زعفران زا ر

علاقۂ ودربھ کے ظرافت نگاروں کی شعری و نثری تخلیقات کا ایک انتخاب

درخشاں پروین، علی گڑھ

ادب کا مطالعہ ہمارے ثقافتی تہذیبی اور تفریحی تقاضوں کی تکمیل کے ساتھ ہمیں ایسے بالیدہ شعور و احساس سے بھی آراستہ کرتا ہے جو ایک بہتر زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہے۔ طنز و مزاح کے متعلق پہلا تاثر یہ ہے کہ وہ ہماری تفریحِ طبع کا ذریعہ ہے اور اس کا مطالعہ ہماری طبیعت کو شگفتگی عطا کر کے ہمارے فکر و غم کو دور بھگاتا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ادب میں ظرافت سماج کی تنقید کا ایک زبردست آلہ ہے، طنزیہ و مزاحیہ ادب سماج کی ناہمواریوں کا شعور پیدا کرتا ہے۔ وقت گزرنے پر مذموم رسوم و رواجوں کے ساتھ جب طبیعتیں مانوس ہوجاتی ہیں تو عوامی سطح پر برائی کا احساس جاتا رہتا ہے۔ظرافت نا موزوں اور بے ہنگم طریقہ کار کے غلط ہونے کا شعور پیدا کرکے اس کو ختم کرنے میں مدد کرتی ہے۔
زیر تبصرہ کتاب ’زعفران زار‘ علاقہ ودربھ کے ظرافت نگاروں کی شعری و نثری تخلیقات کا ایک انتخاب ہے۔ اس کتاب کے ذریعے پہلی مرتبہ یہ احساس دلانے کی کوشش کی گئی ہے کہ اردو ادب میں ظرافت کی آبیاری کرنے والوں کا ایک قافلہ اس دیار میں بھی موجود ہے ورنہ اب تک دہلی، ممبئی، لاہور اور حیدرآباد طنز و مزاح کے مشہور مراکز رہے ہیں۔ ’زعفران زار‘ کے مرتب محمد اسداللہ، اردو کے ایک معروف انشائیہ نگار اور طنز و مزاح نگار ہیں۔ وہ خود بھی اس کارواں میں شامل ہیں ۔ انشائیہ نگاری میں تخلیقی و تحقیقی سطح پر ان کا کام متعدد کتابوں کی شکل میں منظرِ عام پر آ چکا ہے۔ اس کے علاوہ محمد اسداللہ نے مراٹھی ادب کی نمائندہ مزاحیہ تخلیقات کو بھی تراجم کے ذریعے اردو میں منتقل کیا ہے، اس سلسلے میں ان کی دو کتابیں زیورِ طبع سے آراستہ ہوچکی ہیں۔
زعفران زار میں قلم کاروں کو مختلف عنوانات کے ساتھ متعارف کروایا گیا ہے۔ نثر نگاروں کے تخلیقات سے پہلے ان کے تعارفی نوٹس بھی ہیں جن میں ان کے تخلیقی سفر اور ادبی اسلوب و موضوعات پر تبصرے موجود ہیں۔ باب اول میں ’وجود زن‘ کے عنوان تلے شفیقہ فرحت، بانو سرتاج، ثریا صولت حسین اور سلمیٰ نسرین کے مضامین ہیں اور ’مردِ میداں‘ کے تحت ان مزاح نگاروں کی تخلیقات ہیں جن کی کوئی کتاب اس ضمن میں شائع ہوچکی ہو۔ ان میں ڈاکٹر صفدر، شکیل اعجاز، شیخ رحمام اکولوی، محمد اسداللہ، بابو آ ر کے، مرزا رفیق شاکر، انصاری اصغر جمیل، غلام صوفی حیدری، حیدر بیابانی، محمد طارق، ایس ایس علی، رام پرکاش سکسینہ، رحمت اللہ خاں مالوی، سعید احمد خاں اور ڈاکٹر جاوید کامٹوی ہیں۔
