زندگی کی حقیقت قرآن کی روشنی میں
خالق حقیقی نے دنیا کو ضرورت کے لیے بنایا ہے اور لامحدود خواہشات کے لیے اس نے ایک آخرت بنائی ہے
ڈاکٹر ساجد عباسی
دنیا کی اصل حقیقت معلوم نہ ہونے کی وجہ سے انسان اپنے دل میں سجائی ہوئی خیالی جنت کو اسی دنیا میں حاصل کرنے کی دھن میں لگا رہتا ہے اور اپنی جنت بنانے کی تگ و دو میں دوسروں کی زندگی کو جہنم بنانے لگتا ہے، اور اگر ایسی خیالی جنت دنیا میں نہ ملے تو وہ مایوسی کا شکار ہوجاتا ہے، یہاں تک کہ موت آکر اس کے سارے خوابوں کو چکنا چور کر دیتی ہے۔
قرآن کی ایک آیت میں اللہ تعالیٰ نے انسان کی زندگی کی حقیقت کو بہت ہی معنی خیز انداز میں پیش کیا ہے:
اعْلَمُوا أَنَّمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهْوٌ وَزِينَةٌ وَتَفَاخُرٌ بَيْنَكُمْ وَتَكَاثُرٌ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ كَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهُ ثُمَّ يَهِيجُ فَتَرَاهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَكُونُ حُطَامًا وَفِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ شَدِيدٌ وَمَغْفِرَةٌ مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانٌ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ
خوب جان لو کہ یہ دنیا کی زندگی اس کے سوا کچھ نہیں کہ ایک کھیل اور دل لگی اور ظاہری ٹپ ٹاپ اور تمہارا آپس میں ایک دوسرے پر فخر جتانا اور مال و اولاد میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش کرنا ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک بارش ہوگئی تو اس سے پیدا ہونے والی نباتات کو دیکھ کر کاشت کار خوش ہوگئے۔ پھر وہی کھیتی پک جاتی ہے اور تم دیکھتے ہو کہ وہ زرد ہوگئی۔ پھر وہ بُھس بن کر رہ جاتی ہے۔ اِس کے برعکس آخرت وہ جگہ ہے جہاں سخت عذاب ہے اور اللہ کی مغفرت اور اس کی خوشنودی ہے۔ دنیا کی زندگی ایک دھوکے کی ٹٹّی کے سوا کچھ نہیں۔ (سورۃ الحدید۲۰)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے انسان کی زندگی کے مراحل کو بالترتیب بچپن سے بڑھاپے تک ہر مرحلے میں پیدا ہونے والی مخصوص دلچسپیوں اور مرغوبات کو ترتیب کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ انسان کا خالق ہے وہ انسان کی فطرت اور اس کی فطری رغبتوں اور کمزوریوں کو بخوبی جانتا ہے، وہی ہمیں اس راہِ راست کی طرف رہنمائی کر سکتا ہے جو اس مقصد کو پورا کرے جس کے لیے انسان کو پیدا کیا گیا ہے۔ اسی آیت میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ انسان ظاہر میں کھو کر اپنے اصل مقام سے غافل نہ ہو اور حقیقی کامیابی پر اس کی نظر ہو۔ اگر انسان ظاہر میں کھو جائے اور اگلی اصل زندگی میں کامیابی کے لیے تیاری نہ کرے تو پھر وہ درد ناک عذاب سے بچ نہیں سکتا۔
انسان جب پیدا ہوتا ہے اور چلنے پھرنے کے قابل بنتا ہے تو اس کے لیے کھلونے دنیا کی سب سے اہم چیزیں ہوتے ہیں۔ دوسرے بچوں کے کھلونوں کو دیکھ کراس کے اندر شدید خواہش پیدا ہوتی ہے۔ اس وقت ایک بچے کے لیے یہ کھلونا سب سے قیمتی متاع ہوتی ہے۔اس کے سامنے ایک طرف جواہرات رکھے جائیں اور دوسری طرف ایک نیا کھلونا رکھ دیا جائے تو وہ کھلونے کو ترجیح دے گا۔ قرآن اس مرحلے میں زندگی کے ابتدائی ایام میں دلچسپیوں اور کھیلنے اور دل بہلانے کو ’’لعب‘‘ سے موسوم کرتا ہے۔
