ڈاکٹر ساجد عباسی
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خلیل اللہ، ابو الانبیاء، امامِ انسانیت اور امامِ متقین کے عالی اعزازات سے نوازا گیا۔ یہ مقاماتِ بلند آپ کو اس وقت حاصل ہوئے جب دعوتی میدان میں عزیمت کی منزلوں سے گزرتے ہوئے آپ کڑی آزمائشوں میں کامیاب ہوئے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں جس طرح محمد رسول اللہ ﷺ کے طریقِ زندگی کو ساری دنیا کے لیے اسوہ یعنی نمونہ بناکر پیش کیا اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اسوہ کو بھی اختیار کرنے پر ابھارا ہے: قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِي إِبْرَاهِيمَ — تم لوگوں کے لیے ابراہیمؑ اور اس کے ساتھیوں میں ایک اچھا نمونہ ہے۔ (الممتحنہ:4)
قرآن میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سیرت سے دعوت، عزیمت، قربانی، اللہ سے محبت اور توکل پر مبنی عظیم واقعات کو پیش کرتے ہوئے ان کی ایسی عالی مرتبت صفات کو بیان کیا گیا ہے جو ان لوگوں کے لیے نمونہ ہیں جو اللہ کے محبوب و مقرب بندے بننا چاہتے ہیں۔
اللہ تعالی نے قرآن میں ابراہیم علیہ السلام کا ذکر متعدد صفاتِ عالیہ کے ساتھ فرمایا۔ حنیف (یکسو) مسلم (سرِ تسلیم خم کرنے والا) قانت (فرماں بردار) خلیل (دوست) حلیم (بردبار) اوّاہ (نرم دل) منیب (رجوع کرنے والا) اور امام الناس و امام المتقین وغیرہ۔ اس کے ساتھ یہ بھی فرمایا: إِنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ أُمَّةً قَانِتًا لِلّهِ حَنِيفًا وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِينَ۔ واقعہ یہ ہے کہ ابراہیم اپنی ذات سے ایک پوری امّت تھا، اللہ کا مطیعِ فرمان اور یکسو۔ وہ کبھی مشرک نہ تھا۔ (النحل 120)
ابراہیم علیہ السلام کو امّت اس لیے کہا گیا کہ جو کام ایک امّت اور ایک عالمگیر تحریک کے کرنے کا تھا اس کو انہوں نے تن تنہا انجام دیا۔ جب ساری دنیا کفر و شرک میں ڈوبی ہوئی تھی اس وقت آپ نے توحید کے پرچم کو بلند کیا اور تنہا دنیا کے مختلف حصوں، حجاز، فلسطین اردن وغیرہ میں ایک مقام سے دوسرے مقام تک مسلسل سفر کرتے ہوئے توحید کے مراکز قائم کیے۔
ابراہیم علیہ السلام کی ان صفات کو جو قرآن میں بیان کی گئی ہیں ان پر ایک اجمالی نظر ڈالی جائے تاکہ ہم میں ان اوصاف کا ادراک ہو اور ہم بھی ان سے متصف ہونے کی فکر کریں۔
1۔ حنیفیت: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے مَا كَانَ إِبْرَاهِيمُ يَهُودِيًّا وَلاَ نَصْرَانِيًّا وَلَكِن كَانَ حَنِيفًا مُّسْلِمًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ ابراہیم نہ یہودی تھا نہ عیسائی بلکہ وہ تو ایک مسلم ِ یکسو تھا اور وہ ہرگز مشرکوں میں سے نہ تھا۔ (آل عمران 67)
