہتا نے یونیورسٹی کی تدریسی خدمات سے استعفیٰ دے دیا۔ اس سے قبل جولائی ۲۰۱۹ء میں وہ وائس چانسلر کے عہدے سے بھی مستعفی ہو گئے تھے۔ تدریسی خدمات سے ان کا استعفیٰ اکیڈمک اور صحافتی حلقوں میں اس لحاظ سے بحث کا موضوع بن گیا ہے کہ یہ استعفیٰ دراصل بی جے پی اور موجودہ حکومت پر ان کی تنقید کا شاخسانہ ہے۔ بھانو پرتاب مہتا ایک سیاسی مبصر اور موجودہ حکومت کے سخت ناقد تھے۔ معروف ماہر معاشیات و سابق گورنر ریزرو بینک آف انڈیا مسٹر رگھو رام راجن کے علاوہ ییل(Yale)، کولمبیا، ہارورڈ، آکسفورڈ، پرنسٹن اور کیمبرج کے بشمول دینا کی مشہور جامعات کے 180 ماہرین نے بھانو پرتاب مہتا کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔ رگھو رام راجن نے لنکڈ اِن پر اپنے ایک طویل پوسٹ میں لکھا کہ ’’اس ہفتہ اظہار خیال کی آزادی کو ایک سخت دھکا لگا ہے۔ اشوکا یونیورسٹی کے منتظمین کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ان کا مشن کسی کا سیاسی فریق بننا نہیں بلکہ بھانو مہتا جیسے لوگوں کے اظہار خیال کے حق کا تحفظ کرنا ہے، کیوں کہ ایسا کرکے وہ ملک کو بہتر بنانے میں اپنا حصہ ادا کریں گے۔ اسی دوران مختلف بین الاقوامی جامعات کے ایک سو اسی ماہرین تعلیم نے ’’تعلیمی آزادی پر ایک خطرناک حملہ‘‘ کے عنوان سے اشوکا یونیورسٹی کے ٹرسٹیوں، منتظمین اور اساتذہ کے نام ایک کھلا خط تحریر کیا ہے جس میں ان ماہرین تعلیم نے سیاسی دباو کے تحت مہتا کے استعفیٰ پر نہایت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ ’’ہم بھانو پرتاب مہتا کے ساتھ ہیں اور آزادنہ بحث و گفتگو، تحمل اور مساویانہ شہریت کی جمہوری روح جیسی قدروں کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں جن پر وہ ہمیشہ کار بند رہے‘‘۔ انہوں نے مزید لکھا کہ ’’یونیورسٹی وہ جگہ ہے جہاں آزادانہ تحقیق وجستجو اور کھلا پن ہونا چاہیے، اس کے علاوہ علمی و فکری دیانت داری اور سیاست دانوں، مالی سرپرستوں یا نظریاتی مخالفین کے درمیان واضح امتیاز ضروری ہے۔ جب کسی دانشور کو محض اس کے اظہار خیال کی بنیاد پر سزا دی جاتی ہے تو یہ اقدار مجروح ہو جاتے ہیں اور اگر وہ اظہار خیال ان اقدار کی حفاظت کے لیے ہو تو یہ عمل اور بھی شرمناک بن جاتا ہے‘‘۔
اسی دوران یونیورسٹی طلبا نے بھی استعفیٰ کے خلاف دو روزہ احتجاج کا اعلان کیا ہے۔ اس کے علاوہ یونیورسٹی کے ایک اور استاد اروند سبرامنین نے بھی اپنے تدریسی منصب سے استعفیٰ دے دیا ہے، اروند سبرامنین مودی حکومت کے سابق معاشی مشیر اعلیٰ بھی تھے۔
یہ واقعہ حالیہ دنوں پیش آنے والے ان کئی واقعات میں سے ایک ہے جو ملک میں دانش گاہوں، اعلیٰ تعلیمی اداروں اور عام سماج میں اظہار خیال کی آزادی کی صورت حال کو ظاہر کرتے ہیں اور اس کیفیت میں تشویش کے دو بنیادی پہلو ہیں۔ اولاً یونیورسٹیوں کی خود مختاری اور آزادانہ علمی ماحول کی کمی کا خطرہ اور ثانیاً شہری آزادیوں کا سکڑتا ہوا دائرہ۔ یہ دونوں صورتیں ملک میں جمہوریت کے گرتے ہوئے گراف کو ظاہر کرتی ہیں۔