جب بچہ لڑکپن کی عمر کو پہنچ جاتا ہے اور ہائی اسکول میں داخل ہو جاتا ہے تو اس کے لیے تفریح entertainmentاور لطف اندوز ہونے کے جو مواقع ملتے ہیں ان کے ذریعے فرحت و لذت amusement حاصل کرنا ہی اس کا مقصد بن جاتا ہے۔ آج کل اس کی مثال ویڈیو گیمز، موسیقی اور فلمیں ہیں جن کی لڑکوں اور لڑکیوں کو لت لگ جاتی ہے اور وہ اس کے عادی ہو جاتے ہیں۔ اس کو قرآنی اصطلاح میں ’’لہو‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔
بچے جب اور بڑے ہوجاتے ہیں تو وہ خود پسندی میں مبتلا ہوتے ہیں اور اپنے ذات کے بارے میں بہت حساس conscious اور sensitive ہو جاتے ہیں۔ وہ خود کو زیادہ سے زیادہ خوبصورت بنا کر دنیا کے سامنے پیش کرنے میں لگ جاتے ہیں۔ لڑکے Gym جاکر دوسروں کے لیے جاذبِ نظر بننا چاہتے ہیں وہیں لڑکیاں میک اپ کرنے لگتی ہیں، اپنا وزن کم کرنے کی کوشش کرتی ہیں اور خود کو خوبصورت سے خوبصورت دکھانے کی کوشش کرنے لگتی ہیں۔ اگر وہ خود کو بہتر دکھانے میں ناکام ہونے لگتی ہیں تو ان پر مایوسی چھانے لگتی ہے۔ ان کے نزدیک اچھا نظر آنا دنیا کی سب سے اہم چیز بن جاتی ہے۔ اس کو قرآن ’’زینت‘‘ کہتا ہے جس کو حاصل کرنے میں لڑکے اور لڑکیاں اپنے ہم عمروں میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ آج کل سوشل میڈیا پر خود نمائی کرتے ہوئے دوسروں کی مدح حاصل کرنے کے لیے بہت سارے پلاٹ فارمس بنے ہوئے ہیں جیسے فیس بک، ٹک ٹاک اور انسٹاگرام وغیرہ۔
انسانی زندگی کا اگلا مرحلہ ’’تفاخر‘‘ کا ہے جس میں انسان ایسی چیزیں حاصل کرنا چاہتا ہے جس سے اس کو معاشرہ میں نمایاں مقام حاصل ہو۔ اس کے لیے ایسے تعلیمی شعبے کا انتخاب کیا جاتا ہے جو ان کو معاشرہ میں ممتاز مقام عطا کرے۔ وہ سب سے بہترین کورس اعلی ترین یونیورسٹی سے حاصل کرنا چاہتا ہے۔ تعلیم کے ذریعے ایسا کریئر اور پیشہ اختیار کرنا چاہتا ہے جس میں زیادہ سے زیادہ پیسہ کمایا جاسکے۔ تعلیم کا حصول بھی اسی غرض کے لیے ہوتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ مال کمایا جاسکے۔ تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد وہ ایسا کریئر اختیار کرتا ہے جو مال و دولت اور شہرت کمانے میں امتیازی شان حاصل کرنے کا ذریعہ بن جائے۔ یہ مال کمانے کا ابتدائی مرحلہ ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ہی اس کی سب سے بڑی خواہش ہوتی ہے کہ اس کو ایسا جیون ساتھی ملے جو اس کے خوابوں کے عین مطابق ہو۔ تعلیم، پیشہ اور اپنا ہمسفر ایسی چیزوں پر انسان دوسروں کے مقابلے میں اپنے آپ کو ایسے مقام پر دیکھنا چاہتا ہے جس پر اس کو فخر ہو ۔
اس کے بعد کا مرحلہ ہے مال اور اولاد میں ترقی کی منازل طے کرنا ہے، جس کو قرآن کے الفاظ میں ’’تکاثر فی الاموال والاولاد‘‘ فرمایا گیا ہے۔ اس مرحلے میں انسان زیادہ سے زیادہ مال کمانے، اچھی سے اچھی رہائش تعمیر کرنے اور اپنی اولاد کو ترقی کی منازل طے کرانے کے بارے میں سوچتا ہے۔ مال و اسباب کے جمع کرنے کی ایسی ریس میں شامل ہو جاتا ہے ہے جس کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ ھل من مزید کی دھن میں وہ اپنی صحت کو بھی داؤ پر لگا دیتا ہے۔ مال میں تکاثر اور اولاد کی ترقی ہی کامیابی کی معراج بن جاتی ہے۔ انسان تفاخر اور تنافس کی نفسیات کے ساتھ جینے لگتا ہے اور ہر محفل میں گفتگو کا موضوع یہی ہوتا ہے کہ میں فلاں کاروبار، کمپنی یا فیکڑی کا مالک ہوں، میری رہائش ایسی اور ایسی ہے اور میرے بچے امریکہ اور یورپ میں اعلی تعلیم حاصل کر رہے ہیں یا وہ بڑے عہدوں پر فائز ہیں۔
