اداریــــہ: بس کا روگ نہیں….
وزيرِ صنعت پيوش گوئل نے ايک عالمي کووڈ-19 کانفرنس ميں دعويٰ کيا کہ ’’بھارت ميں گزشتہ تين مہينوں کے دوران ايک بھي فرد بھوکا نہيں رہا۔‘‘ وزير يہ کہنے سے بھي نہيں چوکے کہ سو سال قبل جن ممالک نے اسپينش فلو کي وبا کا مقابلہ کرتے ہوئے انساني جانوں اور صحت پر اپني توجہ مرکوز کي تھي، کم ذرائع و وسائل کے باوجود وہ آگے چل کر تيز ترقي کرتے ہوئے پائے گئے ليکن صرف اپني معيشت کو سنبھالنے ميں لگے ممالک پريشاني ميں مبتلا ہوگئے۔ گويا ان کي حکومت کي تمام تر ترجيحات مجبوروں کو راحت پہنچانے کي ہيں اور صنعت وسرمايہ کاروں کے ليے وہ کام ہي نہيں کرتے۔ اس سادگي پہ کون نہ مر جائے اے خدا؟
تو کيا جو لوگ پيدل ہي ملک کي سڑکوں، شاہراہوں اور پٹريوں پر سينکڑوں، ہزاروں کيلو ميٹر کي مسافت طئے کر رہے ہيں وہ سب کے سب شکم سير ہو کر سير سپاٹے پر نکلے ہوئے ہيں؟ اور اگر ان کي حکومت نے ’معيشت‘ کو ترجيح نہ دے کر قولاً و عملاً انساني وسائل پر توجہ دي ہوتي تو کيا آج دنيا کو يہ دردناک مناظر ديکھنے پڑتے؟ اس کے برعکس جنوب کي رياست کيرالا ميں ديکھ ليتے کہ جہاں ان مزدوروں کو ’مہاجر‘ يا ’تارکين وطن‘ نہيں بلکہ ’مہمان مزدور‘ کہا جاتا ہے۔اس سے قبل مرکزي حکومت سپريم کورٹ ميں ايک حلف نامہ داخل کر چکي ہے کہ ايک بھي مزدور بھارت کي سڑکوں پر پايا نہيں جاتا، سب کو سہارا اور کھانا پينا مہيا کرايا جا چکا ہے لہذا ان کو کسي نقد امداد يا بے روزگاري بھتہ دينے کي ضرورت نہيں۔ اس سفيد جھوٹ کے ليے کيا حکومت کے خلاف ’توہينِ عدالت‘ کي کارروائي نہيں ہوني چاہئے؟ حکومت نے عدالت کو غلط بيان کے ذريعے گمراہ کرنے کا جرم کيا ہے۔ اب بات کرتے ہيں، انتظامات کي۔ پہلے تو لاک ڈاؤن نافذ کرنے ميں افراط وتفريط سے کام ليا گيا، طلبہ اور چنندہ غير ملکيوں کو تو لکژري بسوں ميں بٹھا کر يا ہوائي جہازوں ميں ان کے گھروں تک مفت پہنچايا گيا، ليکن جب اتر پرديش حکومت نے دباؤ ميں آکر سرکاري بسوں سے مزدوروں کو واپس لانے کا انتظام کيا تو بے روزگار، غريب عوام سے مکمل کرايا وصول کيا گيا۔ اب ٹرينوں کے ليے ٹکٹ کي رقم، بلکہ بعض کيسوں ميں اس سے زائد رقم تارکين وطن سے لي گئي۔ جب حزبِ اختلاف نے اعلان کيا کہ مزدوروں کے ٹرين ٹکٹ کا خرچ وہ برداشت کريں گے تو عار محسوس ہوا اور حکومتوں اور ريل محکمے نے کہا کہ وہ مسافروں سے کوئي کرايا نہيں ليں گے۔ مرکزي حکومت کے سکريٹري سطح کے افسروں کي جانب سے کووڈ-19 کے سلسلے ميں ہدايات واحکامات جاري کرنے اور روز بروز ترميمات کرنے پر پنجاب کے وزير اعليٰ کيپٹن امريندر سنگھ نے اپنے غيض کا اظہار کيا۔ پھر وزير اعظم مودي جب رياستوں سے ملک بندي ختم کرنے کے راستوں پر تبادلہ خيال کر رہے تھے تو کم از کم آدھا درجن رياستوں نے اپنے حصے کي رقومات کا مطالبہ کيا اور رياستي حکومتوں کو ان کے اپنے تقاضوں کے مطابق فيصلے کرنے ميں آزادي فراہم کرنے کي بات رکھي۔ وفاقي نظام حکومت کے باوجود رياستوں ميں دخل اندازي پر سب سے زيادہ سخت اعتراض مغربي بنگال کي ممتا بينرجي نے اٹھايا ہے۔ تمل ناڈو نے تو اسي دوران کہہ ڈالا کہ ہميں تو اخباروں کے ذريعے ہي پتہ چل رہا ہے کہ تمل ناڈو کے ليے کسي ريل گاڑي کا انتظام کيا جا رہا ہے! رہي سہي کسر کرناٹک کے دو واقعات نے پوري کر دي۔ اول تو کرناٹک سے مزدوروں کو شمالي ہند بھيجنے کے ليے ٹرينوں کا انتظام کيا گيا پھر جب رياست کے بلڈروں نے اپنے ليے مزدوروں کي ضرورت کي طرف متوجہ کيا تو وزير اعليٰ يديورپا نے آٰؤ ديکھا نہ تاؤ، تمام مزدوروں کے کرناٹک چھوڑنے پر پابندي عائد کر دي۔ ليکن جب ہر طرف سے مزدوروں کو يرغمال بنانے پر تنقيد کا سامنا کرنا پڑا تو پھر ان کے ليے ريل گاڑي کا نظم کروايا گيا۔ گويا بے سوچے سمجھے فيصلے کرنے کي مرکزي حکومت کي روايت کو بي جے پي کي رياستي حکومتوں نے بھي جاري رکھا ہوا ہے۔ مرکز نے ۵ مئي کو رياست کو مکتوب بھيج کر کسانوں کے ليے جو گارنٹي دي تھي اس کو ختم کرنے ليے حکم نامہ جاري کرنے کي ہدايت دي، مجوزہ آرڈيننس کو کرناٹک کے حزبِ اختلاف قائد سدا راميا نے جمہوري اقدار اور وفاقي روح کے خلاف قرار ديا اور اس اقدام کو کسانوں کے مفادات کے بھي خلاف قرار ديا۔ حاليہ مزدور قوانين ميں ترميمات کے ليے آرڈيننس کا راستہ اختيار کرنے کا راجستھان، ايم پي اور يو پي کا عمل بھي ماہرينِ قانون کے نزديک غير قانوني اور مزدوروں کے حقوق کي پامالي کے مترادف ہے۔ اس کو ليبر قوانين ميں اصلاحات کا دل کو لبھانے والا نام دے کر تشہير کي جا رہي ہے کہ اس سے کل کارخانے اور سرمايہ کاري کے ليے ماحول ساز گار بنے گا۔ اس سے قبل يو پي ميں وزير اعليٰ آدتيہ ناتھ نے وزير اعظم مودي کے لاک ڈاؤن کو سب سے پہلے ٹھينگا دکھاتے ہوئے ايودھيا ميں لوگوں کو بڑي تعداد ميں لے جا کر پوجا پاٹ کي رسميں ادا کيں اور جسماني وسماجي دوري کے اصولوں پر سب سے پہلے کالک پوتنے کا ريکارڈ اپنے نام درج کر ليا۔ پھر کوٹا سے اپنے طلبہ کو لے کر آگئے حالانکہ تب تک بين رياستي حمل ونقل کي کوئي رخصت نہيں دي گئي تھي۔ جب لوگ خود بہار جانے لگے تو ان کو يو پي سرحد پر روک ليا گيا۔ الٹے بلند شہر ميں فرمان جاري ہوا کہ جو کوئي راہگيروں کو سہارا دے گا، پيدل مزدوروں کو راحت پہنچائے گا وہ کووڈ-19 ضابطوں کي خلاف ورزي کے لے سزا کا مستحق قرار پائے گا۔ آگرہ ميں کورونا وائرس کے مريضوں کو چڑيا گھر کے جانوروں کي مانند کھانا ديے جانے کے مناظر نے بھي حکومت کي سبکي ميں اضافہ ہي کيا۔ حکم راں بي جے ہي کے مرکزي قائدين شروع ہي سے کورونا وائرس کو دھوپ، ھَوَن وپوجا پاٹ يا يوگا سے ہرانے کي باتيں کرتے آئے ہيں اب مدھيہ پرديش کے وزير اعليٰ شيوراج سنگھ کہہ گئے کہ کورونا وائرس زکام، بخار سے آگے اور کچھ نہيں۔ ملک بندي اور کورونا وائرس کي عالمي وبا کے خوف کے سايے ميں حکومت نے حقوق انساني کارکنوں، متنازعہ شہريت قانون کے خلاف مزاحمتي تحريک ميں بڑھ چڑھ کر حصہ لينے والوں پر انتہائي سخت دفعات کے تحت کارروائيوں کے ذريعہ دہشت کا ماحول بنانا اور دہلي اقليتي کميشن کے چيئرمن ڈاکٹر ظفر الاسلام خان پر سنگين کارروائي کے ذريعہ دباؤ بنانے کا طرز عمل حکومت کے عزائم کي اور وبا کے درميان اس کي ناپاک ترجيحات کي عکاسي کر رہا ہے۔ ملک بندي کے پہلے ہي دن بے سہارا مزدوروں کو راحت تو نہيں ملي، ہاں، امّ الخبائث پر ٹوٹ پڑنے کے ليے قطاروں ميں کھڑے مرد وخواتين کے مناظر نے بھارت کي ايک الگ ہي شبيہ دنيا کے سامنے پيش کي۔ جسماني دوري اور حفظانِ صحت کے اصولوں کو گويا ريوينيو کي بھينٹ چڑھا ديا گيا۔ حالانکہ عالمي ادارۂ صحت واضح کر چکا ہے کہ دنيا کو کرونا وائرس کے ساتھ جينا سيکھنا ہوگا۔ ملک ميں نفرت وتعصب، سماجي تفريق اور معاشي نا برابري کے ساتھ کيا بھارت کو ’’وِشو گُرو‘‘ بنايا جا سکے گا؟ اس پر مستزاد يہ کہ عرب ملکوں ميں ہندتوا کے وفاداروں کے ذريعہ کووڈ-19 کو تبليغي کارکنوں سے جوڑ کر اسلاموفوبيا پر مبني سوشل ميڈيا پوسٹس کے بعد سامنے آئے عربوں کے سخت رد عمل نے بھي مودي حکومت کو بيک فوٹ پر کر ديا۔ پاکستان کي جانب سے کشمير ميں جس شکل ميں بھي کي مداخلت کي جا رہي ہے اور جس پيمانے پر بڑھتي دہشت گردانہ کارروائيوں ميں شہريوں سميت ہمارے فوجيوں کي قيمتي جانوں کا نقصان ہو رہا ہے، ان تمام اہم مراحل کے دوران ہمارے وزير داخلہ کيا کر رہے تھے کسي کو نہيں معلوم!ليکن جب وہ سامنے آئے تو ممتا کو دھمکايا گيا، ايکسپريس کے رپورٹر مہيندر سنگھ اور گجراتي ايڈيٹردَھوَل پٹيل کو پوليس کے ذريعے سنگين نتائج کي دھمکي دي گئي۔ ان سب حالات نے عوام ميں يہ تاثر پيدا کر ديا ہے کہ اب اين ڈي اے اتحاد مودي اور شاہ کي قيادت ميں مستحکم ومضبوط حکومت فراہم کرنے ميں ناکام ہو چکا ہے۔پريس کانفرنس کے دوران ’’ديش کے غداروں کو، گولي مارو۔۔۔۔‘‘ گينگ کے طور پر شہرت پانے والے مملکتي وزير انوراگ سنگھ ٹھاکر نے جب يہ کہا کہ ’مودي جي بڑے فيصلوں کے ليے جانے جاتے ہيں‘ تو دفعتاً سپريم کورٹ کے سابق جج مارکنڈے کاٹجو کي تازہ تجويز کي طرف ذہن منتقل ہو گيا جس ميں انہوں نے کہا ہے کہ سن ۱۹۴۰ ميں نازي جرمني کے خطرے کے درميان برطانوي وزير اعظم وِنسٹن چرچل نے جنگ کا مقابلہ کرنے کے ليے متحدہ حکومت تشکيل دي تھي۔ موجودہ بھارتي حکومت ملک کے وبائي حالات کا مقابلہ کرنے کي اہل نہيں رہي۔ مزدوروں کي مجبورياں انہيں اناج کے حصول کي خاطر فساد اور نظم وقانون کا مسئلہ پيدا کرنے کي جانب دھکيل سکتي ہيں۔ ۱۷۸۹ ميں فرانس ميں اور ۱۹۱۷ ميں روس ميں بھي ايسي کيفيت پيدا ہو چکي تھي۔ اب حکومت چلانا مودي جي کے بس کا روگ نہيں! آج تباہي وخانہ جنگي سے بچانے کے ليے بھارت ميں سائنس دانوں، ماہرينِ طب وتکنيک، انتظامي امور کے ماہرين اور اپوزيشن ليڈروں کو ساتھ لے کر ايک ’’قومي حکومت‘‘ تشکيل دينے کي ضرورت ہے۔ کيا خود سے آگے پارٹي اور پارٹي سے آگے ملک کو رکھنے والے نظريے کے علم بردار ملک کي خاطر اتنا بڑا فيصلہ لے سکيں گے؟