پارلیمنٹ کے مانسون سیشن کا بالآخر 14ستمبر سے آغاز ہونے جا رہا ہے جو یکم اکتوبر 2020 تک جاری رہے گا۔ معمول کے مطابق اس سیشن کو جولائی کے تیسرے ہفتہ میں منعقد ہونا تھا۔ گزشتہ 20 برسوں کے دوران، انتخابی سالوں کو چھوڑ کر مانسون کے جملہ 12سیشنس ماہ جولائی میں شروع ہو گئے تھے۔ یو پی اےIIکے دور میں تین بار اور یو پی اےIکے دور میں ایک بار، جولائی کے بجائے اگست میں ان کا آغاز ہوا تھا۔ گزشتہ بجٹ اجلاس 31 جنوری سے شروع ہوا جو 11 فبروری تک جاری رہا جبکہ اس کا دوسرا دور 2مارچ سے 3اپریل تک طے تھا لیکن کووڈ۔19کی وجہ سے اسے ہنگامی طور پر 23مارچ کو ہی ملتوی کر دیا گیا۔ اس طرح دونوں اجلاسوں کے درمیان 204دنوں کا وقفہ اب تک کا سب سے طویل وقفہ ہے۔ ویسے بھی کئی معاملات میں ’اولین نظیر‘ قائم کرنے میں موجودہ حکومت کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ یہ امر باعثِ تشویش ہے کہ کورونا وبا کے دوران نسبتاً کم اہم اجلاس تو کسی نہ کسی طور منعقد ہوتے رہے لیکن نہیں ہوسکا تو وہ یہی پارلیمنٹ کا اجلاس تھا۔ اگرچہ حزب اختلاف کی طرف سے بار بار اس کا مطالبہ کیا جاتا رہا۔ طویل ٹال مٹول کے بعد آخر بادل نخواستہ لوک سبھا سکریٹریٹ نے 14ستمبر تا یکم اکتوبر 2020کسی چھٹی اور اواخرِ ہفتہ کے وقفے کے بغیر اجلاس کے انعقاد کا اعلان کیا ہے لیکن طے کیا گیا تھا کہ وقفہ سوالات اور کوئی پرائیویٹ ممبر بزنس نہیں ہوگا جس پر اپوزیشن کی جانب سے شدید تنقیدوں کے بعد 30منٹ کے وقفہ صفر کی اجازت دینے کا اعلان کیا گیا جو کہ نا کافی ہے۔ وقفہ سوالات دراصل عوامی نمائندوں کو حکومت کی پالیسی و پروگرام اور مفاد عامہ کے امور سے متعلق حقائق کو جاننے کا حق فراہم کرتا ہے اور پرائیویٹ ممبرس بزنس کا مقصد پارلیمنٹ کو سماج کی امنگوں کا ترجمان بنانا ہوتا ہے۔ اب اس سے گریز کا مطلب یہی سمجھا جائے گا کہ حکومت حزب اختلاف کے رول کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ موجودہ سلگتے ہوئے مسائل میں بھی جوابدہی سے بچنا چاہتی ہے۔ یہ سوال بہت ہی اہم ہے کہ آخر حکومت احتساب سے بچنا کیوں چاہتی ہے؟ اول تو یہ اجلاس کافی تاخیر سے اور محض17 دن کے لیے منعقد ہو رہا ہے اس میں بھی 11آرڈیننس اور 20بلز کی ایک طویل فہرست ہے جنہیں حکومت فی الفور منظور کروانا چاہتی ہے۔ ایسے میں اہم ترین مسائل پر بحث کے لیے بہت ہی وقت کم بچے گا۔
اپوزیشن کے بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ اگر آرڈیننسس کی منظوری پیش نظر نہ ہوتی تو شاید حکومت اس سیشن کو ہی ترک کر دیتی۔ پارلیمانی نظام میں قانون سازی کروانا جہاں حکومت کا حق ہے وہیں ان قوانین میں خامیوں کی نشاندہی کرنا حزب اختلاف کا فرض ہے۔ اپوزیشن کو یہ حق ملنا چاہیے کہ وہ عوامی فلاح و بہبود اور قومی سلامتی کو مجروح کرنے والے اقدامات اور پالیسیوں پر سوال اٹھائے اور حکومت کا فرض ہے کہ وہ اسے سنے، جواب دے اور اصلاح طلب امور میں اصلاحات کا یقین دلائے۔ یہی پارلیمانی جمہوریت کی اصل روح ہے۔
