زکوٰۃ کا فریضہ جس سے مسلمانوں کی تعلیم اور معیشت مستحکم ہوسکتی ہے

نامعلوم اور مجہول قسم کے مدرسوں اور تنظیموں کو دینے میں احتیاط برتیں

پروفیسر محسن عثمانی ندوی

(زکوٰۃ ادا کرنے سے پہلے اس مضمون کو ضرور پڑھ لیں)
رمضان کا مہینہ سخاوت نفس کا مہینہ ہے۔ مال خرچ کرنے اور زکوٰۃ اور صدقات کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ قرآن مجید میں ایمان اور نماز کے ساتھ اکثر زکوٰۃ کی ادائیگی کا ذکر آیا ہے۔ قرآن میں ہے وفی اموالہم حق للسائل والمحروم (الذاریات ۱۹) یعنی ان مسلمانوں کے مال میں مانگنے والے کا اور محروم کا بھی حق ہے۔یعنی سماج میں جولوگ معاشی اعتبار سے پچھڑے ہوئے ہیں ان کا بھی اہل ثروت کی دولت پر حق ہے۔ضرورت مندوں اور پسماندہ لوگوں کے کام آنا یتیموں اور مفلس لوگون کی مدد کرنا بھی فرض قرار دیا گیا ہے اسی لیے اہل نصاب یعنی جن کے پاس دولت ہے زکوٰۃ کی ادائیگی اسی طرح فرض ہے جیسے نماز فرض ہے۔ رمضان کے مبارک مہینہ میں ایک فرض کا ثواب ستر فرض ادا کرنے کے برابر ہوتا ہے، یعنی ستر گنا زیادہ ثواب ملتا ہے۔ اس لیے لوگ زکوٰۃ کی ادائیگی بھی اسی مبارک مہینہ میں کرتے ہیں تاکہ ان کے آخرت کے اکاونٹ میں بینک بیلنس زیادہ سے زیادہ ہو۔ قرآن میں ہے کہ میزان آخرت میں جس کا پلڑا بھاری ہو گا وہ آسودگی والے عیش میں ہوگا۔ زکوٰۃ کی ادائیگی کے وقت اس کی تحقیق ضرور کر لینی چاہیے کہ جس کو زکوۃ دی جا رہی ہے وہ واقعتاً اس کا مستحق ہے۔ اہل نظر کا کہنا ہے کہ دولت کمانا اتنا مشکل نہیں جتنا دولت کو صحیح مستحق زکوٰۃ تک پہنچانا مشکل ہے اور مستحق زکوٰۃ تک اگر زکوٰۃ کی رقم نہیں پہنچی تو زکوٰۃ ادا نہیں ہوئی۔ رمضان میں دیکھا گیا ہے کہ ہزاروں اشخاص ہزاروں رسیدیں چھپوا کر ہر گھر اور ہر در پر، ہر مکان اور ہر دکان پر،ہر سڑک اور ہر موڑ پر مدرسہ کے نام پر چندہ مانگنے اور دست سوال دراز کرنے پہنچ جاتے ہیں اور مالکِ مکان اور مالکِ دکان بھی اور جو صاحب نصاب ہوتے ہیں کسی تحقیق کے بغیر اپنی جھولی خالی کر کے مطمئن ہو جاتے ہیں کہ ہم نے اپنا فرض اور زکوٰۃ کا قرض ادا کردیا اور ’’ہم بھی فارغ ہوئے شتابی سے‘‘۔ حالانکہ اس طرح کے اسکینڈل سامنے آچکے ہیں کہ مدرسہ کا وجود اقلیدس کے نقطہ کی طرح یا معشوق کی موہوم کمر کی طرح فرضی تھا یا مدرسہ مسجد کے حجرہ میں ایک چٹائی پر تھا اور اس کی اپنی کوئی عمارت بھی نہیں تھی اور اس کا نام جامعہ یعنی یونیورسٹی رکھ دیا گیا تھا۔ جامعہ المشرقین والمغربین وغیرہ۔اور اس کے لیے فقیروں کا بھیس بنا کر تماشائے کرم دیکھنے اورچندہ مانگنے کے لیے دبئی اور کویت تک لوگ پہنچ گئے، یہ دجل و فریب بہت عام ہو چکا ہے۔ یہ اہل ثروت کی ذمہ داری ہے کہ پوری تحقیق کے بعد زکوٰۃ کی رقم ادا کریں۔ زکوٰۃ سب سے پہلے غریب رشتہ داروں اور خستہ حال لوگوں کو ان کا پتہ چلا کر دینا چاہیے۔صدقات وخیرات کے لیے ہمیشہ رشتہ داروں کو ترجیح دینا چاہیے، اس سے دو ثواب ملیں گے ایک انفاق کا ثواب دوسرے رشتہ داروں سے حسن سلوک کا ثواب۔ اور اگر زکوٰۃ مدرسہ اور ادارہ کو دینی ہو تو جب تک اس کے حقیقی وجود کا اطمینان نہ ہو جائے اور کوئی معروف شخص اس کی ضمانت نہ دے دے، صرف رسید دیکھ کر زکوٰۃ نہیں دینی چاہیے اور مدرسوں میں بھی درجہ بندی ہونی چاہیے۔ جو مدرسے مشہور ہیں اور وہ بہت سے شہروں میں ہیں اور غریب طلبہ کی بڑی تعداد وہاں علم دین حاصل کرتی ہے جیسے ندوہ، دیوبند، مظاہر العلوم،الاصلاح،الفلاح جامعۃ الہدایۃ، جامعہ نظامیہ، المعہد العالی الاسلامی وغیرہ وہ زیادہ مستحق ہیں اور ان میں بھی وہ مدرسے زیادہ مستحق ہیں جہاں دینی علوم کے ساتھ انگریزی پڑھائی جاتی ہے اور عصری علوم بھی پڑھائے جاتے ہیں کیونکہ ایسے اداروں کے اخراجات زیادہ ہوتے ہیں اور وہاں کے تعلیم یافتہ زیادہ بہتر دینی خدمات انجام دے سکتے ہیں۔ نصاب تعلیم اور معتبر صداقت نامے دیکھ کر ہی کسی بڑی رقم کو دینے کا فیصلہ کرنا چاہیے۔ زکوٰۃ ہر مانگنے والے کو دینے سے نہیں ادا ہوتی ہے۔ اس بات کا یقین ہونا چاہیے کہ جس شخص کو زکوٰۃ دی جارہی ہے وہ مستحق زکوٰۃ ہے یا وہ جس مدرسہ کے لیے زکوٰۃ کی رقم مانگ رہا ہے، زمین کے اوپر اس کا حقیقی وجود ہے اور وہاں غریب طلبہ پڑھتے ہیں۔ حقیقی مدرسوں کی مدد کرنی چاہیے فرضی مدرسوں کی نہیں۔ اور معروف مدرسے تقریباً ہر شہر میں پائے جاتے ہیں اور جن کو سبھی جانتے ہیں ان کوزکوٰۃ کی رقم دی جاسکتی ہے۔ معروف تنظیموں کو بھی زکاۃ کی رقم دینی چاہیے، جیسے جماعت اسلامی ہند، زکوٰۃ سنٹر، وحدت اسلامی، جمیعۃ علماء امارت شرعیہ، تعمیر ملت، بیت الزکاۃ، امام احمد رضا اکیڈمی وغیرہ۔ کیونکہ یہ تنظیمیں مسلمانوں کی صلاح وفلاح کے لیے کام کرتی ہیں۔نامعلوم اور مجہول قسم کے مدرسوں اور تنظیموں کے سلسلہ میں احتیاط برتنی چاہیے کیونکہ ممکن ہے ان کو دینے سے آپ کی زکوٰۃ ہی ادا نہ ہو۔جو بڑے اور مشہور مدرسے ہیں ان کو زکوٰۃ دینا چاہیے یہی وہ مشہور بڑے مدرسے ہیں جہاں سے مشہور علماءپیدا ہوئے ان ہی کو زکوٰۃ دینی چاہیے۔ قدم قدم پرتھوڑے تھوڑے فاصلے پر بڑے بڑے مدرسے قائم کرنے کی ہرگز ضرورت نہیں، ابتدائی دینی تعلیم سب کے لیے ضروری ہے اس کا انتظام مسجدوں میں ہونا چاہیے جو بڑے مدرسے پہلے سے قائم ہیں وہ بالکل کافی ہیں ۔ان ہی مدرسوں کے فارغین نے کام کیا ہے اور نام پیدا کیا ہے۔