اس آیت میں دو صفات بیان کی گئی ہیں۔ایک ہے مسلم یعنی سرِ اطاعت خم کرنے والا۔ ہر حکم کے آگے تسلیم و رضا کا پیکر بن جانے والا۔ دوسری صفت ہے حنیفیت یعنی تسلیم و رضا میں یکسو ہونا۔ توحیدِ خالص پر استقامت سے ڈٹ جانا۔ اللہ کی ذات و صفات اور حقوق و اختیارات میں کسی کو شریک نہ کرنا۔ فکر و عمل میں شرک کے ادنیٰ شائبہ سے بھی محفوظ اور پاک رہنا۔دین حنیف سے مراد یہ ہے ایسا دین جو شرک کی سراسر نفی کرتا ہو اور توحید ِ خالص پر مبنی ہو۔
فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا فِطْرَةَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ ۔پس (اے نبی اور نبی کے پیروو) یکسو ہو کر اپنا رخ اس دین کی سمت میں جمادو، قائم ہو جاؤ اس فطرت پر جس پر اللہ نے انسانوں کو پیدا کیا ہے، اللہ کی بنائی ہوئی ساخت بدلی نہیں جا سکتی، یہی بالکل راست اور درست دین ہے مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔( الروم:30)
اس آیت میں فرمایا گیا ہے کہ دینِ حنیف وہ دین فطرت ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا فرمایا ہے۔ ہر وہ دین جو اللہ کے دین کے علاوہ ہے وہ اس فطرت سے ٹکراتا ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا فرمایا ہے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ نے شرم و حیا اور عصمت و عفت کو انسان کی فطرت میں رکھا ہے جس کی بنیاد پر ہر وہ شخص فحش و عریانیت کو برائی سمجھتا ہے جس کی فطرت مسخ نہ ہوچکی ہو۔ اسی فطری تقاضے کی رعایت کرتے ہوئے اللہ تعالٰی نے پردے کے احکام نازل فرمائے ہیں۔
قرآن میں جہاں جہاں ابراہیم علیہ السلام کے لیے حنیفیت کی صفت بیان کی گئی ہے وہیں شرک کی نفی بھی کی گئی ہے کہ وہ یکسو مسلم تھے اور مشرکوں میں سے نہیں تھے۔
ابراہیم علیہ السلام نے توحیدِ خالص کو قیاس و گمان کی بنیاد پر نہیں بلکہ مظاہر فطرت کی نشانیوں کو دیکھ کر اپنی عقلِ سلیم کو استعمال کرکے اختیار کیا۔پھر اللہ کی طرف سے براہ راست علم وحی کے ذریعے عقیدہ توحید آپ کے قلب میں ایسا راسخ ہوا کہ آپ سراپا توحید کا پیکر بن گئے۔ ابراہیم علیہ السلام اجرامِ فلکی یعنی ستارے اور چاند اور سورج کا مشاہدہ کر کے اس نتیجہ پر پہنچے کہ یہ الوہیت کا حصہ نہیں بلکہ یہ تمام ایک خالقِ کائنات کی تقدیر کے پابند ہیں۔ اس کے بعد سب معبودانِ باطل سے اعلانِ برأت کرتے ہوئے ابراہیمؑ پکاراٹھے: إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَاْ مِنَ الْمُشْرِكِينَ میں نے تو یکسو ہو کر اپنا رخ اس ہستی کی طرف کر لیا ہے جس نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا ہے اور میں ہرگز شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں (الانعام:78)
