اتر پردیش اور گجرات کے بعد مغربی بنگال آر ایس ایس کی نئی تجربہ گاہ؟
تعلیمی اداروں کے ذریعہ ذہنوں کو مسموم کر کے ہندوتوا کے لیے زمین ہموار کرنے میںبنگال میں آر ایس ایس سرگرم
(دعوت دلی بیورو)
کولکاتہ کے صحافی نوراللہ جاوید کی کتاب ’بنگال کے مسلمان‘ میں اہم انکشاف
مغربی بنگال میں پہلی بار ’جئے شری رام‘ اور ’جئے سیا رام‘ کا مقابلہ ہو رہا ہے۔ جبکہ اس سے قبل یہاں جتنے بھی انتخابات ہوئے ہیں ان میں دو ’سیکولر‘ پارٹیوں کے درمیان ہی مقابلہ ہوا اور روٹی، کپڑا اور مکان ہی اہم موضوع رہا ہے لیکن اس بار ایسا نہیں ہے۔
یہ باتیں مغربی بنگال کے صحافی جناب نوراللہ جاوید کی ہیں۔ واضح رہے کہ نوراللہ جاوید کولکاتہ میں صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ مصنف بھی ہیں۔ گزشتہ دنوں بنگال کی سیاست پر ان کی کتاب ’بنگال کے مسلمان‘ کا رسم اجرا ہوا ہے۔ ان کی اس کتاب میں مغربی بنگال کے مسلمانوں کی مجموعی صورت حال کا جائزہ پیش کیا گیا ہے، حالانکہ زیادہ توجہ مسلمانوں کی تعلیمی صورتحال پر ہے۔ ساتھ ہی اس کتاب میں مغربی بنگال کے مسلمانوں کے سیاسی شعور پر بھی گفتگو کی گئی ہے۔
ہفت روزہ دعوت نے مغربی بنگال کے موجودہ الیکشن اور خاص طور پر بنگال میں ہندوتوا کے عروج پر ان سے خاص بات چیت کی۔ نوراللہ جاوید اپنی طویل گفتگو میں بنگال میں ہندوتوا کے عروج کے لیے ممتا بنرجی کے ساتھ ساتھ سابق صدر جمہوریہ پرنب مکھرجی کو بھی ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ۷ جون ۲۰۱۸ کو جب سابق صدر جمہوریہ پرنب مکھرجی آر ایس ایس کے ہیڈکوارٹر ناگپور جارہے تھے تو میں نے ترنمول کانگریس کے راجیہ سبھا کے رکن اور بنگال کے سینئر صحافی سے سوال کیا کہ پرنب دا کے اس دورے کے سیاسی اثرات کیا ہوں گے؟ تو انہوں نے کچھ سوچے بغیر کہا کہ پرنب دا کے آر ایس ایس ہیڈ کوارٹر کے دورے کا ملک گیر سطح پر کیا اثر ہوگا یہ ایک الگ موضوع ہے لیکن پرنب دا کے دورے سے بنگال کی سیاست متاثر ہوگی اور اس کا براہ راست فائدہ آر ایس ایس اور بی جے پی کو ملے گا۔ ترنمول کانگریس کے راجیہ سبھا کے رکن کے اس جواب کو میں نے در خور اعتناء نہیں سمجھا لیکن ایک دن قبل ایک پریس کانفرنس میں آر ایس ایس کے لیڈروں نے یہ دعویٰ کیا کہ ’’۷ جون کو سابق صدر جمہوریہ پرنب مکھرجی کے آرا یس ایس کے ہیڈ کوارٹر ناگپور کے دورے کے بعد آر ایس ایس کی ممبرشپ حاصل کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے‘‘ آر ایس ایس کے اس دعوے نے ترنمول کانگریس کے ممبر پارلیمنٹ کے اندیشے کو صحیح ثابت کر دیا۔ یہی نہیں، آر ایس ایس اور دائیں بازو کی جماعتیں بنگالی عوام کی اکثریت کو یہ سمجھانے میں کامیاب ہوتی ہوئی نظر آرہی ہیں کہ ممتا بنرجی اب ’ممتاز بیگم‘ بن چکی ہیں اور بنگال میں ہندو خطرے میں ہے۔ اب جبکہ ہندو خطرے میں ہے تو اسے بچانے کے لیے ہر کسی کو ہندوتوا کا سہارا چاہیے۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ اس بات کا احساس ممتا بنرجی کو بھی ہو گیا ہے۔ چنانچہ انہوں نے اپنے سیکولر نظریات اور آئیڈیولوجی سے کنارہ کشی اختیار کر کے رام نومی، ہنومان جینتی اور برہمن کانفرنس کے بعد بڑے ہی اہتمام سے جن سنگھ کے بانی اور ہندوتوا نظریات کے بڑے پرچارک شیاما پرساد مکھرجی کے یوم وفات پر کھلے عام خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے انہیں بنگال کا عظیم سپوت قرار دیا۔ جبکہ یہ شیاما پرساد مکھرجی نے ہی مذہب کی بنیاد پر بنگال کی تقسیم کی پرزور حمایت کی اور تقسیم کے فوائد گناتے ہوئے لکھا تھا بنگالی ہندوؤں کو بچانے کیلئے تقسیم بنگال ناگزیر ہے کیوں کہ تقسیم کے بعد ہی مغربی بنگال میں ۷۰ فیصد ہندوؤں کی آبادی بچے گی۔ ان کی یہ باتیں مشہور بنگلہ اخبار ’’آنند بازار پتریکا‘‘ کے ۲۱ مارچ ۱۹۴۷ کے شمارے میں دیکھی جا سکتی ہیں۔
نوراللہ جاوید کے مطابق بنگال میں ہندوتوا کی مقابلہ آرائی کا آغاز ۲۰۱۷ میں شروع ہوا جب آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیموں نے رام نومی کا جلوس نکالنے کا اعلان کیا۔ اس رام نومی کے جلوس میں بڑے پیمانے پر ہتھیاروں کی نمائش کی گئی ۔بچوں کے ہاتھوں میں تلوار تھماکر جلوس نکالا گیا۔ اس سے قبل بنگال میں یہ منظر کبھی بھی نہیں دیکھا گیا تھا۔ بنگال کی سول سوسائٹی نے رام نومی کے اس جلوس کی مذہبی و سیاسی استعمال کی مذمت کی اور کہا یہ یہ لوگ بنگالی تہذیب و کلچر کو تباہ کرنے والے ہیں۔ مارچ ۲۰۱۸ میں بھی رام نومی کے موقع پر آر ایس ایس نے جلوس نکالنے کا اعلان تو کیا مگر ساتھ ہی کہا کہ وہ اس سال ہتھیاروں کی نمائش نہیں کریں گے مگر ممتا بنرجی نے ایک قدم آگے بڑھ کر ترنمول حامی کلبوں کو مسلح جلوس نکالنے کی اجازت دے دی جس کے نتیجہ میں رام نومی جلوس پر ترنمول کانگریس اور بی جے پی کے درمیان خوب مقابلہ آرائی ہوئی ۔بلکہ کئی مقامات پر ترنمول کانگریس کے ورکروں کے ذریعہ مسلم محلوں میں ’’جے شری رام‘‘ کے نعرے لگانے کی وجہ سے ماحول خراب بھی ہو گیا۔ اسی مقابلہ آرائی کا نتیجہ تھا کہ آسنسول اور رانی گنج میں بڑے پیمانے پر فرقہ وارانہ فسادات ہوئے۔
اس کے بعد سے ہی دونوں جماعتوں کے درمیان ہندوتوا کے مسئلہ پر مقابلہ آرائی چل رہی ہے، دونوں سیاسی جماعتیں ایک دوسرے سے بڑھ کر اپنے آپ کو ہندوتو حامی ثابت کرنے کی دوڑ میں لگی ہوئی ہیں۔نوراللہ جاوید کا کہنا ہے کہ گزشتہ کچھ برسوں میں مغربی بنگال میں فرقہ وارانہ کشیدگی کے متعدد واقعات رونما ہوئے جس میں شمالی چوبیس پرگنہ کے حاجی نگر کا فرقہ وارانہ فساد، ہوڑہ کا ڈھولا گڑھ فرقہ وارانہ فساد، بشیرہاٹ فرقہ وارانہ فساد اور کھڑگ پور فرقہ وارانہ فساد قابل ذکر ہیں۔ دراصل یہ چھوٹی موٹی فرقہ وارانہ جھڑپیں تھیں جس میں نہ کوئی جانی نقصان ہوا اور نہ ہی بڑے پیمانے پر مالی نقصانات مگر میڈیا اور بی جے پی نے ان فسادات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا اور دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ بنگال میں بھی کشمیر جیسے حالات ہیں اور مسلم اکثریتی علاقوں سے ہندوؤں کو نکالا جارہا ہے۔ وہیں فرقہ وارانہ فسادات پر سخت کارروائی کرنے کی بجائے ممتا بنرجی بھی یہاں الزامی سیاست کرتی رہیں، جس کا فائدہ آر ایس ایس اور بی جے پی کو براہ راست پہنچا۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ۹۰ کی دہائی میں جب پورا ملک لال کرشن اڈوانی کی ’’رام مندر تحریک‘‘ کی آگ میں جھلس رہا تھا تو اس وقت بنگال کی سیاست اس کے اثرات سے پاک تھی ۔اڈوانی کی رام مندر کی تحریک بی جے پی کو بنگال میں کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکی ۔بابری مسجد کی شہادت کے بعد بھی بنگال میں کہیں پر بھی فرقہ وارانہ فسادات نہیں ہوئے۔
