مفسرین ومترجمین قرآن کا تعارف سیریز- 7 ڈپٹی نذیر احمد کا با محاورہ ترجمہ قرآن

محاوراتی زبان کے بکثرت استعمال پر علماء کی تنقید

ڈاکٹر سید وہاج الدین ہاشمی

شمس العلماء مولوی حافظ نذیر احمد ۱۸۳۱ء میں ضلع بجنور کے موضع رہتر میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام سید سعادت علی تھا۔ عربی و فارسی کی ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی پھر دلی آئے۔ دلی کالج میں ادب عربی اور فلسفہ اور علم ریاضی کی تکمیل کی۔ پہلے کانپور پھر الٰہ آباد میں ڈپٹی انسپکٹر مدارس رہے۔ اپنی کوشش اور شوق سے انگریزی میں مہارت حاصل کی اور ترقی کر کے تحصیلدار بنے پھر ڈپٹی کلکٹر کے عہدہ تک پہنچ گئے۔ حیدر آباد کی سرکار نے انہیں اپنے بورڈ آف ریوینیو کا ممبر بنا دیا۔ ۱۸۸۳ء میں پنشن لے کر دلی واپس چلے آئے اور عمر کا باقی حصہ تصنیف و تالیف میں بسر کیا۔ انگریزی حکومت نے شمس العلما کا خطاب دیا اور ایڈنبرا یونیورسٹی سے ایل ایل ڈی کی ڈگری عطا کی۔
نذیر احمد علی گڑھ کے حامیوں میں سے تھے۔ کئی سال تک ایم ای او کالج کے ٹرسٹی رہے۔ دہلی کالج اور سینٹ اسٹینفنس کالج کے قیام میں ان کی کوششوں کا دخل رہا۔ فن خطابت پر قدرت حاصل تھی۔ ان کی تقریروں کے دو مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ قانون کی کئی کتابوں کا ترجمہ کیا جن میں ’’انڈین پینل کوڈ‘‘ اور ’’انکم ٹیکس ایکٹ‘‘ قابل ذکر ہیں۔ قرآن مجید کا آسان اور با محاورہ اردو ترجمہ کیا۔ مگر ان کی زیادہ شہرت ان کے ناولوں کی وجہ سے ہے جن کا مقصد معاشرہ کی اصلاح تھا۔ ان کا پہلا ناول ’’مراة العروس‘‘ ہے جو متوسط طبقہ کے مسلمانوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس ناول کا ہندوستان کی کئی زبانوں میں ترجمہ ہوا ہے۔ ’’بنات النعش‘‘ تعلیم نسواں کے موضوع پر لکھا گیا۔
نذیر احمد کو دہلی کی ٹکسالی اردو، محاوروں اور مکالماتی زبان پر قدرت حاصل تھی۔ خصوصاً عورتوں کی زبان لکھنے میں انہیں مہارت تھی۔ ان کا شمار اردو ناول کے بنیاد گزاروں میں ہوتا ہے۔
‌‏(۱) ایک ایسے دور میں جب کہ سر زمین ہند کو علوم و فنون (مغربی) کی ہوا تک نہ لگی ہو بلکہ عوام لفظ اصطلاح سے بھی واقف نہ تھے نذیر احمد کا انگریزی علمی اصطلاحات کو اردو میں ترجمہ کرنا ایک کٹھن کام تھا اور خوبی تو اس بات کی ہے کہ نذیر احمد کے پاس تراجم کے کوئی اولیات نہ تھے پھر بھی جس حسن و خوبی سے انہوں نے اس کام کو سر انجام دیا وہ ان ہی کا حصہ تھا۔ اردو تراجم کے بعد ان اصطلاحات کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ انگریزی اصطلاحات میں جو تاثیر و قوت رہتی ہے وہ ان میں بھی جوں کی توں باقی ہے۔ دراصل اس کی کامیابی کا راز آپ کی عربی زبان پر وہ دسترس ہے جو نذیر احمد کے لیے انگریزی اصطلاحات کو اردو زبان میں منتقل کرنے میں معاون ثابت ہوئی۔ یہی اہلیت بیان آپ کے ترجمہ قرآن میں بھی پائی جاتی ہے۔(۲) علمائے کرام نے ڈپٹی صاحب کے اردو ترجمہ قرآن کے بعض مقامات کے ترجمے اور حواشی کے بعض مسائل سے اختلاف کیا ہے۔ جن میں نمایاں طو ر پر مولانا اشرف علی تھانوی کا نام آتا ہے۔