اللہ فرماتا ہے کہ کامیابی کا راستہ ابراہیم علیہ السلام کا راستہ ہے جنہوں نے خالص اللہ کی بندگی اختیار کر کے اپنی ساری زندگی کو اس کی مرضی کے آگے سپرد کر دی۔ ’’یہودی کہتے ہیں کہ یہودی ہو تو راہ راست پاؤ گے۔ عیسائی کہتے ہیں کہ عیسائی ہو تو ہدایت ملے گی۔ ان سے کہو نہیں، بلکہ سب کو چھوڑ کر ابراہیم کا طریقہ اور ابراہیم مشرکوں میں سے نہ تھا (البقرۃ 135) اس آیت میں فرمایا گیا ہے کہ توحیدِ خالص کا جو نمونہ قرآن میں ابراہیم علیہ السلام کی سیرت سے پیش کیا گیا ہے ہم اس کو اختیار کریں اور سارے طریقوں کو چھوڑ دیں۔توحید کے سوا سارے نظریات باطل ہیں۔ عیسائی تثلیث کا عقیدہ اختیار کر کے اللہ کی ذات میں شرک کے مرتکب ہوئے۔ یہود نے عزیرؑ کو اللہ کا بیٹا بنا لیا اور حق پرستی کو چھوڑ کر نسل پرستی کو اختیار کیا۔ چنانچہ اسی نسلی تفاخر کی وجہ سے انہوں نے دینِ حنیف یعنی اسلام کو ماننے سے انکار کیا صرف اس بنا پر کہ آخری رسول بنی اسرائیل میں مبعوث نہیں ہوئے۔ حق پرستی کا تقاضا تھا کہ وہ آخری اور سچے رسول کو مان لیتے لیکن کبر و عناد اور نسل پرستی کی بنیاد پر یہود نے محمد ﷺ کا انکار کیا۔
2۔ تسلیم و رضا: ابراہیم علیہ السلام کی ساری زندگی آزمائشوں سے عبارت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کہا کہ مسلم ہوجا یعنی میرا فرماں بردار بن جا، تو اس کے جواب میں انہوں نے فوری سرِ اطاعت خم کردیا۔ (البقرۃ:131)
ابراہیم علیہ السلام نے جب تسلیم ورضا کے ہر امتحان میں کامیابی حاصل کی تو اللہ تعالیٰ نے انعام کا اعلان کردیا کہ ان کو سارے انسانوں کی امامت کا اعزاز عطا کیا۔ ’’یاد کرو کہ جب ابرہیم کو اس کے رب نے چند باتوں میں آزمایا اور وہ ان سب میں پورا اتر گیا تو اس نے کہا ”میں تجھے سب لوگوں کا پیشوا بنانے والا ہوں“ ابرہیم نے عرض کیا ”اور کیا میری اولاد سے بھی یہی وعدہ ہے“؟ اس نے جواب دیا ”میرا وعدہ ظالموں سے متعلق نہیں ہے“ ( البقرۃ:124)
ابراہیم علیہ السلام کو قانت کہا گیا یعنی مطیعِ فرمان جو ہر حال میں اللہ کی مرضی کے آگے سر تسلیم خم کرنے والا ہو۔ واقعہ یہ ہے کہ ابراہیم اپنی ذات سے ایک پوری امّت تھا، اللہ کا مطیعِ فرمان اور یکسو۔ وہ کبھی مشرک نہ تھا۔( النحل:120)
3۔ صدیقیت : اس کائنات کی سب سے بڑی سچائی یہ ہے کہ اس کا ایک ہی خالق، مالک اور حاکم ہے۔ اس سچائی کو جھٹلانا سب سے بڑا جرم ہے۔ تمام انبیاء ورسل نے انسانوں کے سامنے سب سے پہلے اسی سچائی کو پیش کیا۔ اس سے قبل وہ خود اس کے پیکر بن گئے تھے، ان کی زندگی ہر طرح کے کذب و افتراء سے پاک تھی۔ ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے انبیا کی فہرست میں سرفہرست رکھ کر صدیق ہونے کے اعزاز سے نوازا: وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا اور اس کتاب میں ابراہیم کا قصہ بیان کرو، بے شک وہ ایک راست باز انسان اور ایک نبی تھا۔ (مریم:41)