آخر میں نوراللہ جاوید کا کہنا ہے کہ ترنمول کانگریس بھی اب کھلے طور پر نرم ہندوتوا کی راہ پر گامزن ہے۔ ۲۰۱۶ کے اسمبلی انتخابات میں اقلیتی ووٹوں کیلئے بڑے بڑے وعدہ کرنے والی ممتا بنرجی کے ایجنڈے سے اقلیتوں کی ترقی کا باب اب غائب ہو چکا ہے۔
کیوں بنگال میں آر ایس ایس ہو رہی ہے مقبول؟
آر ایس ایس کی ذیلی تنظیم فرینڈ آف ٹرائبل سوسائٹی کے تحت چلنے والے ’’ایکلا اسکول‘‘ نے مغربی بنگال میں آر ایس ایس کو مقبولیت دلانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ مشہور صحافی اور حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب ’’مشن آف بنگال ‘‘ کے مصنف سنگدھیڈو بھٹاچاریہ نے How one-teacher Ekal schools helped the spread of Hindutva in rural West Bengal کے عنوان سے ایک مضمون میں’’ایکلا اسکول‘‘ کے طریقے کار پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’ہندوستان بھر کے قبائلی علاقے میں کل ۸۵,۰۰۰ اسکول چل رہے ہیں جس میں صرف مغربی بنگال میں ۴,۶۰۰ اسکول ہیں اور اس میں زیادہ تر اسکول مغربی بنگال کے مسلم اکثریتی اضلاع شمالی دیناج پور، مالدہ اور مرشدآباد میں ہیں۔ مالدہ ضلع میں ۲۵۰ اسکول ہیں اور حبیب پور بلاک جہاں قبائلیوں کی اکثریت وہاں ۹۰ اسکول ہیں۔ بھٹاچاریہ نے اپنے اس مضمون میں واضح کیا کہ ان اسکولوں میں تعلیم سے زیادہ مذہبی نعرے، مذہبی گیت، ہندوستان میں مزعومہ برتری، رام مندر اور دیگر متنازع ایشوز پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ اس علاوہ ایکلا ابھیان کے تحت کوچنگ کلاسیس بھی چلائی جاتی ہیں۔ انہوں نے لکھا ہے کہ اس وقت ۴,۴۴۰ کوچنگ کلاسیس مغربی بنگال بھر میں چل رہے ہیں۔ اس مضمون میں یہ بھی لکھا ہے کہ جن علاقوں میں یہ اسکول چل رہے ہیں وہاں بی جے پی نے لوک سبھا انتخابات کے دوران برتری حاصل کی ہے۔
مشہور صحافی سوہنی چٹو پادھیائے نے مغربی بنگال میں ’’ون واشی کلیان آشرم‘‘ کے تحت چلنے والے اسکولوں، ہوسٹل کا تفصیل سے جائزہ پیش کیا ہے۔ انہوں نے اپنے مضمون Inside a Hindutva hostel:how RSS is rewiring the tribal mind میں ون واشی کلیان آشرم کے تحت چلنے والے اسکولوں کے نصاب اور ہاسٹل کی سرگرمیوں کا جائزہ لیا ہے۔ سوہنی چٹوپادھیائے مغربی بنگال کے بیربھوم ضلع کے مولا پور میں واقع کلیان واشی کے ہوسٹل میں جاکر طلبا و طالبات سے بات چیت کر کے ان کی تعلیمی لیاقت کا جائزہ لیا ہے۔
