’’وہ جس کے نقش قدم سے چراغ جلتے تھے‘‘

بھارت رتن ڈاکٹر ذاکر حسین کی علمی خدمات

افروز عالم ساحل

۱۳؍ اکتوبر ۱۹۲۰ کی صبح۔۔۔ علی گڑھ میں محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کا یونین ہال ایک بار پھر کچھا کھچ بھرا ہوا تھا۔ جوشیلی تقریریں ہو رہی تھیں۔ ان تقریروں کا موضوع گاندھی، سوامی ستیہ دیو اور علی برادران کے ذریعہ کی گئی تقریریں تھیں، جس میں ان سب لوگوں نے ان طلبہ سے تعلیمی بائیکاٹ کی گزارش کی تھی۔

ابھی تقریروں کا سلسلہ جاری ہی تھا کہ علی برادران پھر سے یہاں پہنچے اور ان نوجوان طلبہ کی تقریروں کا رخ پلٹ دیا۔ حالانکہ ان دونوں بھائیوں نے دوچار منٹ ہی تقریر کی ہوگی لیکن ان دوچار منٹوں میں ہال میں موجود طلبہ کا سوچنے کا نظریہ ہی بدل دیا۔ یہ چند منٹ بہت سوں کے لئے زندگی کے فیصلہ کن لمحے بن گئے۔ ’علی گڑھ ہمارا روحانی گھر تھا، ہم یہاں بڑے ارمان لے کر آئے تھے۔ بہت دل شکستہ جاتے ہیں۔ خدا حافظ‘۔ مولانا محمد علی جوہر کی ان باتوں سے طلبہ کے دل پگھل کر آنکھوں سے نکل پڑے تھے۔ ان سب کے درمیان تقریروں کا سلسلہ پھر سے چل پڑا۔ اب جو تقریریں ہو رہی تھیں، وہ پہلے سے بھی زیادہ پر جوش تھیں۔

اسی ہال کے ایک کونے میں چپ چاپ بیٹھا ایک نوجوان یہ سب کچھ سن رہا تھا۔ یہ نوجوان ایک عرصہ سے بیمار تھا۔ بخار سے تپ رہا تھا۔ لیکن اس سے رہا نہیں گیا اور اٹھ کر کہہ دیا کہ ’ہر معقول بات کو طعن اور تشنیع کے حربے سے یوں ہی ختم کیا جائے گا تو یہ جوش کڑھائی کا ابال ہو کر رہ جائے گا۔‘ ان کا اتنا بولنا تھا کہ نوجوان طلبہ نے نہ جانے کیا کیا الزام لگا دئے۔ اس نوجوان کا ایک دوست اٹھا اور کہنے لگا، ’یہ شخص میرا دوست ہے۔ یہ اچھا آدمی ہے۔ سچا آدمی ہے۔ مگر اس وقت اس کے سینہ میں شیطان گھس گیا ہے۔ یہ اپنی تنخواہ محفوظ کرنا چاہتا ہے، اس لئے یہ ترکیب کر رہا ہے کہ وقت ٹل جائے اور ہم کچھ نہ کر پائیں۔ دوستو دھوکہ نہ کھاؤ۔‘

اس نوجوان کا چہرہ نقاہت سے زرد تھا اور سارا بدن پسینہ سے تر، لیکن اس کے باوجود وہ کھڑا ہوا اور اس بار جو تقریر کی، اس تقریر نے لوگوں کے خیالات کا رخ ہی بدل دیا۔ اب یہاں ان نوجوان طلبہ میں یہ خیال پیدا ہوا کہ تعلیمی بائیکاٹ تب ہی ہو، جب ان کے لئے ایک نئی تعلیم گاہ قائم کی جائے۔ اور یہ نئی تعلیم گاہ جامعہ ملیہ اسلامیہ تھی اور وہ نوجوان کوئی اور نہیں، بلکہ ڈاکٹر ذاکر حسین تھے، جو ان دنوں ایم اے کے طالب علم تھے اور ساتھ ہی اپنی قابلیت کے دم پر ایم اے او کالج میں اسسٹنٹ لیکچرر مقرر ہوئے تھے۔ ۱۳ اکتوبر ۱۹۲۰ کے اس تاریخی جلسے کی منظر کشی عبدالغفار مدہولی صاحب نے اپنی کتاب ’جامعہ کی کہانی‘ میں بے حد شاندار طریقے سے کی ہے۔