توحید کی دعوت کو عوام الناس میں پیش کرنے کی مبارک سعی میں ابراہیم علیہ السلام نے ہر مصیبت کو انگیز کیا۔ سب سے پہلے اس دعوت کو انہوں نے اپنے خاندان میں اپنے باپ کے سامنے پیش کیا اور بتوں کی بندگی کے مقابلے میں اللہ وحدہ لاشریک کی بندگی کی طرف دعوت دی لیکن ان لوگوں نے انکار کردیا اور گھر سے نکال دیا۔ابراہیم علیہ السلام نے اپنی بستی کے لوگوں میں توحید کی طرف دعوت دی، انہیں بتایا کہ ستارے، چاند اور سورج سب اللہ کی بے چوں و چرا اطاعت کر رہے ہیں اس لیے ہمیں بھی اسی خالق کی بندگی کرنی چاہیے جس کی بندگی تمام اجرام فلکی کر رہے ہیں۔ پھر بتوں کو توڑ کر توحید کی سچائی کو عملاً ثابت کیا کہ جن بتوں کی تم لوگ پوجا کر رہے ہو یہ کسی چیز پر بھی قادر نہیں ہیں۔ نمرود کے سامنے جب آپ کو حاضر کیا گیا تو جرأت کے ساتھ حق کا اظہار کیا۔
جب ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ میرا رب وہ ہے جس کے اختیار میں زندگی اور موت ہے تو اس نے جواب دیا زندگی اور موت میرے اختیار میں ہے ابراہیم علیہ السلام نے کہا اچھا، اللہ سورج کو مشرق سے نکالتا ہے تو ذرا اسے مغرب سے نکال لا۔ یہ سن کر وہ منکر حق ششدر رہ گیا، مگر اللہ ظالموں کو راہ راست نہیں دکھایا کرتا۔ (البقرۃ:258)
دلیل کے جواب میں لاجواب ہوکر نمرود نے اعلان کردیا کہ ابراہیم کو آگ میں جھونک دیا جائے گا۔ یہ ابراہیم علیہ السلام کا پہلا امتحان تھا۔ اللہ کے حکم سے آگ سراپا سلامتی بن گئی۔ انہوں نے ظالم بادشاہ کے سامنے بے باک حق گوئی کی ایک بے مثال نظیر قائم کی۔
4۔ شکر گزاری: شکر گزاری احسان شناسی سے پیدا ہوتی ہے۔ ابراہیم علیہ السلام کی احسان شناسی کی مثال قرآن میں اس طرح بیان کی گئی جس میں وہ اللہ تعالیٰ کی ایک ایک نعمت کو یاد کرکے اس کا اعتراف کرتے ہیں: ’’جس نے مجھے پیدا کیا پھر وہی میری رہنمائی فرماتا ہے۔ جو مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے اور جب بیمار ہو جاتا ہوں تو وہی مجھے شفا دیتا ہے۔ جو مجھے موت دے گا اور پھر دوبارہ مجھ کو زندگی بخشے گا اور جس سے میں اُمید رکھتا ہوں کہ بروزِ جزا وہ میری خطا معاف فرما دے گا۔“ (الشعرا:78-82)
اس احسان شناسی کے بعد اللہ کی نعمتوں پر شکر گزاری کا رویہ لازماً پیدا ہوتا ہے اور منعم حقیقی سے محبت بھی پیدا ہوتی ہے۔فرطِ محبت میں ایک بندہ اپنی پوری ہستی کو اللہ کے سپرد کردیتا ہے۔ اللہ تعالی نے اسی کیفیت کو بیان فرمایا: شَاكِرًا لِّأَنْعُمِهِ اجْتَبَاهُ وَهَدَاهُ إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے والا تھا، اللہ نے اس کو منتخب کر لیا اور سیدھا راستہ دکھایا۔(النحل:121)
۵۔ بردباری، نرم دلی اور رجوع الی اللہ: ابراہیم علیہ السلام بہت ہی بردبار و حلیم نرم دل اور اللہ کی طرف بار بار پلٹنے والے (منیب) انسان تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک ہی آیت میں ان تینوں صفات کو بیان فرمایا ہے: إِنَّ إِبْرَاهِيمَ لَحَلِيمٌ أَوَّاهٌ مُّنِيبٌ حقیقت میں ابراہیم بڑا حلیم اور نرم دل آدمی تھا اور ہر حال میں ہماری طرف رجوع کرتا تھا۔ (ھود:75)