حتٰی کہ مولانا تھانوی نے ’’اصلاح ترجمہ دہلویہ‘‘ کے نام سے رسالہ ہی لکھ دیا جس میں ڈپٹی صاحب کے ترجمہ کی خامیوں پر گرفت کی گئی ہے۔ ڈپٹی صاحب کے ترجمے میں محاوروں کی بہتات ہے، یہی وہ بنیادی وجہ ہے جس کی وجہ سے اس ترجمہ میں خامیاں پیدا ہو گئی ہیں۔ اس سلسلہ میں ڈاکٹر حمید شطاری اس طرح رقمطراز ہیں: ’’ڈپٹی نذیر احمد کی آزاد طبع تحریر کی ممتاز خصوصیت اس کی بے تکلفی اور بے ساختہ پن ہے اور یہ ان کا کمال ہے کہ اس خصوصیت کو ترجمہ میں بھی باقی رکھنے کی کوشش کی ہے اگرچہ ایسا کرنے میں کہیں کہیں ان کے قلم سے متانت اور سنجیدگی کا دامن چھوٹ گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ ان کے مزاج میں لطیف ظرافت کا بھی رنگ ہے۔ ڈپٹی صاحب نے مختلف کتابیں لکھی ہیں، عربی اور فارسی کے الفاظ بکثرت استعمال کیے ہیں۔۔۔محاوروں اور کہاوتوں کا انہیں اتنا شوق تھا کہ ان کی کثرت، حُسن کی بجائے عیب بن گئی۔ محاورہ بندی کا یہ شوق ان کے ترجمے میں بھی کار فرما ہے جس کی وجہ سے ان کے ترجمے میں کہیں کہیں نقص پیدا ہوگیا ہے‘‘۔
(۳) مولوی نذیر احمد کے ترجمہ قرآن میں نقص کی بنیادی وجہ کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر سید محی الدین زور لکھتے ہیں: ’’حافظ نذیر احمد عربی ادب میں مہارت تامہ رکھتے تھے لیکن ان کے اسلوب بیان میں گہرائی نہیں ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ فطرت کی طرف سے ناول نگاری کے لیے پیدا کیے گئے تھے۔ نذیر احمد اکثر اوقات خیالات کی رو کے ساتھ اس طرح بہہ جاتے ہیں کہ دامن ادب ان کے ہاتھ سے چھوٹا پڑتا ہے اور یہی نقص ہے جس کی بنا پر نہ صرف ادبیت کا فقدان ہو جاتا ہے بلکہ عالمانہ شان بھی ہاتھ سے جاتی رہتی ہے۔ وہ اگرچہ جید عالم نہیں تھے لیکن ان کی عبارتوں سے ان کی قابلیت اور تحقیق کا کوئی پتہ نہیں چلتا۔ اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ نہایت سنجیدہ اور ثقہ بحث میں بھی وہ مذاق اور عامیانہ اسلوب بیان کرتے ہیں۔ نذیر احمد کی طرز عبارت مرزا غالب کے اسلوب سے مختلف تھی۔ غالب کی خود داری کا اقتضا یہ تھا کہ وہ دلی کی روزمرہ سے سادہ زبان نہ لیں جو دلی کے عوام اور بازاری لوگ بولتے ہیں بلکہ وہ جو وہاں کے شرفاء اور اعلٰی طبقہ مین مستعمل ہے۔ یہی وہ امتیازی فرق ہے جو بڑھ جانے کے بعد نقص کی شکل میں نمودار ہو کر نذیر احمد کے نہ صرف سنجیدہ مباحث بلکہ قرآن شریف کے ترجمے میں بھی مورد الزامات رہا‘‘۔
(۴) ڈاکٹر عبداللہ نے بھی اپنی کتاب ’سر سید کے نامور رفقاء‘ میں نذیر صاحب کے ترجمے پر اپنی رائے کا اظہار اس طرح کیا ہے: ’’۔۔۔ ان کے اس ترجمے کی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ یہ ٹھیٹھ اردو میں ہے اور اردو کا پہلا استوار بامحاورہ ترجمہ ہے۔ اس کے خلاف یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اس میں بعض اوقات وہ سوقیانہ محاورات استعمال کیے گئے ہیں جو ناول کے لیے تو شاید موزوں ہوں مگر قرآن مجید کے تقدس کے منافی ہیں۔ اس کمزوری کے باوجود ان کا ترجمہ خاصا مقبول ہے‘‘۔