۲۹ اکتوبر، ۱۹۲۰۔۔۔ اب 0 قائم ہو چکی تھی۔ ذاکر حسین کا نام بھی یہاں کے اساتذہ کے فہرست میں شامل تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ مجلس منتظمہ کے اراکین کے فہرست میں بھی وہ شامل تھے۔ اس کے علاوہ شعبہ تصنیف و تالیف کے انچارج اور مجلس تعلیمی کے رکن بھی تھے۔ اس کے باوجود وہ اپنی تعلیم مکمل کرنا چاہتے تھے، اسی دوران انہیں جرمنی جانے کا موقع ملا اور ستمبر ۱۹۲۲ میں جرمنی کے لئے روانہ ہو گئے۔ اب وہ یہاں کے برلن یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کے طالب علم تھے۔

سال ۱۹۲۴ کے آتے آتے جامعہ کو بند کرنے کا چرچا ہونے لگا۔ ذاکر حسین کو ان کے چند ساتھیوں نے ایک تار بھیجا، جس میں انہوں نے لکھا کہ ’فاؤنڈیشن کمیٹی جامعہ کو بند کرنے کی تیاریاں کر رہی ہے، آپ کا کیا مشورہ ہے؟‘ اس پر ذاکر صاحب کا جواب آیا، ’میں اور میرے کچھ ساتھی جامعہ کی خدمت کے لئے اپنی زندگی وقف کرنے کے لئے تیار ہیں۔ ہمارے آنے تک جامعہ کو بند نہ ہونے دیا جائے۔‘ ذاکر صاحب کا یہ جواب پا کر ایک ڈیلیگیشن حکیم اجمل خان سے ملا اور ان سے گزارش کی کہ ذاکر صاحب کے آنے تک جامعہ کو بند نہ کیا جائے۔ یہ شاید ذاکر حسین صاحب کے ہی خلوص کا نتیجہ ہے کہ جامعہ اب تک برقرار ہے۔

فروری ۱۹۲۶ میں ذاکر حسین صاحب اپنے دو خاص دوستوں محمد مجیب اور عابد حسین صاحب کے ساتھ برلن سے دہلی پہنچے اور یہاں آتے ہی ان تینوں دوستوں نے جامعہ کی باگ ڈور سنبھال لی۔ اس کے کچھ ہی مہینوں بعد جون ۱۹۲۶ میں ذاکر حسین اپنے تین ساتھیوں (عابد حسین، محمد مجیب اور شفیق صاحب) کے ساتھ گاندھی جی سے ملنے ان کے سابرمتی آشرم گئے۔ گاندھی جی سے یہ ان کی پہلی ملاقات تھی۔

ذاکر حسین اور گاندھی جی کی یہ ملاقات ہر طرح سے کافی فائدہ مند ثابت ہوئی۔ گاندھی جی کو بھی ان سے مل کر یہ یقین ہوگیا کہ جامعہ ایک اچھے مسلمان کے ہاتھ میں ہے، جو ہندو مسلم اتحاد کا حامی ہے اور ملک و قوم کی آزادی و خوش حالی کے لئے اسے ضروری سمجھتا ہے۔ ادھر خود ذاکر صاحب کو گاندھی جی کے رویے اور خیالات سے بڑا سہارا ملا، دونوں نے ایک دوسرے کو سمجھا اور پھر وقت کے ساتھ دونوں کا باہمی اعتماد بڑھتا چلا گیا۔ اس ملاقات کے بارے میں پروفیسر مجیب لکھتے ہیں، ’مہاتما گاندھی نے بڑی نرمی سے یہ بات ہمارے دلوں میں بٹھا دی کہ تیرو یا ڈوب جاؤ اور یہ امید بھی ظاہر کر دی کہ جامعہ میں تَیر کر نکل جانے کی صلاحیت ہے۔‘

