یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کر شرما ئیں یہود

ایک اور نئی نویلی دلہن جہیز کی بھینٹ چڑھ گئی

ڈاکٹر ضیاالحسن ، ناندیڑ

ناندیڑ کی صبا بیگم کے خوفناک انجام کو دیکھ کر مقامی غیر شادی شدہ لڑکیوں کے دلوں میں شادی سے خوف بڑھتا جارہا ہے
درندہ صفت سسرالیوں کے بہو پر وحشیانہ مظالم ، تشد د اور مستقل ظلم و ستم اسلامی تعلیمات سے دوری کا نتیجہ
ما اکتوبر کے پہلے ہفتہ میں ناندیڑ کے شنکر راؤ چوہان گورنمنٹ میڈیکل کالج ہاسپٹل میں 48 گھنٹوں کے درمیان 30 سے زائد مریضوں کی موت اور اسی اسپتال میں پھیلی گندگی کو بہانہ بنا کر شیوسینا (شندے گروپ) کے ایک ممبر پارلیمنٹ کا کالج کے ڈین کے ہاتھوں (جن کا تعلق آدیواسی طبقہ سے ہے) زبردستی اسپتال کا بیت الخلا صاف کروایا گیا جس  کی گونج مہاراشٹر کے علاوہ قومی میڈیا پر بھی سنائی دی۔ لیکن اسی دوران ناندیڑ کی ایک 23 سالہ مسلم خاتون کو اس کے سسرال والوں کے ہاتھوں وحشیانہ طریقہ سے ہلاک کر دیے جانے کی خبر مظلوم کی دردناک چیخیں اور تڑپتی ہوئی سسکیاں اس گونج میں دب کر رہ گئیں۔ مقامی ذرائع ابلاغ کے علاوہ کسی نے اسے اتنی اہمیت نہیں دی۔ ناندیڑ میں پیش آنے والا یہ اپنی نوعیت کا پہلا انتہائی دردناک واقعہ تھا جس میں لالچی سسرال والوں نے اپنی بہو کو جس کی شادی ہو کر ایک سال بھی نہیں ہوا تھا طرح طرح کی اذیتیں دے کر موت کی نیند سلا دیا۔ مہلوک صبا بیگم کے والد شیخ محمود کی شکایت  IPC کی دفعات 302،3046، 4،3،34,498 کے تحت متعلقہ پولیس اسٹیشن میں شوہر شیخ اسلم سمیت سسرالی رشتہ دار جن میں ساس، خسر، شوہر کا بھائی، بہن اور بہنوئی شامل ہیں، کے خلاف کیس درج کیا گیا۔ عدالت نے انہیں پانچ دن کی پولیس تحویل میں بھیج دیا ہے۔
شیخ محمود ساکن ملت نگر جو پیشہ سے پلمبر ہیں، کا خاندان تین لڑکوں دو لڑکیوں اور بیوی پر مشتمل ہے۔ شکایت کے مطابق ان کی لڑ کی صبا بیگم کی شادی گزشتہ سال اسلام پورہ کے ساکن شیخ اسلم ولد شیخ حمید (عمر 35 سال) سے ہوئی تھی۔ لڑکے والوں کے مطالبہ پر لڑکی والے 80,000 روپے کی رقم بطور ہنڈہ دینے پر راضی ہو گئے۔ چنانچہ شادی سے پہلے 50,000 روپے ادا کر دیے گئے۔ کمزور معاشی حالات کے پیش نظر 30,000 کی باقی رقم بعد میں دینے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ شادی کے بعد کچھ عرصہ تو ٹھیک گزرا لیکن بعد میں صبا بیگم کا شوہر شیخ اسلم اور سسرال کے دوسرے لوگ اسے مائیکہ سے 30,000 روپے لانے اور جہیز کے لیے طعنے اور گالیاں دینے لگے۔ سسرال والے کہا کرتے تھے کہ تجھے پکوان نہیں آتا اور تو ہمیں پسند نہیں۔ اس کی رنگت، چھوٹا قد اور سر کے چھوٹے بالوں پر طنز کرتے ہوئے ذہنی اذیت دی جاتی تھی۔ دن رات اس سے گھر کا سارا کام لیا جاتا تھا لیکن وقت پر پیٹ بھر کھانا نہیں ملتا تھا۔ مائیکہ والوں سے فون پر بات کرنے کی اسے اجازت نہیں تھی۔ جلا کر مار ڈالنے کی دھمکیاں بار بار دی جاتی تھیں۔ صبا بیگم نے اپنے والدین اور چچی سے سسرال والوں کے اس رویہ کے بارے میں بتلایا تھا۔ چنانچہ والدین نے چند لوگوں کے ذریعہ ثالثی کروائی تھی جو بے نتیجہ ثابت ہوئی۔ اس کے بعد سسرال والے اپنی بہو کو جسمانی اذیتیں دینے لگے۔ زندگی کے آخری بارہ دنوں میں تو صبا بیگم پر اتنا تشدد کیا گیا کہ اس کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔
میت کو غسل دینے والی خاتون عطیہ بیگم (عرف سعیدہ) نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وہ گزشتہ چالیس برسوں سے زنانہ میتوں کو غسل دیتی آرہی ہیں لیکن صبا کی نعش دیکھ کر انہیں سخت حیرت ہوئی۔ وہ پریشان ہو گئیں کہ آخر اسے کس طرح غسل دیا جائے؟ کیونکہ سارا جسم زخموں سے چور تھا۔ پسلیاں ٹوٹ کر ایک دوسرے میں پیوست ہو چکی تھیں۔ جسم کا گوشت ہٹ کر بازو کی ہڈیاں اور ریڑھ کی ہڈی کا آخری نچلا سرا (Coccyx) صاف نظر آرہا تھا۔ خاتون ڈاکٹر کے بیان کے مطابق اس عورت کے بیرونی اعضاء کے ساتھ ساتھ جسم کے  پوشیدہ مقامات بھی ظالموں کے تشدد سے محفوظ نہیں رہ سکے اور بھی اس قدر شدید مظالم اس معصوم پر ڈھائے گئے کہ جن کا تذکرہ بھی دشوار ہے جس کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پوسٹ مارٹم کے بعد نعش کو جس پلاسٹک کی تھیلی میں لپیٹ کر لایا گیا، مقتولہ کا گوشت اس پلاسٹک سے چپک گیا تھا۔
اس انسانیت سوز واقعہ کی مذمت میں برقع پوش مسلم خواتین نے ایک مورچہ نکالا۔ انہوں نے اپنے غم و غصہ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس واقعہ سے علاقہ کی کنواری لڑکیاں اس قدر خوف زدہ ہوچکی ہیں کہ اب انہیں شادی کے نام سے خوف ہونے لگا ہے۔ وہ شادی کرنے سے انکار کر رہی ہیں۔ انہیں ڈر لگ رہا ہے کہ کہیں ان کا انجام مظلوم صبا کی طرح نہ ہو۔ ان خواتین نے ضلع کلکٹر کو میمورنڈم دیا جس میں صدر جمہوریہ سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ اس کیس کی جلد سے جلد سماعت مکمل کر کےخاطیوں کو پھانسی کی سزا دی جائے۔
اس طرح کے انسانیت سوز اور وحشیانہ سلوک کے واقعات ہمارے ملک کے اکثریتی طبقہ میں آئے دن رونما ہوتے ہیں جن کی مذمت بھی کی جاتی ہے۔ لیکن اس بار یہ گھناؤنا فعل ان لوگوں سے سرزد ہوا جن کا مذہب جانوروں کو تک تکلیف دینے سے منع کرتا ہے۔ بلکہ عفو درگزر، صلہ رحمی، حسن اخلاق، ہمدردی کا درس دیتا ہے۔ جس کا پیغام صلح و آشتی ہے۔ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو پیدائش سے لے کر موت تک زندگی کے تمام شعبوں میں انسانوں کی بہترین رہنمائی کرتا ہے۔ مذہب اسلام میں نکاح کا مقصد اخلاق و عفت کی حفاظت کرنا تو ہے ہی لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ زوجین کے درمیان مودت ورحمت ( پیار، محبت، انسیت) بھی قائم رہے جو ازدواجی زندگی کی اصل روح ہوتی ہے۔ یعنی شوہر اور بیوی آپس میں محبت اور صلح و آشتی سے زندگی گزاریں۔ اگر خدانخواستہ دونوں میں نباہ نہ ہو سکے تو با عزت طریقہ سے الگ ہو کر اپنی اپنی زندگی گزارنے کا حق بھی اسلام دیتا ہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا: "آپس میں موافقت سے رہو اور ایک دوسرے پر زیادتی کرنے سے بچو تو بے شک اللہ بخشنے والا مہربان ہے اور اگر یہ نہ ہو سکے اور) زوجین ایک دوسرے سے جدا ہو جائیں تو اللہ اپنے وسیع خزانہ غیب سے ہر ایک کی کفالت کرنے والا ہے‘‘ (النساء – 19) اسلام چونکہ دین فطرت ہے اس لیے ایک حدیث نبوی میں فرمایا گیا کہ ’’جب تم میں سے کوئی شخص کسی عورت کو نکاح کا پیغام دے تو حتی الامکان اسے دیکھ لینا چاہیے کہ آیا اس میں کوئی ایسی چیز ہے جو اس کو اس عورت سے نکاح کی رغبت دلانے والی ہو۔ اس میں یہ حکمت پوشیدہ ہے کہ شکل وصورت اور رنگت و غیرہ کو لے کر شادی کے بعد فریقین میں دوریاں پیدا نہ ہوں۔ نکاح میں تقوی کو دولت اور خوبصورتی پر ترجیح دینے اور محفل نکاح سادگی سے منعقد کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ چنانچہ ایسے نکاح کو اللہ اور اس کے رسول نے پسند فرمایا ہے۔ لیکن افسوس کہ ہم دنیوی اور اخروی زندگیوں کو کامیاب بنانے والی ان اعلی تعلیمات کو چھوڑ کر ایسا راستہ اپنا رہے ہیں جو دنیاو آخرت میں ہماری رسوائی کا سبب بن گیا ہے۔
شادیوں کے رشتے لگانا بھی ثواب کا کام سمجھا جاتا تھا۔ اس لیے کئی لوگ فی سبیل اللہ اس کار خیر میں حصہ لیا کرتے تھے لیکن آج یہ نیک کام منفعت بخش صنعت میں تبدیل ہو چکا ہے۔ اس مقصد کے لیے جدید ترین سہولتوں سے لیس شاندار آفس کھل چکے ہیں جہاں رشتے لگانے کے عوض اچھا خاصا معاوضہ لیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ انفرادی طور پر کام کرنے والے افراد بھی ہماری سوسائٹی میں بکثرت پائے جاتے ہیں مگر نیک نیتی سے کام کرنے والوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہوتی ہے۔ اس لیے بہتر یہ ہے کہ رشتہ طے کرنے میں والدین عجلت نہ کریں۔ جہاں تک ممکن ہو سکے ہر قسم کی انکوائری خود کریں۔ ظاہری چمک دمک کے فریب میں نہ آئیں، شرافت اور اکل حلال کو ترجیح دیں۔ لڑکے والوں سے ایسے وعدے نہ کریں جنہیں پورا کرنا اپنے بس میں نہ ہو۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج کل ہمارے معاشرہ میں کمیشن کے طور پر موٹی رقم لے کر شادیوں کے رشتے لگانے اور جائیدادیں فروخت کرنے والے بروکرس میں بعض داڑھی وغیرہ رکھے ہوئے دیندار قسم کے لوگ بھی شامل ہوچکے ہیں اسی لیے لوگ ان کے حلیہ اور چکنی چپڑی باتوں سے بہت جلد متاثر ہو جاتے ہیں۔ ان میں سے بہت سوں نے تو اپنی مذہبی ذمہ داریوں کو یکسر ترک کر کے کمیشن خوری کو اپنا دھندا بنا لیا ہے اور عیش وعشرت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
دکنی شاعر سلیمان خطیب کو اللہ کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ ایسے موقعوں پر ان کی ایک نظم کے اشعار بار بار یاد آتے ہیں۔
روپ بھر کر کبھی فرشتوں کا
گھربسانے کو سانپ آتے ہیں
اچھے زیور میں اچھے کپڑوں میں
اچھی کاروں میں سانپ آتے ہیں
گل مہکتے ہیں جب بھی گلشن میں
ان بہاروں پہ سانپ آتے ہیں
اپنے پیارے حسین بچوں کو
یہ کھلونا سمجھ کے توڑیں گے
یہ شکاری ہیں اپنے مطلب کے
دودھ پی لیں گے زہر چھوڑیں گے
رونے دھونے سے کچھ نہیں ہوتا
خوب سونچو سمجھ کے بیٹی دو

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 29 اکتوبر تا 04 نومبر 2023