(۵) لیکن اس امر میں کوئی شک نہیں کہ ڈپٹی صاحب کا ترجمہ ان کمزوریوں کے باوجود ایک بہترین ترجمہ ہے۔ ترجمہ کی بعض فنی کمزوریوں کی بنیاد پر سارے ترجمہ کو ناقص کہنا یہ علمی تنقید کا انداز نہیں ہو سکتا۔ ویسے تو قرآن مجید کے اب تک جتنے تراجم ہوئے ہیں ان میں ترجمہ کے پہلو سے کسی نہ کسی طرح کی خامی کو ناقدین نے اجاگر کیا ہے۔ مولوی نذیر احمد کے متعلق یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ وہ پہلے مترجم ہیں جنہوں نے قرآنی متن کی ترتیب کا لحاظ ترجمہ میں نہیں کیا ہے۔ اس سب کے باوجود مولوی صاحب کے ترجمہ قرآن کی مقبولیت کا اندازہ اس کی اشاعت سے لگایا جاسکتا ہے کہ سو برسوں (۱۸۰۵ء تا ۱۹۰۵ء) میں اس کے آٹھ ایڈیشن منظر عام پر آئے تھے۔
قرآن حکیم کے ترجمہ کے علاوہ ڈپٹی صاحب نے کئی دینی، اخلاقی، اصلاحی وادبی تالیفات بھی چھوڑی ہیں جو اردو ادب کے لیے ایک گراں قدر اور قیمتی تحفہ ہے۔ ان کی تصانیف میں سے کئی ایک کتابیں عرصہ دراز تک تعلیمی اداروں میں بطور نصابی کتب کے پڑھائی جاتی رہی ہیں۔ ان کے ناول اصلاح معاشرہ کا بے مثال نمونہ پیش کرتے ہیں۔ آپ نے محض عوامی دلچسپی کے لیے ناول نہیں لکھے بلکہ آپ کا مطمح نظر قوم کی اصلاح و فلاح بہبود تھا۔ اس لیے وہ کرداروں کو اس طرح پیش کرتے ہیں کہ قوم غیر شعوری طور پر اس کی حالت سے آگاہ ہو کر اصلاح و ترقی پر آمادہ ہو جائے کیونکہ ناول نگاری کی بڑی خوبی یہ ہے کہ زندگی کے ذریعہ کردار کو نہیں بلکہ کردار کے ذریعہ زندگی کو بنائیں۔
ذیل میں ان کی چند کتب کے نام درج کیے جا رہے ہیں:
۱۔ توبۃالنصوح ۲۔ ابن الوقت ۳۔ مراۃالعروس ۴۔محسنات ۵۔ الاجتہاد ۶۔ امہات الامۃ ۷۔ الحقوق والفرائض ۸۔ بنات النعش ۹۔ ادعیۃالقرآن ۱۰۔رویائے صادقہ وغیرہ
ڈپٹی نذیر احمد کے مذکورہ تصانیف سے پتہ چلتا ہے کہ آپ نے اپنی تحریر کے ذریعہ اردو زبان و ادب کو مالا مال کیا وہیں اس کے ذریعہ اصلاحِ امت کی بھر پو رکوشش بھی کی۔ ڈپٹی صاحب کے اسی پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے مولانا طیب عثمانی ندوی لکھتے ہیں: ’’نذیر احمد مصلح ملت بھی تھے اور معلم اخلاق بھی اور ساتھ ہی اعلیٰ درجہ کے افکار بھی۔ اردو ادب میں انہوں نے ناول کے فن کی ابتداء کی اور مستقبل میں اس کے امکانات کے لیے ایک تعمیری انداز اور اصلاحی نقطہ نظر بخشا۔ نذیر احمد کا یہ ایسا ادبی کارنامہ ہے جسے تاریخ ادب اردو کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔‘‘
‏(۶) اردو کے ارتقائی دور میں جن لوگوں نے اس زبان کی آبیاری کی ہے ان میں نذیر احمد کا نام نمایاں ہے بالخصوص ترجمہ کے حوالے سے نذیر احمد نے دینی اور قانونی کتب کے تراجم و اپنے ادبی شہ پاروں کے ذریعہ اردو زبان وادب کی جو خدمت انجام دی ہے اردو ادب کی تاریخ ان کے تذکرہ کے بغیر ادھوری ہے۔
حوالے:
۱۔ www.urduencyclopedia.org
۲۔ ڈپٹی نذیر احمد دہلوی: فن اور شخصیت: محمد رضی الدین معظم۔
www.jahan-e-urdu.com
۳۔ڈاکٹر شطاری، قرآن کے اردو تراجم وتفاسیر کا تنقیدی مطالعہ-۱۹۱۴ء تک،ص۔۴۷۲
۴۔ ڈاکٹر محی الدین زور، اردو کے اسالیب بیان، ص۔ ۴۷،۴۸،۴۹۔ ۱۹۶۴
۵۔ ڈاکٹر عبداللہ، سر سید احمد خاں اور ان کے نامور رفقاء، ص۔ ۹۶، چمن بک ڈپو، اردو بازار دہلی
۶۔ طیب عثمانی ندوی، افکار وانداز، ص۔ ۱۸۷-۱۸۸، ناشر دارالکتاب
***

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 28 مارچ تا  3 اپریل 2021