اس ملاقات کے بعد ذاکر حسین نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ تمام مشکلوں کے باوجود جامعہ ملیہ اسلامیہ کے لئے لگے رہے۔ پہلے جامعہ قرول باغ میں چلتی رہی۔ آخرکار سال ۱۹۳۵ میں ذاکر حسین نے اوکھلا میں اس وقت دس ہزار روپے خرچ کرکے ۱۰۰ ایکڑ زمین خریدی اور وہاں جامعہ کی پہلی بلڈنگ کے تعمیر کے بارے میں سوچا۔ اس بلڈنگ کے چیف آرکیٹکٹ کارل ہینج تھے۔ کارل ترکی کے ایک پرنس عبدالکریم کے ساتھ حیدرآباد پہنچے تھے۔ ڈاکٹر حسین اور کارل ہینج جلد ہی جرمن زبان جاننے کی وجہ سے دوست بن گئے۔ ہینج نے جامعہ کی اس بلڈنگ کا ڈیزائن تیار کیا اور اس ڈیزائنوں کو مستری عبد اللہ نے عملی شکل دی۔ انجینیئر خواجہ لطیف حسن پانی پتی نے بھی کبھی کبھی تعمیراتی کام کی دیکھ ریکھ کے لئے رضاکارانہ طور پر کام کیا تھا۔ اس وقت قریب ڈھائی لاکھ سے زائد رقم اس بلڈنگ پر خرچ ہوئی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس بلڈنگ کا سنگ بنیاد ۱۰ مارچ ۱۹۳۵ کو جامعہ کے سب سے کم عمر طالب علم عبدالعزیز کے ہاتھوں رکھا گیا۔ عبدالعزیز اس وقت محض ۱۰ سال کے تھے۔ گاندھی جی کو ذاکر حسین کا یہ آئیڈیا بے حد پسند آیا۔ انہوں کے اس سلسلے میں ذاکر حسین کو اس خیال پر مبارکباد دینے کے لئے خط بھی لکھا اور پریس میں اپنا بیان بھی جاری کیا تھا۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اس بلڈنگ کے لئے حیدرآباد کے نظام نے اس وقت ایک لاکروپوں کی مدد دی تھی۔ یہی وہ بلڈنگ ہے جہاں آج جامعہ اسکول کا ہاسٹل ہے۔

جب سال ۳۸-۱۹۳۷ میں ملک میں بیسک نیشنل ایجوکیشن (وردھا اسکیم) کی شروعات ہوئی تو ذاکر حسین صاحب نے ہی بنیادی تعلیم کے تخیل کو ایک عملی منصوبے کی شکل دی۔ ذاکر صاحب ان دنوں ہندوستانی تعلیمی سنگھ کے صدر تھے۔ پورے ملک کے لئے بہترین اساتذہ تیار کرنے کی نیت سے ۴ اگست ۱۹۳۸ کو قرول باغ کے جامعہ کیمپس میں ’استادوں کا مدرسہ‘ کا افتتاح ہوا۔ بعد میں ۷ مئی ۱۹۳۹ کو اس کی بنیاد جامعہ نگر میں رکھی گئی۔ ۴۰-۱۹۳۹ کے سیشن کے ابتدائی مہینوں میں ہی استادوں کے اس مدرسے کو قرول باغ سے جامعہ نگر شفٹ کر دیا گیا۔ یہ جامعہ نگر میں جامعہ کی دوسری بلڈنگ تھی۔ جامعہ کا یہ کورس اس زمانے میں پورے ملک میں کافی مشہور ہوا۔ اس کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے برٹش حکومت نے ۱۹۴۵ میں ہی اس کو منظوری دے دی۔ آج بھی جامعہ اس ٹیچر ٹریننگ کے معاملے ملک میں پہلے مقام پر ہے۔

ڈاکٹر ذاکر حسین کو اوقاف کی کافی اچھی معلومات تھیں۔ وہ یہ مانتے تھے کہ اگر ملک بھر میں موجود مسلمانوں کے اوقافی جائیدادوں کا صحیح استعمال ہو جائے تو قوم کی تصویر و تقدیر بدلی جاسکتی ہے۔ ۱۹۴۳ میں دہلی کے چیف کمشنر نے انہیں ’سنی مجلس اوقاف‘ کا رکن نامزد کیا۔

انہوں نے رکن بنتے ہی دہلی میں جو وقف کی جائیدادیں خرد برد کی گئیں تھیں، اس کی تحقیق میں لگ گئے اور ۱۷ جنوری ۱۹۴۷ کو ’سنی مجلس اوقاف‘ کی انتظامی خرابیوں اور مالی بدعنوانیوں کی تحقیقات کی ایک رپورٹ پیش کی۔ رپورٹ میں اوقاف کے املاک، حسابات، مساجد اور یتیم خانوں وغیرہ کی زبوں حالی کے ایک اجمالی جائزے کے ساتھ بد دیانیتوں کی چند دہلا دینے والی مثالیں بھی دی گئی ہیں اور پھر ان میں کچھ تعمیری سفارشات بھی تھیں۔ اس زمانے میں دہلی کے دریا گنج علاقے میں ایک یتیم خانہ تھا۔ اس کا انتظام مجلس اوقاف کے ذمہ تھا۔ ذاکر صاحب نے اس پر خاص توجہ دی۔ ذاکر صاحب نے ہی مجلس اوقاف کمیٹی کو یہ مشورہ دیا کہ اس ادارے کو یتیم خانہ نہ کہا جائے، ’بچوں کا گھر‘ اس کے لئے زیادہ موزوں نام ہو گا۔ کیونکہ ’بچوں کا گھر‘ نام ہونے سے بچوں کو اپنے پن کا احساس ہوگا۔ وہ یہ محسوس نہیں کریں گے کہ وہ کسی یتیم خانے میں رہ رہے ہیں۔ ذاکر حسین جب تک زندہ رہے، اس میں خاص دلچسپی لیتے رہے اور اس کے منتظمین کی ہمت بڑھاتے رہے۔ خاص طور پر یہاں رہنے والے بچوں کے کھانے، پینے اور رہن سہن پر خاص دھیان دیا۔ ’بچوں کا گھر‘ آج بھی موجود ہے، اور اس کی جو حالت ہے اسے قطعی بہتر نہیں کہا جا سکتا۔ اس کی حالت پر ہفت روزہ دعوت جلد ہی الگ سے مضمون پیش کیا جائے گا۔ سال 1891میں حکیم اجمل خان صاحب نے یتیم بچوں کے لئے ایک پناہ گاہ کے طور پر اس کی بنیاد رکھی تھی۔