تفاخر و تنافس کی نفسیات کے ساتھ انسان کی زندگی گزرتی رہتی ہے یہاں تک کہ اس کا جسم اس کی خواہشات کا ساتھ دینا چھوڑنے لگتا ہے۔ سماعت، بصارت اور دیگر قوائے جسمانی جواب دینے لگ جاتے ہیں لیکن جینے کی آرزو اور بڑھنے لگتی ہے، اس حال میں کہ انسان اپنی آخری منزل کی طرف طوعاً و کرھاً رواں دواں ہوتا ہے۔ اسی بات کو قران نے دوسرے مقام پر فرمایا :
أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ حَتَّى زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ تم لوگوں کو زیادہ سے زیادہ اور ایک دوسرے سے بڑھ کر دنیا حاصل کرنے کی دھن نے غفلت میں ڈال رکھا ہے۔ یہاں تک کہ (اِسی فکر میں) تم لبِ گور تک پہنچ جاتے ہو۔ (التکاثر ۱-۲)
سورۃ الحدید کی آیت میں انسانی زندگی کے اس رویے کو بیان کیا گیا ہے جس کو عموماً دنیا میں انسانوں کی اکثریت اختیار کرتی ہے۔لوگ دنیا کو خوانِ یغما سمجھ کر برتتے ہیں یعنی ایسی جگہ جس سے حتی الامکان حد تک لذّت اندوز ہوسکیں، لیکن یہ ظاہر بینی کا نتیجہ ہے۔ انسان ایک خیالی جنت کو دل میں سجائے رکھتا ہے اور اس کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے۔ ایک طرف انسان کے دل میں خواہشات کا ایک سمندر رکھ دیا گیا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کو اس طرح بنایا ہے کہ یہ دنیا انسان کی لامحدود خواہشات کو پورا کرنے کی متحمل نہیں ہے۔ اس دنیا کو اللہ تعالیٰ نے بقدرِ ضرورت بنایا ہے۔ لا محدود خواہشات کے لیے اللہ تعالیٰ نے آخرت بنائی ہے۔ کچھ مفکرین کا خیال ہے کہ انسان اس کرۂ ارض کا باشندہ ہے ہی نہیں۔ انسان کو اللہ تعالی نے جنت کا مکین بنا کر پیدا فرمایا اور اس نے جنت ہی سے اپنا سفر شروع کیا تھا۔انسان چاہتا ہے کہ وہ کبھی نہ مرے۔ وہ کبھی بیمار نہ ہو۔ وہ کبھی غمگین نہ ہو۔ اس کو ایسی نعمتیں ملیں جو کبھی ختم نہ ہوں۔خواہشِ خلد کی لالچ ہی میں آدمؑ و حوا نے ممنوعہ درخت کا پھل کھا لیا تھا۔ اسی جنت میں مستقل جائے قرار permanent residency پانے کے لیے انسان کو امتحان کے لیے عارضی طور پر زمین پر بھیجا گیا ہے۔ اس عارضی دنیا کو مستقل جائے قرار سمجھنے کی غلطی نے انسان کو عجیب مخمصے میں ڈال دیا ہے کہ خواہشات غضب کی ہیں لیکن ان کا حصول اور ان خواہشات کی تکمیل کی استعداد محدود ہے۔ یہ محدود دنیا انسان کی لا محدود خواہشات کے لیے نہیں بنائی گئی ہے۔ دنیا کی کوئی نعمت ایسی نہیں ہے جو انسان کے دل کو اس طرح سیراب کرے کہ وہ پوری طرح بھر جائے۔
حدیث میں آتا ہے کہ: اگر ابن آدم کو سونے کی دو وادیاں دی جائیں تو وہ تیسری کی تمنا کرے گا، اور ابن آدم کا پیٹ تو قبر کی مٹی ہی بھر سکتی ہے۔