مدرسہ کا مقام کیا ہے اسے سمجھنے کی ضرورت ہے ۔جس طرح جنگ عظیم کا نام ہر شخص نے سنا ہے، ان جنگوں میں طاقتور ترین ہتھیار اور ایٹم بم استعمال کیے گئے تھے۔ اسی طرح سے افکار ونظریات اور فلسفہ حیات کی دنیا میں بھی بہت زمانہ سے عالمی جنگ چھڑی ہوئی ہے اور حق و باطل کا معرکہ برپا ہے، اس عالمی معرکہ میں ایک فکر، فلسفہ، نظریہ اور عقیدہ غالب بھی ہوتا ہے اور مغلوب بھی ہوتا ہے، فاتح بھی ہوتا ہے مفتوح بھی ہوتا ہے۔ مدرسہ اس ادارہ کا نام ہے جہاں اس عالم گیر نظریاتی جنگ میں حق کا ساتھ دینے والے افکار و نظریات سے لیس مجاہدین تیار ہوتے ہیں، جہاں موثر اور طاقتور اسلوب میں بات کرنے والے، خطاب کرنے والے، لکھنے والے، جدید علم کلام سے واقف، عصری افکار سے لیس، زمانہ کے اسلوب سے مسلح دین کے داعی اور اسلام کے سپاہی تیار ہوتے ہیں۔ مدرسہ اس ادارہ کا نام ہے، جہاں اسلامی تہذیب کو غالب اور کار آفریں بنانے اور مخالف اسلام تہذیبوں کا مقابلہ کرنے کے لیے علمی، فکری اور ذہنی انتظامات کیے جاتے ہیں، اس کے لیے دنیا کی دوسری تہذیبوں سے اور معاصر افکار و نظریات و واقعات سے واقفیت ضروری ہے۔ایسے ہی بڑے مدرسے زکوٰۃ وصدقات کے زیادہ مستحق ہیں جہاں دین کی حفاظت کے لیے فوج تیار ہوتی ہو۔ وہ مدارس زیادہ مستحق ہیں جہاں زبانیں سکھائی جاتی ہوں اس لیے زکوٰۃ کی ادائیگی کے وقت یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ مدرسہ کس معیار کا ہے، ابتدائی تعلیم ہر مسجد میں ہونی چاہیے اور محلہ کے لوگوں کو اخراجات کا کفیل ہونا چاہیے۔ بلا شبہ آج علماء کی ضرورت ہے، بعض مغربی ملکوں میں اور ہندوستان میں حجاب پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ ضرورت ایسے علماء کی ہے جو ہندی انگریزی وغیرہ میں حجاب کی اہمیت پر مضامین شائع کر سکتے ہوں اس لیے وہ مدرسے زکوٰۃ کی بڑی رقم کے زیادمستحق ہیں جہاں لوگوں کا دعوتی ذہن بنایا جاتا ہے ۔آج دنیا میں کیا ہو رہا ہے؟ سعودی عرب میں علماء کو پھانسی دی جارہی ہے، مصر میں 48 ہزار بے گناہ اشخاص کو ان کی اسلام پسندی کی وجہ سے قیدی بنایا گیا ہے۔ اخوان کے مرشد عام محمد بدیع اور مصر کے سابق صدر محمد مرسی کو پھانسی کی سزا سنائی گئی تھی، شام اور عراق میں اہل سنت کے قتل عام کے واقعات بہت ہوئے ہیں۔ سعودی حکومت اور خلیجی ملکوں کی طرف سے عبدالفتاح السیسی جیسے غاصب اور خائن کی حمایت کی گئی۔ حماس اور اخوان کو دہشت گرد قرار دیا گیا۔ سنیما گھر کھولے گئے اور مملکت سعودی عرب میں کئی معروف علماء دین کی تصنیفات ممنوع قرار دی گئیں۔ ان ملکوں کے حامی اور طرفداراور ارض حرم میں سنیما گھر کھولنے والے حاکمان وقت کے لیے نرم گوشہ رکھنے والے حضرات کے مدرسوں کی مدد کرنا گویا اسلام دشمن طاقتوں کی مددکرنا ہے۔