یہ آیت اس قصہ سے متعلق ہے جب ابراہیم علیہ السلام کے پاس فرشتے مہمان بن کر آئے تھے اور ان کا مشن قومِ لوط کو تباہ کرنا تھا۔ ابراہیم علیہ السلام قومِ لوط کے بارے میں سفارش کرنے لگے کہ ان کو مہلت دی جائے۔ اس پر فرمایا گیا کہ ابراہیم کی یہ سفارش اس وجہ سے تھی کہ وہ بہت ہی نرم دل واقع ہوئے ہیں۔ انہوں نے اپنے باپ کے لیے استغفار بھی نرم دلی کی وجہ سے کیا تھا لیکن جب یہ حقیقت کھل گئی کہ ان کا باپ اللہ تعالیٰ کا دشمن ہے تو انہوں نے اس سے برأت کرلی۔ (توبہ:114)
6۔ قلب سلیم رکھنے والا: قلب سلیم سے مراد ایسا دل جو ہدایت کا طالب ہو اور جو نظام فطرت پر غورو فکر کرتے ہوئے اپنی عقلِ سلیم کو استعمال کرکے حقیقت کو دریافت کرنے کی جستجو کرنے والا ہو۔ اور جب ہدایت سامنے آجائے تو بلا کسی تردّد کے اس کو قبول کرنے والا ہو۔اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کی اس صفت کو قرآن میں اس طرح بیان فرمایا:وَإِنَّ مِن شِيعَتِهِ لَإِبْرَاهِيمَ إِذْ جَاء رَبَّهُ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ ۔اور نوح ہی کے طریقے پر چلنے والا ابراہیم تھا۔ جب وہ اپنے رب کے حضور قلب سلیم لے کر آیا۔(الصافات:83-84)
7۔ خلیل اللہ: یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک اعزاز تھا کہ آپؑ امام الناس قرار دیے گئے۔ یہ اس وقت دیا گیا جب آپ تمام آزمائشوں میں کامیاب ہوئے، مزید یہ اعزاز آپ کو دیا گیا کہ آپ اللہ تعالیٰ کے خلیل (دوست ) ہیں:اس شخص سے بہتر اور کس کا طریق زندگی ہوسکتا ہے جس نے اللہ کے آگے سر تسلیم خم کر دیا اور اپنا رویہ نیک رکھا اور یکسو ہو کر ابراہیم کے طریقے کی پیروی کی، اس ابراہیم کے طریقے کی جسے اللہ نے اپنا دوست بنا لیا تھا۔ (النسا:125)
اس آیت میں ابراہیم علیہ السلام کے طریقے کو رہنما طریق بتلایا گیا ہے جو یہ تقاضا کرتا ہے کہ بندہ ہر وقت اللہ کی مرضی کے آگے سر تسلیم خم کرنے کے لیے تیار رہے۔ ابراہیم علیہ السلام کا جو وصف یہاں پیش کیا گیا ہے وہ ہے اللہ کا دوست ہونا۔ اللہ اسی کو خلیل بناتا ہے جو تمام بندوں میں اس کو سب سے محبوب ہو۔
8۔ مہمان نواز: ابراہیم علیہ السلام کا ایک وصف یہ تھا کہ وہ بہت فراخ دل میزبان تھے حتیٰ کہ اجنبی مسافروں کی بھی دل کھول کر مہمان نوازی کرتے تھے۔ جب فرشتے انسانی شکل میں آپ کے گھر آئے تاکہ آپ کے گھر والوں کو اسحٰق کی بشارت دیں، اس وقت وہ فرشتے آپ کے لیے اجنبی تھے۔اجنبی ہونے کے باوجود انہوں نے ان کے سامنے ایک تازہ بھنا ہوا بچھڑا پیش کردیا۔ لیکن جب ان کے ہاتھ کھانے کے لیے آگے نہیں بڑھے تب یہ راز