ڈاکٹر ذاکر حسین 8 فروری 1897کو حیدرآباد میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی۔ 1907میں جب ان کے والد فدا حسین خان کا انتقال ہوگیا تو پورا خاندان اتر پردیش کے قائم گنج منتقل ہو گیا۔ تب ذاکر حسین کا داخلہ اٹاوا کے اسلامیہ ہائی اسکول میں ہوا۔ اس کے بعد آگے کی تعلیم کے لئے علی گڑھ گئے۔ علی گڑھ کے ایم اے او کالج کے بعد معاشیات میں پی ایچ ڈی کرنے کے لئے جرمنی کی برلن یونیورسٹی گئے اور واپس لوٹ کر جامعہ کی خدمت کے لئے اپنی زندگی وقف کر دی۔

آگے چل کر یہی ذاکر حسین اس ملک کے ایک عظیم آزادی پسند محب وطن، مشہور ماہر تعلیم اور ہندوستان کے تیسرے صدر بنے۔ مشہور ادیب،مورخ اور محقق ڈاکٹر یوسف حسین خان اور معروف ماہر تعلیم ڈاکٹر محمود حسین خان ان کے چھوٹے بھائی تھے۔ وہ 1926 سے 1948 تک جامعہ کے وائس چانسلر رہے۔ ان 22 سالوں میں جامعہ کی کشتی کو ہر طرح کے طوفانوں سے بچاتے ہوئے اسے آگے بڑھاتے رہے، لیکن جب ملک آزاد ہوا تو وہ سیاست کا شکار ہوئے اور علی گڑھ بھیج دیے گئے۔ 1948میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر بنائے گئے۔ انہوں نے 1956تک یہاں اپنی خدمات انجام دیں۔ پھر علی گڑھ کو خدا حافظ کہہ کر پھر سے جامعہ لوٹ آئے۔

1957میں بہار کے گورنر بنائے گئے۔ 13مئی 1962 کو نائب صدر کی حیثیت سے حلف لیا۔ ساتھ ہی 1963میں دوبارہ جامعہ کے چانسلر بنے۔ اسی سال بھارت رتن سے بھی انہیں نوازا گیا۔ انہوں نے 1967میں صدر کا عہدہ سنبھالا۔ سب سے اہم یہ ہے کہ کہ ان کی ہی صدارت میں ’یونیورسٹی ایجوکیشن کمیشن‘ تشکیل دیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ وہ پریس کمیشن آف انڈیا، یونیورسٹی گرانٹس کمیشن، یونیسکو، بین الاقوامی تعلیمی خدمات اور سنٹرل بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن سے بھی وابستہ رہے۔ 3مئی 1969 کو صبح 11 بجکر 20 منٹ کو اس دنیا کو ہمیشہ کے لئے الوداع کہہ گئے۔ آج بھی جامعہ میں موجود ان کی قبر یہاں کے لوگوں کو ان کی یاد دلاتی رہتی ہے۔
***

نوجوان کا چہرہ نقاہت سے زرد تھا اور سارا بدن پسینہ سے تر، لیکن اس کے باوجود وہ کھڑا ہوا اور اس بار جو تقریر کی، اس تقریر نے لوگوں کے خیالات کا رخ ہی بدل دیا۔ اب یہاں ان نوجوان طلبہ میں یہ خیال پیدا ہوا کہ تعلیمی بائیکاٹ تب ہی ہو، جب ان کے لئے ایک نئی تعلیم گاہ قائم کی جائے اور یہ نئی تعلیم گاہ جامعہ ملیہ اسلامیہ تھی اور وہ نوجوان کوئی اور نہیں، بلکہ ڈاکٹر ذاکر حسین تھے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 31 جنوری تا 6 فروری 2021