ہر نعمت کے ملنے سے قبل انسان اس کے لیے تڑپ اٹھتا ہے۔ نعمت کے مل جانے پر اس کو بہت خوشی ہوتی ہے لیکن یہ خوشی بہت جلد معدوم ہوجاتی ہے اور انسان اس سے خوب تر نعمت کی حسرت اپنے دل میں پیدا کرلیتا ہے۔اس طرح ایک نامعلوم خیالی جنت کی تلاش مسلسل جاری رہتی ہے ۔
دنیا کی نعمتوں کی ایک حقیقت یہ ہے کہ جس طرح انسان کی صحت ایک حد کے بعد زوال پذیر ہوتی ہے اسی طرح یہاں کی نعمتیں بھی تغیر پذیر اور زوال پذیر ہیں۔ سورۃ الحدید کی اسی آیت میں اس کو ایک مثال سے تشبیہ دی گئی ہے کہ بارش ہوتی ہے اور اس کے نتیجہ میں کھیتی لہلہا اٹھتی ہے اور کاشتکار کا دل خوش کر دیتی ہے اور یہ کھیتی پھر زرد پڑنے لگتی ہے اور بالآخر بھس بن جاتی ہے۔ اس مثال میں یہ بتلایا گیا ہے کہ ہر شئے متغیر ہے۔ پہلے اس کا عروج ہوتا ہے پھر وہ چیز زوال پذیر ہونے لگتی ہے۔ دنیا میں بھی انسان کمزوری سے سفر کرتے ہوئے عین جوانی کی حالت میں پہنچتا ہے۔ اس کے بعد اس پر بتدریج ضعف طاری ہونے لگتا ہے۔ اسی طرح جو نعمت بھی انسان کو ملتی ہے آغاز میں وہ دل کو خوش کر دیتی ہے پھر بتدریج وہ دل سے اترنے لگتی ہے جیسے ایک بچے کو نئے کھلونے سے بہت خوشی ہوتی ہے لیکن وہ خوشی تھوڑی دیر کے لیے ہوتی ہے۔ وہ کھلونا اس بچے کے لیے ’’زرد‘‘ پڑ جاتا ہے جیسے کھیتی زرد پڑجاتی ہے۔ انسان ہر اس نعمت کے حصول کے لیے تڑپ اٹھتا ہے جو اس کی دسترس سے باہر ہوتی ہے۔ جونہی وہ نعمت اس کی دسترس میں آجاتی ہے بہت جلد اس کا دل بھر جاتا ہے اور وہ نعمت ’’زرد ‘‘ پڑنے لگتی ہے۔ اس بات کو ایک شاعر نے اس طرح بیان کیا ہے:
دنیا جسے کہتے ہیں جادو کا کھلونا ہے
مل جائے تو مٹی ہے کھو جائے تو سونا ہے
یعنی اس دنیائے عارض میں خود انسان بھی عارضی ہے، نعمتیں بھی عارضی ہیں اور ان نعمتوں کے حصول پر حاصل ہونے والی خوشی بھی عارضی ہے۔ اس عالمِ ناپائیدار کو منتہائے مقصود بنانا احمقانہ سوچ کا نتیجہ ہے۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ اصل حقیقت کو بیان فرماتا ہے، وہ یہ ہے کہ دنیا کی یہ حیات مستعار عیش کوشی کی جگہ نہیں ہے بلکہ یہ امتحان کی جگہ ہے۔ اصل زندگی آخرت کی زندگی ہے جہاں دو صورتوں میں سے ایک صورت کا انسان کو سامنا کرنا ہوگا۔ ایک صورت ہے ’’عذابِ شدید‘‘ کی اور دوسری صورت ہے ’’مغفرت من اللہ و رضوان‘‘ کی ۔ایک ٹھکانے کا نام ہے جہنم اور دوسرے ٹھکانے کا نام ہے جنت۔ جنت ایسی جگہ ہے جہاں ایک انسان کا دل ہمیشہ بھرا رہتا ہے۔ اس لیے کہ وہاں پر نعمتیں بھی ایک حالت پر نہیں رہتیں بلکہ ان کے اندر لذت و چاشنی بتدریج بڑھتی چلی جاتی ہے۔ جس قدر انسان کے اندر نئی لذتوں کی تلاش ہوتی ہے اسی قدر جنت میں لا محدود نعمتیں ملتی چلی جاتی ہیں جو ہر پل فزوں تر ہوتی ہیں۔ جنت میں نہ انسان مرے گا نہ ہی بوڑھا ہوگا اور نہ ہی بیمار ہو گا اور نہ ہی اس کو کوئی غم لاحق ہوگا۔ ایسی لازوال نعمتیں، مغفرت اور اللہ کی رضوان کے نتیجہ میں حاصل ہوں گی۔ ایسی لامحدود جنت ہی میں انسان کی لامحدود خواہشات پوری ہوسکتی ہیں۔ لیکن اس جنت کو پانے کے لیے انسان کو ایک قیمت ادا کرنی پڑے گی، وہ قیمت یہ ہے کہ وہ اللہ کو بغیر دیکھے محض اس کی نشانیوں کو دیکھ کر اس کی معرفت حاصل کرے۔ اللہ کی ایسی معرفت حاصل کرے کہ اس کی اطاعت کو حرزِ جان بنالے۔دنیا میں ناجائز خواہشات کو پورا کرنے کی قدرت رکھ کر اپنے آپ کو بے اختیار کرلے۔ اللہ پر توکل کرکے ادھار جنت کو بغیر دیکھے اس کے مقابلے میں نقد دنیا کے فائدوں کو ٹھکرا دے۔