۱۹۵۲ میں قائم ہونے والا ون واشی کلیان آشرم اس وقت ملک کی کئی ریاستوں چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش، جھار کھنڈ ،اڑیسہ اور مغربی بنگال میں سرگرم ہے۔ ساہنی کے مضمون کے مطابق اس وقت ۱۷,۸۰۸ اسکول ملک بھر میں آشرم کے تحت چل رہے ہیں۔ وہیں انسانی حقوق کی تنظیم پیوپلز یونین فار سول لبرٹیز (پی یو سی ایل) کی ایک رپورٹ کے مطابق آشرم قبائلی علاقے میں بھرتی کیلئے کام کرتی ہے۔ پیوپلز یونین فار سول لبرٹیز کے مطابق آشرم کی کوشش ہے کہ قبائلی اپنی فطرت کی پوجا کی ثقافت اور روایات سے محروم ہوجائیں اور اپنی شناخت چھوڑ کر صرف ہندو ہونے کا دعویٰ کریں۔ سوامی اسیمانند جو سمجھوتہ ایکسپریس دھماکہ میں ملوث رہے ہیں اور کئی سالوں تک جیل میں رہے ہیں اور ان پر ۱۹۹۸ میں گجرات میں دانگہ ضلع میں عیسائی مشنریوں پر حملہ میں بھی ملوث رہنے کا الزام ہے۔ وہ اسی آرگنائزیشن سے وابستہ تھے۔ سوہنی لکھتی ہیں کہ بیربھوم ضلع کے مولا پور کے ہاسٹل جس میں زیادہ تر سنتھائلی قبائلی بچے پڑھتے ہیں، میں مسلم مخالف رجحانا ت کو دیکھ کر وہ حیران ہو گئی کہ کیسے معصوم بچوں کے
ذہن و دماغوں کو مسلمانوں کے خلاف نفرت سے بھر دیا گیا ہے۔ ویسے تو ون واشی کلیان آشرم ۱۹۷۸ سے ہی بنگال میں چل رہا ہے۔ ہاسٹل ایک ضلع میں وی کے اے ماحولیات کے نوڈل پوائنٹس کے طور پر کام کرتے ہیں، جو شیشو شکشا سدنوں (نرسریوں) اور نائٹ اسکولوں کی نگرانی کرتے ہیں۔ پورے بنگال میں ۱۴ ہاسٹل ہیں۔ ۱۱ لڑکوں کے لیے اور تین لڑکیوں کے لیے۔ ان میں سے ۱۲ کو ۱۹۷۸ سے ۱۹۹۲ کے درمیان قائم کیا گیا ہے۔ تاہم، پچھلے پانچ سالوں میں ان کی تعداد بڑی تیز رفتاری سے بڑھی ہے ۔ پوروانچل کلیان آشرم کے سکریٹری شنکر لال اگروال نے مجھے وسطی کلکتہ میں اپنے الیکٹرانک کے سامان کی دوکان پر اطمینان کے ساتھ بتایا کہ ’’اس سے قبل ہمیں قبائلیوں کو راضی کرنا پڑا کہ وہ اپنے بچوں کو ہمارے پاس بھیجیں۔ فی ہاسٹل بمشکل ۱۵ تا ۲۰ طلبا تھے۔ اب بہت سارے خواہش مند ہیں، انہیں داخلہ کے امتحانات دینے پڑتے ہیں۔
انگریز ی اخبار ٹائمز آف انڈیا کیلئے ایک دہائی سے رپورٹنگ کرنے والے’ سومسوار بورال‘ نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ سنتھالیوں میں تعلیم کے حصول کا رجحان دراصل یو پی اے حکومت کے منریگا اسکیم کا نتیجہ ہے مجموعی طور پر پیسہ کی وسیع پیمانے پر گردش ہو رہی ہے اور سنتھالیوں نے بھی جو معاشرے کے غریب ترین لوگوں میں سے ہیں خوب فائدہ اٹھایا ہے۔ ان میں تعلیم کے حصول کا رجحان پیدا ہوا۔ مگر ان کے علاقوں میں تعلیمی اداروں کی قلت کا فائدہ ارون واشی کلیان آشرم جیسے ادارے اٹھا رہے ہیں۔
سوہنی کہتی ہیں کہ ہاسٹل میں بچوں کو پڑھائے جارہے نصاب کا جائزہ لینے اور بچوں سے ملاقات اور بات چیت کے بعد جو بات سامنے آئی ہے وہ یہ ہے کہ آر ایس ایس کے یہ اسکول تعلیم کے فروغ سے کہیں زیادہ مسلمانوں کے تئیں نوجوانوں میں نفرت پیدا کرنے کے لیے ہیں۔ ان کے مطابق ان قبائلیوں اور شیڈول کاسٹ کے نوجوانوں کو مسلمانوں کے خلاف ابھار کر بڑے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ماضی کے تجربات بتاتے ہیں کہ ملک بھر میں جہاں بھی فرقہ وارانہ فسادات ہوئے ہیں وہاں مسلمانوں کا قتل عام کرنے میں یہ قبائلی اور دلت نوجوان آگے آگے رہتے ہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ ہندو دائیں بازو کی تنظیموں نے ان دلتوں اور قبائلیوں کو تعلیم کے نام پر ان کے ذہن و دماغ کو آلودہ اور مسلمانوں کے تئیں نفرت سے اس قدر بھر دیا ہے کہ وہ مرنے اور مارنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔
آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیموں کا پورا کاروبار جھوٹ، فریب اور مکر پر منحصر ہے۔ جب مقاصد ہی منفی ہوں تو پھر خیر کی امید کیسے کی جا سکتی ہے۔ آر ایس ایس یہ جانتی ہے کہ رام کرشن مشن ایک عظیم ادارہ ہے۔ بنگال کے عوام کے دلوں میں اس کا مقام ہے۔ چنانچہ اپنے اسکول ودیا بھارتی اور شیشو مندر اسکولوں سے متعلق یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں یہ اسکول رام کرشن مندر کے تحت چلتے ہیں۔ اپنے اسکولوں کی عمارت کی تعمیر بھی رام کرشن مشن کی عمارتوں کے طرز پر کرتے ہیں۔ اپنے اسکولوں میں وقتاً فوقتاً رام کرشن مشن کے راہبوں کو مدعو کرتے ہیں۔ رام کرشن مشن کا سیاسی استعمال وزیر اعظم نریندر مودی بھی کر چکے ہیں۔ گزشتہ سال جنوری میں کلکتہ دورے کے دوران وزیر اعظم مودی نے رام کرشن مشن میں شہریت ترمیمی ایکٹ سے متعلق بیان دیا بعد میں رام کرشن مشن نے وزیر اعظم کے اس بیان سے کنارہ کشی اختیار کی۔
ایک طرف آر ایس ایس منصوبہ بند طریقے سے مسلمانوں کی گھیرا بندی اور بنیادی مقاصد کی تکمیل کر رہی ہے تو دوسری طرف بنگال کے مسلمان ہیں جو ان خطرات سے بے پرواہ ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ انہیں صحیح صورت حال کا اندازہ نہیں ہے کہ اگر بنگال میں اقتدار حاصل کرنے میں بی جے پی کامیاب ہو گئی تو ریاست کے مسلم اکثریتی اضلاع ان کے نشانے پر ہوں گے۔
دہشت گردی، گائے اسمگلنگ اور دراندازی کے جھوٹے الزامات میں بڑے پیمانے پر گرفتاریاں ہوں گی اور دوسری طرف گجرات سے کہیں زیادہ بھیانک فرقہ وارانہ فسادات کے رونما ہونے کا خطرہ رہے گا اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کیلئے دلتوں اور قبائلی نوجوانوں کے دل و دماغ کو تعلیمی ادارے کے ذریعہ مسموم کر دیا گیا ہے۔گجرات اور اتر پردیش کے بعد مغربی بنگال ہی ہندوتو طاقتوں کیلئے نئی تجربہ گاہ بن سکتا ہے مگر مسلم لیڈر شپ ان خطرات سے بے خبر کلکتہ میں بیٹھ کر مسلم-دلت اتحاد کے نعرے لگا رہی ہے اور آر ایس ایس گاوں اور دیہاتوں میں ایک نئی کہانی لکھنے میں مصروف ہے۔ (نوراللہ جاوید کی کتاب ’بنگال کے مسلمان‘ سے ماخوذ)
***
دہشت گردی، گائے اسمگلنگ اور دراندازی کے جھوٹے الزامات میں بڑے پیمانے پر گرفتاریاں ہوں گی اور دوسری طرف گجرات سے کہیں زیادہ بھیانک فرقہ وارانہ فسادات کے رونما ہونے کا خطرہ رہے گا اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کیلئے دلتوں اور قبائلی نوجوانوں کے دل و دماغ کو تعلیمی ادارے کے ذریعہ مسموم کر دیا گیا ہے۔گجرات اور اتر پردیش کے بعد مغربی بنگال ہی ہندوتو طاقتوں کیلئے نئی تجربہ گاہ بن سکتا ہے مگر مسلم لیڈر شپ ان خطرات سے بے خبر کلکتہ میں بیٹھ کر مسلم-دلت اتحاد کے نعرے لگا رہی ہے اور آر ایس ایس گاوں اور دیہاتوں میں ایک نئی کہانی لکھنے میں مصروف ہے۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 11 تا 17 اپریل 2021