آسام: کانگریس رہنما کا کہنا ہے کہ سابق چیف جسٹس آف انڈیا رنجن گوگوئی ریاست میں بی جے پی کے اگلے وزیر اعلی امیدوار ہوسکتے ہیں، بی جے پی نے دعوے کو مسترد کیا
گوہاٹی، اگست 23: سینٹینل کی خبر کے مطابق کانگریس کے رہنما ترون گوگوئی نے ہفتے کے روز دعوی کیا ہے کہ ’’ان کے ذرائع‘‘ نے انھیں بتایا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی 2021 کے اسمبلی انتخابات میں آسام سے پارٹی کی طرف سے وزیر اعلیٰ کے امیدوار کے طور پر سابق چیف جسٹس رنجن گوگوئی کا نام پیش کر سکتی ہے۔
ترون گوگوئی نے نامہ نگاروں کو بتایا ’’میں نے اپنے ذرائع سے سنا ہے کہ رنجن گوگوئی کا نام بی جے پی کے ممکنہ وزیر اعلی امیدواروں کی فہرست میں ہے۔ مجھے شبہ ہے کہ آئندہ اسمبلی انتخابات میں پارٹی کے ذریعے انھیں وزیر اعلی کی حیثیت سے پیش کیا جائے گا۔‘‘
ہندوستان ٹائمز کے مطابق سابق وزیر اعلیٰ نے الزام لگایا کہ بی جے پی نے سابق چیف جسٹس کو راجیہ سبھا کا ممبر بنایا کیوں کہ پارٹی بابری مسجد تنازعہ سے متعلق ان کے فیصلے سے خوش تھی۔
ترون گوگوئی نے کہا ’’(رنجن) گوگوئی راجیہ سبھا کا ممبر بننے سے انکار کر سکتے تھے، لیکن ان کی منظوری سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ فعال سیاست میں دلچسپی رکھتے ہیں۔‘‘
واضح رہے کہ گذشتہ سال نو نومبر کو ایک تاریخی فیصلے میں اس وقت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس گوگوئی نے فیصلہ دیا تھا کہ ایودھیا میں متنازعہ اراضی کو رام مندر کی تعمیر کے لیے حکومت کے زیر انتظام ٹرسٹ کے حوالے کیا جائے گا اور مسلمانوں کو مسجد تعمیر کرنے کے لیے متبادل زمین دی جائے گی۔
کانگریس کے رہنما نے دعوی کیا کہ رنجن گوگوئی نے بتدریج ’’قدم بہ قدم‘‘ سیاست میں داخل ہورہے ہیں۔ انھوں نے مزید کہا ’’رنجن گوگوئی کی ایک سیاسی خواہش ہے اور اسی لیے انھوں نے راجیہ سبھا کی ممبری قبول کی۔ اگر وہ اگلے وزیر اعلی کے امیدوار بن جاتے ہیں تو حیرت کی بات نہیں ہوگی۔‘‘
آسام بی جے پی نے دعوے کو مسترد کیا
وہیں بی جے پی کی آسام یونٹ کے صدر رنجیت داس نے کہا کہ ترون گوگوئی کے دعوے میں ’’سچائی کا شائبہ‘‘ تک نہیں ہے۔ داس نے ہندوستان ٹائمز کو بتایا ’’جب لوگ بہت بوڑھے ہوجاتے ہیں تو بے معنی باتیں کرتے ہیں اور ہم [ترون] گوگوئی کے بیان کو اسی زمرے میں رکھنا چاہتے ہیں۔‘‘
واضح رہے کہ صدر رام ناتھ کووند نے گوگوئی کو 17 نومبر 2019 کو چیف جسٹس کے عہدے سے سبکدوش ہونے کے صرف چار ماہ بعد مارچ میں ایوان بالا کے لیے نامزد کیا تھا۔
اس وقت متعدد سیاستدانوں اور سپریم کورٹ کے دو ریٹائرڈ ججوں مدن بی لوکور اور کورین جوزف نے ان کی نامزدگی پر تنقید کی تھی۔