دنیا کی اصل حقیقت معلوم نہ ہونے کی وجہ سے انسان اپنے دل میں سجائی ہوئی خیالی جنت کو اسی دنیا میں حاصل کرنے کی دھن میں لگا رہتا ہے اور اپنی جنت بنانے کی تگ و دو میں دوسروں کی زندگی کو جہنم بنانے لگتا ہے اور اگر ایسی خیالی جنت دنیا میں نہ ملے تو وہ مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے یہاں تک کہ موت آکر اس کے سارے خوابوں کو چکنا چور کر دیتی ہے۔ موت کو حدیث میں ھادم الذّات کہا گیا ہے۔ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا لذتوں کو ختم کرنے والی (موت) کو خوب یاد کرو۔
اس کے برخلاف اللہ کے نیک بندے اس یقین کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں کہ موت فقط عالم ِامتحان سے عالمِ جزا کی طرف منتقل ہونا ہے۔ یوم الحساب میں فیصلہ ہوگا کہ کس کو جنت میں جانا ہے اور کس کو جہنم میں۔ وہ کبھی فکرِ آخرت سے غافل ہوکر اس دنیا کی عارضی آسائشوں میں کھو نہیں جاتے بلکہ حقیقی جنت کے امیدوار ہوتے ہیں ۔كُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَةُ الْمَوْتِ وَإِنَّمَا تُوَفَّوْنَ أُجُورَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَمَن زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ وَما الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلاَّ مَتَاعُ الْغُرُورِ (آل عمران ۱۸۵)
آخر کار ہر شخص کو مرنا ہے اور تم سب اپنے اپنے پورے اجر قیامت کے روز پانے والے ہو۔ کامیاب دراصل وہ ہے جو وہاں آتشِ دوزخ سے بچ جائے اور جنت میں داخل کر دیا جائے۔ رہی یہ دنیا، تو یہ محض ایک ظاہر فریب چیز ہے۔
دنیا کی حقیقت جب بندۂ مومن پر آشکارا ہوتی ہے تو وہ دنیا کی طلب میں اندھا نہیں ہو جاتا، نہ اپنی دنیا بنانے کے لیے دوسروں پر ظلم ڈھاتا ہے، نہ دنیاوی مصیبتوں پر مایوسی کا شکار ہوتا ہے اور نہ دنیاوی نعمتوں پر اتراتا ہے بلکہ وہ دنیا میں تقویٰ کی زندگی گزارتا ہے اور ایسی زندگی دوسرے انسانوں کے لیے سراسر رحمت بن جاتی ہے۔ وہ مصیبتوں پر صبر کرتا ہے اور نعمتیں پاکر شکر ادا کرتا ہے۔
سورۃ الحدید کی اس آیت میں ترتیب کے ساتھ انسانی زندگی کے مختلف مراحل میں انسان کی دلچسپیوں میں جو ارتقاء ہوتا ہے اسی ترتیب کے لحاظ سے قرآن ان مرغوبات کو پیش کرتا ہے جو انسان کو زندگی کے حقیقت کو پانے سے دور رکھتے ہیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک فرد کو ساری زندگی کھیل اور تماشے سے دلچسپی ہو۔ کوئی ساری زندگی تفاخر میں جیتا ہو۔ کوئی ایسا بھی ہو سکتا ہے جس کی ساری زندگی مال و دولت کی محبت اور شہرت کے حصول میں گزرجاتی ہو۔
***
***
دنیا کی حقیقت جب بندۂ مومن پر آشکارا ہوتی ہے تو وہ دنیا کی طلب میں اندھا نہیں ہو جاتا، نہ اپنی دنیا بنانے کے لیے دوسروں پر ظلم ڈھاتا ہے، نہ دنیاوی مصیبتوں پر مایوسی کا شکار ہوتا ہے اور نہ دنیاوی نعمتوں پر اتراتا ہے بلکہ وہ دنیا میں تقویٰ کی زندگی گزارتا ہے اور ایسی زندگی دوسرے انسانوں کے لیے سراسر رحمت بن جاتی ہے۔ وہ مصیبتوں پر صبر کرتا ہے اور نعمتیں پاکر شکر ادا کرتا ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 24 ستمبر تا 30 ستمبر 2023