دنیا میں اسلام کے خلاف اٹھنے والے واقعات پر سکوت مرگ اور سرد مہری اور بے حسی اور بے اعتنائی کا رویہ کوئی سادہ اور معمولی واقعہ نہیں ہے۔دینی مدارس کا کام اسلام کے لیے رائے عامہ تیار کرنا ہے، رائے عامہ بھی ایک ہتھیار ہے اور یہ ہتھیار اٹھانا کم از کم ہمارے علماء اور قائدین کے اختیار میں ہے۔ اسلام کے خلاف دنیا میں جو واقعات پیش آرہے ہیں ان کی حیثیت مرغ باد پیما کی ہے جو ہوا کا رخ بتاتا ہے اور یہ بتاتا ہے کہ دنیا میں کس طرح کی فکر کا غلبہ ہے اور اسلام کی مخالفت کا طوفان اسلامی تہذیب کی فصیل تک آپہنچا ہے اور حرم شریف کی مقدس سرزمین تک بے حیائی کا سیلاب آپہنچا ہے ۔ایسے مدرسوں کی ضرورت ہے جہاں پڑھ کر علما اسلام مخالف ہواوں کا مقابلہ کرسکیں۔آپ زکوٰۃ مدرسوں کو دیں تو ایسے مدرسے آپ کے لیے لائق ترجیح ہوں جو اسلام مخالف طاقتوں کا مقابلہ کرسکتے ہوں۔اصحاب ثروت کو زکوٰۃ دیتے وقت ان تمام باتوں کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ اور زکوٰۃ کی کوئی بڑی رقم دیتے وقت مدرسہ کے علمی اور تعلیمی اور ذہنی معیار کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ آنکھ بند کر کے زکوۃ کی بڑی رقم ہر مدرسہ کو اورہر دست سوال پھیلانے والے کونہیں دینی چاہیے۔ بہتر ہے کہ مدرسہ کا معیار متعین کرنے کے لیے پوائنٹس بنا لیے جائیں اور سب سے زیادہ پوائنٹس جس ادارہ یا مدرسہ کو ملیں اس کو زیادہ رقم دی جائے۔
ا۔ طلبہ اور اساتذہ کی تعداد۔
۲۔ عمارت اور رقبہ زمین اور طلبہ کے لیے اسپورٹس کا انتظام
۳۔ فارغین کی دینی علمی خدمات
۴۔ عصری زبان اور عصری تعلیم اور مذاہب کے تقابلی مطالعہ کے کورس کی نصاب میں شمولیت
۵۔ طلبہ کے لیے خارجی مطالعہ کا لازمی انتظام جس میں سیرت و تاریخ اور جدید علم کلام کی کتابیں شامل ہوں
۶۔ عربی زبان وادب کی کتابوں کی عربی زبان کے ذریعہ تعلیم اور عربی انشاء کی مشق
۷۔ طلباء کی دینی، اخلاقی علمی اور دعوتی تربیت کا انتظام
۸۔ مدرسہ میں شفافیت اور شورائیت: یعنی مدرسہ میں مجلس شوریٰ ہونی چاہیے اور آمد و خرچ کا گوشوارہ اس کے سامنے پیش ہونا چاہیے تاکہ کسی غبن اور اسکینڈل کا اندیشہ نہ رہے۔
ادارہ کے ذمہ داروں سے یا محصلین سے جب وہ چندہ کے لیے آپ کے پاس آئیں تو ان سے سوالات کیے جائیں اور جہاں تک ممکن ہو سکے تحقیق کی جائے، جس ادارہ کو زیادہ پوانٹس مل جائیں اس کو زیادہ بڑی رقم دی جائے۔تحقیق کے بعد ہی زکوٰۃ کی رقم ادا کی جائے۔ہر شخص کو جو رسید لے کر آئے زکوٰۃ کی رقم نہیں دی جائے۔