1962ء میں جب ہند۔چین جنگ ہوئی تھی، اس وقت ملک کو آزاد عوامی جمہوریہ بنے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا اس کے باوجود ایوان پارلیمنٹ میں ملک کی صیانت و سلامتی کے موضوع پر تیز وتلخ مباحث ہوئے تھے اور حزب اختلاف نے عددی قوت کے کم ہونے کے باوجود حکومت سے جواب طلبی کی تھی اور یہ پہلا موقع تھا جب حکومت نے اپوزیشن کی رضامندی سے وقفہ سوالات کو ترک کیا تھا۔ آج بھی ملک کو ایک بحرانی کیفیت کا سامنا ہے۔ پڑوسی ملک چین نے دشمنی کی ساری حدیں پار کرتے ہوئے بھارتی علاقہ میں فوج تعینات کر کے اپنے توسیع پسندانہ عزائم کو پوری طرح سے آشکار کر دیا ہے۔ یہ ملک کی سالمیت و سلامتی سے متعلق ایک اہم مسئلہ ہے جس پر صرف حزب اختلاف کے ارکان کو ہی نہیں بلکہ حکمراں جماعت کے نمائندوں کو بھی مطمئن ہونے کی ضرورت ہے۔ ظاہر ہے یہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے جس پر بحث کو دو تین گھنٹوں میں سمیٹ لیا جائے بلکہ اس کے ہر پہلو پر ایوان پارلیمنٹ میں سیر حاصل بحث ہونا چاہیے اس سے بچنے کے لیے وقت کی کمی کو بہانہ نہیں بنانا چاہیے نیز، ان عوامل کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے جو لداخ میں 20 بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کا سبب بنے ہیں۔
سرحد پر بھارت اور چین کے درمیان کشیدگی کے علاوہ کووڈ۔19پر کنٹرول کے معاملے میں حکومت کی ناکامی، لاک ڈاون کے غیر منصوبہ بند نفاذ کی وجہ سے نقل مکانی کرنے والے مزدوروں اور غیر منظم شعبہ کے ورکرس کے مسائل، معیشت کا گہرا ہوتا ہوا بحران، لاکھوں ملازمتوں کی برخاستگی، نئی تعلیمی پالیسی، کووڈ۔19کے باعث طلبہ، اساتذہ اور تعلیمی اداروں کے مسائل، ارکان پارلیمنٹ کے لوکل ایریا ترقیاتی فنڈز کی عارضی معطلی، صحت کے شعبہ کا بحران، دفعہ 370کی تنسیخ کا ایک سال مکمل ہو جانے کے باوجود کشمیر کے حالات کو معمول پر لانے میں ناکامی اور ریاستوں کو جی ایس ٹی معاوضے ادا نہ کرنے جیسے مسائل پر اپوزیشن کی جانب سے حکومت کا احتساب ہونا چاہیے۔ لیکن سیشن کا وقت کم اور قانون سازی کا کام زیادہ ہونے سے اس بات کا امکان کم نظر آ رہا ہے کہ اپوزیشن ان مسائل کو مؤثر طور پر اٹھا پائے گی۔ جہاں تک آرڈننیس اور بلز کی منظوری کا سوال ہے وہ تو منظور ہو ہی جائیں گے کیونکہ حکومت کے پاس درکار عددی قوت موجود ہے۔ اصل مسئلہ ایوان پارلیمنٹ میں متذکرہ امور کو اٹھانے کا ہے اس لیے کہ یہ کوئی معمولی مسائل نہیں ہیں ان کا تعلق بھارت کے حال ومستقبل سے وابستہ ہے۔ انہیں مؤثر طور پر اٹھانے میں اپوزیشن کے سامنے ایک رکاوٹ یہ بھی ہے کہ کووڈ۔19کے مد نظر مختلف پارٹیوں کے قائدین الگ الگ گیلریوں اور ہالوں میں بیٹھے ہوں گے جس کے باعث اپوزیشن کو آپسی تال میل قائم کرنے میں مشکل ہوگی۔ اگر وہ باہم مل کر کوئی مسئلہ اٹھانا چاہیں تو ان کے لیے ملاقات و مشاورت ایک بڑا چیلنج ہوگی۔ غرض کئی پہلوؤں سے اس مرتبہ کا مانسون اجلاس ایک بالکل مختلف قسم کا اجلاس بننے جا رہا ہے۔ ملک سے اور ملک کے عوام سے خیر خواہی کا تقاضا یہ ہے کہ اہل خرد، مسائل کے انبوہ کو دعوت دینے والے اس نظام کے ناقص پہلوؤں پر غور کریں، ارباب اقتدار کے کام کرنے کے آمرانہ انداز کا نوٹ لیں اور دیکھیں کہ یہ ملک کدھر جا رہا ہے اور اس کا مستقبل کیا ہوگا؟ اور پھر اس لائحہ عمل پر کام کریں جو ملک کو مسائل کے گرداب سے نکال کر امن وسلامتی کے راستے پر گامزن کر سکے اور جس میں حکمرانوں، عوامی نمائندوں اور ہر صاحب اختیار کی جوابدہی طے ہو سکے۔