باب دوم میں ودربھ کے وہ ادیب ہیں جنہوں نے منہ کا مزہ بدلنے کے لیے کبھی کبھار اس صنف میں طبع آزمائی کی ہے اور تا ہنوز ان کی کوئی کتاب طنز و مزاح کی شائع نہیں ہوئی ہے۔ انہیں ’یارانِ بے پیالہ‘ کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔ یہ ترکیب اور عنوان بذاتِ خود ظرافت کی عمدہ مثال ہے۔ جہاں کسی صنف میں طبع آ زمائی کر کے کتابیں شائع کر نے والے قلم کاروں کی پذیرائی اور ان کے ہنر کی داد دینا لازمی ہے وہیں رسائل و اخبارات میں اس میدان میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھانے والوں کا اعتراف بھی ضروری ہے اور یہی مستحسن کوشش اس کتاب میں بھی نظر آتی ہے۔ ودربھ کے اس قسم کے قلم کاروں میں چند اہم نام یہ ہیں: ڈاکٹر سمیع بن سعد، محمد خورشید نادر، شکیل شاہجہاں، ڈاکٹر اشفاق احمد، ڈاکٹر اظہر حیات، رونق جمال، شاہد رشید، عمر حنیف، یحییٰ جمیل، ریحان کوثر، ڈاکٹر توحید الحق، ڈاکٹر کلیم ضیا، خان حسنین عاقب، محمد رفیع مجاہد، محمد ایوب، سید اسد تابش شمیم افسر اور الیاس احمد ہیں۔ اس کے بعد باب سوم میں ’ فردوس گوش‘ کے تحت ودربھ کے ۱۹ شعرا کا مزاحیہ کلام ہے۔ اس کتاب کے پیش لفظ میں مشہور مزاح نگار شکیل اعجاز نے لکھا ہے کہ کسی کا دل خوش کرنا، اس کو ہنسنے مسکرانے کے مواقع فراہم کرنا بھی ایک نیکی مانی جاتی ہے۔ یہ کتاب اس قسم کی نیکیوں سے بھری پڑی ہے۔
محمد اسداللہ نے اس کتاب کے مقدمے میں ودربھ کا محلِ وقوع اور تاریخی حقائق کے علاوہ وہاں طنز و مزاح کے ارتقاء پر روشنی ڈالنے کے علاوہ اس کتاب میں شامل قلم کاروں کے فن اور طنز و مزاح سے متعلق ضروری معلومات پیش کی ہے۔ وہ طنزیہ و مزاحیہ مضامین کے مجموعوں کے متعلق لکھتے ہیں:
’نثر میں اس قبیل کی کتابوں کی اشاعت کا سلسلہ ودربھ میں ۱۹۸۱ء سے شروع ہوا تھا۔ اب جب کہ اس کاغذی کھل کھلاہٹ کو چالیس برس ہونے کو آئے برسوں کی اس چلہ کشی کے دوران تقریبا ڈیڑھ درجن نثر نگار اور لگ بھگ اتنے ہی شاعر اپنی بغلوں میں ہنستی مسکراتی کتابیں دابے میدان ِ ظرافت میں قارئین کو گدگدا رہے ہیں۔ ودربھ میں ۱۹۷۰ء کی دہائی میں کئی نوجوان لکھنے والے سامنے آ ئے جنہوں نے اس میدان میں قدم رکھا اور ظرافت نگاری ایک وبا کی صورت اختیار کرگئی‘ ان مزاح نگاروں میں سے اکثر ایسے ہیں جنہوں نے اردو ادب میں اپنی پہچان بنائی، طنز و مزاح کو اپنی طبیعت کی شگفتگی سے فیض یاب کیا اور عصری زندگی کی مضحکہ خیز تصویروں کو ادب کے ایوان میں مطالعے کے قابل بنایا۔ اس کتاب میں شامل مزاحیہ تحریروں میں سے چند قلم کاروں کے اسلوب اور موضوعات کا اندازہ ان اقتباسات سے لگایا جاسکتا ہے۔
معروف مزاح نگار شفیقہ فرحت اپنے مضمون بعد ’سبک دوشی میں‘ ریٹائرمنٹ کی فرصت پانے والوں کے متعلق لکھتی ہیں:
پنشن اور مختلف فنڈس کے ساتھ ایک چین کی بنسی ملتی ہے جسے وہ بجاتے رہتے ہیں۔ اب اس ’چین‘ کی بنسی والی کہاوت سے یہ راز نہیں کھلتا کہ بنسی ملک چین سے بر آمد کی جاتی ہے یا بذاتِ خود چین نامی کسی دھات یا لکڑی کی ہوتی ہے‘