زکوٰۃ کی سب سے زیادہ رقم دینی مدرسوں کو ملتی ہے لیکن کچھ اور بھی ملی ضرورت کے کام ہیں جن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس ملک میں انگلش میڈیم مدرسوں کی بھی ضرورت ہے تاکہ انگریزی زبان کے ذریعہ اچھے عالم دین، داعی، مصنف، صحافی اور اسلام کے ترجمان پیدا ہو سکیں۔ جے پور کے ایک مدرسہ جامعۃ الہدایۃ میں غالباً یہ کام شروع ہونے والا ہے۔ عصری تعلیم کے اداروں اسکولوں اور کالجوں میں پڑھنے والے غریب طلبہ بھی زکوٰۃ کے مستحق ہیں ان کو زکوٰۃ کی رقم سے اسکالر شپ دی جاسکتی ہے۔ یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے جو آج کل ہر طرف پھیلی ہوئی ہے کہ زکوۃ کی رقم صرف دینی تعلیم حاصل کرنے والوں کو دی جاسکتی ہے،اس غلط فہمی کو دور کرنے کی شدید ضرورت ہے۔زکوٰۃ کی رقم غریب طلبہ کو دی جانی چاہیے خواہ وہ دینی تعلیم حاصل کرتے ہوں یا عصری تعلیم ،صرف غریب شخص اور غریب طالب علم، وہ بھی زکوٰۃ کا مستحق ہے۔ اس حقیقت کا ادراک بہت ضروری ہے۔جنوبی ہندوستان میں خانقاہوں میں عصری تعلیم کے بڑے بڑے ادارے قائم کیے گئے ہیں۔ گلبرگہ کی خانقاہ بہترین نمونہ ہے جہاں خواجہ بندہ نواز ایجوکیشن سوسائٹی نے بہت سے کالج قائم کیے ہیں اس میں انجینرنگ کالج بھی ہے میڈیکل کالج بھی ہے۔ کیرالا میں مسلمانوں میں اعلی تعلیم کے ادارے قائم کئے گئے ہیں۔ البرکات ایجو کیشن سوسائٹی علی گڑھ نے بہت سے کالج قائم کیے ہیں۔ بہار میں خانقاہوں کے پاس زمین بھی ہے زر بھی ہے۔وزیر اعلی کے نظر کرم اور چشم عنایت سے کروڑوں روپے سے عالیشان عمارتیں بھی بن گئی ہیں لیکن گلبرگہ جیسی شاندار روایت یہاں کہیں بھی دیکھنے میں نہیں آئی۔ زکوٰۃ کی رقم سے عصری تعلیم کے غریب طلبہ کو اسکالر شپ دی جا سکتی ہے۔
عصری تعلیم کا حصول وقت کی ضرورت ہے، اس کے بغیر مسلمان اعلی انتظامی عہدوں تک نہیں پہنچ سکتے ہیں۔ عہد سلطنت میں اور فیروز شاہ تغلق کے عہد میں بڑے بڑے تعلیمی ادارے قائم ہوئے تھے، اس وقت عصری علوم میں امتیاز حاصل کرنا مسلمانوں کی اجتماعی ملی ضرورت ہے۔ عصری علوم حاصل کرنے والے طلبہ کی تربیت کے لیے اور غریب طلبہ کو اسکالرشپ دینے کے لیے اس ملک میں تمام شہروں میں اسلامک ہوٹلس کا جال بچھانے کی ضرورت ہے تاکہ وہاں عصری تعلیمی اداروں کے لاکھوں مسلم طلبہ کی فکری اور دینی تربیت ہو سکے۔ کوئی ہے ایسا عبقری، نابغہ وقت جو ان کاموں کے لیے کھڑا ہو سکے اور ہر جگہ اسلامی ہاسٹلس بنائے؟ صدقات کی رقم ان پر بھی خرچ کی جاسکتی ہے غریب طلبہ کو بھی زکوٰۃ کی رقم سے اسکالر شپ دی جاسکتی ہے۔ زمانہ کو انتظار ہے ’’مردے از غیب بردں آید وکارے بکند‘‘ دینی مدارس کی طرح اس طرح کے تعمیری مفید کاموں کے لیے بھی صدقات و خیرات کی رقم خرچ کی جاسکتی ہے اور خرچ کی جانی چاہیے۔ اس وقت جو صورت حال ہے وہ یہ کہ زکوٰۃ کی بڑی رقم ضائع ہو رہی ہے، بہت ہی چھوٹے مدرسوں کو زکوٰۃ کی بڑی بڑی رقم دی جارہی ہے۔ اس وقت ہر ریاست میں ہزاروں مدرسے ہیں۔ رمضان میں ان کے محصلین بیگ اور رسیدیں لیے ہوئے ہر شہر اور ہر سڑک پر نظر آتے ہیں۔اسلامی نقطہ نظر سے بنیادی دینی تعلیم سب کے لیے فرض ہے اور اس کا انتظام محلہ کی مسجدوں مین ہونا چاہیے ہر گلی کوچہ میں بڑا مدرسہ قائم کرنے اور اس کے لیے زکوٰۃ مانگنے کی ضرورت نہیں۔ رمضان میں خاص طور پر آگے بڑھ کر رفاہی اور خیراتی کاموں میں یعنی خدمت خلق کے کاموں میں حصہ لینا چاہیے، باشعور علماء کی یقینا انہیں تایید حاصل ہوگی۔مسلمانوں میں سماجی خدمات انجام دینے والے کئی ادارے ہیں جو غریبوں اور محتاجوں کی مدد کرتے ہیں ایسے اداروں کو بھی زکوٰۃ کی ر قم دی جاسکتی ہے۔ مثال کے طور پرایک مسلم ادارہ ہے جس نے بہت بڑے پیمانہ پر ابھی سردیوں میں کمبل اور لحاف تقسیم کیے اور خدمت خلق کا کام انجام دیا اس کا نام ہیومن ویلفیر کونسل ہے جس کا مرکز دہلی میں ہے (9654625663فون نمبر)۔ اس میدان میں جوبھی خدمت خلق کا کام کرتا ہے وہ زکوٰۃ اور صدقات کا مستحق ہے جیسے دہلی کا تعاون ٹرسٹ۔ زکوٰۃ سنٹر انڈیا، وغیرہ۔ رمضان کا مہینہ روحانی اور اخلاقی انقلاب کا مہینہ ہے اور اس انقلاب کی اہمیت یہ کہ اپنے ملک میں حالات کی تبدیلی کے لیے خدمت خلق سب سے اہم ذریعہ ہے ۔خارجی انقلاب کے لیے اور اقلیتوں کی حفاظت کے لیے باشندگان ملک کو اسلام اور مسلمانوں سے مانوس کرنا بے حد ضروری ہے۔ابھی حال ہی میں کیلیفورنیا کے ایک عیسائی پادری کے قبول اسلام کی وجہ سے عیسائیت کی دنیا ہل گئی تھی، اس عیسائی پادری کے کچھ مسلمانوں سے تعلقات ہوگئے تھے وہ ان سے متاثر ہوا پھر اس نے اسلام کا تفصیلی مطالعہ کیا وہ اسلام کے دامن رحمت میں آگیا۔ دنیا میں اب اسلامی انقلاب کا یہی راستہ ہے یعنی غیر مسلموں سے پہلے رابطہ قائم کرنا، ان کو اسلام اور مسلمانوں سے مانوس کرنا اس کے لیے مسلمانوں میں روحانی اور اخلاقی انقلاب اور سوشل ورک کے لیے کھڑے ہونا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ رمضان کے مہینہ مین روزہ اور زکوٰۃ وصدقات کے ذریعہ یہ انقلاب آسکتا ہے۔اسی طرح کے کار خیر پر خرچ کرنا نفلی حج اورنفلی عمرہ کرنے سے زیادہ بہتر ہے۔ مسلمانوں کو یہ بھی تمیز نہیں کہ ان کے سرمایہ کاصحیح مصرف کیا ہے اور کہاں سرمایہ خرچ کرکے مسلمانوں کو طاقت پہنہچائی جاسکتی ہے۔اصل مسئلہ تمام بنی نوع انسان کے ساتھ حسن معاشرت کا مسئلہ ہے۔خدمت خلق کے ذریعہ برادران وطن کے دلوں کو جیتنے کی ضرورت ہے ۔