کھلا کہ یہ مہمان دراصل فرشتے ہیں۔ اس کو قرآن میں اس طرح بیان کیا گیا: فَرَاغَ إِلَى أَهْلِهِ فَجَاءبِعِجْلٍ سَمِينٍ فَقَرَّبَهُ إِلَيْهِمْ قَالَ أَلَا تَأْكُلُونَ پھر وہ چپکے سے اپنے گھر والوں کے پاس گیا اور ایک موٹا تازہ بچھڑا لاکر مہمانوں کے آگے پیش کیا اُس نے کہا آپ حضرات کھاتے نہیں؟ (الذاریات:26-27)
حضرت ابراہیم علیہ السلام نہایت اعلی صفات سے متصف تھے۔ ان صفات حمیدہ کے ساتھ آپ نے دعوتی مشن کا آغاز کیا جس طرح ہر رسول اور بنی کا بنیادی مشن و مقصد ہوتا ہے کہ وہ اللہ کا پیغام اللہ کے بندوں تک پہنچائے۔ہر پیغمبر کی زندگی دعوت الی اللہ سے شروع ہوتی ہے۔ جیسے جیسے دعوت اگلے مراحل میں داخل ہوتی ہے ویسے ویسے باطل طاقتوں سے نبرد آزما ہونے کے مواقع پیش آتے ہیں اور دعوت، عزیمت کے دور میں داخل ہوتی ہے جس میں قربانیاں دینی پڑتی ہیں اور بالآخر صبر و استقامت کے ذریعے دعوت تکمیلی مراحل میں داخل ہوکر فتح و نصرت سے ہمکنار ہوتی ہے۔
ابراہیم علیہ السلام کو خلیل اللہ، ابوالانبیاء،امامِ انسانیت اور امامِ متقین کے عالی اعزازات سے نوازا گیا۔ یہ مقاماتِ بلند آپ کو اس وقت حاصل ہوئے جب دعوتی میدان میں عزیمت کی منزلوں سے گزرتے ہوئے آپ کڑی آزمائشوں میں کامیاب ہوئے۔
آپ کا پہلا امتحان حق گوئی کا امتحان تھا۔ نمرود کے سامنے نہایت جرأت کے ساتھ آپ نے اللہ کا تعارف پیش کیا اور اس حق گوئی کی پاداش میں آپ کو آگ میں ڈالا گیا جو اللہ کے اذن سے سراپا سلامتی بن گئی۔
ابراہیم علیہ السلام کا دوسرا امتحان توکل کا امتحان تھا۔ آپ کو حکم ہوا کہ اپنی بیوی اور شیر خوار بچے کو وادی غیر ذی ذرع میں بغیر مادی اسباب کے اللہ کے حکم پر چھوڑ کر نکل جائیں۔ آپ نے اپنے رب کے حکم کی تعمیل کی اور اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت و رحمت سے اس ریگ زار کو پر امن شہر، مکہ میں بدل دیا۔
ابراہیم علیہ السلام کا سب سے سخت اور کڑا امتحان اللہ کی محبت کا امتحان تھا۔ اس امتحان میں اپنے چہیتے بیٹے کو اللہ کی محبت میں قربان کرنا تھا۔ اس امتحان میں کامیابی کے بعد اللہ تعالیٰ نے اعلان کر دیا کہ آپ انسانوں کے لیے تاقیامت امام و رہنما ہیں اور آپ کا اسوہ ساری انسانیت کے لیے ایک روشن نمونہ ہے ۔
یہ دَور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں لا الٰہ الا اللہ
***
ہر پیغمبر کی زندگی دعوت الی اللہ سے شروع ہوتی ہے۔ جیسے جیسے دعوت اگلے مراحل میں داخل ہوتی ہے ویسے ویسے باطل طاقتوں سے نبرد آزما ہونے کے مواقع پیش آتے ہیں اور دعوت، عزیمت کے دور میں داخل ہوتی ہے جس میں قربانیاں دینی پڑتی ہیں اور بالآخر صبر و استقامت کے ذریعے دعوت تکمیلی مراحل میں داخل ہو کر فتح و نصرت سے ہم کنار ہوتی ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 25 جون تا 01جولائی 2023