آئی سی ایس ای کے نصاب سے کیوں اکھڑ گیا ‘‘جامن کا پیڑ’’؟

ذرائع کے مطابق ایک ریاست کے عہدیداروں کو ہے اس کہانی پر اعتراض

ایک طنزیہ مختصر کہانی جس میں عہدیدار ایک جامن کے درخت کے نیچے پھنسے ہوئے ایک شخص کو بچانے کی ذمہ داری کو ایک دوسرے پر ٹالتے رہتے ہیں یہاں تک کہ وہ قضیہ وزیر اعظم کے دروازے تک جا پہنچتا ہے۔ بورڈ کے امتحانات سے محض تین ماہ قبل ہی اسے آئی سی ایس ای ہندی کے نصاب سے خارج کردیا گیا ہے۔

ذرائع کے مطابق ایک خاص ریاست کے عہدیداروں نے حال ہی میں کرشن چندر کی کہانی ‘‘جامن کا پیڑ’’ پر اعتراض کیا ہے جو سن 2015 سے ہندی دوسری زبان (second language) کے نصاب کا حصہ ہے۔

کرشن چندر (1914-1977) نے 1960 کی دہائی میں یہ کہانی لکھی تھی لیکن کچھ اہلکاروں کو لگتا ہے کہ اس میں موجودہ اسٹیبلشمنٹ کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

آئی سی ایس ای کونسل کے ایک نوٹس میں کہا گیا ہے کہ 2020 اور 2021 بورڈ کے امتحانات دینے والے طلبا سے اس کہانی سے متعلق سوال نہیں پوچھے جائیں گے۔

کونسل کے سکریٹری اور چیف ایگزیکیٹو گیری آراتھون کے مطابق یہ کہانی اس وجہ سے خارج کردی گئی ہے کیونکہ یہ "دسویں جماعت کے طالب علموں کے لیے مناسب نہیں تھی”۔ انہوں نے اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ اس کہانی پر کسے یا کیوں اعتراض کیا گیا ہے۔

کہانی میں ایک ایوارڈ یافتہ شاعرطوفان آنے کے سبب سیکریٹریٹ کی عمارت کے لان میں موجود ایک درخت کے نیچے پھنس گیا ہے۔ باغبان اس کے بچاؤ کی کوشش کرتا ہے، وہ اس معاملہ کی خبر چپراسی کو دیتا ہے، جو اس ذمہ داری  کو کلرک کی طرف منتقل کر دیتا ہے، پھر کلرک اسے بلڈنگ سپرنٹنڈنٹ کے پاس بھیج دیتا ہے اور یہ اسی طرح آگے منتقل ہوتا رہتا ہے۔ اس دوران درخت کے نیچے طوفان میں پھنسا ہوا آدمی مدد کے لیے فریاد کرتا رہتا ہے۔ معاملہ چار دن بعد چیف سکریٹری تک پہنچ جاتا ہے۔ اور پھر محکمۂ زراعت سے لے کرمحکمۂ جنگلات اور محکمۂ  ثقافت کے مابین اس مسئلے کی منتقلی کا ایک نیا دور شروع ہوجاتا ہے۔

محکمۂ ثقافت کا ایک اہلکار موقع پر پہنچا اور اس کتاب کی تعریف کی جس پر اس شاعر کو انعام سے نوازا گیا تھا۔ لیکن وہ شاعر سے کہتا ہے کہ اس کا بچاؤ کرنا اس کا کام نہیں ہے۔ پھریہ فائل محکمہ صحت کو بھیجی جاتی ہے تو وہاں سے اسے وزارت خارجہ کے پاس منتقل کردیا جاتا ہے کیونکہ وہ درخت پڑوسی ملک کے وزیر اعظم نے لگایا تھا۔

محکمہ خارجہ اس درخت کو کاٹنے کی اجازت دینے سے انکار کردیتا ہے تاکہ ایسا نہ ہو کہ (خیالی) پڑوسی ملک سے تعلقات خراب ہو جائیں۔ آخر کار یہ فائل وزیر اعظم تک پہنچ جاتی ہے۔

ایک انڈر سیکرٹری عمارت سپرنٹنڈنٹ سے کہتا ہے ‘‘وزیر اعظم اپنے دورے سے شام چار بجے واپس آچکے ہیں۔ وزارت خارجہ یہ فائل ان کے سامنے پیش کرے گی۔’’

عہدیداروں سے مشاورت کے بعد وزیر اعظم نے فیصلہ کیا کہ آدمی کو بچانے کے لیے اس درخت کو کاٹنے کی اجازت دی جائے خواہ اس سے دو طرفہ سیاسی اور سفارتی تعلقات متاثر ہوں۔

اور جب تک عمارت کا سپرنٹنڈنٹ یہ آرڈر لے کر وہاں پہنچا تب تک وہ شخص مر گیا۔

ہندی کی پروفیسر اور مغربی بنگال یونیورسٹی آف ٹیچرس ٹریننگ، ایجوکیشن پلاننگ اینڈ ایڈمنسٹریشن کی وائس چانسلر سوما بندوپادھیاے نے کہا ‘‘کرشن چندر نے حکومت میں ذمہ داریوں کے منتقلی کے رجحان کو پیش کرنے کے لیے یہ کہانی لکھی ہے۔’’

نریندر مودی حکومت کو ماہرین معاشیات کے الزامات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے کہ وہ "زیادہ مرکزیت” کے سبب فیصلہ سازی کے عمل کو سست کررہی ہے۔

پچھلے مہینے لندن میں آر بی آئی کے سابق گورنر رگھورام راجن نے کہا تھا "ہمارے پاس ایک ایسی حکومت ہے جس میں حکومت زیادہ مرکزی حیثیت سے حکومت کرنا چاہتی ہے…. یہ عملی لحاظ سے مرکزی حیثیت رکھتا ہے، اس لیے اس میں وزیر اعظم کے دفتر میں بہت سارے فیصلے کیے جاتے ہیں۔’’

نوبل انعام یافتہ ابھیجیت ونایک بنرجی نے حال ہی میں کہا تھا "میرے خیال میں ان میں سے ایک چیز جنھوں نے معیشت کو نقصان پہنچایا ہے، زیادہ مرکزیت ہے۔ فیصلہ سازی بہت زیادہ مرکزیت کی حامل ہے اور یہ ہمیں مہنگا پڑتا ہے۔ سرمایہ کار ایسی دنیا میں رہنا پسند نہیں کرتے ہیں جہاں ہر چیز پر ایک خاص اقلیت کا غلبہ ہو اور انھیں ایک خاص اقلیت کی منظوری کا منتظر رہنا پڑے۔’’