یاد رکھیے حضور ﷺ تمام لوگوں کے گھروں میں جاتے تھے کافروں کے گھروں میں کھانا کھاتے تھے ان کی دعوتیں قبول کرتے تھے اور ان کی دعوتیں کرتے تھے۔ مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان سماجی دوریاں موجود نہیں تھیں۔
زکوٰۃ کی ایک مد ’’مولفۃ القلوب ‘‘بھی ہے ۔ اس مد سے زکوٰۃ کی رقم ایسے غیر مسلموں پر خرچ کی جاسکتی ہے جن کے اسلام لانے کی توقع ہو یا جن کی اسلام دشمنی کو ختم کیا جاسکتا ہو یا جن کو مسلمانوں کا ہمنوا بنایا جاسکتا ہو ۔مسلم اداروں اور جماعتوں کو اس مد میں بھی زکوٰۃ کی رقم خرچ کرنی چاہیے لیکن انفرادی طور پر نہیں۔ابتدا میں حکومت ہی کی ذریعہ یہ رقم خرچ کی جاتی تھی، سب کو معلوم ہے کہ ابتدائے اسلام میں مؤلفۃ القلوب کی اس مد میں زکوٰۃ کی رقم خرچ ہوتی تھی بعد میں حضرت عمر نے روک دیا تھا کہ اب اسلام کی سربلندی اور طاقت کا زمانہ ہے۔ لیکن اب حالات تبدیل ہوچکے ہیں مسلمانوں پر ادبار کی گھٹا چھائی ہوئی ہے، حالات ناقابل بیان حد تک تشویشناک ہوگئے ہیں۔ اب مولفۃ القلوب کے مد کو کھولنے کی ضرورت ہے اور زکوٰۃ کی جو مد قرآن میں مذکور ہے کس کی طاقت ہے کہ وہ اسے ہمیشہ کے لیے ختم کردے۔ ملت کی جو قیادت ہے وہ صحیح سمت میں کام نہیں کررہی ہے اس کی ذہنی تربیت کی ضرورت ہے۔ قیادت کو چاہیے کہ مولفۃ القلوب کی مد سے وسیع پیمانہ پر غیر مسلموں سے تعلقات قائم کرے، سیرت کی ایسی کانفرنسیں منعقد کرے جس میں چار پانچ سو برادران وطن شریک ہوں اور اس کے لیے مناسب اسپیکر مقررکا انتظام کرے۔ غیر مسلموں کو کتابیں تحفے میں دے۔ میں نے مسلم قیادت کو کئی بار اس کی طرف توجہ دلائی ہے لیکن کون سنتا ہے فغان درویش۔
آخری بات یہ ہے کہ اسلام میں زکوٰۃ کا نظام اجتماعی ہے۔ حضرت ابوبکر نے مانعین زکوٰۃ سے جنگ کی تھی۔ یہ مانعین زکوٰۃ منکر زکوٰۃ نہیں تھے وہ صرف حکومت کو زکوٰۃ نہیں دینا چاہتے تھے بلکہ وہ انفرادی طور پر زکوٰۃ ادا کرنا چاہتے تھے۔ مسلمانوں کی حکومت ختم ہوئی تو زکوٰۃ کااجتماعی نظام بھی ختم ہوگیا۔ بہار میں امارت شرعیہ قائم ہوئی تو وہ اسلامی حکومت کی ایک شبیہ تھی اور اسی لیے اس میں اجتماعی زکوٰۃ کا نظم تھا اور ابتدا میں جب تک امارت شرعیہ خانقاہ مجیبیہ میں تھی زکوٰۃ کا یہ اجتماعی نظام باقی تھا۔ مولانا عبدالصمد رحمانی نے بھی اس موضوع پر اپنی کتاب میں اسی اجتماعی نظام پر زور دیا ہے۔ لیکن اب امارت ایک تنظیم بن کر رہ گئی ہے۔وہ ایک انقلاب آفریں قوت نہیں رہی۔ پہلے حکومت اسلامیہ کی ظاہری شکل قائم تھی اس لیے زکوٰۃ کا اجتماعی نظام باقی تھا۔جہاں تک مدینہ کی امارت کا تعلق ہے جس کے ذریعہ ہزاروں کفار ومشرکین حلقہ بگوش اسلام ہوئے تھے تو وہ دعوتی مزاج صدیوں سے مسلمانوں میں ختم ہوگیا ہے۔ مدرسے اور اسکول قائم کرنا دارالقضا قائم کرنا،اس پر اللہ کی مدد نازل نہیں ہوتی۔ اللہ کی مدد نازل نہیں ہوگی تو حالات نہیں بدلیں گے۔وہی دلفگاری وہی آہ وزاری باقی رہے گی۔ ہم صرف کنونشن اور جلسے کرتے رہیں گے۔ ماضی میں ہمارے علماء اور مصلحین نے قرآن کی تفسیریں لکھیں ہیں اور حدیث کی شرحیں لکھی ہیں لیکن کبھی اپنے پڑوسیوں کو اسلام کی دعوت نہیں دی۔ اس وقت جو اسلامی تنظیمیں ہیں وہ مطالباتی سیاست اور احتجاجی سیاست میں الجھی ہوئی ہیں۔یہ وہ اسلام نہیں جو قرن اول میں تھا۔اب تو حال یہ ہے کہ مسلم قائدین کو مسلم تنظیموں کے ذمہ داروں کو بات سمجھائی جائے تو ان کے سمجھ میں نہیں آتی۔ان کو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی ہے کہ ہندوستان میں پیغمبرانہ مشن ڈیریلمنٹ کا شکار ہوگیا ہے اور گاڑی پٹری سے اتر گئی ہے۔ اور ان کاموں پر جو مسلم جماعتیں مثلا جمیعۃ علماء اور امارت شرعیہ کر رہی ہے یا دوسری جماعتیں کر رہی ہیں، وہ چاہے کتنی ہی مفید ہوں ان پر اللہ کی نصرت نازل نہیں ہوتی۔ حق کا پیغام پہنچانے کے بعد اسلام کی دعوت دینے کے بعد قومیں مسلمان ہوتی ہیں یا ہلاک کردی جاتی ہیں۔ یہ دونوں صورتیں اللہ کی مدد سے ہوتی ہیں۔صدقات اور خیرات کو بھی لوگوں کو اسلام کے قریب کرنے کا ذریعہ بنانا چاہیے۔دینی جماعتوں کو اس کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ زکوٰۃ کی ساری رقم چھوٹے چھوٹے مدرسوں کے حوالہ کردینا جن کا وجود مشتبہ ہو درست نہیں۔ یہ زکوٰۃ جیسی عظیم نعمت کا زیاں ہے، اسلام کا تعارف اور برادران وطن سے تعلقات، یہ وہ پیغمبرانہ مشن ہے جو صدیوں سے نظر انداز کیا گیا ہے۔ دوسرے نمبر پر جو کام ہے وہ مسلمانوں کو تعلیم اور معیشت میں اوپر اٹھانے کا ہے۔ جو لوگ ان کاموں کے لیے کھڑے ہوں ان کی دل کھول کر مدد کرنی چاہیے۔ یہ راقم کی دور افتادہ صدا ہے جو اب صدا بصحرا ہے اور نقارخانہ میں طوطی کی آواز۔
***

 

***

 رمضان کا مہینہ روحانی اور اخلاقی انقلاب کا مہینہ ہے اور اس انقلاب کی اہمیت یہ کہ اپنے ملک میں حالات کی تبدیلی کے لئے خدمت خلق سب سے اہم ذریعہ ہے ۔خارجی انقلاب کے لئے اور اقلیتوں کی حفاظت کے لئے باشندگان ملک کو اسلام اور مسلمانوں سے مانوس کرنا بے حد ضروری ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 26 مارچ تا 01 اپریل 2023