یونیورسٹیوں کے سلسلے میں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ ان کی حیثیت خود مختار تعلیمی اداروں کی ہے، چاہے وہ مکمل طور پر حکومت کے فنڈ سے ہی کیوں نہ چلتے ہوں۔ اس وقت ملک میں 47 مرکزی جامعات اور 350 ریاستی سطح کی جامعات ایسی ہیں جو صد فیصد حکومتی فنڈ کے ذریعے چلتی ہیں۔ اس کے باوجود ان کی حیثیت خود مختار اداروں کی ہے اور ان کی اس حیثیت کا برقرار رہنا شہریوں کے شخصی ارتقا اور علم کی ترقی کے لیے نہایت ضروری ہے۔ ملک کے پہلے تعلیم کمیشن (رادھا کشن کمیشن) کے پیراگراف ۲۹ اور ۳۱ میں یہ بات واضح طور پر بیان کی گئی تھی کہ ’’شخصی ارتقا کی آزادی جمہوریت کی بنیا دہے، تعلیم پر حکومت کا مخصوص کنٹرول کلیت پسندانہ آمریتوں کو برقرار رکھنے کا ایک اہم عامل رہا ہے۔ ایسی صورت حال میں حکومت کے کنٹرول میں یا حکومتی ایجنسیوں کے زیر انتظام چلائے جانے والے اعلیٰ تعلمی ادارے دراصل کرایہ کے مزدوروں کی تیاری کے مراکز ہوتے ہیں جو حکومت کے سیاسی مقاصد کی تکمیل کرتے ہیں، انہیں ملک کی آبادی کے ایک بڑے حصے کے لیے قابل قبول بنانے میں مدد کرتے ہیں اور حکومت کے لیے درکار وسائل فراہم کرتے ہیں۔ ہمیں اپنی جمہوریت کے مفاد میں اس رجحان کی مخالفت کرنی چاہیے جو تعلیمی عمل پر حکومت کے تسلط کی راہ ہموا ر کرتا ہے‘‘۔ جو بھی حکومت اعلیٰ تعلیم کے اس پورے عمل کو اس کی اس آزادانہ حیثیت سے محروم کرنے کی کوشش کرے گی وہ یہاں کی جمہوریت اور اور عوام کا نقصان ہی کرے گی۔
یونیورسٹیاں اور وہاں پڑھانے والے اساتذہ محض معلومات کو منتقل ہی نہیں کرتے بلکہ وہ علم کی تخلیق بھی کرتے ہیں اور سماج اور آنے والی نسلوں کو با شعور بناتے ہیں، وہ حکومت پر تنقید کر کے اس کو بھی درست راستے پر رکھتے ہیں، وہ اپنے تحقیقی مضامین اور اظہار خیالات سے حکومتی پالیسیوں کی خامیوں اور کمزوریوں کو واضح کرتے ہیں۔ یہ کام پابندیوں میں رہ کر نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے لیے یونیورسٹیوں میں آزادانہ غوروفکر اور سوچنے سمجھنے کا ماحول فراہم ہونا ضروری ہے۔ لیکن موجودہ حکومت کو یہ روش پسند نہیں ہے وہ کسی نہ کسی طرح ان دانش گاہوں اور یہاں ہونے والے آزادانہ غوروفکر کے ماحول پر پہرے بٹھانا چاہتی ہے۔اس سے قبل بھی انٹر نیشنل ویبنار پر اپنا کنٹرول رکھنے کے لئے حکومت کی جانب سے جاری کئے گئے ایک حکمنامے میں سرکارکی مالی اعانت سے چلنے والے تمام تعلیمی اداروں اور یونیورسٹیوں سے کہا گیا تھا کہ وہ کسی بھی آن لائن، ورچوئل بین الاقوامی کانفرنس، سمینار اور ٹریننگ پروگرام وغیرہ کے انعقاد کے لئے حکومت سے منظوری لے۔ اس حکمنامے کو بھی مرکزی تعلیمی بورڈ، دہلی نے ملک کے شہریوں کی بنیادی آزادی پر پابندی لگانے کے مترادف قرار دیا تھا جو تعلیمی سرگرمیوں میں کمی کا باعث بنے گا۔ان اقدامات کے ذریعےموجودہ حکومت دراصل آزادانہ گفتگو و بحث کے مواقع کو ختم کرکے ایک طرح کی زبان بندی کر دینا چاہتی ہے۔ اس طرح کے طرز عمل سے وہ در اصل ملک کی دانش گاہوں سے اس ماحول ہی کا خاتمہ کرنے میں مصروف ہے جس میں علم کی تخلیق ہوتی ہے، نئے نئے افکار و آئیڈیاز جنم لیتے ہیں۔ اس پابند ماحول میں زر خرید مزدور تو تیار ہو سکتے ہیں آزادانہ غوروفکر کرنے والے مفکرین نہیں۔ حکومت اس آزادانہ غوروفکر کے ماحول کو ختم کر کے نہ صرف پابندیوں کے پہرے بٹھا رہی ہے بلکہ وہ توہمات، غیر سائنسی خیالات و واقعات اور تقلیدی ذہن کو بھی فروغ دے رہی ہے تاکہ کوئی اس پر تنقید کرنے والا پیدا ہی نہ ہو۔ لیکن اس کا نقصان یہ ہوگا کہ ایک طرف تو یہاں علم کی تخلیق اور نئے نئے افکار و خیالات کے سوتے خشک ہو جائیں گے اور دوسری جانب، رادھا کرشنن کمیشن کے بقول، خود ملک کے شہریوں کی شخصی ارتقا کی آزادی اور جمہوری مفادات خطرے میں پڑ جائیں گے۔ چنانچہ ملک کے سنجیدہ شہریوں کو بھانو پرتاب مہتا اور اورند سبرامنین کے استعفیٰ جیسے واقعات کا نوٹس لینا چاہیے اور اعلیٰ تعلیم کی آزادانہ حیثیت کو کسی بھی طرح سے مجروح ہونے سے محفوظ رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 28 مارچ تا 3 اپریل 2021