ڈاکٹر صفدر نے اپنے مضمون میں ایسے ادیبوں پر طنز کیا ہے جو کتابوں پر کتابیں شائع کیے جاتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں: کتب الدین نے قطب مینار بنایا تھا ہمارے دوست ’کتب مینار‘ بنا رہے ہیں۔ ہر سال چھ مہینے میں ان کی دو ایک کتابیں چھپ ہی جاتی ہیں۔ بقول خود وہ صبح سے شام تک قلم گھسیٹتے رہتے ہیں۔
شکیل اعجاز اپنے مضمون لیٹر پیڈ میں لکھتے ہیں: تاریخ نویسوں نے قدیم شہنشاہوں کے بارے میں یہ افواہ پھیلا رکھی ہے کہ انہیں عمارتیں بنانے کا شوق تھا یقین نہ آئے تو لال قلعہ، اشوک کی لاٹ، تاج محل، قطب مینار اور دوسری عمارتیں جا کر دیکھ لیجیے وہاں جا بجا آپ کو تحریریں دکھائی دیں گی‘
محمد اسداللہ اپنے مزاحیہ مضمون مہمانوں کا سیلاب میں لکھتے ہیں ’اس دنیا میں انسان بذاتِ خود ایک بن بلایا مہمان ہے اور اس بات پر اڑا ہوا ہے کہ جب تک اس کا دانہ پانی اس دنیا میں موجود ہے وہ یہاں سے ٹلنے والا نہیں خواہ اس کو دھکے مار کر ہی کیوں نہ نکالا جائے۔ چنانچہ اب آدمی تلاش روزگار میں لوکل ٹرین اور بس کے دھکے کھاتا ہے اور بے تکان جیتا ہے‘
کتاب کے آخر میں ودربھ کے معروف اور نئے شعرا کا شگفتہ کلام ہے۔ نثر نگاروں کی طرح ان شعرا کے کلام کے ساتھ بھی تعارفی نوٹ لگانے کا اہتمام کیا گیا ہوتا تو کتاب کی افادیت میں اضافہ ہوجاتا۔ درج ذیل شاعروں کی دو دو منظومات یا غزلیں شامل کی گئی ہیں ۔
حافظ محمد ولایت اللہ، عبدالصمد جاوید (علامہ گنبد) فیاض افسوس، ڈاکٹر شرف الدین ساحل، ناظم انصاری، جملوا انصاری، سرفراز کاتب، فنی ایوت محلی، لقب عمران، فوجی جلگانوی، غنی اعجاز، رفیق شاکر، انور احمد قریشی، منھ پھٹ ناگپوری، مسعود جھانپڑ، مفلس قارونی، سرخاب، سوامی کرشنانند سوختہ، زین العابدین نایاب، حیدر بیابانی، متین اچلپوری، فصیح اللہ نقیب، جھنجھٹ اکولوی، ریاض الدین کامل، محمد توحید الحق، نادر بالاپوری، انیس احمد شوق، وحید شیخ، التمش شمس، عقیل ساحر، بشیر بشر، عمران علی خا ن، جمیل انصاری، اور شاداب انجم۔
ان شعراء کے کلام سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس دیار کے شاعروں نے ظرافت کے میدان میں بھی اپنی زندہ دلی کا ثبوت پیش کیا ہے اور طنز و مزاح کو ادبی جامے میں پیش کر کے سماجی سیاسی اور ادبی حلقوں کے ان گوشوں کو اپنے کلام میں نمایاں کیا ہے جن میں بے اعتدالیاں موجود ہیں اور عام روش سے ہٹ کر کچھ الگ انداز نمایاں ہیں۔
یہ کتاب خوبصورت چھپی ہے۔ کمپوزنگ، طباعت اور کاغذ عمدہ ہے۔ سر ورق دیدہ زیب ہے۔ ۳۶۸ صفحات پر مشتمل اس خوبصورت کتاب کی قیمت ۳۰۰؍ روپے مناسب ہے۔ الفاظ ہند پبلی کیشن کامٹی سے اسے حاصل کیا جا سکتا ہے ۔
رابطہ : 07721877941
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 27 اگست تا 03 ستمبر 2023